عرفان صدیقی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عرفان صدیقی
معلومات شخصیت
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ پنجاب   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ صحافی ،  کالم نگار ،  مصنف ،  شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
 ہلال امتیاز   (2014)  ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سینکڑوں سول ، فوجی بیوکریٹس اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں سروس انجام دینے والوں کے 78 سالہ استاد ، ماہر تعلیم ، مصنف ،دانشور ، نثر نگار ،شاعر اور صاحب طرز کالم نگار جناب عرفان الحق صدیقی صاحبجو عرفان صدیقی سے مشہور ہیں راولپنڈی میں پیدا ہوئے ،وہ جماعت اسلامی کے مرحوم رہنمااوردانش ورنعیم صدیقی کے بھانجے ،اسلام آبادہائیکورٹ کے سابق جسٹس شوکت عزیزصدیقی کے پھوپھی زادہیں چئیرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل زبیرحیات ،آرمی چیف جنرل قمرجاویدباجوہ اوراعجازالحق بھی آپ کے شاگردوں میں شامل ہیں، صدیقی صاحب نے لاہور میں واقع پنجاب یونیورسٹی سے ‘‘تعلیم و تربیت ’’ میں بیچلر اور پھر اردو زبان میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی ۔ 1963 میں صدیقی صاحب نے وفاقی تعلیمی اداروں میں مختلف سطح کی تعلیمی سرگرمیوں سے اپنی عملی زندگی میں قدم رکھا اور 1988 میں سرکاری سروس سے رضاکارانہ ریٹائرڈمنٹ کا اعلان کیا، صدیقی صاحب کی سروس 25 سال کے سنہری ادوار پر مشتمل تھی، جن میں سے 18 سال ‘‘ FG ایف جی سر سید کالج راولپنڈی’’ میں تدریسی خدمات انجام دیں جو اعلی تعلیم کا ایک بہت ہی مستند و معروف ادارہ ہے ،اسی طرح دو سال تعلیم کے سربراہ کے طور پر ODF او ڈی ایف (بیرون ممالک مقیم پاکستانی طلبہ کی خدمت کا سرکاری ادارہ)میں بھی کام کیا ۔ ریٹائرمنٹ کے دوسال بعد یعنی 1990 میں صدیقی صاحب نے پیشہ وارانہ صحافت کا آغاز مضمون نویسی سے کیا ،جن میں مجیب الرحمن شامی کے ہفتہ وار‘‘ زندگی ’’ماہانہ‘‘ قومی ڈایجسٹ’’ قابل ذکر ہیں، ساتھ ہی صدیقی صاحب‘‘ امت ’’ اخبار کے بانی محمد صلاح الدین شہید کے ہفتہ وار میگزین ‘‘تکبیر ’’سے وابستہ ہوئے اس کے ساتھ ساتھ 1997 تک جنگ اخبار میں ‘‘نقش خیال’’ کے عنوان سے کالم بھی لکھتے رہے ۔ 1998 میں صدیقی صاحب کو صدر پاکستان جناب محمد رفیق تارڈ صاحب کا‘‘پریس سیکریٹری ’’مقرر کیا گیا جس کے بعد تقریبا ساڑھے تین سال تک صدیقی صاحب پیشہ وارانہ صحافت سے الگ رہے ، جناب رفیق تارڈ صاحب کی صدارت جاتے ہی صدیقی صاحب بھی پریس سیکریٹری سے فارغ ہو گئے ۔ جون 2001 میں روزنامہ‘‘ پاکستان’’ اسلام آباد کے ایڈیٹر کے طور پر صدیقی صاحب نے دوبارہ صحافت میں قدم رکھا، مگر جلد ہی ستمبر میں اسے چھوڑ کر روزنامہ‘‘ نوائے وقت ’’سے وابستہ ہوئے اور ‘‘نقش خیال ’’کے عنوان سے کالم لکھنا شروع کیا ، پھر اگست 2008 میں ‘‘ نوائے وقت ’’چھوڑ کر روزنامہ‘‘ جنگ’’ سے وابستہ ہوئے ۔ 2001 سے صدیقی صاحب سیاسی اور سماجی امور پر مسلسل کالم لکھتے رہے ہیں اور اس کے علاوہ مختلف ٹاک شوز میں بطور مہمان بھی شرکت کرتے رہے ہیں،سیاسی طور پر قدامت پسند نظریات اور افغانستان میں امریکی جنگ پر تنقید کے لیے زیادہ جانے جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ صدیقی صاحب ریڈیوپاکستان میں متکلم، فیچر رائٹر اور ڈراما نگار بھی رہے اور 100 سے زائد ایسے ریڈیو ڈرامے لکھے جنہیں عام عوام اور دانشوروں کی طرف سے وسیع پیمانے پر سراہا گیا انہی میں سے ایک مشہوراردو ڈراما‘‘ اشفاق احمد اور مرزا ادیب ’’بھی صدیقی صاحب ہی کا تحریر کردہ ہے ۔ اپنی مختلف پیشہ وارانہ وابستگیوں کے دوران صدیقی صاحب نے کئی بیرون ممالک سفر بھی کیے ، خاص طور پر امریکا اور ایران میں صدیقی صاحب سرکاری سطح پر مدعو کیے گئے ،جبکہ جن چند صحافیوں کو ملا محمد عمر سے ملاقات کا موقع ملا صدیقی صاحب ان میں سے ایک تھے، اس کے علاوہ سیاست ، صحافت اور تعلیم کے موضوع پر صدیقی صاحب کے پاکستان اور بیرون ممالک میں کئی لیکچرز بھی ہوئے، نمایاں کالم نگار کی حیثیت سے صدیقی صاحب کو اندون اور بیرون ملک میں کئی ایوارڈز سے نوازا بھی گیا[1] ۔ نواز شریف کے تیسرے دور حکومت میں صدیقی صاحب کو وزیر اعظم کا مشیر برائے قومی تاریخ و ادبی ورثہ مقرر کیا گیا تھا جس کے بعد انھوں نے کالم لکھنا ترک کر دیا تھا تاہم ذرائع کے مطابق نواز شریف کی تقاریر صدیقی صاحب ہی لکھا کرتے تھے 2014 میں طالبان سے مذاکرات کے لیے حکومتی کمیٹی کے جن چار اراکین کا اعلان کیا گیا تھا صدیقی صاحب بھی ان میں سے ایک تھے ۔ اسی زمانے میں ان کے بھائی ڈاکٹرشاہدصدیقی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلررہ چکے ہیں۔ 20 جولائی 2019 کوان کے بیٹے عمران صدیقی نے اپنا مکان کرایہ پر دینے کا معاہدہ کیا مگر قانون کے مطابق اسے پولیس کے پاس درج نہ کروایا 26جولائی کو پولیس نے عمران صدیقی کی بجائے ان کے والد عرفان صدیقی صاحب کو کو رات گئے 2 بجے گھر کے باہر گرفتار کیا اور اگلے ہی دن عدالت میں پیش کیا مگر عرفان صدیقی صاحب اپنے شاگردوں کو ہتھکڑی میں بھی کسی تمغا کی طرح قلم سنبھالنے کا درس دیتے ہوئے مہرین بلوچ کے حکم پر 14 روزہ ریمانڈ پر جیل روانہ ہو گئے وہ بطورپروفیسرریٹائرڈہوئے اوراس کے بعد بھی مختلف اعلیٰ مناصب پرفائز رہے اس کے باوجودانہیں اڈیالہ جیل میں بی کلاس کی بجائے سی کلاس میں رکھاگیا عرفان صدیقی کے وکلا نے ان کی ضمانت کی درخواست دائر کر دی تھی جس کی سماعت مہرین بلوچ کی عدالت میں پیر کو ہونا تھی مگر یہ سماعت 28 جولائی 2019 بروز اتوار کو کر کے ان کی ضمانت منظور کر لی گئی۔ 28 جولائی 2019 کی دوپہر میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے بتایا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان نے عرفان صدیقی کو ہتکھڑی لگا کر مقامی عدالت میں پیش کرنے کا نوٹس لیا تھا۔ شہزاد اکبر کے مطابق یہ نوٹس کسی اور وجہ سے نہیں بلکہ عرفان صدیقی کی عمر کے پیشِ نظر لیا گیا تھا۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "Irfan siddiqui"۔ 28 جولا‎ئی 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ