شہریار (شاعر)
شہریار (شاعر) | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 16 جون 1936ء اونالا ، بریلی ، برطانوی ہند |
وفات | 13 فروری 2012ء (76 سال)[1] علی گڑھ ، بھارت |
شہریت | بھارت (26 جنوری 1950–) برطانوی ہند (–14 اگست 1947) ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950) |
عملی زندگی | |
مادر علمی | علی گڑھ مسلم یونیورسٹی |
تعلیمی اسناد | پی ایچ ڈی |
پیشہ | نغمہ نگار ، شاعر ، مصنف ، استاد جامعہ |
پیشہ ورانہ زبان | اردو |
ملازمت | علی گڑھ مسلم یونیورسٹی |
اعزازات | |
IMDB پر صفحات | |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
اخلاق محمد خان شہریار (16 جون 1936ء – 13 فروری 2012ء) ایک بھارتی پروفیسر، شاعر اور فلمہ نغمہ نگار تھے۔[3][4] بالی وڈ کے ایک نغمہ نگار کے طور پر وہ گمان (1978ء) اور امراؤ جان (1981ء میں بنی فلم) کے نغموں کے لیے یاد کیے جاتے ہیں۔ ان فلموں کی ہدایت مظفر علی نے کی تھی۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے صدر کے طور پر وظیفہ یاب ہوئے اور اس کے بعد مشاعروں کی ایک پسندیدہ شخصیت بن گئے۔ وہ مغنی تبسم کی معیت میں شعروحکمت (ششماہی) کی ادارت کرتے تھے۔[5] اس کے علاوہ وہ علی گڑھ میگزین ،خیروخبر اور فکرونظر کے مدیر تھے۔ وہ ہماری زبان کے شریک مدیر بھی رہے تھے۔[6]
شہریار کو ساہتیہ اکیڈمی کی جانب سے خواب اور در بند ہے (1987ء) کے لیے اردو میں ایوارڈ ملا تھا۔ 2008ء میں انھیں گیان پیٹھ ایوارڈ دیا گیا جو بھارت میں اعلٰی ترین ادبی انعام ہے شہریار اسے حاصل کرنے والے چوتھے اردو شاعر تھے۔[5]
ابتدائی زندگی اور تعلیم
[ترمیم]شہریار اترپردیش کے آنولہ کے ایک مسلم راجپوت خاندان میں پیدا ہوئے۔[5] ان کے والد ابو محمد خان ایک پولیس افسر کے طور پر متعین تھے، حالانکہ یہ خاندان بلندشہر ضلع کے چودیرا گاؤں سے تعلق رکھتا تھا۔[7][8] بچپن کے زمانے میں شہریار ایک ایتھلیٹ بننا چاہتے تھے، تاہم ان کے والد پولیس کی ملازمت میں شامل کروانا چاہتے تھے۔ تبھی وہ شاعر خلیل الرحمن اعظمی کی رہنمائی میں گھر سے بھاگ گئے۔ فکر معاش کی تکمیل کے لیے وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اردو فکشن پڑھانے لگے جہاں انھوں نے بعد میں پی ایچ ڈی مکمل کیا۔[9] اس طرح تعملیمی مناہج کے حساب سے انھوں ںے ابتدائی تعلیم بلند شہر میں حاصل کی جبکہ آگے تعلیم علی گڑھ میں مکمل کی۔[10]
علی گڑھ میں رہائش
[ترمیم]وہ علی گڑھ میں قیصر ولا کمپاؤنڈ سے ملحق فیصل ولا کے ایک حصے میں شہریار اور دوسرے میں مرزا خلیل احمد بیگ رہتے تھے۔[6]
قدوقال
[ترمیم]معاصرین کی رائے میں شہریار بلند قد، بھراہؤا بدن گیہواں رنگ، گول چہرہ، چوڑی پیشانی اور کھڑی ناک کی حامل شخصیت تھے۔[6]
کھیل سے دلچسپی
[ترمیم]شہریار کو کھیلوں میں ہاکی سے جنون کی حد تک دلچسپی تھی۔[6]
ملازمت و پیشہ
[ترمیم]شہریار نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز انجمن ترقی اردو کے ادبی معاون کے حیثیت سے کی۔ اس کے بعد وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اردو کے لیکچرار کے طور پر شامل ہوئے۔ 1986ء میں وہ پروفیسر بنے۔ 1996ء میں وہ شعبہ اردو کے صدرنشین کے طور پر مستعفی ہوئے۔[11]
ادبی ذوق
[ترمیم]شہریار کا پہلا مجموعہ کلام اسم اعظم 1965ء میں چھپا۔ ان کا دوسرا مجموعہ ساتواں در 1969ء میں منظرعام پر آیا۔ اس کے بعد تیسرا مجموعہ ہجر کے موسم 1978ء میں جاری ہوا۔ ان کا شاہ کار خواب کے در بند ہیں 1987ء میں شائع ہوا جسے ساہتیہ اکیڈمی کا اعزاز حاصل ہوا۔ ان کے علاوہ انھوں پانچ اور مجموعات کلام شائع کیے۔[12]2008ء میں وہ چوتھے اردو ادیب بنے جنہیں گیان پیٹھ ایوارڈ حاصل ہوا۔ اس سے یہ اعزاز فراق گورکھپوری، علی سردار جعفری اور قرۃالعین حیدر کو حاصل ہوا تھا۔[13][14]
ایک انٹرویو میں شہریار نے کہا تھا کہ 1965ء میں جب وہ کافی کلام جمع کر چکے تھے، انھوں نے شمس الرحمٰن فاروقی کو لکھا کہ وہ یا تو اپنے پیسوں سے اس مجموعے کو چھاپ سکتے ہیں یا شادی کرسکتے ہیں۔ اس پر فاروقی کا جواب یہ تھا کہ وہ اسے مجموعے کو چھپوائیں گے، جبکہ شہریار شادی کر سکتے ہیں۔[6]
کلام کے تراجم
[ترمیم]شہریار کے کلام خواب کا در بند ہے کا انگریزی ترجمہ The Gateway to Dream is Closed کے عنوان سے 1992ء میں شائع ہوا۔ ساہتیہ اکیڈمی نے اسی طرح Selected Poetry of Shahryar شائع کیا۔ دیوناگری ان کا پورا کلام منتقل ہوا۔ علاقائی تراجم کے ساتھ ساتھ بیشتر نظموں کے ترجمے فرانسیسی، روسی اور جرمیں زبانوں میں کیے گئے ہیں۔[6]
نغمہ نگاری
[ترمیم]شہریار نے چند فلموں کے لیے علی گڑھ ہی میں رہ کرنغمے لکھے تھے۔ مظفر علی اور شہریار زمانہ طالب علمی سے دوست تھے۔ شہریار اپنی غزلوں کو انھیں سنایا کرتے۔ جب علی نے گمن فلم سے ہدایتی سفر کا آغاز کیا تو انھوں نے ان کی دو غزلوں سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے اور عجیب سانحہ مجھ پر گذر گیا یاروں کو اس فلم میں نغموں کے طور پر استعمال کیا۔ ان کی تمام غزلیں جو فلم امراؤجان ادا میں شامل ہیں بالی وڈ کے بہترین نغمے مانے جاتے ہیں۔ انھوں نے یش چوپڑا کے فاصلے کے لیے 1985ء میں لکھا تھا۔ اس کے بعد یش نے تین اور فلموں میں نغموں کی گزارش کی مگر شہریار یہ کہتے ہوئے منع کر دیے کہ وہ "نغموں کی دکان" نہیں بننا چاہتے۔[15] حالانکہ اس کے بعد وہ مظفر علی کی انجمن (1986ء) کے لیے لکھے۔ ان کا آخری فلمی نغمہ میرا نایر کی فلم دی نیم سیک (2006ء) تھی۔ ان کے ادھورے کاموں میں علی کی فلم زونی اور دامن تھے۔[5]
نمونۂ کلام
[ترمیم]غزل
سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے | اِس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے | |
دِل ہے تو دھَڑکنے کا بہانہ کوئی ڈھونڈے | پتھر کی طرح بے حِس و بے جان سا کیوں ہے | |
تنہائی کی یہ کون سی منزل ہے رفیقو | تا حدِ نظر ایک بیابان سا کیوں ہے | |
ہم نے تو کوئی بات نکالی نہیں غم کی | وہ زود پشیمان ، پشیمان سا کیوں ہے | |
کیا کوئی نئی بات نظر آتی ہے ہم میں | آئینہ ہمیں دیکھ کے حیران سا کیوں ہے[16] |
اعزازات
[ترمیم]- شہریار کو ساہتیہ اکیڈمی، بہادرشاہ ظفر ایوارڈ، غالب انسٹی ٹیوٹ ایوارڈ، اترپردیش اردو اکیڈمی ایوارڈ، میرا اکیڈمی ایوارڈ، ساہتیہ منچ ایوارڈ جالندھر، ادبی سنگھم ایوارڈ، شرف الدین یحیٰی منیری ایوارڈ، فراق سمّان اور اقبال سمّان سے نوازا گیا تھا۔[6]
- اس کے علاوہ انھیں گیان پیٹھ اعزاز بھی حاصل ہوا۔
- شہریار پر چار تحقیقی مقالے لکھے گئے۔
تعلیمی اعزازات
[ترمیم]- حیدرآباد یونیورسٹی کی جانب سے شہریار کو ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی گئی تھی۔
- سنیل پور یونیورسٹی، اڑیسہ کی جانب سے گنگادھر یادگار اعزاز برائے شاعری (Gangadhar Memorial Poetry Award) عطا کیا گیا تھا۔[6]
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ ناشر: ٹائمز آف انڈیا — Noted poet Shahryar passes away — اخذ شدہ بتاریخ: 12 اگست 2012
- ↑ http://www.jnanpith.net/page/jnanpith-laureates
- ↑ Shahryar, Faraz recite at mushaira آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ hindu.com (Error: unknown archive URL) The Hindu, 5 اگست 2007.
- ↑ Renowned Urdu Poet.. .milligazette.com. 16–30 September 2004.
- ^ ا ب پ ت "Umraao Jaan lyricist passes away"۔ The Times of India۔ 14 February 2012۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 مارچ 2014
- ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ "شہریار۔..یادوں کے آئینے میں" از صغیر ابراہیم، ماہنامہ سب رس، حیدرآباد، جون 2016ء، صفحات 8-11
- ↑ "Jnanpith for Malayalam poet Kurup, Urdu scholar Shahryar"۔ The Times of India۔ 25 September 2010۔ 26 ستمبر 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 جون 2016
- ↑ "Malayalam, Urdu writers claim Jnanpith awards"۔ The Hindu۔ Chennai, India۔ 24 September 2010۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 جون 2016
- ↑ Ziya Us Salam (14 فروری 2012)۔ "Shahryar (1936–2012): The poet who gave Umrao Jaan her voice"۔ The Hindu۔ Chennai, India۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 فروری 2012
- ↑ Shahryar Encyclopaedia of Indian literature vol. 5. Page 3950.
- ↑ Professor Shahryar, one of India’s most critically acclaimed poets.. عرب نیوز 1 October 2005.
- ↑ "Author info"۔ Shahryar biography۔ Urdustudies.com۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 فروری 2012
- ↑ "Poet, lyricist, Jnanpith Winner"۔ Outlook۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 مارچ 2014
- ↑ "Jnanpith Laureates"۔ Bharatiya Jnanpith۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 مارچ 2014
- ↑ Malayalam, Urdu writers claim Jnanpith awards - The Hindu
- ↑ سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے (غزل)، شہریار، ریختہ ویب، بھارت
- 1936ء کی پیدائشیں
- 16 جون کی پیدائشیں
- بریلی میں پیدا ہونے والی شخصیات
- 2012ء کی وفیات
- 13 فروری کی وفیات
- بھارت میں اموات
- گیان پیٹھ انعام وصول کنندگان
- ساہتیہ اکیڈمی کے اعزاز یافتگان
- اتر پردیش کے شعرا
- اساتذہ بھارتی تعلیم گاہیں
- اموات بسبب سرطان پھیپھڑا
- بیسویں صدی کے بھارتی شعرا
- بیسویں صدی کے بھارتی مرد مصنفین
- بیسویں صدی کے مرد مصنفین
- بھارتی اردو شعرا
- بھارتی مرد شعرا
- بھارتی مسلم شخصیات
- ساہتیہ اکیڈمی اعزاز یافتگان برائے اردو ادب
- ضلع بریلی کی شخصیات
- علی گڑھ کی شخصیات
- علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا تدریسی عملہ
- ہندوستانی غنائی شعرا
- بھارت کے اردو مصنفین
- جامعہ علی گڑھ کے فضلا
- بھارتی جریدہ مدیران