لاہور میں مسلمانوں کا ابتدائی دور

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

لاہور کے ابتدائی مسلم دور سے مراد لاہور کی تاریخ میں مسلم حکمرانی کا آغاز ہے۔ گیارھویں صدی میں غزنی کے سلطان محمود نے ایک طویل محاصرے اور جنگ کے بعد لاہور پر قبضہ لکیا اور شہر کو نئے سرے سے آبادگیا۔ 1021ء میں، سلطان محمود نے ملک ایاز کو تخت پر مقرر کیا اور لاہور کو غزنوی سلطنت کا دار الحکومت بنایا۔ لاہور کے پہلے مسلمان گورنر کے طور پر، ایاز نے شہر کو دوبارہ تعمیر اور آباد کیا۔ موجودہ لاہور کا قلعہ اسی مقام پر کھڑا ہے۔ ایاز کے دور حکومت میں یہ شہر ایک ثقافتی اور علمی مرکز بن گیا، جو شاعری کے لیے مشہور تھا۔ [1] شہر کے تجارتی علاقے رنگ محل میں ملک ایاز کی قبر موجود ہے۔ [2]

غزنوی سلطنت کے زوال کے بعد، لاہور پر مختلف مسلم خاندانوں کی حکومتیں تھی جنھیں دہلی سلطنت کے نام سے جانا جاتا تھا، جن میں خلجی، تغلق، سید، لودھی اور سوری شامل تھے۔ جب 1206ء میں یہاں سلطان قطب الدین ایبک کی تاج پوشی ہوئی تو وہ جنوبی ایشیا کے پہلے مسلمان سلطان بنے۔ [3]

سلطنت کا زوال[ترمیم]

انارکلی بازار، لاہور، پاکستان میں قطب الدین ایبک کا مقبرہ۔

لودھی کے آخری حکمران ابراہیم لودھی کو اس کے درباری اور رعایا بہت ناپسند کرتے تھے۔ اپنے والد سکندر لودھی کی وفات کے بعد، اس نے اپنے چند رئیسوں کی قیادت میں ایک مختصر بغاوت کو ختم کر دیا جو اپنے چھوٹے بھائی جلال خان کو سلطان بنانا چاہتے تھے۔ جلال خان کو قتل کروا کر تخت پر قبضہ کرنے کے بعد، وہ اپنے رئیسوں کو مطمئن کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ اس کے بعد پنجاب کے گورنر دولت خان اور اس کے چچا عالم خان نے کابل کے حکمران بابر کو دہلی پر حملہ کرنے کی دعوت بھیجی۔

1241ء میں، قدیم شہر لاہور کو منگولوں نے فتح کیا، شہر کی پوری آبادی کا قتل عام کیا گیا اور شہر کو زمین بوس کر دیا گیا۔ لاہور میں ایسی کوئی عمارت یا یادگار نہیں بچی جو منگولوں نے تباہ نہ کی ہو۔ [4]

پانی پت کی پہلی جنگ (اپریل 1526ء) بابر کی افواج اور دہلی سلطنت کے درمیان لڑی گئی۔ [5]ابراہیم لودھی میدان جنگ میں مارے گئے۔ اعلیٰ جنگی حکمت عملی، جنگ کے وسیع تجربے، موثر حکمت عملی اور توپ خانے کے مناسب استعمال کی بدولت بابر نے پانی پت کی پہلی جنگ جیت لی اور اس کے بعد آگرہ اور دہلی پر قبضہ کر لیا۔ ننئے مغل خاندان نے ہندوستان پر مزید 300 سال حکومت کی۔[5]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ".GC University Lahore"۔ Gcu.edu.pk۔ 28 اکتوبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اکتوبر 2012 
  2. James L. Wescoat، Joachim Wolschke-Bulmahn، Dumbarton Oaks، Arthur M. Sackler Gallery۔ Early Mughal Lahore۔ Smithsonian Institution page 149۔ 04 جولا‎ئی 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اکتوبر 2012 
  3. Frances Pritchett۔ "index_1200_1299"۔ Columbia.edu۔ 14 نومبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اکتوبر 2012 
  4. The Dancing Girl: A History of Early India۔ 02 اکتوبر 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اکتوبر 2012گوگل بکس سے 
  5. ^ ا ب South Asia: An Environmental History - Christopher V. Hill - Google Books۔ 29 جولا‎ئی 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اکتوبر 2012گوگل بکس سے