سترہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

نمازی کے لیے واجب ہے کہ وہ نماز پڑھتے وقت اپنے آگے کوئی چیز رکھے اور اس کی آڑ لے کر نماز پڑھے تا کہ اگرکوئی شخص سامنے سے گذرنا چاہے تو اس کے دوسری جانب سے گزرجائے اور نمازی کے آگے سے گزرنے کی وجہ سے گناہگار نہ ہو۔ ایسی چیز یا آڑ کو سترہ کہا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سترہ رکھ کر نماز ادا فرمایا کرتے تھے اوراس کے بالکل قریب اس طرح کھڑے ہوتے تھے کہ ان کے (سجدہ کرنے کی جگہ)اور (سترہ بنائی گئی) دیوار کے درمیان تین ہاتھ کا فاصلہ ہوتا تھا ۔[1] ایک دوسری روایت میں ہے کہ سجدے کی جگہ اور دیوار کے درمیان صرف بکری کے گزرنے کی گنجائش ہوتی ۔[2]

سترہ رکھنے کا حکم ہر نمازی کے لیے ہے خواہ وہ مسجد میں ہو یا مسجد سے باہر کسی جگہ پر نماز ادا کر رہا ہو۔ مسجد الحرام میں نماز پڑھنے والوں کو بھی سترے کا التزام کرنا چاہیے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اپنے فرمان مبارک میں کسی بھی جگہ کو اس حکم سے مستثنٰی نہیں فرمایا ہے جیساکہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔

لاَ تُصَلِّ إِلاَّ إِلَى سُتْرَةٍ ، وَلاَ تَدَعْ أَحَدًا يَمُرُّ بَيْنَ يَدَيْكَ ، فَإِنْ أَبَى فَلْتُقَاتِلْهُ ؛ فَإِنَّ مَعَهُ الْقَرِينَ [3]

ترجمہ: تو کبھی بھی سترہ رکھے بغیر نماز نہ پڑھ اور (پھر) کسی کو اپنے آگے سے نہ گزرنے دے، اگر وہ (گزرنے والا) باز نہ آئے تو اس سے لڑ، کیونکہ اس کے ساتھ شیطان ہے

سترے کے قریب کھڑے ہوکر نماز اد اکرنا شیطان کی وسوسہ اندازی سے بچنے کا سبب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:

إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ إِلَى سُتْرَةٍ فَلْيَدْنُ مِنْهَا لَا يَقْطَعْ الشَّيْطَانُ عَلَيْهِ صَلَاتَهُ [4]

ترجمہ: جب تم میں سے کوئی (شخص) سترے کی طرف نماز پڑھے، تو اس کے قریب ہو جائے (تاکہ) شیطان (وسوسہ اندازی کر کے) اس کی نماز ( میں توجہ اور خشوع و خضوع ) نہ توڑ دے

کس چیز کو سترہ بنایا جا سکتا ہے[ترمیم]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم مسجد میں نماز پڑھتے وقت کبھی کبھار ستون کے قریب کھڑے ہو کر اسے سترہ بنا لیتے اور نماز ادا فرماتے تھے ۔[5] اور جب کبھی ایسے کھلے میدان میں نماز ادا فرماتے جہاں کوئی چیز سترہ بنانے کے لیے موجود نہ ہوتی تو اپنے سامنے نیزہ گاڑ لیتے پھر اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے اور صحابہ کرام ان (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) کے پیچھے نماز ادا کرتے [6]

کبھی کبھار اپنی سواری کو سامنے بٹھا کر اس کے پہلو کی طرف کھڑے ہو کر نماز ادا فرماتے ۔[7] البتہ اونٹوں کے باڑے میں نماز ادا کرنے سے منع فرمایا [8]۔ اونٹ کی کاٹھی کی پچھلی لکڑی کو سترہ بنا کر بھی نماز ادا فرمائی ۔[9] ایک مرتبہ ایک درخت کو سترہ بنایا [10] اور کبھی اس بستر کی طرف منہ کر کے نماز ادا فرماتے جس پر ام المومنین حضرت عائشہرَضی اللہُ تعالیٰ عنہا چادر اوڑھے لیٹی ہوتی تھیں۔[11] سترے کی مقدار کا تعین کرتے ہوئے فرمایا:

إِذَا وَضَعَ أَحَدُكُمْ بَيْنَ يَدَيْهِ مِثْلَ مُؤْخِرَةِ الرَّحْلِ فَلْيُصَلِّ وَلَا يُبَالِ مَنْ مَرَّ وَرَاءَ ذَلِكَ [12]

ترجمہ:جب تم میں سے کوئی (شخص) نماز ادا کرتے وقت اپنے سامنے اونٹ کی کاٹھی کی پچھلی لکڑی کے بقدر( اونچائی) میں کوئی چیز رکھ لے تو نماز پڑھ لیا کرے اور کچھ پروا نہ کرے کہ اس (کے سترے کے) دوسری جانب کون گذر رہا ہے۔

اس حدیث سے جہاں سترے کی کم از کم اونچائی معلوم ہوتی ہے وہیں اس سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ زمین پر خط کھینچ کر اسے سترہ قرار دینا درست نہیں ہے۔سنن ابی داؤد میں جو حدیث اس بارے میں آئی ہے وہ ضعیف ہے۔

نمازی اور سترے کے درمیان سے گزرنے والے کو روکنا[ترمیم]

نمازی اور سترے کے درمیان سے گزرنے والے کو سختی کے ساتھ روکنا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اپنے اور سترے کے درمیان کسی چیز کو نہیں گزرنے دیتے تھے۔ نا سمجھ بچے یا جانور وغیرہ کو روکنے کے لیے نماز میں چند قدم آگے بڑھنے کی بھی اجازت ہے۔ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نماز ادا فرما رہے تھے کہ ایک بکری دوڑتی ہوئی آئی اور سامنے سے گزرنے کی کوشش کی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے جلدی فرمائی اور (سترے والی) دیوار کے قریب ہو گئے (تاکہ بکری کے گزرنے کا راستہ نہ رہے) یہاں تک کہ اپنا بطن مبارک دیوار سے لگا دیا ۔[13] اس پر بکری کو ان (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) کے پیچھے سے گذرنا پڑا۔

ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرض نماز پڑھائی تو نماز میں اپنا ہاتھ آگے کر کے پھر پیچھے کر لیا۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد صحابہ نے عرض کیا “اے اللہ کے رسول! کیا نماز میں کوئی نیا حکم آ گیا ہے”؟ فرمایا:

لاَ إِلاَّ أَنَّ الشَّيْطَانَ أَرَادَ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَىَّ فَخَنَقْتُهُ حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَ لِسَانِهِ عَلَى يَدِى وَايْمُ اللَّهِ لَوْلاَ مَا سَبَقَنِى إِلَيْهِ أَخِى سُلَيْمَانُ لاَرْتُبِطَ إِلَى سَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِى الْمَسْجِدِ حَتَّى يُطِيفَ بِهِ وِلْدَانُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ(فَمَنْ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ لَا يَحُولَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ أَحَدٌ فَلْيَفْعَلْ۔ [14]

ترجمہ: نہیں، بلکہ (بات یہ ہے کہ) شیطان میرے سامنے سے گذرنا چاہتا تھا تو میں اس کا گلا گھونٹ دیا، یہاں تک کہ میں نے اس کی زبان کی ٹھنڈک اپنے ہاتھ پر محسوس کی۔اللہ کی قسم! اگر میرے بھائی سليمان علیہ السلام نے (جنات کو ماتحت رکھنے میں) سبقت نہ کی ہوتی تو اسے مسجد کے ستونوں میں سے کسی ستون کے ساتھ باندھ دیا جاتا اور اہل مدینہ کے بچے اسے بازاروں میں پھراتے۔ پس تم میں سے جو کوئی استطاعت رکھتا ہو کہ اس کے اور قبلے (کی سمت میں اس کے آگے) سے کوئی چیز نہ گذرے تو اسے ضرور ایسا کرنا چاہیے [15]

نمازی کے آگے سے گزرنے کا گناہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:

لَوْ يَعْلَمُ الْمَارُّ بَيْنَ يَدَيْ الْمُصَلِّي مَاذَا عَلَيْهِ لَكَانَ أَنْ يَقِفَ أَرْبَعِينَ خَيْرًا لَهُ مِنْ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ [16]

ترجمہ: اگر نمازی کے آگے سے گزرنے والا جان لے کہ اس پر (کتنا گناہ) ہے و وہ چالیس (سال) کھڑا رہنے کو آگے سے گزرنے سے بہتر سمجھے

سترے کی غیر موجودگی میں نماز توڑنے والی چیزیں[ترمیم]

اگر کوئی شخص سترہ رکھے بغیر نماز پڑھ رہا ہو اور اس کے سامنے سے بالغ عورت، گدھا یا سیاہ کتا گذر جائے تو اس کی نماز ٹوٹ جائے گی۔ البتہ بیوی سامنے لیٹی ہو تو اسے سترہ بنا کر نماز پڑھنے سے نماز نہیں ٹوٹتی۔ گویا نماز ٹوٹنے کا تعلق گزرنے سے ہے لیٹنے سے نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:

يَقْطَعُ الصَّلَاةَ إِذَا لَمْ يَكُنْ بَيْنَ يَدَيْ الرَّجُلِ مِثْلُ مُؤَخِّرَةِ الرَّحْلِ الْمَرْأَةُ وَالْحِمَارُ وَالْكَلْبُ الْأَسْوَدُ قَالَ قُلْتُ مَا بَالُ الْأَسْوَدِ مِنْ الْأَحْمَرِ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا سَأَلْتَنِي فَقَالَ الْكلْبُ الْأَسْوَدُ شَيْطَانٌ [17]

ترجمہ: اگر نمازی کے سامنے اونٹ کی کاٹھی کی پچھلی لکڑی کے بقدر اونچا سترہ نہ ہو تو (بالغ) عورت، گدھے اور سیاہ کتے کے سامنے سے گذر جانے پر اس کی نماز ٹوٹ جائے گی۔ ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے سیاہ کتے کو خاص کرنے کی وجہ پوچھی تو فرمایا “سیاہ کتا شیطان ہوتا ہے

اس حدیث میں نماز ٹوٹنے سے مراد نماز باطل ہونا ہے یعنی اس کو دوبارہ پڑھنا ضروری ہے۔ امام نے اپنے آگے سترہ رکھا ہو تو وہ مقتدیوں کو الگ سے سترہ رکھنے کی ضرورت نہیں بلکہ ان کے لیے امام کا سترہ ہی کافی ہے، یعنی ایسی صورت میں مقتدیوں کے سامنے سے گزرنے پر ان کی نماز فاسد نہیں ہوتی۔[18]

قبر کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کی ممانعت[ترمیم]

قبر کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے خواہ وہ انبیاء علیہم السلام میں سے کسی کی قبر ہی کیوں نہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا فرمان ذی شان ہے:

لَا تُصَلُّوا إِلَى الْقُبُورِ وَلَا تَجْلِسُوا عَلَيْهَا [19]

ترجمہ: قبروں کی طرف منہ کر کے نمازمت ادا کرو اور نہ ان پر بیٹھو

خلاصہ کلام[ترمیم]

خلاصہ کلام یہ کہ کسی بھی آڑ بننے والی چیز کو سترہ بنایا جا سکتا ہے بشرطیکہ ہ وہ زمین کے ساتھ لگی ہو اور اس کی کم سے کم اونچائی اونٹ کی کاٹھی کی پچھلی لکڑی کے برابر (تقریبًا ڈیڑھ بالشت) ہو۔ زمین میں لاٹھی گاڑ کر اسے سترہ بنایا جا سکتا ہے، درخت، ستون اور پہلو کی طرف سے سواری کے جانور کو بھی سترے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بیٹھے یا لیٹے ہوئے شخص کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز ادا کی جا سکتی ہے۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. صحیح بخاری کتاب الصلاۃ باب الصلاۃ بین السواری فی غیر جماعۃ۔ صحیح سنن نسائی حدیث 749، ابن سعد (1/253)، و ھو مخرج فی “الارواء” (543)
  2. صحیح بخاری کتاب الصلاۃ باب قدر کم ینبغی ان یکون بین المصلی و السترۃ، و رواہ مسلم ایضًا
  3. صحیح ابن خزیمہ جل دوم ص9 مطبوعۃ المکتب الاسلامی بیروت باب النھی عن الصلاۃ الی غیر سترۃ۔ (صحیح ابن خزیمہ1/93/1، بسند جید
  4. سنن ابی داؤد حدیث695، والبزار(ص54۔زوائدہ)، و الحاکم و صححہ، و وافقہ الذھبی و النووی
  5. صحیح بخاری کتاب الصلاۃ باب الصلاۃ الی الاسطوانۃ، مسلم، بیہقی، احمد
  6. صحیح بخاری کتاب الجمعۃ باب الصلاۃ الی الحربۃ یوم العید، مسلم، ابن ماجہ
  7. صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب سترۃ المصلی، احمد
  8. صحیح ترمذی حدیث نمبر 348۔ سنن ترمذی کتاب الصلاۃ باب ما جاء فی الصلاۃ فی مرانض الغنم و اعطان الابل
  9. صحیح بخاری کتاب الصلاۃ باب الصلاۃ الی الراحلۃ و البعیر و الشجر و الرحل، مسلم و ابن خزیمہ (92/2) و احمد
  10. مسند احمد بن جنبل مسند العشرۃ المبشرین بالجنۃ و من مسند علی ابن ابی طالب
  11. صحیح بخاری کتاب الصلاۃ باب الصلاۃ الی السریر
  12. صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب سترۃ المصلی
  13. صحیح ابن خزیمہ جلد دوم ص 20 مطبوعۃ المکتب الاسلامی بیروت (باب بَابُ النَّهْيِ عَنِ الصَّلاَةِ إِلَى غَيْرِ سُتْرَةٍ.)
  14. سنن الدار قطنی کتاب الصلاۃ باب ما جاء فی اعتراض الشیطان للمصلی لیفسد علیہ الصلاۃ، اسے امام احمد، اور طبرانی نے بھی صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے
  15. مسند احمد کی روایت میں اس آخری جملے کا اضافہ ہے۔ دیکھیے مسند احمد بن جنبل باقی مسند المکثرین مسند ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ
  16. صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب اثم المار بین یدی المصلی
  17. مسلم و ابو داؤد
  18. اصل صفۃ صلاۃ ص 135
  19. مسلم و ابوداؤد، و ابن خزیمہ (1/95/ 2)