بخشی وزیر
بخشی وزیر (انگریزی: Bakhshi Wazir) ( وفات: 11 جنوری 1997ء) پاکستان دو میوزک کے نامور فلمی موسیقار تھے۔ زیادہ تر پنجابی فلموں میں۔ ان کی پہلی فلم 1961 میں بیخبار تھی۔ انھوں نے 66 فلموں اور 300 سے زیادہ گانوں میں موسیقی بنائی۔ ان کے کچھ سپر ہٹ گانا ذیل میں ہیں۔ پاکستان کی فلمی تاریخ میں بڑے اعلیٰ پائے کے فنکار رہے ہیں جنھوں نے اپنے اپنے دور میں اپنے فن پاروں سے فلم بینوں کے ذہنوں پر بڑے گہرے نقوش مرتب کیے تھے ، ان میں ایک نام موسیقاروں کی جوڑی بخشی وزیر کا بھی تھا۔ ملکہ ترنم نورجہاں کی امر آواز میں "جدوں ہولی جئی لینا میراں ناں ، میں تھاں مر جانی آں۔۔" جیسا شاہکار گیت ہی بخشی وزیر صاحبان کے تعارف کے لیے کافی ہے۔ بخشی وزیر کی پہلی فلم بے خبر (1961) تھی۔ اعدادوشمار کے مطابق انھوں نے 66 فلموں کی موسیقی ترتیب دی تھی جن میں اندازہً ساڑھے چار سو کے قریب گیت ان کے کریڈٹ پر ہیں۔ ان کے زیادہ تر گیت پنجابی فلموں میں تھے جہاں عام طور پر نسوانی آوازوں میں گیت زیادہ پسند کیے جاتے تھے۔ فلم بینوں کی اکثریت ناچتی گاتی عورت کو دیکھنے کے لیے ہی سینما گھروں کا رخ کرتی تھی اور اسی لیے مردانہ گیتوں کی گنجائش کم ہی ہوتی تھی۔
دیگر پنجابی فلمی موسیقاروں کی طرح بخشی وزیر نے بھی مردانہ گیتوں کی مد میں زیادہ تر گیت مسعودرانا ہی سے گوائے تھے جن کی تعداد 25 فلموں میں 42 گیت ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کے دیگر پانچ بڑے فلمی گلوکاروں ، یعنی عنایت حسین بھٹی ، سلیم رضا ، منیر حسین ، مہدی حسن اور احمد رشدی کے گائے ہوئے پنجابی گیتوں کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ گیت اکیلے مسعودرانا سے گوائے تھے۔ یہ بالکل وہی اعدادوشمار ہیں جو جملہ پنجابی مردانہ فلمی گیتوں کے ہیں جہاں مسعودرانا کے پنجابی گیتوں کی تعداد مندرجہ بالا گلوکاروں کے گائے ہوئے پنجابی گیتوں کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ ہے۔
بخشی وزیر کا مسعودرانا کے ساتھ پہلا ساتھ فلم فیشن (1965) میں ہوا تھا۔ اس فلم میں انھوں نے ایک تھیم سانگ "دنیا والے دیکھ ذرا ، اس دنیا کی تصویر۔۔" کو دو مختلف گیتوں کی صورت میں ریکارڈ کروایا تھا۔ دونوں گیتوں کی دھنیں اور استھائیاں ایک جیسی تھیں لیکن انترے اور فلمبندی مختلف تھی۔ اس فلم میں ان کا ایک دوگانا جو احمد رشدی اور نسیم بیگم نے گایا تھا "اپنے وعدوں کو بھلا دو ، کہیں ایسا تو نہیں۔۔" مقبول ہوا تھا۔
فلم ہیر سیال (1965) نغمات کے لحاظ سے بخشی وزیر کی ایک بہت اچھی فلم تھی لیکن فلم کی ناکامی نے اس کی جملہ خوبیوں پر پانی پھیر دیا تھا۔ یہ فلم 3 ستمبر 1965ء کو ریلیز ہوئی تھی جب کشمیر کے محاذ پر گھمسان کی جنگ ہو رہی تھی اور چند دنوں بعد بھارت نے لاہور پر حملہ کر دیا تھا جس کی وجہ سے تمام تر فلمی سرگرمیاں اور کاروبار معطل ہو کر رہ گیا تھا۔ بخشی وزیر نے پہلی بار خانصاحب مہدی حسن کو کسی پنجابی فلم میں متعارف کروایا تھا اور ان سے دو گیت گوائے تھے جن میں سے ایک ٹائٹل اور تھیم سانگ بھی تھا۔ اس فلم میں نسیم بیگم کے علاوہ مظفر نامی گلوکار کی کارکردگی بڑی قابل تعریف تھی لیکن ان سب پر بھاری مسعودرانا کے دو گیت تھے۔ ان میں سے ایک گیت "سوہنیا ربا ، سب دیا ربا ، سن ساڈی فریاد ، ساڈا پیار ہویا برباد۔۔" ایک مثالی گیت تھا لیکن جس گیت کے سحر سے میں آج تک آزاد نہیں ہو سکا ، وہ ایک لاجواب دھن میں گائیکی کا ایک شاہکار تھا جو مسعودرانا کی فنی عظمت کا ایک قابل فخر نمونہ بھی تھا۔ تنویر نقوی صاحب کا لکھا ہوا یہ گیت تھا جس کے مکمل بول لکھے بغیر بات آگے نہیں بڑھ سکتی۔۔ لوکو ، ایویں نئیں جے یار دا نظارا لبھدا دھکے در در کھا کے ، تن خاک رلا کے ، فیر جا کے دلدار دا دوارا لبھدا یار دی جدائی لوکو سولی توں وی اوکھی اے ، ایس گجھے روگ نالوں موت ڈاہڈی سوکھی اے ویلا او وی جے آندا ، بندہ رونا جدوں چاہندا ، فیر اتھرو وی کدوں نئیں ادھارا لبھدا عشق دی ندی وچ اوس نے کی ترنا ، مرنے توں پہلاں جنوں آندا نئیں اوں مرنا مٹھا عشق والا زہر ، ایدی بڑی ڈونگی لہر ، بنا ڈبیاں نئیں ایس دا کنارا لبھدا لوکو ، ایوں نئیں جے یار دا نظارا لبھدا فلم چغل خور (1966) میں بخشی وزیر نے مسعودرانا سے ایک اور سپر ہٹ گیت گوایا تھا "مکھ تیرا ویکھیا ، ضرور تھوڑا جیا نی۔۔" یہ گیت اکمل خان پر فلمایا گیا تھا جو ان دنوں بے حد مقبول پنجابی فلمی ہیرو تھے لیکن اس گیت کی فلمبندی پر ان کی کارکردگی انتہائی مایوس کن تھی۔ یہ گیت کہیں بہتر اندازہ میں فلمایا جا سکتا تھا۔ اس فلم میں آئرین پروین کے ایک انتہائی دل گداز گیت کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے جو اداکارہ صبا پر فلمایا گیا تھا "اسیں پچھلی رات دے تارے تے ساڈے نال پیار نہ کریں۔ حزیں قادری نے کیا خوب بول لکھے تھے اور دھن اور گائیکی بھی زبردست تھی۔
بخشی وزیر کی فلم نظام لوہار (1966) بھی ایک میعاری فلم تھی جس میں علاؤالدین اور یاسمین کی پرفارمنس لاجواب تھی۔ اس فلم کا سب سے سپر ہٹ گیت بھی مسعودرانا کا گایا ہوا تھا "پیار کسے نال پاویں نہ ، کئی روپاں وچ پھرن بہروپی ، روپ دا دھوکا کھاویں نہ۔۔" یہ گیت فلم کے مصنف ریاض شاہد پر فلمایا گیا تھا جو فلم کی ہیروئن نیلو کے شوہر اور اداکار شان کے والد تھے۔ اسی فلم میں مالا کا گایا ہوا یہ گیت بھی بڑے کمال کا تھا "پیار وی جھوٹھا ، یار وی جھوٹھا ، جھوٹھے تسی وی لوکو۔۔" بخشی وزیر کو پاکستان کی پہلی رنگین فلم پنج دریا (1968) کی موسیقی ترتیب دینے کا ناقابل شکست اعزاز بھی حاصل ہوا تھا۔ یہ اداکار اکمل کی اکلوتی رنگین فلم تھی جو ان کے انتقال کے بعد ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم کا حاصل ملکہ ترنم نورجہاں کا گایا ہوا یہ سپر ہٹ گیت تھا "میرے سجرے ، پھلاں دے گجرے ، کنڈیاں دے وس پے گئے۔۔" فلم پنڈ دی کڑی (1968) میں آئرین پروین اور نذیر بیگم کا یہ خوبصورت گیت بھی بخشی وزیر کا کمال تھا "آج پنڈ دی کڑی راہواں بھل گئی اے۔۔" فلم غیرت مند (1969) اکمل کی موت کے دو سال بعد ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم میں خاص طور پر یہ گیت "سن چنا ستویں دیا ، میرے ویر نوں نظر نہ لاویں۔۔" بہن اور بھائی کی محبت کے موضوع پر گایا ہوا ایک لاجواب گیت تھا جسے مسعودرانا کے ساتھ آئرین پروین نے گایا تھا۔ فلم محرم دل دا (1970) میں بخشی وزیر نے میڈم نورجہاں سے ایک اور سپر ہٹ گیت گوایا تھا "کنوں حال سناواں دل دا ، کوئی محرم راز نئیں ملدا۔
بخشی وزیر کے فلمی کیرئر کی سب سے بڑی فلم ات خدا دا ویر ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم میں میڈم نورجہاں کے گیت "جدوں ہولی جئی لیناں میرا ناں۔۔"نے مقبولیت کے نئے ریکارڈز قائم کیے تھے۔ یہ گیت جب بھی سنیں ، تازہ دم لگتا ہے اور بار بار سننے کو جی چاہتا ہے۔ اس گیت کی دھن ، بول اور فلمبندی ، سب ٹاپ کلاس تھے۔ اس فلم میں میڈم کے دو اور گیت بھی بڑے مقبول ہوئے تھے "ماہی میریا روند نہ ماریں ، میں داہ لایا جند جان دا۔۔" اور "گندلاں دا ساگ تے مکھناں مکئی۔ گیت نگار تنویر نقوی کے لکھے ہوئے دیگر گیت بھی پسند کیے گئے تھے جن میں سے تین مسعودرانا کے گائے ہوئے تھے۔ ان میں سے پہلا ایک دوگانا تھا جو رونالیلیٰ کے ساتھ تھا "دو جوانیاں ، ملیاں تے پیاں پکاراں پیار دیاں۔۔" جبکہ دوسرا گیت ایک المیہ گیت تھا جو دو مزاحیہ اداکاروں منور ظریف اور رضیہ پر فلمایا گیا تھا اور جس میں ساتھی گلوکارہ آئرن پروین تھی "نی موتے دیر نہ لاویں۔۔" ان کے علاوہ مسعودرانا کا ایک سولو گیت تھا "سونہہ تیری روپ تیرا چن دا دیدار اے۔۔" دلچسپ بات یہ ہے کہ میرے پاس اس گیت کا جو ریکارڈنگ ورژن ہے ، اس میں لفظ "چن" کی جگہ "رب" گایا گیا تھا جو یقیناً قابل اعتراض تھا۔
فلم جٹ دا قول (1971) میں بخشی وزیر نے پہلی بار ایک ہی گیت کو میڈم نورجہاں اور مسعودرانا سے الگ الگ گوایا تھا "نی جان والئے ، تینوں میں سنائی نئیں دل والی گل نی۔۔" اس سے اگلے سال بخشی وزیر کو پاکستان کی پہلی ڈائمنڈ جوبلی پنجابی فلم ظلم دا بدلہ (1972) کی موسیقی ترتیب دینے کا ایک اور اعزاز حاصل ہوا تھا۔ اس فلم کی موسیقی کوئی خاص نہیں تھی لیکن کامیابی کی بڑی وجہ ولن اداکار جگی ملک کے دونوں بازو ایک ٹوکے سے کاٹے جاتے ہیں جو فلم بینوں کے لیے سنسنی خیز مناظر تھے ورنہ بھٹی برادران کی سابقہ فلمیں اور اس سال ریلیز ہونے والی متعدد دوسری فلمیں اس فلم سے بدرجہا بہتر تھیں۔
1972ء میں بخشی وزیر صاحبان نے فلم میں اکیلا کی موسیقی ترتیب دی تھی۔ اس فلم کا تھیم سانگ "منزل ہے ، نہ ہمدم ہے۔ مسعودرانا کی آواز میں ایک سپر ہٹ گیت تھا۔ مجھے اس فلم میں اس قوالی سے زیادہ دلچسپی تھی جو اصل میں ایک مشہورزمانہ دھمال "لال میری پت رکھیو بلا جھولے لالن۔۔" کا قوالی ورژن تھا اور کیا خوب تھا۔ مسعودرانا کے ساتھ اس قوالی میں دوسرے بڑے گلوکار عنایت حسین بھٹی تھے جن کی کارکردگی انتہائی قابل تعریف تھی۔ عام طور پر بھٹی صاحب کو اردو فلمی گائیکی کے لیے موزوں نہیں سمجھا جاتا تھا لیکن اس گیت نے ثابت کر دیا تھا کہ وہ اردو گیت بھی گا سکتے تھے۔ یہ قوالی فلم میں خود بخشی وزیر صاحبان پر فلمائی گئی تھی جو سلور سکرین پر آنے کا ان کا واحد موقع تھا۔
بخشی وزیر نے فلم شرابی میں غلام علی اور صبیحہ خانم سے یہ رومانٹک گیت الگ الگ گوایا تھا "سوہنیے نی ، مکھ تیرا سجری سویر اے۔۔" اس پنجابی فلم کا ٹائٹل رول سنتوش کمار نے کیا تھا۔ اسی سال کی ایک بہت بڑی فلم بنارسی ٹھگ (1973) میں بخشی وزیر کا میڈم نورجہاںکی آواز میں یہ گیت گلی گلی گونجا تھا "اکھ لڑی بدوبدی ، موقع ملے کدی کدی۔۔" اسی فلم میں مسعودرانا کا گایا ہوا یہ گیت بھی سپر ہٹ ہوا تھا "نشیاں نے ساڑیا ، حلیہ وگاڑیا۔۔" اس فلم کے ٹائٹل رول منور ظریف اور الیاس کاشمیری نے کیے تھے اور ممتاز اور سلطان راہی کی طرح مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچ گئے تھے جبکہ فردوس بیگم اور اعجاز درانی کی لی جنڈ جوڑی زوال پزیر تھی جن کی یہ آخری بڑی فلم تھی۔ بخشی وزیر اور مسعودرانا کی آخری قابل ذکر فلم میرا نام راجا (1978) تھی۔ یہ حبیب صاحب کی ذاتی فلم تھی جس کے ہیرو بھی وہ خود تھے۔ اس وقت تک ان کا ہیرو شپ کا دور گذر چکا تھا اور اس فلم میں انھوں نے جی بھر کر اوور ایکٹنگ کی تھی۔ اس فلم کا یہ گیت میرے پسندیدہ ترین گیتوں میں سے ایک ہے جسے اکثر گنگناتا رہتا ہوں:
جان جائے کہ رہے ، ہم تو تجھے چاہیں گے ، نام لیتے ہوئے اک دن تیرا مر جائیں گے۔۔!
وفات
[ترمیم]بخشی وزیر 11 جنوری، 1997ء کو 58 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔