رشید ترابی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
رشید ترابی
 

معلومات شخصیت
پیدائش 9 جولا‎ئی 1908ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
حیدر آباد   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 18 دسمبر 1973ء (65 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کراچی   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان
برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد عقیل ترابی ،  نصیر ترابی   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی الہ آباد یونیورسٹی   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ فلسفی ،  شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان انگریزی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

رضا حسین المعروف علامہ رشید ترابی (ولادت: 9 جولائی 1908ء - وفات: 18 دسمبر 1973ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے عالم اسلام کے بلند پایہ خطیب، عالم دین اور شاعر تھے۔[2]

حالات زندگی[ترمیم]

علامہ رشید ترابی 9 جولائی 1908ء کو برطانوی ہند کی ریاست حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ ان اصل نام رضا حسین تھا لیکن رشید ترابی کے نام سے مشہور ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم علامہ سید علی شوستری، آغا محمد محسن شیرازی، آغا سید حسن اصفہانی اور علامہ ابوبکر شہاب عریضی سے حاصل کی، شاعری میں نظم طباطبائی اور علامہ ضامن کنتوری کے شاگرد ہوئے اور ذاکری کی تعلیم علامہ سید سبط حسن صاحب قبلہ سے اور فلسفہ کی تعلیم خلیفہ عبدالحکیم سے حاصل کی۔ عثمانیہ یونیورسٹی سے بی اے اور الہ آباد یونیورسٹی سے فلسفہ میں ایم اے کیا۔ علامہ رشید ترابی نے 10 برس کی عمر میں اپنے زمانے کے ممتاز ذاکر مولانا سید غلام حسین صدر العلماء کی مجالس میں پیش خوانی شروع کردی تھی۔ سولہ برس کی عمر میں انھوں نے عنوان مقرر کرکے تقاریر کرنا شروع کیں۔ تقاریر کا یہ سلسلہ عالم اسلام میں نیا تھا اس لیے انھیں جدید خطابت کا موجد کہا جانے لگا۔ 1942ء میں انھوں نے آگرہ میں شہید ثالث کے مزار پر جو تقاریر کیں وہ ان کی ہندوستان گیر شہرت کا باعث بنیں۔ علامہ رشید ترابی اس دوران میں عملی سیاست سے بھی منسلک رہے اور نواب بہادر یار جنگ کے ساتھ مجلس اتحاد المسلمین کے پلیٹ فارم پرفعال رہے۔ محمد علی جناح کی ہدایت پر انھوں نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور 1940ء میں حیدرآباد دکن کی مجلس قانون ساز کے رکن بھی منتخب ہوئے۔[3] عقیل ترابی ونصیر ترابی ان کے فرزند تھے۔

پاکستان آمد[ترمیم]

دسمبر 1947ء میں علامہ رشید ترابی کو قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان مدعو کیا تاکہ حضرت مالک اشتر کے نام لکھے گئے حضرت علی ابن ابی طالب کے مشہور خط کا انگریزی میں ترجمہ کریں۔ یہ صفر کا مہینہ تھا، رشید ترابی کی کراچی میں موجودگی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے کراچی کے ایک مہتممِ مجالس سید محمد عسکری نے رشید ترابی کو خالق دینا ہال کراچی میں صفر کے دوسرے عشرہ مجالس سے خطاب کرنے کی درخواست کی۔ علامہ نے یہ درخواست قبول کرلی اور 10 صفر، 1367ھ (24 دسمبر، 1947ء) سے چہلم تک خالق دینا ہال میں اپنے پہلے عشرہ مجالس سے خطاب کیا۔ اس کے بعد (سے 26 سال تک) وہ جب تک زندہ رہے وہ خالق دینا ہال میں ہر برس مجالس کے عشرے سے مستقل خطاب کرتے رہے۔[4]

انھوں نے 1951ء سے 1953ء تک کراچی سے روزنامہ المنتظرکا اجرا کیا۔ اس سے قبل انھوں نے حیدرآباد دکن سے بھی ایک ہفت روزہ انیس جاری کیا تھا۔ 1957ء میں ان کی مساعی سے کراچی میں 1400 سالہ جشن مرتضوی بھی منعقد ہوا۔[3]

ادبی خدمات[ترمیم]

علامہ رشید ترابی ایک قادر الکلام شاعر بھی تھے۔ ان کے کلام کا ایک مجموعہ شاخ مرجان کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی مرتب کردہ کتابیں طب معصومین، حیدرآباد کے جنگلات اور دستور علمی و اخلاقی مسائل بھی شائع ہو چکی ہیں۔[3]

تصنیف و تالیف[ترمیم]

  • شاخ مرجان
  • طب معصومین
  • حیدرآباد کے جنگلات
  • دستور علمی و اخلاقی مسائل

وفات[ترمیم]

علامہ رشید ترابی 18 دسمبر 1973ء کو 65 برس کی عمر میں کراچی میں وفات پاگئے اور کراچی میں حسینیہ سجادیہ کے احاطے میں آسودۂ خاک ہوئے۔[3]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب ڈسکوجس آرٹسٹ آئی ڈی: https://www.discogs.com/artist/4914335 — بنام: Allama Rasheed Turabi — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  2. Taha Turabi (19 Dec 2010)۔ "Urdu Literature: Remembering Rasheed Turabi"۔ Dawn۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 دسمبر 2012 
  3. ^ ا ب پ ت پاکستان کرونیکل، عقیل عباس جعفری، ورثہ / فضلی سنز، کراچی، 2010ء، ص 383
  4. پاکستان کرونیکل، عقیل عباس جعفری، ورثہ / فضلی سنز، کراچی، 2010ء، ص 10