اجوکا تھیٹر
The logo of Ajoka Theatre | |
غیر-منافع آرٹس تنظیم | |
صنعت | منورنجن |
نوع | اردو اور پنجابی ناٹک، سماجی کارگزاری، سٹریٹ تھئیٹر اور امن کے لیے تھئیٹر |
قیام | 14 مئی 1984 |
بانی | مدیحہ گوہر |
صدر دفتر | لاہور، پنجاب، پاکستان |
علاقہ خدمت | Worldwide |
کلیدی افراد | مدیحہ گوہر شاہد ندیم |
ویب سائٹ | ajoka |
اجوکا تھئیٹر مدیحہ گوہر اور شاہد ندیم کی طرف سے قائم کیا گیا ایک پاکستانی تھئیٹر گروپ ہے۔ یہ سماجی طور اور گمبھیر ناٹک کھیلتا ہے اور اسنے ایشیا اور یورپ میں فن مظاہرے کیے ہیں۔ 2006 میںاجوکا کی بانی مدیحہ گوہر کواجوکا میں اس کی خدمات کے لیے نیدرلینڈز کی طرف سے پرنس کلوس ایوارڈ سے نوازا گیا تھا[1][2][3]
اجوکا کی بنیاد
[ترمیم]اجوکا تھئیٹر جنرل محمد ضیاء الحق دی حکمرانی ماتحت جبر کے دور کے دوران تناؤ کی بلد ترین وقت، 1983 مین قائم کیا گیا تھا۔
کمرشل تھیٹر سے اختلاف رکھنے والے کچھ تھیٹر فنکاروں نے 1980ء کی دہائی میں ایک متوازی راستہ اختیار کیا۔ جن میں اجوکا تھیٹر اور رفیع پیر گروپ کا نام سر فہرست ہے۔ انھوں نے گھروں اور سڑکوں پر تھیٹر ڈرامے سٹیج کرنے شروع کر دیے اور ان کے ذریعے سیاسی و تھیٹریکل انتظامیہ اور آمریت کو نشانہ بنایا۔ لاہور میں اجوکا تھیٹر ایک ایسا نمایاں گروپ تھا جس نے اپنا پہلا کھیل ”جلوس“ 1984ء میں ایک گھر کے لان میں سٹیج کیا۔ ابتدائی طور پر یہ گروپ یونیورسٹی طلبہ پر مشتمل تھا، جس کے ڈراموں کے موضوعات سماجی تبدیلی اور انسانی حقوق ہیں۔ ٹی وی اداکارہ اور ہدایت کارہ مدیحہ گوہر کی سربراہی میں شروع ہونے والا یہ تھیٹر آج بھی اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ گروپ نہ صرف پرفارم کرتا ہے بلکہ دوسروں کو تربیت بھی دیتا ہے۔\رفیع پیر گروپ بھی نظریاتی پابندیوں سے آزاد ایساگروپ ہے جس کی بنیاد 1974ء میں سلمان پیرزادہ اور ان کے دیگر بھائیوں نے رکھی۔ رفیع پیر برصغیر میں جدید اردو پنجابی ڈراما کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔ اس گروپ نے ہم عصر حالات کے مطابق اوریجنل ڈرامے کی تخلیق کی کوشش کی اور پاکستان میں پتلی تماشا کو بھی متعارف کروایا۔ یہ گروپ تھیٹر، موسیقی اور پتلی تماشے کے فیسٹیولز کا انعقاد بھی کرواتا ہے جہاں عوام اور فنکار بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔اس کے علاوہ سینئر فنکاروں میں نعیم طاہر، ثانیہ سعید، کمال احمد رضوی، بشریٰ انصاری جیسے فنکاروں نے تھیٹر کے لیے نمایاں خدمات انجام دیں۔
لاہور میں ڈراما کی تاریخ
[ترمیم]لاہور میں سٹیج ڈرامے کی روایت بہت پرانی ہے اور یہاں سٹیج ڈرامے کے آغاز کا سہرا گورنمنٹ کالج لاہور کے سر ہے جہاں ڈرامیٹک کلب کے زیراہتمام 1876ء میں پہلا ڈراما سٹیج ہوا۔بعد میں جب سٹیج ڈراما تعلیمی اداروں سے نکل کر باقاعدہ تھیٹر کی شکل میں پیش کیا جانے لگا تو امتیاز علی تاج، رفیع پیر، خواجہ معین الدین اور کمال احمد رضوی نے اردو سٹیج ڈرامے کے فروغ کے لیے ناقابلِ فراموش خدمات سر انجام دیں۔ اردو تھیٹر نے پارسی تھیٹر سے زیادہ عروج حاصل کیا۔
1970ء کی دہائی
[ترمیم]پھر ذو الفقار علی بھٹو نے اپنے دور میں عوام الناس کو ایک نئے پاکستان کا تصور دیا۔ تھیٹر کا یہ زمانہ عوامی کلچر پر مبنی تھا۔ تازہ سیاسی حالات نے تھیٹر، فنون اور موسیقی میں عوامی تحریک کو جنم دیا۔ اس عرصے میں پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس اور اکیڈمی آف لیٹرز جیسے ثقافتی اور ادبی ادارے قائم کیے گئے۔ الحمرا آرٹس کونسل کو نئی عمارت دی گئی۔ تھیٹر میں غیر ملکی ادب سے ڈرامے ماخوذ کیے گئے۔ سٹوڈنٹ تھیٹر کو فروغ ملا۔ بھٹو صاحب کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو جنرل ضیاالحق نے مارشل لا لگا کر پاکستانی تاریخ کے تاریک ترین دور کا آغاز کیا۔ ہر قسم کی ثقافتی اور تھیٹر سرگرمی حتیٰ کہ سٹوڈنٹ تھیٹر پر بھی پابندیاں عائد کر دی گئیں۔
1980ء کی دہائی
[ترمیم]لاہور میں کمرشل تھیٹر کا آغاز اسی کی دہائی میں ہوا۔ شروع شروع میں اوپن ائیر تھیٹر باغِ جناح میں جگتوں سے بھرپور ڈرامے سٹیج کیے گئے اور بعد میں الحمراء ہال میں ان کا فیشن چل نکلا۔ الحمراء ہال میں کمرشل ڈراموں کی کامیابی سے حوصلہ پا کر پرائیویٹ پارٹیوں نے تھیٹر ہالز قائم کرنا شروع کر دیے۔ فلم انڈسٹری کے بحران کے ساتھ ہی سنیما مالکوں نے سنیما گھروں کو تھیٹر ہالوں میں تبدیل کرنا شروع کر دیا۔شروع میں کمرشل تھیٹر طنز و مزاح اور جگتوں کے بل بوتے پر چلتا رہا جس سے لطف اندوز ہونے کے لیے لوگ اپنی فیملی کے ساتھ آتے تھے۔ اس وقت ان ڈراموں میں منجھے ہوئے اداکار جن میں سہیل احمد،قوی خان،خالد عباس ڈار،عرفان کھوسٹ ،فردوس جمال،ڈاکٹر انور سجاد ، امان اللہ، عاصم بخاری، عمر شریف، سہیل احمداور مسعود اختر جیسے فنکار شامل تھے جو اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے اور لوگوں کے دل جیت لیتے تھے۔ ان ڈراموں کا باقاعدہاسکرپٹ لکھا جاتا تھا اور تمام اداکار اساسکرپٹ میں رہتے ہوئے جگتوں کے ساتھ اداکاری کے جوہر دکھانے کے پابند ہوتے تھے ۔ لیکن آنے والے برسوں میں کمرشل تھیٹر اس طرح سے اخلاقیات سے عاری کلچر کو فروغ دے گا یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ بد قسمتی سے تھیٹر میں کچھ غیر تعلیم یافتہ لوگ آ گئے جنھوں نے بغیراسکرپٹ کے ڈرامے بنانے شروع کر دیے جن میں جگتوں کی جگہ بولڈ رقص نے لے لی اور ڈانس کو کمرشل ڈرامے کا لازم و ملزوم حصہ سمجھا جانے لگا جس کی وجہ سے فیملیز نے ڈراما دیکھنا چھوڑ دیا۔ اگر غلطی سے کوئی فیملی آبھی جائے تو ڈراما کے شروع میں ہی ماحول دیکھ کر ڈراما چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ پہلے ایک ہی ڈراما کئی کئی ماہ چلتا تھا لیکن اب ہر پندرہ دن کے بعد نیا ڈراما آ جاتا ہے جس میں وہی جگت بازی اور غیر اخلاقی رقص دکھایا جاتا ہے۔اس چیز کو تھیٹر کے چلنے کا کامیاب ذریعہ سمجھا جاتا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ معیاری کام سے ہی سٹیج ڈراموں کے شائقین کی تعداد میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ ڈراما، معاشرے کی عکاسی کرتا ہے اور عوام کی ذہن سازی میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ جو ڈرامے پیش کیے جا رہے ہیں ان میں کوئی اصلاحی پہلو شامل نہیں ہے۔ ایسے تھیٹر سے ہم اپنی نوجوان نسل کو کس بے راہ روی کی طرف گامزن کر رہے ہیں۔ جب تمام فنکار اس بات کا فیصلہ کر لیں گے کہ ہم نے معیاری کام کرنا ہے تو پھرڈراموں میںغیر اخلاقیات کی عکاسی کاتصوربھی نہیں رہے گا۔
1855ء میں اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ نے اپنے محل کے صحن میں آغا حسن امانت کا تحریر شدہ ڈراما ”اندر سبھا“ سٹیج کیا۔جو شہزادہ گلفام کی کہانی پر مبنی ڈراما تھا۔ پس منظر میں موسیقی دی جاتی تھی۔ بعد ازاں اردو تھیٹر کی اس روایت نے بتدریج پارسی تھیٹر کی صورت اختیار کی۔ تقریباً ایک صدی تک برصغیر پر پارسی تھیٹر کا راج رہا۔ پارسی تھیٹر میں داستانوں اور سماجی کہانیوں کا امتزاج پیش کیا گیا۔ پھر برٹش راج کے دَور میں تھیٹر داستانوں سے نکل کر عام حقائق اور غریبوں کی محرومیوں و مصائب کا عکاس بنا۔
دنیا میں تھیٹر کی تاریخ
[ترمیم]تاریخ اس حوالے سے کچھ نہیں بتاتی کہ پہلا ڈراما کب سٹیج کیا گیا اور تھیٹر کا آغاز کب ہوالیکن یہ ضروربتاتی ہے کہ دنیا کی تمام ہی تہذیبوں میں، چاہے وہ رومی تہذیب ہو، یونانی، چینی ، جاپانی یا افریقی، تھیٹر کسی نہ کسی صورت میں موجود رہا ہے۔
اجوکا کی تاریخ
[ترمیم]اجوکا تھئیٹر جنرل محمد ضیاء الحق دی حکمرانی ماتحت جبر کے دور کے دوران تناؤ کی بلد ترین وقت، 1983 مین قائم کیا گیا تھا۔ یہ اب تک تین درجن سے زیادہ ڈرامے کھیل چکا ہے۔
اجوکا کے پیش کردہ اہم ناٹک
[ترمیم]- لو پھر بسنت آئی
- کون اے ایہہ گستاخ
- میرا رنگ دے بسنتی چولا
- بلھا
- دارا
- راجا رسالو
- ماؤں کے نام
- دشمن
- سرخ گلابوں کا موسم،
- دکھ دریا
- بارڈر-بارڈر
- پیرو پریمن
- دکھنی
- چل میلے نوں چلیئے
- دیکھ تماشا چلتا بن
- جلوس
- جھلی کتھے جاوے
- ٹوبھا ٹیک سنگھ
- ایک تھی نانی
کتابیات
[ترمیم]لٹریچر
[ترمیم]- Fawzia Afzal-Khan (2005)۔ A Critical Stage: The Role of Secular Alternative Theatre in Pakistan۔ India: Seagull Books۔ ISBN 9788170462750
- Shahid Nadeem (2008)۔ Selected Plays۔ Pakistan: اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس۔ ISBN 9780195474770
حوالے
[ترمیم]- ↑ Prince Claus Awards, award winners of 2006 آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ princeclausfund.org (Error: unknown archive URL)
- ↑ Rashed, Fariha (16 اکتوبر 2005) The Ajoka awakening آرکائیو شدہ 2013-04-08 بذریعہ archive.today
- ↑ Singh Bajeli, Diwan (2 فروری 2007) A voice for peace and amity آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ hindu.com (Error: unknown archive URL)، The Hindu