آخز
| ||||
---|---|---|---|---|
شاہ یہوداہ | ||||
دور حکومت | 732 – 716 ق م | |||
معلومات شخصیت | ||||
تاریخ پیدائش | سنہ 763 ق مء | |||
تاریخ وفات | سنہ 727 ق مء | |||
شہریت | مملکت یہودہ | |||
اولاد | حزقیا | |||
والد | یوثام ملک یہوداہ [1] | |||
دیگر معلومات | ||||
پیشہ | شاہی حکمران | |||
درستی - ترمیم |
آخز (726-762 ق م) سلطنت یہوداہ کا گیارھواں بادشاہ صرف بیس برس کی عمر میں (442 ق م) تخت نشین ہوا اس وقت اسرائیل میں فقح کی حکومت تھی۔ جو (759و ق م) میں تخت نشین ہوا۔
یاد رہے کہ موسیٰ کے بعد بنی اسرائیل فلسطین میں داخل ہو گئے تو داخلی انتشار اور پھوٹ کا شکار ہو گئے۔ قبائلی عصبیت کا عفریت غالب آگیا۔ اور وہ کوئی متحدہ ریاست قائم نہ کر سکے۔ سلیمان کے بعد تو ان پر دنیا پرستی کا غلبہ بہت زیادہ ہو اور یہ دو حصوں میں بٹ گئے۔ شمالی فلسطین اور شرق ارون میں اسرائیل کی سلطنت قائم ہو گئی۔ جس کا پایہ تخت ساسریہ تھا۔ جنوبی فلسطین اور ارام کا علاقہ سلطنت یہوداہ کہلایا جس کا پایہ تخت یروشلم تھا۔
آخز اسی سلطنت یہوداہ کا گیارھواں بادشاہ تھا۔ اس کا دور حکومت سب سے بڑا دور حکومت مانا جاتا ہے۔ تواریخ بائبل میں ڈاکٹر بلیکی لکھتے ہیں کہ اس کے دور میں اخلاقی تاریکی ایسی گہری ہو گئی تحی کہ اس سے قبل اس کی مثال ملنا مشکل ہو گی۔ بے دینی کے کام کھلم کھلا کیے جاتے۔ اس میں دیوتا بعل زبول (مکھیوں کے دیوتا) کے بت اونچے مقاموں پر اور ٹیلوں پر بنائے اور ہر درخت کے نیچے قربانی کی حتی کہ اپنے بیٹے کو وادی ہنون میں قربانی کے طور پر جلایا۔
اس کی سزا کے طور پر ڈاکٹر بلیکی رقمطراز ہیں کہ جلد ہی عذاب الہی نازل ہوا۔ اگرچہ اسرائیل کی سلطنت اس وقت آخری دموں پر تھی تاہم انھوں نے اپنی کمزوری کے باوجود بادشاہ آخز کو ایک جنگ میں عبرتناک شکست دی۔ان کے علاوہ آرامیوں نے بھی اسے تنگ کیا اور اگرچہ وہ یروشلم پر قابض نہ ہو سکے مگر آخز کو ایلات سے جو خلیج عقبہ پر واقع تھا نکال دیا اور یوں ہندوستان کی تجارت کے منافع سے محروم کر دیا۔ اسی طرح آرامی اور فلسطینی بھی اسے تنگ کرتے رہے۔
اس کے دور کے پیغمبر یسیعاہ تھے۔ ان کے منع کرنے کے باوجود اس نے آشوری بادشاہ تگلت پلاسر سے مدد مانگی اور اس نے جواب میں دمشق پر حملہ کے اسے برباد کر دیا۔ آخر وہ خود شاہ تگلت سے ملنے آیا لیکن اس نے تنگ کیا۔ اور کوئی کمک نہ دی۔ ان آفتوں نے اس کے دل کو اور بھی سخت کر دیا اور اگر وہ جلدی ہی چھتیس برس کی عمر میں فوت نہ ہو جاتا تو یہوداہ پر وہی تباہی آجاتی جو اسرائیل پر آئی تھی۔ لیکن اس کا بیٹاحزقیا ایک نیک سیرت شخص ثابت ہوا اور یہوداہ کی سلطنت کے لیے رحمت بن گیا۔[2]