عائشہ بنت طاہر سنبل

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
شیخ   ویکی ڈیٹا پر (P511) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عائشہ بنت طاہر سنبل
(عربی میں: عائشة بنت طاهر سنبل ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1922ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 12 اکتوبر 1994ء (71–72 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جدہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن جنت البقیع   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت مملکت حجاز (1922–1924)
مملکت نجد و حجاز (1924–1932)
سعودی عرب (1932–1992)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
فرقہ اہل سنت والجماعت
فقہی مسلک حنفی
عملی زندگی
پیشہ فقیہہ ،  محدثہ ،  معلمہ ،  انسان دوست   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

عائشہ بنت طاہر سنبل قُرشیہ مدنیہ حنفیہ چودہویں صدی ہجری/بیسویں صدی عیسوی کی سعودی عرب کی مسلم خاتون عالمہ ہیں۔ مدینہ منورہ کے "آل سنبل" نامی ایک دیندار گھرانہ میں پیدا ہوئیں اور مدینہ ہی میں پروان چڑھیں۔ حنفی مذہب کی پیروکار تھیں۔ سب سے پہلے اپنے والد محترم مشہور محدث و فقیہ طاہر بن عمر سنبل سے علم حاصل کیا، بچپن ہی میں ان کے والد نے انھیں اجازت حدیث دے دی، اس طرح ان کی سند حدیث بہت اعلی تھی۔ ان کا نکاح جمال بن عبد اللہ سنبل سے ہوا جو وزارت خارجہ کے بنیادی ذمہ داروں میں سے تھے، ان کے ساتھ سعودی عرب سے اسکندریہ، مصر کوچ کر گئیں۔ وفات جدہ میں ہوئی، ان کی نعش کو مدینہ منورہ لایا گیا اور وصیت کے مطابق جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔ اپنے زمانے کی مدینہ منورہ کی معزز اسلامی خاتون مانی جاتی تھیں، ان کے بہت سے دینی کام اور خدمات ہیں۔[1][2][3]

سیرت[ترمیم]

نسب[ترمیم]

ام طاہر عائشہ بنت طاہر بن عمر بن عبد المحسن بن محمد طاہر بن محمد سعید بن محمد سنبل، قرشیہ، مدنیہ، حنفیہ۔ "آل سنبل" خاندان سے تعلق تھا جو حجاز کا ایک علمی خاندان ہے اور اس کا اصل نسب عمر بن خطاب تک جا ملتا ہے۔

ولادت[ترمیم]

فاطمہ سنبل کی ولادت مدینہ منورہ میں سنہ 1340ہجری مطابق 1922 عیسوی میں ہوئی، وہیں پروان چڑھیں۔

تعلیم[ترمیم]

ابتدائی تعلیم اپنے والد طاہر سنبل سے حاصل کی، بچپن ہی میں ان کے والد نے انھیں اجازت حدیث دے دی تھی۔ حدیث کی سند بہت اعلی تھی، بہت سے لوگوں نے عائشہ سنبل سے اجازت حدیث حاصل کی۔

ذاتی زندگی[ترمیم]

فاطمہ سنبل کا نکاح جمال بن عبد اللہ سنبل سے ہوا جو خیر الدین زرکلی کے دوست تھے اور وزارت خارجہ سعودی عرب کے مرکزی ذمہ داران اور بانیان میں تھے۔ ان کے ساتھ کچھ عرصہ تک مکہ میں رہیں، پھر جب ان کے شوہر مصر میں سعودی قونصل میں سفیر مقرر ہوئے تو ان کے ساتھ اسکندریہ منتقل ہو گئیں۔ لیکن وہاں جلد ہی ان کے شوہر انتقال کر گئے اور فاطمہ جوانی ہی میں بیوہ ہو گئیں، اولاد بھی تھیں جن سے سب سے بڑی اولاد کی صرف پندرہ سال عمر تھی، چنانچہ فاطمہ اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت اور کفالت میں مشغول ہو گئیں۔

اوصاف[ترمیم]

بہت زیادہ حسن سلوک کرنے والی اور صدقہ کرنے والی تھیں، لوگوں کے ساتھ معاملات بہتر رکھتی تھیں، جس کی وجہ سے لوگ ان سے بہت محبت کرتے تھے۔ اسی طرح نماز اور روزہ کی نہایت پابند تھیں، طاقت کے بقدر خیر کے کاموں میں خوب کوشش کرتی تھیں، شوہر کی وفات اور اولاد کی ذمہ داریوں کی وجہ سے جوانی ہی میں مشقت و پریشان اٹھاتے اٹھاتے امراض و بیماریوں کی شکار ہو گئی تھیں اور وفات تک ان امراض کو جھیلتی اور ان سے لڑتی رہیں۔

وفات[ترمیم]

عائشہ سنبل کی وفات 8 جمادی الاولی کی صبح سنہ 1415ہجری مطابق 12 اکتوبر 1994 عیسوی میں جدہ میں ہوئی۔ ان کی نعش کو مدینہ منورہ لے جایا گیا جہاں مسجد نبوی میں نماز جنازہ ادا کی گئی اور وصیت کے مطابق جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔

سند حدیث کی ایک مثال[ترمیم]

عائشہ سنبل اپنے والد محمد طاہر بن عمر بن عبد المحسن بن محمد طاہر بن محمد سعید بن محمد سنبل عمری مکی مدنی سے روایت کرتی ہیں، وہ اپنے والد عبد المحسن بن محمد طاہر سنبل سے، وہ اپنے والد محمد طاہر بن محمد سعید سنبل سے، وہ اپنے شیخ الحجاز محدث محمد سعید بن محمد سنبل مکی شافعی سے، وہ وہ ابو طاہر عبد السمیع بن ابراہیم کورانی مدنی سے، وہ حسن بن علی عجیمی مکی سے، وہ محمد بن علاء الدین بابلی سے، وہ سالم بن محمد سنہوری سے، وہ نجم محمد بن احمد غیطی سے، وہ زکریا بن محمد انصاری سے، وہ محقق وقت ابو عبد اللہ محمد بن علی قایانی سے، وہ نجم ابو محمد عبد الرحیم بن عبد الوہاب بن عبد الکریم بن حسین بن رزین حموی مصری سے، وہ ابو العباس احمد بن ابی طالب بن نعمت بن شحنۃ الحجار سے، وہ ابو عبد اللہ بن حسین بن مبارک زبیدی حنبلی سے، وہ ابو الوقت عبد الاول بن عیسٰی بن شعیب سجزی سے، وہ ابو الحسن عبد الرحمن بن محمد بن مظفر بن معاذ داؤدی سے، وہ ابو محمد عبد اللہ بن احمد بن حمویہ سرخسی سے، وہ ابو عبد اللہ محمد بن یوسف بن مطر بن صالح بن بشر بن ابراہیم بخاری فربری سے اور وہ ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ جعفی بخاری سے، فرماتے ہیں: ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے ابن شہاب کے واسطے سے نقل کیا، وہ عروہ بن زبیر سے، وہ عائشہ سے روایت کرتے ہیں کہ:

رسول اللہ کی بیویاں رات میں مناصع کی طرف قضاء حاجت کے لیے جاتیں اور مناصع ایک کھلا میدان ہے۔ تو جناب عمر، رسول اللہ سے کہا کرتے تھے کہ اپنی بیویوں کو پردہ کرائیے۔ مگر رسول اللہ نے اس پر عمل نہیں کیا۔ ایک روز رات کو عشاء کے وقت سودہ بنت زمعہ، رسول اللہ کی اہلیہ جو دراز قد عورت تھیں، (باہر) گئیں۔ عمر نے انھیں آواز دی (اور کہا) ہم نے تمھیں پہچان لیا اور ان کی خواہش یہ تھی کہ پردہ (کا حکم) نازل ہو جائے۔ چنانچہ (اس کے بعد) اللہ نے پردہ (کا حکم) نازل فرما دیا۔[4]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. يوسف بن عبد الرحمن المرعشلي (2006)۔ نثر الجواهر والدرر في علماء القرن الرابع عشر، وبذيله: عقد الجوهر في علماء الربع الأول من القرن الخامس عشر (الأولى ایڈیشن)۔ بيروت، لبنان: دار المعرفة۔ صفحہ: 1864 
  2. "موسوعة التراجم والأعلام - عائشة سنبل"۔ 27 فروری 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 فروری 2020 
  3. محمد خير رمضان يوسف (2002)۔ تتمة الأعلام۔ المجلد الأول۔ بيروت،‌ لبنان: دار ابن حزم۔ صفحہ: 262 
  4. صحیح بخاری ح 146