خط ثلث

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

خط ثلث عربی زبان کا ایک مشہور اور قدیم خط ہے جسے ابن مقلہ شیرازی نے فروغ دیا۔ خط ثلث تمام اسلامی خطوط میں خوبصورت ترین خط سمجھا جاتا ہے۔ یہ مشکل ترین خط ہے اور جو شخص اس خط پر عبور حاصل کرلے وہ باقی خطوط بھی بآسانی لکھ سکتا ہے گویا ایسا شخص ایک تہائی خطاطی پر حاوی ہوجاتا ہے۔

خط ثلث میں سورہ النساء کی آیت اول اور دؤم
خط ثلث میں پیغمبر اسلام کا اسم مبارک

تاریخ[ترمیم]

خط کوفی دراصل خطِ جلیل تھا اور جب خط جلیل سے لوگوں کا شغف بڑھتا گیا اور کاتبوں کو اِس میں انہماک و دلچسپی پیدا ہوئی تو اِس خط کے اندر ایک نئی بناوٹ و تصنع کا ایجاد ہونا فطری بات تھی۔ ابراہیم شجری نے جو اپنے عہد کا مشہور و معروف خطاط، ذہین طباع انسان تھا، نے خط جلیل سے ایک نیا خط ثلثین کے نام سے نکالا۔کچھ ہی عرصے کے بعد مزید طباعی دکھائی کہ ایک اور نیا خط ثلث کے نام سے نکالا۔ ابراہیم شجری کا ایک لائق و فائق شاگرد ابوالعباس اَحول سجستانی تھا جس نے محنت کرکے اِس خط کو مہذب بنایا اور اِسے فروغ دِیا۔آغاز میں تو یہ خط خط جلیل کا ایک قلم و اندازِ نگارش سا معلوم ہوتا تھا مگر متاخر ماہرین خطاط نے بڑی جانفشانی سے اِس خط کو خط جلیل سے منفرد و مختلف بنا دیا جس سے یہ ایک نئی قسم کا خط وجود میں آیا جو خط جلیل سے بالکل ہی جداگانہ خط قرار پایا۔

ثلث کی وجہ ٔ تسمیہ[ترمیم]

قطب مینار کے سنگ سرخ کے ایک کتبہ پر خط ثلث میں کلمہ طیبہ
تاج محل پر خط ثلث میں کندہ آیات قرانی

ایسے تمام بیانات و اَقوال میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ اِس خط کو ثلث کیوں کہتے ہیں؟۔ مشہور رائے یہی ہے کہ خط جلیل یا خط طومار کاغذ کے ایک پورے تختے پر موٹے قط سے لکھا جاتا تھا۔ خط جلیل کے معنی ’’بڑے خط‘‘ کے ہیں اور خط جلیل میں قلم کا قط خچر کے 24 بالوں کے برابر ہوا کرتا تھا جو عرضاً برابر برابر رکھے ہوئے ہوں۔ اِس رائے کے مطابق خط ثلثین وہ تھا جس میں قلم کا قط دو تہائی یعنی 16 بالوں کے برابر ہوتا تھا اور خط ثلث وہ تھا جس میں قلم کا قط 8 بالوں کے برابر ہوتا تھا۔ اِس رائے کے مطابق طرزِ نگارش میں کوئی خاص فرق تو نہیں تھا بلکہ فرق قلم کے موٹے ہونے یا پتلا ہونے سے ہی پیدا ہوتا تھا۔ یہ مشہور رائے ماہرین خطاط و محققین کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے۔[1]

فن خطاطی کے امام ابن مقلہ (وزیر خلافت عباسیہ) نے اِس کے متعلق اپنی رائے یہ بیان کی ہے کہ: ’’خط کوفی میں روزِ اول سے ہی دو طرزِ نگارش چلی آ رہی ہیں۔ خط طومار (خط جلیل) اور خط غبار الحلبہ (یعنی میدان کی گرد)۔ خط طومار سارے کا سارا ہی بسط (پھیلاؤ یا کشادگی میں) ہے، سطح ہے اور اِس میں دَور (محوری گردش) نہیں ہے۔ (یہی خط ترقی پاکر خط محقق بنا)۔ خط غبار میں دَور ہی دَور ہے (یعنی محوری گردش میں ہے)۔ اور یہ بسط وسطح بالکل نہیں رکھتا۔ فن خطاطی میں آئندہ جتنے بھی خطوط اور خط غبار دونوں سے ترکیب پاکر وجود میں آئے ہیں۔ اب جس خط میں بسط دو تہائی ہے اور دَور ایک تہائی ہے تو وہ ثلثین کہلاتا ہے اور جس خط میں بسط ایک تہائی ہے اور دَور دو تہائی ہے تو وہ ثلث کہلاتا ہے۔‘‘ یہ رائے حقیقت کے زیادہ قریب تر ہے اور اہل فن نے اِسی رائے کو قبول کیا ہے۔[2]

مختلف خطوط لکھنے کے لیے کاغذ کے مختلف سائز مخصوص تھے۔ سب سے بڑے سائز کا کاغذ طومار کہلاتا تھا جس کی چوڑائی گھوڑے کے چوبیس بالوں کے برابر تھی۔ خط ثلث لکھنے کے لیے اس کاغذ کا ایک تہائی کاغذ( یعنی آٹھ بالوں کی چوڑائی ) درکار تھی۔ اسی لیے اسے ثلث کہا گیا۔ ثلث( تہائی )، نصف( آدھا )، ثلثين( دوتہائی ) مختلف خطوط کے نام ہیں۔ یہ نام ہر خط کو لکھنے کے لیے درکار وقت کی بنا پر پڑے۔

قطب مینار پر خط ثلث میں کندہ آیات قرآنی

موجد اور وجہ ٔ شہرت[ترمیم]

موجد اِس کا خواہ کوئی بھی ہو مگر اِس خط کے قواعد و ضوابط کے تحت منضبط کرنے والا عباسی وزیر ابوعلی ابن مقلہ ہے جس نے باقاعدہ اِس خط کو تشکیل دیا۔ اِس کے بعد یہ بات تسلیم کرلی گئی ہے کہ اِس خط کو جانے بغیر کوئی خطاط نہیں بن سکتا۔ ہر ملک اور ہر دَور میں یہ خط نمایاں شہرت کا حامل رہا ہے اور اِس کے اُساتذہ پیدا ہوتے رہے ہیں۔ خط نسخ نے فن خطاطی کے میدان میں آکر ضرور اِس خط کی قابلیت و شہرت کو کم تو کیا ہے مگر آج تک کتبے اور عنوانات اِسی خط میں لکھے جاتے ہیں۔[3]

خصوصیات[ترمیم]

  • اس خط میں چھ حصوں میں سے گردش دو حصے اور سطح چار حصے ہوتی ہے۔ اسی تناسب کی وجہ سے اسے ثلث کہتے ہیں۔خط ثلث میں دو دَانگ (ٹکڑے یا حصے) سطح کے ہوتے ہیں اور چار دانگ دَور (محوری گولائی) کا ہوتا ہے۔ یعنی سطح 1/3 ہے اور دَور 2/3 ہے۔
  • خط محقق کی نسبت اِس خط کا دَور (محوری گولائی) زیادہ ہوتا ہے۔
  • اِس خط میں قلم کا قط محرف ہوتا ہے، یعنی قط ٹیڑھا رکھا جاتا ہے۔
  • حروف تہجی ا، ب، د، ر، ک، ل، ن کے سر کو بالکل نمایاں لکھا جاتا ہے۔ خواہ یہ حروف مفرد ہوں یا ترکیب میں حروفِ اول ہوں۔ آغاز میں تھوڑا سا شوشہ بنایا جاتا ہے۔
  • اِس خط میں ایک دشواری یہ ہے کہ قریب قریب سب حروف یکساں شکل اختیار کرلیتے ہیں اور اِسی لیے اِن کو پڑھنے میں دِقت پیش آتی ہے۔
  • ماہرین خط اور کاتب اِس خط کو اُم الخطوط کہتے ہیں جس سے مراد یہ ہے جس شخص نے خط ثلث لکھنے میں درجہ ٔ کمال حاصل کر لیا، اُس کے لیے پھر دوسرے تمام خطوط لکھنا سہل (آسان) ہوجاتا ہے۔[4]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. محمد سلیم: تاریخ خط و خطاطین، صفحہ 101۔
  2. القلقشندی: صبح الاعشی فی صناعۃ الانشا، صفحہ 56۔
  3. حبیب اللہ فضائلی: اطلس خط،  تحقیق در خطوط اسلامی،  صفحہ 244 تا 252۔   مطبوعہ اصفہان 1971ء۔
  4. محمد سلیم:  تاریخ خط و خطاطین،  صفحہ  102،  103۔