آئین پاکستان میں سترہویں ترمیم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

آئین پاکستان میں ترمیم جس کو سترہویں ترمیم 2003ء کے نام سے جانا جاتا ہے، دسمبر 2003ء میں کی گئی۔ یہ ترمیم تقریبا ایک سال تک اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف کے حامیوں اور مخالفین کے بیچ بحث مباحثوں اور کئی موقعوں پر تلخیوں کے بعد منظور کی گئی تھی۔
یہ ترمیم اس لحاظ سے نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ آئین پاکستان میں وسیع پیمانے پر کئی ترامیم کی گئیں۔ ان ترامیم میں کئی صدر پاکستان کے عہدے سے متعلق تھیں اور آئین پاکستان میں تیرہویں ترمیم میں کی گئی تقریباً ترامیم واپس لے لی گئیں۔ آئین پاکستان میں سترہویں ترمیم کے چیدہ چیدہ نکات زیل میں بیان کیے گئے ہیں۔

  • صدر مشرف کی جانب سے پیش کردہ لیگل فریم ورک آرڈر یا ایل ایف او کو جزوی تبدیلیوں کے ساتھ آئین کا حصہ بنا دیا گیا۔
  • آئین کے آرٹیکل (ڈ)(1)63 کو 31 دسمبر 2004ء سے فعال تصور کیا گیا۔ جس کی رو سے کسی بھی شخص کے بیک وقت دو عہدے، یعنی سیاسی عہدہ اور سرکاری ملازم کا عہدہ رکھنے کی ممانعت کر دی گئی۔ لیکن بعد میں ایک عمومی قانون جو پارلیمان نے 2004ء میں سادہ اکثریت سے منظور کیا، اس کی رو سے صدر مشرف کو اس بات کی اجازت دی گئی کہ وہ بیک وقت صدر کا سیاسی عہدہ اور افواج پاکستان کے سربراہ کا سرکاری عہدہ رکھ سکتے تھے۔
  • اگر صدر پاکستان اس ترمیم کے تیس دن کے اندر الیکٹورل کالج سے اکثریتی اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو انھیں باقاعدہ طور پر صدر پاکستان تصور کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ یکم جنوری 2004ء کو صدر مشرف نے الیکٹورل کالج کے 1170 ووٹوں میں سے 658 ووٹ لے کر 56 فیصد اکثریت حاصل کی اور انھیں اس شق کی رو سے صدر پاکستان قرار دے دیا گیا۔
  • صدر پاکستان کو قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اختیار واپس مل گیا اور اس طرح وہ مختص حالات میں وزیر اعظم پاکستان کو فارغ کر سکتے تھے۔ لیکن ان تمام اقدامات کی منظوری پاکستان کی عدالت عظمیٰ کی توثیق سے مشروط رہی۔
  • صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل بارے گورنر کی رائے کی منظوری کو بھی پاکستان کی عدالت عظمیٰ سے توثیق کروانا لازمی قرار دیا گیا۔
  • آئین پاکستان کے آرٹیکل 152A جس کی رو سے پاکستان کی نیشنل سیکورٹی کونسل تشکیل پاتی ہے، کو بھی منظور کروایا گیا۔

بیرونی روابط[ترمیم]