چی گویرا
چی گویرا | |
---|---|
(ہسپانوی میں: Ernesto Guevara) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | (ہسپانوی میں: Ernesto Guevara) |
پیدائش | 14 جون 1928ء [1][2][3][4][5][6][7] روساریو، سانتا فے [8] |
وفات | 9 اکتوبر 1967ء (39 سال)[2][1][3][4][9][5][7] لا ہیگویرا [8] |
وجہ وفات | شوٹ [10] |
طرز وفات | قتل [11] |
رہائش | ارجنٹائن (1928–) کیوبا [12] بولیویا [12] گواتیمالا [12] میکسیکو [12] |
شہریت | کیوبا ارجنٹائن [13] |
بالوں کا رنگ | خاکی [14] |
قد | 176 سنٹی میٹر [14] |
جماعت | کیوبا کی کمیونسٹ پارٹی |
عارضہ | دمہ |
تعداد اولاد | 5 |
عملی زندگی | |
مادر علمی | جامعہ بیونس آئرس (1948–11 اپریل 1953) |
تخصص تعلیم | طب |
پیشہ | سیاست دان [15]، طبیب [16]، شاعر ، سفارت کار ، مضمون نگار ، انقلابی [17]، فوجی افسر ، مصنف ، عوامی صحافی [16] |
پیشہ ورانہ زبان | ہسپانوی [18][19] |
مؤثر | کارل مارکس [20]، ماؤ زے تنگ [21]، ولادیمیر لینن [22] |
کھیل | رگبی یونین |
عسکری خدمات | |
وفاداری | کیوبا |
عہدہ | میجر [23] |
لڑائیاں اور جنگیں | کیوبائی انقلاب ، کانگو بحران |
اعزازات | |
دستخط | |
IMDB پر صفحات | |
درستی - ترمیم |
چے گویرا (انگریزی : Ernesto Guevara) ارجنٹینا کا انقلابی لیڈر تھا۔ چے عرفیت ہے۔ وہ 14 جون، 1928ء کو ارجنٹائن میں پیدا ہوا۔
بچپن سے دمہ کا مریض ہونے کے باوجود وہ ایک بہترین ایتھلیٹ تھا اور شطرنج کا بھی شوقین تھا۔ اپنی نوجوانی میں وہ کتابوں کا بہت زیادہ شوقین تھا، اس کی خوش قسمتی تھی کہ اس کے گھر میں 3000 سے زائد کتابوں پر مشتمل ذخیرہ موجود تھا، جس سے اس نے اپنے علم میں بہتر اضافہ کیا۔
موٹر سائیکل پر سیاحت
[ترمیم]چے گویرا بنیادی طور پر میڈیکل کا طالب علم تھا، تعلیمی کیرئر کے دوران ہی اس کے اندر سیاحت کا شوق پیدا ہوا اور 1950ء سے لے کر 1953ء تک اس نے جنوبی امریکا کو تین بار اپنی سیاحت کا مرکز بنایا، جس میں پہلے1950ء میں اس نے سائیکل پر تنہا 4500 کلومیٹر کا سفر براعظم کے جنوب سے شمال کی جانب طے کیا۔
پھر دوسرا سفر اس نے 1951ء میں موٹر سائیکل پر طے کیا۔ جو تقریباً دگنا لمبا یعنی8000 کلومیٹر تھا۔ تیسرا سفر اس نے 1953ء میں کیا– تینوں بار اس نے متعدد ممالک جیسے چلی، پیرو، ایکواڈور، کولمبیا، وینیزویلا، پانامہ، برازیل، بولیویا اور کیوبا کراس کیے۔
اس سفر کو موٹر سائیکل جرنی کے نام سے یاد کیا جا تا ہے، جس پر کئی کتابیں،اور خود اس کی یاداشتیں چھپ چکی ہیں اور ایک فلم بھی بن چکی ہے اسی نام سے ہے۔
اس سفر کے دوران چے کے مشاہدے میں جہاں بے پناہ اضافہ ہوا، وہی جب وہ دیہاتوں اور چھوٹے چھوٹے شہروں اور قصبوں سے گذرا، تو وہاں کے رہنے والے باشندوں کی حالت زار، غربت اور بھوک اور بیماریوں نے اس کی آنکھیں کھول دیں، وہ غریبوں کے لیے بہت حساس دل رکھتا تھا، اوراس مشاہدے سے اس نتیجے پر پہنچا کہ تقریباً تمام جنوبی امریکا اس وقت کٹھ پتلی حکمرانوں کے زیر تسلط ہے اور ان کی آڑ میں سرمایہ داری نظام یہاں جڑ پکڑ رہا ہے، جس کے پیچھے کوئی اور نہیں بلکہ امریکا بہادر خود ہے۔
وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ یہ دونوں یعنی سرمایہ دارانہ نظام اور اس کا سرپرست امریکا کبھی غریبوں کے دوست نہیں ہو سکتے اور ان کی تسلط سے اس خطے کو آزاد کرانے کے لیے اسے اپنی تعلیم چھوڑ کر انقلابی راہ اپنانی پڑے گی۔
گواتیمالا
[ترمیم]اپنے تیسرے سفر کے دوران وہ گواتیمالا پہنچا، جہاں کے صدر گزمین کے خلاف امریکن سی آئی اے سرگرم تھی، تاکہ اس کی حکومت گراکر اپنی پسند کا کٹھ پتلی حکمران بٹھا یا جاسکے۔ اور اس سازش میں وہ کامیاب بھی ہو گئے۔ جس پر نئی امریکن نواز حکومت کے خلاف مختلف کیمونسٹ گروپ سرگرم ہو گئے۔ چی نے بھی ان کاساتھ دیا۔ مگر جلد ہی وہ اختلافات کا شکار ہو گئے اور گزمین نے باغیوں کی سربراہی کرنے کی بجائے میکسیکوکے سفارت خانے میں گھس کر پناہ لی۔ جس سے اس کی بحالی کی تحریک کمزور پڑ گئی اور حکومتی کارندے ان پر بھاری پڑ گئے، چی نے آخری لمحے تک مزاحمت کی، مگر بالاآخر اسے بھی اپنے سفارت خانے میں پناہ طلب کرنی پڑی۔
کیوبا
[ترمیم]چے گویرا 1954ء میں میکسیکو چلاگیا، وہاں ایک سال تک جنرل ہسپتال میں الرجی کا شعبہ سنبھالنے کے بعد 1955ء میں اس کی ملاقات کیوبا کے نئے ابھرتے انقلابی لیڈر فیدل کاسترو کے بھائی رائول کاسترو سے ہوئی، جس نے اس کی سوچ سے متاثر ہوکر بعد میں اسے اپنے بھائی سے ملوایا۔ اس ملاقات کو اگر چی کی زندگی کا نقطہ آغاز کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، دونوں نے متضاد شخصیت ہونے کے باوجود ایک دوسرے کو کافی متاثر کیا اور چی نے کاسترو کی تحریک میں شمولیت اختیار کرلی۔
دونوں کا نشانہ امریکی نواز کیوبن حکمران باتستاتھا، جو ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہا تھا، یہ تحریک تقریباً چار سال چلی، اس دوران چی نے باقاعدہ گوریلا ٹریننگ بھی لی اور اس میں بہت کامیاب رہا۔ کاسترو بھی اس کی قابلیت اور ڈسپلن سے بہت متاثر تھا، یہی وجہ تھی کہ کچھ ہی عرصے میں اسے اپنا دست راست بنالیا۔
چے جیسے انقالبیوں کی بدولت ہی وہ وقت دور نہ رہا، جب 1959ء کی پہلی صبح کٹھ پتلی حکمران ملک چھوڑ کر فرار ہونے پر مجبور ہو گیا۔
انقلابیوں کی حکومت آئی تو انھیں کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا، چی کوصنعت اور خزانے کی وزارتیں دیں گئیں، مگر انقلابی جدوجہد کے مقابلے میں اصلاحات کا کام نہایت دشوار ثابت ہوا، خصوصاً جب امریکا بہادر ان کے گرد گھیرا تنگ کر رہا تھا اور طرح طرح کی معاشی پابندیاں عائد کر رہا تھا،اس دوران چی نے کافی کوشش کی، کئی ملکوں کے دورے کیے اور بڑے بڑے مگرمچھوں سے زمینیں چھین کر غریبوں میں تقسیم کیں، مگر ان اصلاحات کے خاطر خواہ نتائج نہیں نکل سکے اور اسے پس پردہ جانا پڑا۔
یہی وہ وقت تھا جب اس کے اندر پھر انقلابی باغی نے سراٹھایا اور اس نے ان معاشی مغزماریوں میں سر کھپانے کی بجائے کانگو کا انتخاب کیا، جہاں ایک اور امریکی کٹھ پتلی حکومت کے خلاف تحریک چلنے لگی تھی۔
کانگو
[ترمیم]چے 1965ء کی شروعات میں جمہوری جمہوریہ کانگو پہنچا، اس کے ساتھ اس کے درجن بھر وفادار ساتھی بھی تھے۔ یہاں اس کے آنے کا مقصد یہاں تحریک چلانے والوں کو اپنا تجربہ منتقل کرنا اور ان کے ساتھ مل کر جدوجہد کرنا تھی، مگر ابتدا ہی میں اسے مایوس ہونا پڑا۔
یہ کیوبا نہیں تھا، جہاں انقلابی پرعزم اور ڈسپلن کے پابند تھے، جبکہ عوام بھی ان کے لیے اچھے جذبات رکھتے تھے۔ کانگو میں تحریک تو شروع تھی، مگر لوگوں میں وہ ڈسپلن اورجذبہ موجود نہیں تھا، جو کسی تحریک کی کامیابی کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اسے یہاں کی زبانیں بھی نہیں آتی تھیں جس کی وجہ سے اپنے خیالات اور منصوبوں پردوسرے لیڈروں کے ساتھ اظہار خیال کرنے میں اسے مترجم کی خدمات لینی پڑتی تھیں۔ جبکہ سی آئی اے بھی اس علاقے میں پوری طرح سرگرم تھی، جو اپنے جدید مواصلاتی آلات کی مدد سے ان کے اکثر پلان پہلے سے جان لیتی تھی۔
چے وہاں تقریباً سات مہینے رہا اور آخر میں بیمار پڑ گیا، وہ مقامی گوریلا لیڈروں کی نااہلی اور عوام کی انقلاب میں غیر دلچسپی سے حد درجہ مایوس ہوا، اگرچہ وہ آخری دم تک وہاں رہ کر لڑنا چاہتا تھا، مگر کاسترو کے خصوصی پیغاموں نے اسے وہاں سے نکلنے پرمجبور کیا۔
بولیویا
[ترمیم]صحت بہتر ہوتے ہی چے نے اگلی سرگرمی کے لیے بولیویا کا انتخاب کیا، جہاں ایک اور امریکن نواز حکومت عوام کا خون چوس رہی تھی۔ وہ 1966ء کے آخر میں بولیویا پہنچا، اورایک پہاڑی علاقے سے تقریباً 50 ساتھیوں کی مدد سے تحریک شروع کی۔ اور شروعات میں اسے کافی اچھی کامیابیاں ملیں اور کئی جھڑپوں میں بولیوین آرمی کو شدید نقصان پہنچایا۔ جو بعد میں اس کی موت کا اصل سبب بنا۔ کیونکہ اس نے انھیں کافی زک پہنچائی تھی۔
مگریہاں وہ جو پلان لے کر پہنچا تھا، ان میں کئی باتیں اس کی توقعات کی برخلاف تھیں، ان میں سے ایک عوامی سپورٹ کی توقع تھی، جو کانگو کی طرح یہاں بھی نہ ہونے کے برابر تھی، بلکہ یہاں تو عوام میں سے ہی اکثر حکومت کے مخبر تھے، دوسرے اسے یہ توقع تھی کہ صرف بولیوین آرمی سے مقابلہ ہے، مگر یہاں آکے اسے پتہ چلا کہ امریکا یہاں بھی پوری طرح موجود ہے اور اسے بولیوین آرمی کے ساتھ ساتھ امریکن کمانڈوز کا بھی مقابلہ کرنا ہوگا، اس کے علاوہ سب سے بڑا دھچکا اسے یہ پہنچا کہ کیوبا کے ساتھ اس کا ریڈیو رابطہ منقطع ہو گیا اور یوں مزید سپورٹ کی توقع بھی نہیں رہی تھی۔
گرفتاری اورموت
[ترمیم]7 اکتوبر، 1967ء کی صبح ایک مقامی مخبر نے قریبی فوجی اڈے پر چی اور اس کے ساتھیوں کے ٹھکانے کی اطلاع دی، جس پر فوج حرکت میں آگئی،امریکن سی آئی اے جو کانگو سے اس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑی تھی،اس آپریشن میں بولیوین افواج کی بھرپور مدد کر رہی تھی۔ پھر پلان بنا کر چی اور اس کے ساتھیوں کے گرد پہاڑیوں میں گھیرا تنگ کیا گیا۔
تقریباً 1800 فوجیوں نے اس مشن میں حصہ لیا۔ سی آئی اے انھیں گائیڈ کر رہی تھی، چی اور اس کے ساتھیوں نے اگرچہ مقابلہ کیا، مگر وہ مٹھی بھر تھے، جلد ہی مارے گئے، چی زخمی ہوا اور گرفتار کر لیا گیا۔ پھر اسے پوچھ تاچھ کے لیے نامعلوم مقام پر منتقل کر لیا گیا۔
جہاں اگلے روز شام تک اس پر کئی بار کوشش کی گئی، تاکہ وہ منہ کھول دے، مگر بقول ایک فوجی کے زخمی ہونے کے باوجود چی بالکل مطمئن بیٹھا ہواتھا اور کسی گھبراہٹ کے بغیر سب سے آنکھیں ملاکر انھیں گھور رہا تھا۔
اس کی آنکھوں میں ایسی رعب اور چمک تھی کہ ہم میں سے کوئی بھی اس سے صحیح نظر نہیں ملا پا رہا تھا۔ آفیسر آجا رہے تھے اور اس سے پوچھ تاچھ کر رہے تھے، مگر وہ کسی سوال کا جواب نہیں دے رہا تھا۔ البتہ اس نے اپنے لیے تمباکو ضرور طلب کیا، جو میں نے اسے فراہم کیا، اس پر وہ کافی خوش ہوا اور میرا شکریہ بھی ادا کیا۔
پھر جب دو دن تک اس پر مغز ماری کرنے سے بھی کچھ حاصل نہ ہوا، تو اس کی رپورٹ صدر کو دے دی گئی، جس نے کسی ممکنہ پریشر سے بچنے کے لیے اس کی فوری موت کا حکم صادر کر دیا۔ سی آئی اے چاہ رہی تھی کہ اسے پانامہ منتقل کیا جائے، تاکہ وہاں ان کی اسپیشل ٹیم اس سے مزید تفتیش کرے، مگر صدر کو ڈر تھا کہ اگر وہ فرار ہو گیا تو شاید پھر ہاتھ نہ آئے اور اس کی حکومت پھر خطرہ میں پڑ سکتی ہے، لہذا اس نے اپنا حکم برقرار رکھا۔
آرڈر کی تکمیل کی گئی اور اسی شام اسے ایک شرابی جلاد کے حوالے کیا گیا، جو جنگ میں اپنے تین ساتھی کھوچکا تھا اور چی کو ان کی موت کا ذمہ دار سمجھ رہا تھا۔ جب وہ چی کے سامنے پہنچا تو چی نے اسے اکسایا، وہ ایک آسان موت کی توقع کر رہا تھا، مگر شرابی جلاد نے پلان کے مطابق آڑی ترچھی 9گولیاں برسائیں اور اسے بڑی اذیت ناک موت سے دوچار کیا۔
ان کا منصوبہ یہ تھا کہ چی کو واپس اسی مقام پر پھینک کر بعد میں اعلان کیا جائے کہ وہ مقابلے میں مارا گیا، تاکہ اس طرح ٹرائل نہ کرنے کے الزام سے بچا جاسکے۔
شہرت
[ترمیم]چی گویرا کو مرے کئی دہائیاں گذر چکی ہیں مگر وہ ابھی تک لوگوں کے دلوں میں اپنے اصول، قابلیت، سرمایہ درانہ نظام کے خلاف بغاوت اور انقلابی سوچ کی وجہ سے گھر کیے ہوئے ہے۔ اس کی مشہور تصویر جو 1960ء میں کھینچی گئی ہے، غالباً دنیا میں سب سے زیادہ پرنٹ ہونے والی تصویر ہے، جو تقریباً ہر جگہ دکھائی دیتی ہے، خصوصاً ان ممالک میں جہاں انقلابی تحریکیں چل رہی ہیں۔
ایک غلط فہمی جو اس سلسلے میں پیدا ہوتی ہے، وہ یہ کہ چی ہر باغی کا ہیرو ہے، جیسا کہ پچھلے برسوں جنوبی سوڈان میں دیکھا گیا تھا، جہاں علیحدگی پسند اس کی تصاویر کے ساتھ نظر آتے تھے، یہ بات قابل غور ہے کہ علیحدگی پسند ،ملک کا بٹوارہ کرتے ہیں اور انقلابی اپنے ملک سے نااہل حکمران کو ہٹنے کی تحریک چلاتے ہیں، اورچی کی زندگی کا محور یہی تحریکیں رہی ہیں۔
اس کی شخصیت آج بھی کیوبا میں ایک نیشنل ہیرو کی طرح ہی ہے، اگرچہ وہ وہاں کا باشندہ نہیں اور اپنے ملک ارجنٹائن میں بھی وہ کسی ہیرو کی طرح پڑھایا اور یاد کیا جاتا ہے۔
تصانیف
[ترمیم]دو کتابیں۔ گوریلا جنگ اور بولیویا کی ڈائری تصنیف کیں۔
حوالہ جات
[ترمیم]- ^ ا ب عنوان : Che Guevara — جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/118543369 — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اپریل 2014 — اجازت نامہ: CC0
- ^ ا ب مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb11886483d — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ^ ا ب Ernesto Che Guevara
- ^ ا ب ایس این اے سی آرک آئی ڈی: https://snaccooperative.org/ark:/99166/w6w95w2j — بنام: Che Guevara — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ^ ا ب فائنڈ اے گریو میموریل شناخت کنندہ: https://www.findagrave.com/memorial/4312 — بنام: Che Guevara — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ بنام: Ernesto Ché Guevara — فلم پورٹل آئی ڈی: https://www.filmportal.de/891cd03bfd8e45239f0d7468496bd40a — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ^ ا ب Brockhaus Enzyklopädie online ID: https://brockhaus.de/ecs/enzy/article/guevara-serna-ernesto-che — بنام: Ernesto (Che) Guevara Serna — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ^ ا ب اثر پرسن آئی ڈی: https://www.digitalarchivioricordi.com/it/people/display/12797 — اخذ شدہ بتاریخ: 3 دسمبر 2020
- ↑ ISBN 978-85-7979-060-7 — دائرۃ المعارف اطالوی ثقافت آئی ڈی: https://enciclopedia.itaucultural.org.br/pessoa486815/che-guevara — بنام: Che Guevara — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ https://www.infobae.com/historias/2022/10/09/los-ultimos-dias-y-la-muerte-del-che-guevara-los-partes-de-guerra-bolivianos-y-el-unico-relato-de-su-ejecutor/
- ↑ https://elhistoriador.com.ar/el-asesinato-de-ernesto-che-guevara/
- ↑ ISBN 978-84-339-2572-5
- ↑ عنوان : Te odio — صفحہ: 11 — ISBN 978-950-556-730-0
- ^ ا ب http://agenciacta.org/spip.php?article23907
- ↑ ربط: https://d-nb.info/gnd/118543369 — اخذ شدہ بتاریخ: 24 جون 2015 — اجازت نامہ: CC0
- ↑ https://cs.isabart.org/person/78955 — اخذ شدہ بتاریخ: 1 اپریل 2021
- ↑ http://www.nytimes.com/2006/12/08/world/americas/08iht-journal.3830083.html
- ↑ مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb11886483d — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ↑ کونر آئی ڈی: https://plus.cobiss.net/cobiss/si/sl/conor/10880611
- ↑ https://www.meer.com/en/40682-guevara-and-marx
- ↑ https://www.historyextra.com/period/20th-century/che-guevara-face-of-the-revolution/
- ↑ https://www.brown.edu/research/projects/tracing-cuba-us-connections/news/2017/05/la-lenin-transnational
- ↑ عنوان : Caravelle: cahiers du monde hispanique et luso-bresilien — شمارہ: 98/2012
بیرونی روابط
[ترمیم]- ایک چھلاوے کی یاد میں’’ وسعت اللہ خان کا مضمون‘‘
- چے گویرا کے راستوں پر ایک بار پھر
- چی گویرا کا پورٹریٹآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ bbc.co.uk (Error: unknown archive URL)
- 1928ء کی پیدائشیں
- 14 جون کی پیدائشیں
- 1967ء کی وفیات
- 9 اکتوبر کی وفیات
- آزادی کی قومی تحریکیں
- ارجنٹائنی اشتراکیت پسند
- ارجنٹائنی انقلابی
- ارجنٹائنی اطباء
- ارجنٹائنی حامی حقوق نسواں
- ارجنٹائنی رگبی یونین کھلاڑی
- ارجنٹائنی سفارتکار
- ارجنٹائنی سیاستدان
- ارجنٹائنی سیاسی مصنفین
- ارجنٹائنی شخصیات
- ارجنٹائنی غیر افسانوی مصنفین
- ارجنٹائنی فعالیت پسند
- ارجنٹائنی کمیونسٹ
- ارجنٹائنی مضمون نگار
- ارجنٹائنی معلمین
- ارجنٹائنی ملحدین
- اشتراکیت پسند
- انقلابی
- انقلابی لیڈر
- بولیویا میں آتشیں اسلحہ سے اموات
- بیسویں صدی کے شعرا
- بیسویں صدی کے کیوبا شعرا
- بیسویں صدی کے مضمون نگار
- ضد سامراجیت
- کمیونسٹ لیڈر
- کیوبا کے وزرائے خزانہ
- کیوبائی ملحدین
- گوریلا جنگ نظریہ ساز
- لوک مقدسین
- مارکسی انسان دوست
- مارکسی نظریہ ساز
- ارجنٹائنی قوم پرست
- بیسویں صدی کے روزنامچہ نویس
- امریکیت مخالف
- سرد جنگ کی شخصیات
- ارجنٹائین رگبی یونین کھلاڑی