محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم، امارت شرعیہ
برسر منصب
2003ء تاحال
پیشرونسیم احمد قاسمی
ایڈیٹر ہفتہ وار نقیب، امارت شرعیہ
برسر منصب
2015ء تاحال
پیشروعبد الرافع
ذاتی
پیدائش (1958-11-17) 17 نومبر 1958 (عمر 65 برس)
حسن پور، گنگھٹی ویشالی، بہار، بھارت
مذہباسلام
قومیتہندوستانی
والدین
  • محمد نور الہدیٰ (والد)
مدرسہمدرسہ احمدیہ ابا بکر پور
دارالعلوم مئو
مفتاح العلوم مئو
دار العلوم دیوبند
بنیادی دلچسپیاردو ادب حدیث ، فقہ
قابل ذکر کامشرح آثار السنن دو جلدوں میں،ساڑھے چار درجن سے زائد کتابوں کے مصنف، معہد العلوم الاسلامیہ کے بانی وغیرہ
اساتذہمحمد طیب قاسمی
نصیر احمد خان بلند شہری
وحید الزماں کیرانوی
سعید احمد پالنپوری

محمد ثناء الہدیٰ قاسمی (پیدائش: 1958ء) ایک ہندوستانی دیوبندی عالم دین، فقیہ، قلم کار، محقق، مدرس، ناقد، خطیب، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن تاسیسی، آل انڈیا ملی کونسل نئی دہلی کے رکن، امارت شرعیہ کے ترجمان ہفت روزہ نقیب کے مدیر اعلی اور وفاق المدارس الاسلامیہ بہار کے ناظم ہیں۔

ابتدائی و تعلیمی زندگی[ترمیم]

ان کی ولادت 17 نومبر 1958ء ( بہ مطابق 5 جمادی الاولی 1378ھ) بہ روز پیر حسن پور گنگھٹی ضلع ویشالی میں محمد نور الہدیٰ کے یہاں ہوئی۔ [1][2]

ان کی پھوپھی راشدہ خاتون نے بعمر پانچ سال رسم بسم اللّٰہ ادا کرائی، ناظرہ قرآن، اردو کی ابتدائی تعلیم، انگریزی کی پہلی کنگ ریڈر، پہاڑہ اور جوڑ گھٹاؤ سب کی تعلیم پھوپھو کے پاس ہی ہوئی، بچپن ان ہی کے زیر تربیت گذرا، گھر کا ماحول علمی تھا، اسی لیے ابتدا ہی سے دین و ادب کا چسکا لگ گیا۔ [3]

گھریلو تعلیم کے بعد 1966ء میں بکساما مڈل اسکول میں درجہ سوم میں داخلہ کرایا گیا، یہاں انھوں نے پانچویں درجے تک تعلیم پائی، اسکول کے اساتذہ میں جگ لال جی اور ماسٹر ہارون قابل ذکر ہیں۔ [4]

1970ء میں مدرسہ احمدیہ ابابکر پور ویشالی میں درجۂ حفظ میں داخل ہوئے، قاری عتیق الرحمان کے پاس حفظ شروع کیا، ایک سال بعد مدرسہ احمدیہ چھوڑ کر گاؤں کے مکتب مدرسہ ملیہ میں پڑھنا شروع کیا، 1972ء میں دار العلوم مئو میں داخلہ کرایا گیا، اسی سال حفظ کی تکمیل ہوئی۔

فارسی اور عربی اول و دوم کی کتابیں دار العلوم مئو میں پڑھیں، پھر عربی سوم میں مفتاح العلوم مئو میں داخلہ لیا۔ اس وقت وہاں شیخ القراء قاری ریاست علی، مولانا عبد اللطیف نعمانی اور ابو المآثر حبیب الرحمن اعظمی جیسے اکابر علما موجود تھے۔ اگلے سال دوبارہ دار العلوم مئو میں داخلہ لیا اور عربی چہارم پڑھا۔[5]

1978ء میں دار العلوم دیوبند کے لیے رخت سفر باندھا، پنجم عربی میں داخلہ لیا، دار العلوم دیوبند میں ان کی شخصیت و صلاحیت کو چار چاند لگ گئے، دیوبند کی علمی و ادبی فضا سے خوب استفادہ کیا، تحریر و تقریر میں جلا پیدا ہوئی،[6][حوالہ درکار] جمعیۃ الطلباء کے سکریٹری بنے، سجاد لائبریری کے لیے زمین خریدنے میں انھوں نے اہم رول ادا کیا، انقلاب کے زمانے میں یہ وہاں کے طالب علم تھے، انھوں نے ان احوال کو ذاتی ڈائری میں لکھا، جو ترجمان دیوبند کے خاص نمبر "مولانا وحید الزماں کیرانوی نمبر" کی زینت بنی، 1982ء میں دار العلوم دیوبند سے فراغت ہوئی، 1983ء میں دار العلوم ہی سے افتاء کیا، محمود حسن گنگوہی، نظام الدین اعظمی اور ظفیر الدین مفتاحی، کی زیر نگرانی فقہ و فتاویٰ میں دسترس حاصل کی۔ [4]

ان کے اساتذۂ دار العلوم میں قاری محمد طیب قاسمی، وحید الزماں کیرانوی، نعیم احمد دیوبندی، انظر شاہ کشمیری، مولانا سالم قاسمی، سعید احمد پالنپوری، [7] عبد الخالق مدراسی، حسن باندوی، بدر الحسن قاسمی اور خالد بلیاوی بھی شامل ہیں۔[حوالہ درکار]

تدریسی و عملی زندگی[ترمیم]

فراغت کے بعد 1983ء میں دار العلوم بربٹہ سمستی پور میں درس و تدریس کی خدمت سپرد ہوئی، ایک سال بعد یکم مئی 1984ء میں مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور ویشالی میں سرکاری ملازم ہو گئے، اسی مدرسے میں 2003ء تک تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ [8]

سنہ 2003ء میں امیر شریعت سادس سید نظام الدین قاسمی کی ایماء پر امارت شرعیہ نائب ناظم کی حیثیت سے تشریف لائے،اور تا حال امارت شرعیہ کے نائب ناظم، وفاق المدارس الاسلامیہ کے ناظم اور ہفت روزہ نقیب کے مدیر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔[حوالہ درکار]

قلمی خدمات[ترمیم]

ان کی قلمی و ادبی خدمات کا دائرہ انتہائی وسیع ہے، چنانچہ بہار کے نامور ادیبوں نے ان پر خامہ فرسائی کی ہے، ادبی و قلمی خدمات کے اعتراف میں ان پر انجمن ترقی اردو ویشالی نے سیمینار بھی کرایا تھا۔ دار العلوم دیوبند کے دور طالب علمی میں ہی جداری پرچوں سے کتابی تصنیف تک کا سفر طے کیا، عربی ششم میں ان کی سب سے پہلی کتاب "فضلاء دار العلوم دیوبند اور ان کی قرآنی خدمات" منظر عام پر آگئی تھی، جس میں پیش لفظ ریاست علی ظفر بجنوری اور مقدمہ انظر شاہ کشمیری نے لکھا ہے۔ [9]

اس کے بعد پے بہ پے ساڑھے چار درجن سے زائد کتابیں مختلف موضوعات پر منظر عام پر آچکیں ہیں، جن میں سے چند اہم تصانیف درج ذیل ہیں.

  • تفہیم السنن شرحِ آثار السنن جلد اول (1996ء)
  • تفہیم السنن شرح آثار السنن جلد دوم (1998ء)
  • نئے مسائل کے شرعی احکام جلد اول(2014ء)
  • نئے مسائل کے شرعی احکام جلد دوم (2018ء)
  • مدارس اسلامیہ میں منصب تدریس (2014)
  • عصر حاضر میں مسلمانوں کا نظام تعلیم- تجزیہ مسائل و حل۔ ( 1992ء)
  • نامے مرے نام ( مجموعۂ خطوط) [2016ء]
  • تذکرہ مسلم مشاہیر ویشالی (2001ء)
  • فضلائے دار العلوم اور ان کی قرآنی خدمات ( 1980)
  • یادوں کے چراغ ( پانچ جلدیں )

حوالہ جات[ترمیم]

مآخذ[ترمیم]

  1. مشتاق احمد مشتاق۔ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی شخصیت اور خدمات (2005ء ایڈیشن)۔ حاجی پور: انجمن ترقی اردو،ویشالی۔۔ صفحہ: 31 
  2. عبد الحسیب قاسمی آفتاب غازی قاسمی (2011)۔ فضلائے دیوبند کی فقہی خدمات۔ دیوبند: کتب خانہ نعیمیہ۔ صفحہ: 415–416 
  3. مشتاق 2005, pp. 31، 42.
  4. ^ ا ب مشتاق 2005, p. 55.
  5. مشتاق 2005, p. 62.
  6. محمد عارف اقبال دربھنگوی (جون 2014ء)۔ باتیں میر کارواں کی (دوسرا ایڈیشن)۔ دہلی: ایفا پبلیکیشنز۔ صفحہ: 716–721 
  7. راحت حسین حسین۔ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی اور ان کی ادبی خدمات (2020ء ایڈیشن)۔ پٹنہ: ارم پبلشنگ ہاؤس، دریا پور، ۔۔ صفحہ: 30/40 
  8. غالب شمس قاسمی (9جنوری 2024)۔ "مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ۔زندگی کا سفر"