مندرجات کا رخ کریں

محمد صباح الدین

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
محمد صباح الدین
 

معلومات شخصیت
پیدائش 13 فروری 1877ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
استنبول   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 30 جون 1948ء (71 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کینٹن نوشاتل   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت سلطنت عثمانیہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدہ سنحیہ سلطان   ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
خاندان عثمانی خاندان   ویکی ڈیٹا پر (P53) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ سیاست دان ،  ماہرِ عمرانیات   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان ترکی ،  فرانسیسی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سلطان زادہ محمد صباح الدین آفندی ایک عثمانی شاہزادہ، ماہر سماجیات، سیاست دان اور دانش ور تھا۔ برطانوی طرز کے جمہوری نظام کے قیام اور اپنی سیاسی سرگرمیوں کےسبب آلِ عثمان کے لیے وہ ایک خطرہ بن گیا تھا جس بنا پر اُسے 19 ویں صدی عیسوی کے اواخر اور 20 ویں صدی عیسوی کے اوائل میں جلاوطن کر دیا گیا۔ وہ لبرل پارٹی نامی سیاسی جماعت کے بانیوں میں سے ایک تھا جو دو سال ہی قائم رہ سکی۔[1] یہ جماعت تُرکی کی سیاسی تاریخ میں پہلی مخالف (اپوزیشن) پارٹی تھی۔

اگرچہ اپنی والدہ سنیحہ سلطان کے توسط سے وہ آلِ عثمان کا ایک فرد تھا، مگر وہ اپنے ننھیالی خاندان کی مطلق العنان بادشاہت کا مخالف تھا اور نوجوان تُرک کے طور پر جانا جاتا تھا۔ صباح الدین جدید علم سماجیات کے خاکہ سازوں میں سے ایک - فرانسیسی ماہر سماجیات - ایمیلی دورکیم کا پیروکار تھا اور اس بنا پر اُسے تُرکی میں علم سماجیات کے بانیوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ اُس نے 1902ء میں لیگ فار پرائیویٹ انیشی ایٹو اینڈ ڈی سینٹرلائزیشن (عثمانی تُرکی: تشبُّسِ شخصی و آدمِ مرکزیت جمعیتی) کے نام سے ایک جماعت قائم کی۔ صباح الدین اپنے خیالات و نظریات میں آج کے تُرکی میں نافذ سیاسی و جمہوری خیالات کا پیش رو تھا۔[2]

سوانحی حالات

[ترمیم]

محمد صباح الدین کی پیدائش 1879ء میں قسطنطنیہ میں ہوئی۔ اس کی والدہ ایک عثمانی شاہزادی سنیحہ سلطان تھیں جو سلطان عبد المجید اول اور اُن کی زوجہ نالان دِل خانم کی اولاد تھیں۔ اس رشتہ سے صباح الدین، عبد المجید اول کا نواسا اور مراد پنجم اور عبد الحمید ثانی کا بھانجا تھا۔  اس کا والد محمود جلال الدین پاشا تھا جو کپتانِ دریا (امیر البحر) خلیل رفعت پاشا کا بیٹا تھا۔ شاہی خاندان سے ننھیالی تعلق کی بنا پر صباح الدین سلطان زادہ کہلاتا تھا مگر وہ عموماً شہزادہ کا لقب استعمال کرتا تھا۔[3]

صباح الدین کی تعلیم و تربیت نجی طور پر ہوئی، اُس نے اپنے وقت کے مشہور دانش وروں سے تعلیم پائی اور اُس کی پرورش مغربی طرز پر کی گئی۔ اس کا باپ جو سلطان عبد الحمید ثانی کا قریبی مصاحب اور شاہی خاندان کا داماد تھا، اُسے وزارتِ انصاف سے اس بنا پر علیحدہ کر دیا گیا تھا کہ وہ چراغاں محل پر حملے میں ملوث تھا۔ برطرفی کے بعد اُسے اپنی حویلی میں نظر بند رکھا گیا، دورانِ حراست محمود پاشا نے اپنے بیٹوں صباح الدین اور لطف اللہ کے تعلیمی انتظامات کی نگرانی کی۔ صباح الدین کو نیچرل سائنسز میں بہت دلچسپی تھی اور فرانسیسی زبان بھی کافی حد تک سیکھ لی تھی۔

صباح الدین (دائیں) اپنے بھائی لطف اللہ (بائیں) کے ہمراہ [بچپن کی ایک نایاب تصویر]

پیرس میں جلاوطنی

[ترمیم]

1899ء میں قاتلانہ حملے کے خوف سے محمود پاشا نے صباح الدین اور دوسرے بیٹے احمد لطف اللہ بیگ کے ہمراہ جلاوطنی اختیار کی اور پہلے برطانیہ کا رُخ کیا، پھر جنیوا چلا گیا جو اُس زمانہ میں سلطان عبد الحمید ثانی کے خلاف سرگرمیوں کا گڑھ تھا۔ 1900ء میں جنیوا کی فیڈرل کونسل کی جانب سے انتباہ ملنے پر محمود پاشا نے جنیوا کی سکونت بھی ترک کی اور پیرس چلا آیا۔ پیرس میں نوجوان تُرکوں کا زبردست گروہ موجود تھا، یہاں صباح الدین ایک عثمانی پاشا کا بیٹا ہونے کی برتر حیثیت کا فائدہ اُٹھا کر نوجوان تُرکوں کی صفوں میں تیزی سے اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوا۔ اس طرح وہ یورپ میں عبد الحمید ثانی کی مخالفت کرنے والے افراد کا لیڈر بن بیٹھا۔ کچھ عرصہ کے لیے وہ محمود پاشا کے ہمراہ مصر بھی گیا مگر جلد ہی پیرس واپس آ گیا۔ پیرس میں صباح الدین کی ملاقات ایڈمنڈ ڈیمولینز (1852ء - 1907ء) سے ہوئی جو ایک فرانسیسی ماہر تدریسیات اور فرانس میں نئے تعلیمی نظام کا بانی تھا۔ صباح الدین معاشرت اور سیاست پر ایڈمنڈ کے نظریات و خیالات سے متاثر ہوا۔[4] وہ عثمانی معاشرے میں شخصی آزادی اور فردِ واحد کی حکومت کا مخالف تھا اور اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ موروثی طرز کی شخصی حکومت سے نجات پائے بغیر عثمانی معاشرے کی ترقی ممکن نہیں ہو سکتی۔

پہلی نوجوان تُرک کانگریس

[ترمیم]

1900ء میں اُس نے عام عثمانی شہریوں کے نام ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں نوجوان تُرکوں کی کانگریس منعقد کرنے کا خیال پیش کیا گیا تھا۔ یہ پہلی کوشش کامیاب تو نہ ہو سکی مگر 4 فروری 1902ء کو وہ آزاد خیالوں کی پہلی عثمانی کانگریس کے انعقاد میں ضرور کامیاب رہا۔ یہ کانگریس بعد ازاں نوجوان تُرکوں کی پہلی عثمانی کانگریس کہلائی۔ کانگریس میں نوجوان تُرکوں کے درمیان نظریاتی اور سیاسی اختلافات کا پہلی بار واضح اظہار ہوا۔ صباح الدین کا مؤقف یہ تھا کہ وہ انگریزوں کی امداد سے سلطان عبد الحمید ثانی کا تختہ اُلٹنے کی کوشش کریں۔ اس کے مقابل احمد رضا (1858ء تا 1930ء) جو ایک عثمانی معلم، دانش ور، انقلاب پسند اور سیاست دان ہونے کے ساتھ ساتھ نوجوان تُرک تنظیم کے ممتاز رُکن بھی تھے[5]، اس معاملہ میں صباح الدین کے ہم خیال نہ تھے۔ اُن کا یہ مؤقف تھا کہ سلطان کی معزولی میں کسی قسم کی بیرونی مداخلت نہیں ہونی چاہیے ورنہ اس طرح تو عثمانی سلطنت پر بیرونی قوتیں براہِ راست قابض ہو جائیں گی اور حریت کا وہ مفہوم جو نوجوان تُرکوں کے ذہنوں میں ہے، بری طرح مسخ ہو کر رہ جائے گا۔

احمد رضا کے استفسار پر کہ سلطان عبد الحمید کی حکومت کے خاتمہ کے بعد وہ کس طرز کا اِنتظامی نظام لانا چاہتا ہے، صباح الدین اور اُس کے حامیوں نے اپنا روڈ میپ یہ پیش کیا کہ وہ سلطان عبد الحمید کو انقلاب کے ذریعہ معزول کر کے ایک ایسا نظام نافذ کرنے کے خواہاں ہیں جسے مقامیوں اور غیر ملکیوں کی تائید و اعانت میسر ہو اور اُن کے تعاون سے شخصی آزادی پر مبنی حکومت قائم ہو جس میں اختیارات کسی فردِ واحد کے پاس نہ ہوں، اس رائے کی مخالفت میں احمد رضا نے مرکزی طرز کی آئینی بادشاہت کے قیام کی ضرورت پر زور دیا۔ تُرک سیاست میں جو آج سینٹر رائٹ اور سینٹر لیفٹ کی دو مشہور اصطلاحیں استعمال ہوتی ہیں، اس کی بنیاد نوجوان تُرکوں کا یہی اختلاف تھا۔ [6]

سوسائٹی کا قیام اور رسالہ کی اشاعت

[ترمیم]

1902ء میں صباح الدین نے ایک ناکام بغاوت کی کوشش کی۔ 1906ء میں اُس نے تشبُّسِ شخصی و آدمِ مرکزیت جمعیتی کے نام سے ایک سوسائٹی قائم کی۔ اُس نے ترقّی کے نام سے ایک ماہنامہ رسالہ بھی جاری کیا جو اس سوسائٹی کا نمائندہ اور ترجمان تھا۔ اس کے ذریعے صباح الدین نے انتظامیہ میں لامرکزیت اور معاشیات میں شخصی اقتدار کے اپنے بنیادی اُصولوں کا دفاع کیا۔ یہ ماہنامہ رسالہ تقریباً دو سال تک شائع ہوتا رہا۔ اس رسالہ میں اظہارِ خیال اور مضامین پیش کرنے والے بیشتر افراد کا تعلق اقلیتوں اور کاروباری طبقہ سے تھا جو سلطنت کے مختلف علاقوں میں آباد تھے۔ اس سوسائٹی کی شاخیں قسطنطنیہ، علائیہ، ازمیر اور دمشق میں بھی قائم کی گئی تھیں۔

عثمانی لبرل پارٹی

[ترمیم]

1908ء میں جب جمعیت اتحاد و ترقی نے بغاوت کر کے دوسری آئینی بادشاہت کے قیام کا اعلان کیا تو اس کے مقابلے میں صباح الدین نے عثمانی لبرل پارٹی (عثمانی تُرکی: عثمانلی احرار فرقہ سی) کی حمایت کی جسے نوجوان تُرکوں نے قائم کیا تھا اور جو سلطنت میں لبرل خیالات کی نمائندہ بھی تھی۔ صباح الدین نے پسِ منظر میں رہتے ہوئے اس جماعت کی قیادت کا فریضہ انجام دیا۔ صباح الدین اب تک بیرون ملک مقیم تھا، اس عرصہ میں محمود پاشا کی (1903ء میں) وفات ہو چکی تھی۔ 1908ء میں وہ اپنے باپ کی میت کے ہمراہ قسطنطنیہ واپس چلا آیا۔ 1908ء کے انتخابات میں لبرل پارٹی نے حصّہ لیا مگر وہ اتنے ووٹ نہ لے پائی کہ اُسے پارلیمنٹ میں داخلے کا پروانہ جاری ہو سکتا۔ اس دوران سلطان عبد الحمید ثانی کے خلاف بغاوت شروع ہو گئی اور پارٹی پر جلد ہی 31 مارچ واقعہ میں ملوث ہونے کا الزام لگ گیا۔ اس کے نتیجے میں پارٹی پر پابندی عائد کر دی گئی۔ صباح الدین کی گرفتاری بھی عمل میں آئی لیکن محمود شوکت پاشا (1856ء -1913ء) اور خُورشید احمد پاشا کی ثالثی نے کام دکھایا اور اسے رہائی دے دی گئی۔ کچھ عرصہ بعد 31 مارچ کے واقعات کی بنیاد پر دوبارہ مقدمہ چلایا گیا اور صباح الدین کو سزائے موت دی گئی مگر وہ بیرون ملک فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔

محمود شوکت پاشا کا قتل

[ترمیم]

1913ء میں صباح الدین کے حامیوں نے 31 مارچ کی بغاوت جیسی ایک اور بغاوت برپا کرنے اور بابِ عالی پر حملہ آور ہو کر سلطان عبد الحمید ثانی کو برطرف کر کے اقتدار صباح الدین کو دلانے کا منصوبہ بنایا۔ اس منصوبے کے پہلے فیز میں صدرِ اعظم محمود شوکت پاشا کو قتل کیا جانا تھا۔ 11 جون 1913ء کو صدرِ اعظم کو قتل کر دیا گیا۔ دورانِ قتل وہ اپنی کار ( جسے قسطنطنیہ میں سب سے پہلی آٹو موبائل سواری ہونے کا اعزاز حاصل تھا) میں سوار بایزید اسکوائر سے گزر رہے تھے۔ یہ قتل وزیرِ جنگ ناظم پاشا کے کسی رشتہ دار کے قتل کے انتقام کو جواز بنا کر کیا گیا تھا۔[7] صدرِ اعظم کے قاتل گرفتار کر لیے گئے اور اُنھیں سزائے موت دی گئی۔ صباح الدین ایک بار پھر فرار ہونے پر مجبور ہوا اور پیرس چلا گیا۔ پہلی جنگِ عظیم کے دوران اُس کا قیام یورپ کے مختلف شہروں میں رہا۔

قومی جدوجہد کے پُر آشوب ایام

[ترمیم]

پہلی جنگِ عظیم میں شکست اور جمعیت اتحاد و ترقّی کے خاتمہ پر صباح الدین کو (1919ء میں) وطن واپس آنا نصیب ہو سکا۔ تُرکی واپس آتے ہی اُس نے Türkiye Nasıl Kurtarılabilir? (تُرکی کو کیسے بچایا جا سکتا ہے؟) کے عنوان سے اپنی کتاب شائع کرائی جس پر جمعیت اتحاد و ترقّی کے دور میں پابندی عائد کی گئی تھی۔ تب اناطولیا میں تُرک اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے تھے، یونانیوں نے تُرکوں کی شکست سے شیر ہو کر اناطولیا کے شہروں پر حملہ کر دیا تھا اور مصطفیٰ کمال اُن کی ٹڈی دل افواج کو شکست دے کر دفاعِ وطن کے فریضہ کو نبھا رہے تھے۔ قومی جدّوجہد کے ان پُر آشوب ایام میں صباح الدین نے کئی مضامین قلم بند کیے جن میں قومی جدّوجہد کی حمایت کی گئی تھی۔ 1924ء میں جب سلطنتِ عثمانیہ کا آئینی طریقہ سے خاتمہ ہو گیا تو آلِ عثمان کے سبھی افراد کو جلا وطنی کا پروانہ تھما دیا گیا تھا، اس قانون کی رو سے صباح الدین کو بھی ملک چھوڑنا پڑا۔ اتاتُرک اور قومی تُرک تحریک نے اُس کی سیاسی سرگرمیوں پر بھی پابندی لگا دی۔

ایامِ جلاوطنی اور وفات

[ترمیم]

خاتمہ سلطنت کے بعد صباح الدین کے لیے جمہوریۂ تُرکی میں داخلہ ممنوع تھا لہٰذا اُس نے باقی ماندہ زندگی یورپ میں جلاوطن کی حیثیت سے بسر کی۔ اُس نے سوئٹزر لینڈ کا رُخ کیا اور وفات تک وہیں مقیم رہا۔ جان گوڈولفن بینیٹ (1897ء تا 1974ء) ایک انگریز ماہر تعلیم،ملٹری آفیسر اور مصنّف تھا، Tanık (انگریزی: The Witness) کے عنوان سے اُس نے اپنی ایک سوانح عُمری لکھی جس کا پہلا ایڈیشن 1962ء میں شائع ہوا۔ اس کتاب کا دوسرا نظر ثانی شدہ ایڈیشن 1974ء میں نئے اضافوں کےساتھ دوبارہ شائع ہوا۔ اُس کا بیان ہے کہ صباح الدین زندگی کے آخری برسوں میں پریشانی، مایوسی اور جلاوطنی کی مصیبتوں کے سبب کثرت شراب نوشی کے عارضہ میں مبتلا ہو گیا تھا۔[8] اِسی عالم میں نہایت کسمپرسی کی حالت میں 30 جون 1948ء کو 69 سال کی عمر میں اُس کی وفات ہوئی۔ 12 ستمبر 1952ء میں اُس کی باقیات وطن واپس لائی گئیں[9] اور اُس کی میت کو اُس کے باپ اور دادا کے پہلو میں دفنایا گیا۔ اُس کی قبر صوبہ استنبول کے ضلع ایوب سلطان میں واقع ہے۔

متاثرہ شخصیات

[ترمیم]

صباح الدین کے حلقۂ اثر میں بہت سے افراد شامل تھے جن میں جان جی۔ بینیٹ کا نام خصوصیت سے قابلِ ذِکر ہے۔ جان بینیٹ کا صباح الدین سے اوّلین تعارف 1920ء میں سطوت لطفی بیگ کے توسط سے ہوا تھا، تب جان بینیٹ پہلی جنگِ عظیم کے بعد قسطنطنیہ پر قابض انگریزی فوج کے انٹیلی جینس آفیسر کے طور پر خدمات انجام دے رہا تھا۔[8]

ازواج و اولاد

[ترمیم]

صباح الدین نے دو شادیاں کیں۔[9] پہلی بیوی تبنیک خانم قفقاز کی باشندہ تھی، اس سے صباح الدین کا نکاح 1898ء میں ہوا تھا۔ اس کے بطن سے ایک بیٹی فتحیہ خانم کی 1899ء میں پیدائش ہوئی۔ یہ صباح الدین کی واحد اولاد تھی۔ 1986ء میں فتحیہ کا انتقال ہوا، اس نے کوئی شادی نہ کی تھی لہٰذا صباح الدین کی نسل مزید آگے نہ چل سکی۔ صباح الدین کی دُوسری بیوی کا نام قَمُرَن خانم تھا، یہ تبنیک خانم کی چھوٹی بہن تھی۔ 14 اگست 1961ء کو جب صباح الدین نے تبنیک خانم کو طلاق دی تو اس سے شادی کر لی، اس سے کوئی اولاد نہ ہوئی۔

کُتب

[ترمیم]

صباح الدین نے پانچ کُتب تحریر کیں جن کے نام ذیل میں دیے جا رہے ہیں:

  1. How can Turkey be Saved
  2. An Explanation about Undertaking and Graduation
  3. A Second Explanation of Enterprise and Decentralization
  4. Open Letters to the Committee of Union and Progress
  5. A Third and Final Explanation about our Profession

پردۂ سیمیں پر

[ترمیم]

صباح الدین کے کردار کو تُرکی کی ایک تاریخی ڈراما سیریل پایۂ تخت: عبد الحمید میں فلمایا گیا ہے۔ یہ سیریز ٹی آر ٹی 1 چینل نے 2017ء کو نشر کرنا شروع کی تھی۔ اس کردار کو اداکار قاآن ترغوت نے نبھایا ہے۔

مزید دیکھیے

[ترمیم]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. دُوسری آئینی بادشاہت کے دور میں مخالفت: احرار پارٹی (پی ایچ ڈی مقالہ)
  2. Vatan Cephesi، حقّی اُیار، صفحات 3-4
  3. ترکی کی سیاسی زندگی میں ایک مخالف نام اور تحریک: شہزادہ صباح الدین اور مسلکِ اجتماع، سوشل سائنسز انسٹیٹیوٹ جرنل، شمارہ 2
  4. نوجوان تُرکوں کی تحریک اور دُوسری آئینی بادشاہت (ریٹائرڈ کرنل علی احسان گرجان سے انٹرویو)، عائشہ گونول پیلالر، اخبار: Gaziler Dergisi، شمارہ 144، بتاریخ: 11 نومبر 2011ء
  5. عثمان کا خواب: سلطنتِ عثمانیہ کی داستان (1300ء - 1923ء)، صفحہ 505
  6. Vatan Cephesi، حقّی اُیار، صفحہ 3
  7. مشرقِ وسطیٰ میں مغربی سامراج (1914ء-1958ء)، صفحہ 17
  8. ^ ا ب گواہ: تلاش کی کہانی، جان گوڈولفن بینیٹ
  9. ^ ا ب عثمانی شاہی خاندان کا نسب نامہ، صفحہ 12

کتابیات

[ترمیم]
  1. دُوسری آئینی بادشاہت کے دور میں مخالفت: احرار پارٹی (پی ایچ ڈی مقالہ)، اوغوز قاآن، استنبول یونی ورسٹی، 2008ء
  2. Vatan Cephesi، حقّی اُیار، صفحات 3-4، Büke پبلیکیشنز، مقامِ اشاعت: ازمیر (تُرکی)، سالِ اشاعت: 2001ء
  3. ترکی کی سیاسی زندگی میں ایک مخالف نام اور تحریک: شہزادہ صباح الدین اور مسلکِ اجتماع، از مراد قلیچ، سلیمان دیمرل یونی ورسٹی سوشل سائنسز انسٹیٹیوٹ جرنل، شمارہ 2، 2010ء
  4. عثمان کا خواب: سلطنتِ عثمانیہ کی داستان (1300ء - 1923ء)، کیرولین فنکل، صفحہ 505، بیسک بکس پبلشرز، 2006ء
  5. مشرقِ وسطیٰ میں مغربی سامراج (1914ء-1958ء)، ڈیوڈ کینتھ فیلڈ ہاؤس، صفحہ 17، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، 2006ء
  6. گواہ: تلاش کی کہانی - جان جی بینیٹ کی سوانح عمری، جان گوڈولفن بینیٹ، ترمیم شدہ دوسرا ایڈیشن، ٹرن اسٹون بکس، لندن، 1975ء
  7. عثمانی شاہی خاندان کا نسب نامہ، جمیل ادرا، صفحہ 12، اشاعت 2005ء