مندرجات کا رخ کریں

نور الحسن شاہ بخاری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سید نور الحسن شاہ بخاری
معلومات شخصیت
پیدائشی نام نور الحسن
پیدائش 1905ء
بمقام راجن پور، ضلع ڈیرہ غازی خان، برطانوی ہند (موجودہ ضلع راجن پور، پنجاب، پاکستان)
وفات 4 جنوری 1984ء
بمقام ضلع ملتان
قومیت  برطانوی ہند
 پاکستان
عرفیت امام اہلسنت حضرت مولانا سید نور الحسن شاہ بخاری
مذہب اسلام
عملی زندگی
مادر علمی دارالمبلغین لکھنؤ ، دارلعلوم دیوبند ہندوستان
پیشہ قائد تنظیم اہلسنت والجماعت ،دعوت وتبلیغ ،خطابت،تحقیق، تصنیف وتالیف
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں دفاع صحابہ واہلبیت، بانی وقائدتنظیم ا ہلسنت والجماعت ، تصانیف:الصحاب فی الکتاب، عادلانہ دفاع،کشف الحقائق وغیرہم
باب ادب

سیدنورالحسن شاہ بخاری پاکستانی سنی عالم دین، مبلغ،مقرر،خطیب،محقق اور مصنف تھے۔ آپ کا شمار تنظیم اہلسنت والجماعت کے قائدین اور بانیان میں ہوتا ہے۔[1] آپ نے اپنی قائدانہ اور مقررانہ صلاحیتوں کے ذریعے تحاریک ختم نبوت، دفاع صحابہ واہل بیت،نفاذشریعت اور ردرفض وبدعت میں تحریکی،تنظیمی،تقریری وتصنیفی کردار ادا کیا۔

ولادت

[ترمیم]

آپ کی پیدائش 1905ء میں راجن پور ضلع ڈیرہ غازی خان (موجودہ ضلع راجن پور) کے علاقے میں ہوئی۔

وطن

[ترمیم]

آپ کا تعلق راجن پور ضلع ڈیرہ غازی خان (موجودہ ضلع راجن پور) سے تھا۔ مگر تعلیم وتنظیم کی خاطر دیوبند،امرتسر،لاہور اور ملتان میں بھی مقیم رہے۔

تعلیم

[ترمیم]

اس زمانہ میں دستیاب ذرائع اور سہولتوں کے مطابق پنجم پاس کرنے کے بعدبستی "ساھن والا" راجن پور میں بطورٹیچرتدریس کاآغازکیا۔ مطالعہ اورتحصیل علوم دین کا شوق تھا۔اسلاف امت کے ساتھ شروع سے گہراتعلق اورمحبت وعقیدت تھی۔ آغاز سے ہی صاحب مطالعہ تھے،ذاتی مطالعہ ہی کی بنیاد پر محدود حلقہ میں کبھی کبھار کچھ بیان بھی فرما دیتے تھے۔ایسے ہی مطالعہ کے دوران 1929ء میں ایک اشتہار انجمن خدام الدین کے رسالے کا دیکھا جو ڈاک خرچ پر مفت ارسال کیے جاتے تھے، آپ نے وہ منگوا لیے۔ساتھ ہی دسمبر 1929ء میں خدام الدین کے جلسہ کا اشتہار مع نظام الاوقات آگیا۔ اس زمانہ میں ڈیرہ غازی خان ایک پسماندہ ضلع تھا۔ عوام کی تفریح طبع یا تو جلسے ہوتے تھے یا میلے۔ آپ نے جب اکابرین کے نام پڑھے تو دل مچلنے لگا کہ جلسہ میں جائیں۔جلسہ دسمبر میں تھا تو اسکول سے بھی تعطیلات تھیں،سو آپ جلسے کے لیے روانہ ہوئے۔جلسے میں آپ نے تقاریر سنیں اور نوٹ کیں۔دوران وقفہ احمد علی لاہوری سے ملے، انھوں نے تقریر دیکھی تو انور شاہ کاشمیری کی تقریر بھی نوٹ کرنے کا کہا یہاں سے اکابرین سے تعلق پیدا۔

دارلعلوم دیوبند میں حصول تعلیم

[ترمیم]

1935ء میں عطاء اللہ شاہ بخاری نے آپ پر زور دیا کہ آپ دیوبند جاکر تعلیم حاصل کریں۔سردار احمد خان پتافی نے بھی آپ کو اس پر راضی کیا کہ تاکہ فضلاء دیوبند کی ایک خالصتاً تبلیغی جماعت فرق باطلہ کا مقابلہ کرنے کے لیے اور عوام میں فہم دین پیدا کرنے کے لیے قائم کی جائے۔ 1935-1936ء میں آپ دارلعلوم دیوبند حصول تعلیم کے لیے حاضر ہوئے۔1938ء میں دورہ مکمل کر سند فضیلت حاصل کی۔[2] اس کے بعد دارلمبلغین لکھنؤ گئے جہاں سے عبد الشکور لکھنوی کے زیر تربیت ردرفض وبدعت میں مہارت حاصل کی۔

اساتذہ

[ترمیم]

خدمات

[ترمیم]

1931ء میں آپ نے اکابرین کو "سکھانی والا" ضلع ڈیرہ غازی خان میں ایک جلسہ میں مدعو کیا۔ 1934ء میں آپ نے ایک رسالہ"دین و دولت" اکابرین کی تصدیقات کے ساتھ شائع کیا۔آپ کی ساری زندگی تنظیم کے لیے وقف تھی۔ تحریر وتقریر کےذریعے تنظیم اہلسنت والجماعت کے فکر کا پرچار کرتے۔ ہفت روزہ رسالہ "دعوت" لاہورکی ادارت بھی کی۔شعبہ نشر و اشاعت کے لیے اہل قلم کی ضرورت ہوئی تو محمد نافع اور خالد محمود جیسے محقق علما کو تنظیم میں لائے۔ مناظرین کی ضرورت پڑی تو دوست محمد قریشی کو ڈابھیل میں تحصیل علم کے لیے تیار کیا۔عبدالستارتونسوی کو جامعہ نظامیہ تونسہ سے لے آئے۔ خطباء کی ضرورت پڑی تو تنظیم کے منبر سے عبد الشکور دینپوری،ضیاء القاسمی اورعبدالمجید ندیم جیسے خطباء منتخب کیے۔ اس سب کے باوجود جو وقت ملا،جیل میں سفر میں یا گھر میں، آپ نے متعدد کتب تصنیف فرمائیں۔یوں آپ نے تنظیم کے مرکزی راہ نما،مبلغ ومقرر ہونے کے سبب اس کی تعمیروترقی میں خون پسینے کا کردار ادا کیا۔[3]

تحریک ختم نبوت میں کردار

[ترمیم]

کسی زمانہ میں تنظیم اہل سنت کا لاہور سے ہفت روزہ رسالہ "دعوت" شائع ہوتا تھا جس کا ملک کے رسائل میں بڑا نام و مقام تھا۔ نور الحسن شاہ بخاری بھی اس کے ایڈیٹر رہے۔ آپ نے 1949ء میں اس کا "مرزا غلام احمد نمبر"شائع کیا۔ اس میں ملک کے نامور اہل قلم اور سیاست دانوں کے رشحات قلم شائع کیے گئے۔ ایک سال میں اس خاص نمبر کے تین ایڈیشن شائع ہوئے۔ مئی 1950ء میں اس خاص نمبر کا تیسرا ایڈیشن شائع ہوا۔"احتساب قادیانیت" جلد 55 میں یہ شائع ہوا۔[4] 1953ء اور 1974ء کی تحاریک ختم نبوت میں آپ نے اپنی تقاریر اور قائدانہ صلاحیتوں کی بنا پر زریں کردار ادا کیا۔ اس سلسلے میں پابند سلاسل بھی ہونا پڑا۔

علمی تبحر

[ترمیم]

اہل تشیع کی اصول اربعہ ،تفاسیر اور دیگر متداول کتب کے صدہا حوالے ازبر تھے اسی ضمن میں عبدالستارتونسوی نے کہاکہ آپ کی تقریر ہماری تحریر تھی۔آپ نے تقسیم ملک کے بعد ہر دینی تحریک میں قائدانہ کردار ادا کیا۔31 علما کے22 نکات پر مشتمل اسلامی دستور کا خاکہ مرتب کرنے والوں میں بھی شریک تھے۔ 1953ء کی تحریک ختم نبوت کی کراچی کی میٹنگ میں تنظیم کے مندوب کی حیثیت سے شریک ہوئے۔اسی طرح جب مسئلہ حیات النبی ﷺ پیدا ہوا تو 1394ء میں ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں تنظیم اہل سنت، جمیعت علمائے اسلام،خیرالمدارس کے نمائندگان نے شرکت اور اس اجلاس میں طے پایا کہ اس موضوع پر ایک مختصر کتاب آپ سے لکھوائی جائے۔ یوں آپ نے "حیات الاموات" تصنیف فرمائی۔

تصانیف

[ترمیم]

نور الحسن شاہ بخاری نے کم وبیش 25 کتب تصنیف فرمائیں‌۔ چند مشہور کتب کے اسماء حسب ذیل ہیں۔

  • رسالہ دین و دولت
  • عادلانہ دفاع
  • الاصحاب فی الکتب
  • ہجرت رسول
  • یار غار رسول (ثانی اثنین)
  • سیرت صدیق اکبر
  • سیرت فاروق اعظم
  • سیرۃ امام مظلوم سیدنا عثمان ذوالنورین
  • شہادت عثمان
  • مصائب الصحابہ
  • عادلانہ دفاع
  • کشف الحقائق
  • توحید اور شرک کی حقیقت
  • نبی و صدیق
  • حیات الاموات
  • رسالہ حجیت حدیث
  • اہل حق کی تنظیم و تعمیر
  • مؤثر مدافعت
  • سیرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
  • بشریت النبی صلی اللہ علیہ وسلم
  • سیرت اصحاب مصطفی

سفر آخرت

[ترمیم]

30دسمبر 1983ء اپنی زندگی کا آخری جمعہ تنظیم اہل سنت نواں شہر ملتان کی مسجد میں پڑھایا اور کہا کہ زندگی کی آخری دو خواہشیں تھیں۔

  • حرمین شریف کی حاضری سو وہ اس سال پوری ہوئی۔
  • "سیرت اصحاب مصطفی" کتاب کی تکمیل،وہ بھی اس ہفتہ مکمل کرلی۔ ہے۔ اب فارغ ہوں اور سفر آخرت کے لیے تیار ہوں۔[5]

وصال

[ترمیم]

4جنوری1984ء بروز بدھ کو عشاء کی نماز کی خود امامت کرائی۔ وظیفہ پڑھا پھر کتاب کامسودہ لے کر نظر ثانی کے لیے بیٹھ گئے۔ اسی حالت میں دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ اپنی زندگی کی آخری خواہش و آخری تصنیف کو جھولی میں لیے اللہ کو پیارے ہو گئے۔

جنازہ وتدفین

[ترمیم]

5 جنوری 1984ء بروز جمعرات باغ لانگے خان ضلع ملتان میں جنازہ ہوا۔ امامت کے فرائض تنظیم اہلسنت کے قائد عبد الستار تونسوی نے ادا کیے۔ آپ کی تدفین ضلع ملتان میں ہوئی۔

  1. ماہنامہ الرشید جولائی 1974ء
  2. اکابر علما دیوبند ،از حافظ محمد اکبر شاہ بخاری
  3. البلاغ،جلد18مارہ 5،صفحہ 203
  4. اللہ وسایا (ناشر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت)۔ چمنستان ختم نبوت کے گلہاۓ رنگا رنگ صفحہ 1576-1577 
  5. اللہ وسایا مولانا۔ چمنستان ختم نبوت کے گلہاۓ رنگا رنگ صفحہ 1576۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت