مسلم بن عقبہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(مسلم ابن عقبہ سے رجوع مکرر)
مسلم بن عقبہ
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 622ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نجد   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات سنہ 683ء (60–61 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت سلطنت امویہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ عسکری قائد   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
عہدہ جرنیل   ویکی ڈیٹا پر (P410) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

مسلم بن عقبہ الموری (622ء–683ء) اموی خلافت کے ایک جرنیل تھا جواموی خلیفہ معاویہ بن ابو سفیان (ح 661ء-680ء) اور اموی خلیفہ معاویہ بن ابو سفیان کے بیٹے اور جانشین یزید بن معاویہ(ح 680ء–683ء) کی حکومت تک رہے۔ تاریخ اسلام کا ایک دردناک اور شرم ناک واقعہ واقعۂ حرہ ہے۔جو مسلم بن عقبہ اور چھ ہزار کے لشکر نے اموی خلیفہ یزید بن معاویہ کے غیر انسانی اور غیر اسلامی حکم نامے کے ساتھ ظلم اور بربریت کی داستان مدینۃ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں رقم کی۔

حالات زندگی[ترمیم]

مسلم بن عقبہ الموری کی ابتدائی زندگی اور کیریئر کے بارے میں تفصیلات بہت کم ہیں۔[1] مسلم بن عقبہ غالباً ہجرت سے پہلے یا 622ء پیدا ہوئے تھے۔[2] مسلم بن عقبہ بنو مررہ کے ایک مخصوص عقبہ کے بیٹے تھے۔ بنو مررہ، عرب قبیلے غطفان‎ کی شاخ تھی۔[3][4] مسلمان غالباً 630ء کی دہائی میں شام کی مسلم فتح کے دوران عرب سے بلاد الشام چلے گئے تھے۔[5] مسلم بن عقبہ اس صوبے کے گورنر معاویہ ابن ابی سفیان کے اموی قبیلے کا پر عزم جماعت بن گئے۔[1] پہلے فتنے کے دوران جو امیر المومنین خلیفہ المسلمین علی (ح 656ء–661ء) کے خلاف جزیرہ فرات میں صفین کی لڑائی لڑی گئی اس جنگ میں مسلم بن عقبہ معاویہ بن ابو سفیان کی پیاده فوج کے سربراہ تھے۔[6] تاہم، مسلم بن عقبہ اس جنگ کے دوران شمالی عرب میں دومۃ الجندل حاصل کرنے میں ناکام رہے۔[7] جب معاویہ بن ابو سفیان 661ء میں خلیفہ ہوئے تو اس نے فلسطین میں مسلم بن عقبہ کو اراضی ٹیکس وصول کرنے والے کا عہدہ دے دیا، حالانکہ اس کے بارے میں جانا جاتا ہے کہ مسلم بن عقبہ نے خود کی تقویت کے لیے اس عہدے کا فائدہ نہیں اٹھایا تھا۔[1] بعد ازاں، 680ء میں جب معاویہ اپنے موت کے بستر پر تھے تب انھوں نے مسلم ابن عقبہ اور دمشق کے گورنر الضحاک بن قيس الفہری کو اپنا عہد نامہ بنایا اور ان دونوں کو اپنے بیٹے یزید کی جانشینی کو محفوظ رکھنے کی ہدایت کی۔[8] امام حسن اور معاویہ بن ابی سفیان کے درمیان میں صلح کی ایک بنیادی شرط یہ تھی کہ ان کے بعد کوئی جانشین مقرر نہیں ہوگا مگر امیر شام نے اپنے بیٹے یزید کو جانشین مقرر کیا اور اس کے لیے بیعت لینا شروع کر دی۔ جب کہ انصار (مدینہ منورہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتدائی حامیوں) نے یزید کو خلیفہ تسلیم نہیں کیا۔[9]

واقعہ حرہ[ترمیم]

سانحۂ کربلا کے بعد حجاز میں یزید کے خلاف غم و غصہ اور نفرت اپنے عروج پر پہنچ گیا تھا۔ اہل مکہ نے عبد اللہ بن زبیر کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور اہل مدینہ ایک وفد صحابی رسول عبد اللہ بن حنظلہ کے ہمراہ دار الحکومت دمشق روانہ کیا۔[10] مگر یزید وفد کو مطمئن نہ کر سکا۔وفد نے واپس آ کے بتایا کہ یزید شراب پیتا ہے اور نشے کی وجہ سے نماز میں سستی کرتا ہے۔اہل مدینہ سب منبر نبی کے پاس سب جمع ہوئے اور عثمان بن محمد کو معزول کر کے یزید کو بیعت کے قابل نہ جانا۔[11]

ان واقعات کا علم جب یزید کو ہوا تو وہ غصے میں آ گیا اور اس نے مسلم بن عقبہ کو مدینہ منورہ پر فوج کشی کا حکم دیا۔ مسلم بن عقبہ یزید کے حکم پر بارہ ہزار آدمیوں کے لے کر مدینہ کی جانب روانہ ہوا۔ لشکر کی روانگی کے وقت یزید نے بذات خود چند احکامات کی پابندی کا حکم دیا۔ وہ احکامات یہ تھے:

  1. اہل مدینہ کو تین دن کی مہلت دینا تاکہ وہ اس عرصے میں کوئی فیصلہ کر لیں
  2. تین دن کے بعد اگر وہ اطاعت قبول نہ کریں تو جنگ کرنا
  3. جنگ میں کامیابی کی صورت میں تین روز تک قتل عام جاری رکھنا اور مال و اسباب لوٹنا (بہت غیر انسانی اور غیر شرعی حکم تھا۔)
  4. علی بن حسین علیہ السلام کو کوئی نقصان نہ پہنچانا۔
اصل میں معاویہ نے یزید کو وصیت کی تھی کہ "مدنی بیعت نہ کریں تو انھیں مسلم بن عقبہ کے ذریعے کچل دینا! (ابن اثیر، الکامل، ج4، ص112)۔(مسلم بن قتيبۃ، الامامۃ والسیاسۃ، ج1، ص231)۔

ان احکامات پر عمل کرنے کا وعدہ کر کے مسلم اپنے لشکر کے ہمراہ مدینہ کی جانب روانہ ہوا۔ مدینہ کے قریب پہنچ کر مسلم نے اہل مدینہ کو مصالحت کی دعوت دی اور ساتھ ہی تین دن کی میعاد مقرر کی۔ لیکن اس عرصے میں اہل مدینہ خاموش رہے۔ تین دن کے بعد مسلم بن عقبہ نے اہل مدینہ کو جنگ یا صلح میں سے ایک راستہ اختیار کرنے کی دعوت دی۔ اہل مدینہ یزید جیسے فاسق کی اطاعت قبول کرنے پر تیار نہ تھے، انھوں نے جنگ کو ترجیح دی۔

جنگ میں مدنی لشکر کی قیادت صحابی رسول عبد اللہ بن حنظلہ نے کی لیکن اہل مدینہ کو شکست ہوئی اور زید بن عبدالرحمن بن عوف اور عبداللہ بن نوفل سمیت کئی اکابرین شہید ہوئے۔[12] مسلم نے فتح حاصل کرنے کے بعد یزید کے حکم کے مطابق بے پناہ قتل و غارت گری کی اور یہ سلسلہ تین دن تک جاری رہا۔ اس واقعے میں سینکڑوں شرفائے قریش و انصار اور ہزاروں دیگر قبائل کے آدمی کام آئے۔ اسی لیے اس مسلم کو مسرف کا لقب دیا گیا۔

ابن عقبہ نے تحریک کو کچل دیا اور مدینہ میں بے شمار مسلمانوں اور صحابہ و تابعین کو تہ تیغ کیا۔ ابن اثیر لکھتا ہے: مسلم بن عقبہ نے مدینہ کو تین دن تک اپنے لشکروالوں کے لیے مباح کر دیا اور انھوں نے جو چاہا کیا۔ (كامل ابن اثير، ج 4، ص 117)۔

ابن قتیبہ لکھتا ہے: ایک شامی سپاہی ایک گھر میں داخل ہوا اور مال و دولت کے بارے میں پوچھا، گھر کی خاتون نے کہا: جو کچھ تھا وہ تمھارے سپاہی لوٹ کر لے گئے۔ یزیدی سپاہی نے اس کی گود سے شیر خوار بچہ چھین کر دیوار پر دے مارا جس کی وجہ سے بچے کا مغز باہر آگیا۔ (مسلم بن قتيبۃ، الامامۃ والسیاسۃ، ج1، ص832)۔

مسلم بن عقبہ نے مدینہ پر مسلط ہونے کے بعد ان سے یزید کے غلاموں کے طور بیعت لی اور ان سے ان کے مال و جان اور اولاد پر یزید کے حق تصرف کا عہد لیا۔ اور جس نے ایسا نہ کیا وہ شہید کر دیا گیا۔ (تاريخ طبرى، ج 4، ص 381-384)۔ (كامل ابن اثير، ج 4، ص 123-124)۔(مروج الذہب، ج3، ص70)۔

کربلا کے واقعے میں یزید کو سماجی حوالے سے بھی شکست ہوئی تھی چنانچہ اس نے ابن عقبہ سے کہا تھا امام زین العابدین علیہ السلام کو نہ چھيڑے۔ اس درد ناک واقعے میں مہاجر وانصار سے سترہ سو افراد اور دوسرے مسلمانوں میں سے دس ہزار لوگ قتل ہوئے۔(مسلم بن قتيبۃ، الامامۃ والسياسۃ، ج1، ص239 وج2، ص19)۔

ابن ابی الحدید لکھتا ہے: یزیدی فوج نے مدینہ کے لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کیا؛ زمین پر گرے ہوئے خون کی فراوانی تھی اور قدم رکھنے کی جگہ نہ تھی۔ مہاجرین و انصار اور ان کی اولادوں اور مجاہدین بدر کو قتل کیا اور باقیماندہ لوگوں سے یزید کے غلاموں کی حیثیت سے بیعت لی۔(شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج3، ص952)۔

تمام مؤرخین لکھتے ہیں: مسلم بن عقبہ نے اس قدر بے گناہ لوگوں کا خون بہایا کہ وہ مسرف کہلایا۔ (مسعودی۔ مروج الذهب، جلد3، ص96)۔(کامل ابن اثیر، ج4، ص120)۔

اس واقعے میں ہزاروں خواتین کو جبری زنا کا نشانہ بنایا گیا جس سے بن باپ کے بے شمار بچے پیدا ہوئے۔(مسلم بن قتيبۃ، الامامۃ و السياسۃ، ج2، ص 15)

حموی لکھتا ہے: مسلم بن عقبہ نے خواتین کو اپنے فوجیوں کے لیے مباح کر دیا تھا۔(یاقوت حمودی معجم البلدان، ج2، ص942 (لفظ حرہ))۔

سیوطی لکھتے ہیں: حسن بصری نے واقعے کو یاد کرتے ہوئے کہا: خدا کی قسم! اس واقعے میں کسی کو بھی نجات نہیں ملی؛ زیادہ تر صحابہ اور دوسرے مسلمان مارے گئے، مدینہ کو لوٹا گیا اور ایک ہزار کنواری لڑکیوں کے ساتھ زنا کیا گیا!!۔ اس کے بعد حسن بصری نے آیت استرجاع "(اناللہ و انا الیہ راجعون)" کی تلاوت کرتے ہوئے کہا: حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تھا: "جس نے اہلیان مدینہ کو ہراساں کیا اس پر خدا، ملائکہ اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔ [13]

تین دن کے بعد باقی ماندہ لوگوں سے یزید کی غلامی اور جان و مال کا مالک یزید کو بنانے کے کے عنوان سے جبراً بیعت لی گئی اور انکار کی صورت میں یا یہ کہنے پر کہ میں قرآن و سنت پر بیعت کرتا ہوں شہیدکر دیا گیا۔ امام زین العابدین بھی پیش ہوئے لیکن یزید کی ہدایت کے مطابق ان سے کوئی سختی نہ کی گئی۔ مدینۃ النبی پر یہ حملہ 63ھ میں ہوا جو واقعۂ حرہ کہلاتا ہے۔ یہ یزیدی عہد کا ایک بہت بڑا شرمناک المیہ تھا۔تاریخ کے اوراق اس رسوائی سے بھرے پڑے ہیں کوئی مورخ ایسا نہیں جس نے اسے بیان نہ کیا ہو۔ واقعہ حرہ، یزید بن معاویہ کا تاریخی جرم تھا یہ واقعہ ذو الحجہ سنہ 63 ہجری میں رونما ہوا۔ (ابن اثیر، کامل، ج4، ص120)۔(طبری، تاریخ طبری، ج4، ص374)

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ Lammens, p. 693.
  2. Lammens, p. 694.
  3. Lammens, p. 693.
  4. Gil 1997, p. 120.
  5. Lammens, p. 693.
  6. Lammens, p. 693.
  7. Lammens, p. 693.
  8. Lammens, p. 693.
  9. Lammens, pp. 693–694.
  10. تاریخ ابن خلدون جلد دوم صفحہ 136
  11. البدایہ و النہایہ
  12. (تاریخ الخلفاء، صفحہ 233)۔(مسلم، صحیح، کتاب الحج، باب فضل المدینہ، حدیث 10 و16)۔(مسند احمد، ج4، ص55)۔(کنزالعمال، ج12، ص246 تا 247)۔