اشتراکیت

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

اشتراکیت یا سوشلزم ایسے سماجی نظام کو کہتے ہیں جس میں پیداواری ذرائع (زمین، معدنیات، کارخانے، بینک، تجارت وغیرہ) معاشرے کی اجتماعی ملکیت ہوتے ہیں اور ان کی پیداوار ذہنی یا جسمانی کام کرنے والوں کی تخلیقی محنت کے مطابق تقسیم کی جاتی ہے (سبطِ حسن - موسی سے مارکس تک)۔ سوشلزم کا سب سے مشہور تصور کارل مارکس اور فریڈریک اینگلز نے دیا، ان کے مطابق کسی بھی سوشلسٹ سماج کی تین بنیادی خصوصیات ہوتی ہیں؛ ذرائع پیداوار مشترکہ ملکیت ہوتے ہیں، تمام فیصلے جمہوری طریقے سے کیے جاتے ہیں اور یہ کہ اشیاء منافعے کی بجائے ان کی افادیت کی وجہ سے بنائی جاتی ہیں۔

اشتراکیت کا مفہوم اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ، اشتراکیت یا کمیونزم استحصال سے پاک معاشرے کا قیام ہے جہاں انسان کی مانگ کا خاتمہ ہو گا۔اشتراکیت مارکسزم ایک سماجی سائنس ہے جو طبقاتی اور غیر مساویانہ سماج کے خلاف ٹھوس اور مادی جہدوجہد کے قوانین کی آگاہی دیتی ہے انسان کو اپنا مقدر خود بنانے کی ترغیب اور تمام سماجی ذریعے پیداوارکو بھر پور استعمال کر کے انسانی سماج سے استحصال بھوک ننگ افلاس کا مکمل خاتمہ کر کے روٹی کمانے کی ذلت آمیز مزدوری سے نجات اور اس محنت کو تخلیق اور تسخیر کائنات کے لیے کار آمد بناناہے نہ کہ ساری زندگی انسانوں کی ایک بڑی اکثریت چند لوگوں کی مراعات اور عیاشیوں کے لیے مزدوری اور غلامی کرتی رہے۔اور یہی سرمایہ داروں کو قابل قبول نہیں جس سے ان کا سرمایہ پر قائم رتبہ اور فضلیت کو نقصان پہنچے۔

علما کرام کا موقف ہے اسلام اشتراکیت سے ایک علاحدہ نظام ہے اس کے لیے پیر غزالی زماں مفتی محمد احمد سعید کاظمی کی کتاب اسلام اور اشتراکیت پڑھیے۔

آج عالمی سطح پربھی سوشلزم کو نہایت توڑ موڑ کر پیش کیا جاتاہے تا کہ ظلم اور طبقاتی استحصال کی حکمرانی کو قائم رکھا جا سکے اس کے لیے جہاں وہ مسلم ممالک میں مذاہب کو بڑی بے دردی اور بھونڈے طریقہ سے استعمال کر تے ہیں وہاں وہ ترقی یافتہ ممالک میں اس کو آمریت اور ناکام نظریہ گردانتے ہیں اس کے لیے وہ روس اور مشرقی یورپ کو بطور بہترین مثال پیش کرتے ہیں۔ یہ جھوٹ نہ صرف پاؤں کٹا ہے بلکہ سر کٹا بھی ہے اور یہ صرف ان حکمرانوں کا کمال ہے کہ انھوں نے اس کو کھڑا کیا ہوا ہے حئی کہ یہ کوئی انسانی نہیں بلکہ خدائی کام ہی ہو سکتا ہے ویسے تو یہ بھی خدائی طاقت کے دعوے دار ہیں۔

حقائق اور تاریخ ہمیں یہ بتاتے ہیں کے روس میں لینن کی قیادت میں عوام کی ایک بڑی اکثریت نے ظالم ترین زار شاہی کی سرمایہ دارانہ حکومت کا تختہ الٹ کر مزدور جمہوریت قائم کئی تمام ذرائع پیدارار کو محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دیے کر بھر پور استعمال میں لا کر زیادہ سے زیادہ پیداوار کر کے عوامی ضرورتوں کو پورا کرنے کی مکمل کوشش کی گئی۔ جس کے نتیجہ میں اس انقلاب نے رو س کو چند ہی دہائیوں میں ایک پسماندہ ترین ملک سے جو آج کے پاکستان سے بھی کہیں زیادہ پسماندہ ملک تھا نہ صرف ترقی یافتہ بنادیا بلکہ سوویٹ یونین دنیا کی دوسری بڑی سپر پاور بن کر ابھرایہ ترقی نہ صرف انسانی تاریخ میں پہلی بار ہوئی تھی بلکہ سرمایہ دارنہ سماج میں ایسی اعلیٰ اور تیز ترین ترقی کا تصور بھی ناپید ہے جس کی بدولت سماج میں انسان کی حقیقی آزادی کو ٹھوس مادی بنیادیں میسر آئیں ہمارے دشمن بھی اس کا اقرار کریں گئے۔

خوندگی 99 فیصد تھی،دنیا میں سب سے زیادہ یونیورسٹی ہولڈر، ڈاکٹر،انجنئیر،سائنس دان اور ماہرین روس کے پاس تھے ترقی کی شرح 28 فیصد سے 30 فیصد تک پہنچ گئی تھی ،خلائی نظام میں میں بھی روس کو دنیا میں اول حثیت حاصل ہے، اس نے سب سے پہلے چاند پر خلائی شٹل بھج کر دنیا کو حیران کر دیا،30 سے زائدبنیادی اور ا ہم صنعتوں میں دنیا کی سب سے زیادہ پیداوار کر تا تھا ،آج بھی انڈر گرونڈ مترو کے نظام میں دنیا کے پہلے نمبر پر ہے، عورتوں کی مردانہ حاکمیت اور طبقاتی،درجاتی استحصال کے خلاف عملی اقدامات کیے گئے،بچوں،بوڑھوں اور عورتوں جو سرمایہ دارانہ سماج میں سب سے زیادہ ظلم کا شکار ہوتے ہیں کو ریاستی مکمل تحفظ دیا گیا،بنیادی اور ثانوی تعلیم تمام آبادی کے لیے مفت اور لازمی تھی، بے روزگاری ایک جرم تھا ،وغیرہ وغیرہ۔

نظریے کے مطابق مسائل کا حل[ترمیم]

ان مسائل کو حل کرنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ دولت پیدا کرنے کے تمام بنیادی ذرائع کو قوم کی مشترکہ ملکیت بنا دیا جائے۔ تاکہ دولت کی پیداوار اور تقسیم قومی مفادات کے مطابق ہو۔ یہ کام سماجی انقلاب کے ذریعے ہو سکتا ہے۔ جو محنت کش عوام کی راہنمائی میں برپا ہو گا اور وہی اشتراکی ریاست کی تنظیم کریں گے۔

سوشلزم کے مشاہیر[ترمیم]

اشتراکیت کا نمائندہ نشان

اشتراکی گروہوں کی تقسیم بلحاظ نظریات[ترمیم]

موجودہ اشتراکی فلسفلہ بنیادی طور پر چار گروہوں میں منقسم ہے۔ چاروں گروہ اس بات پر متفق ہیں کہ چونکہ تمام معاشرتی امراض و مسائل کی جڑ شخصی حق ملکیت ہے، اس لیے وسائلِ پیدائش کی شخصی ملکیت کو ختم کر دینا چائیے۔ ان گروہوں میں اختلاف اس بات پر ہوتا ہے کہ ایسی ریاست کو تشکیل دینے کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا جائے۔

اشتراکیت کا عروج[ترمیم]

اس کی واضح مثالیں انقلاب روس اور انقلاب چین ہیں

اشتراکیت کا تنزل[ترمیم]

1991ء میں سوویت یونین، چیکو سلواکیہ اور یوگو سلاویہ کے ٹوٹنے سے اس نظام کو دھچکا لگا۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]