مندرجات کا رخ کریں

شب قدر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
شب قدر/لیلۃ القدر
مسجد جمکران میں شب قدر. (2016ء)
باضابطہ ناملیلۃ القدر
عرفیتشب قدر، عبادت کی رات
منانے والےاہل اسلام
اہمیتنماز تہجد اور توبہ، استغفار،
محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی
رسوماتنفلی نمازیں، ذکر اور اذکار، توبہ اور استغفار تلاوت قرآن، اعتکاف، نماز تہجد
تاریخمضمون دیکھیں

لیلۃ القدر یا شب قدر اسلامی مہینے رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں (اکیسویں، تئیسویں، پچیسویں، ستائسویں اور انتیسویں) میں سے ایک رات جس کے بارے میں قرآن کریم میں سورہ قدر کے نام سے ایک سورت بھی نازل ہوئی ہے۔ اس رات میں عبادت کرنے کی بہت فضیلت اور تاکید آئی ہے۔ قرآن مجید میں اس رات کی عبادت کو ہزار مہینوں سے بہتر قرار دیا گیا ہے۔ اس حساب سے اس رات کی عبادت 83 سال اور 4 مہینے بنتی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جس نے ایک ہزار مہینے تک اللہ کے راستے میں جہاد کیا، صحابہ کو رشک آیا تو اللہ نے اس کے بدلے میں یہ رات عطا فرمائی۔ بعض روایات میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پہلی امتوں کی عمروں کو دیکھا کہ بہت زیادہ ہوئی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت کی عمریں کم ہیں اگر وہ نیک اعمال میں ان کی برابری کرنا چاہیں تو ناممکن ہے تو اس پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رنج ہوا تو اللہ نے اس کے بدلے میں یہ رات عطا فرمائی۔[1]

وجہ تسمیہ

[ترمیم]

لیلۃ القدر کا معنی قدر اور تعظیم والی رات ہے یعنی ان خصوصیات اور فضیلتون کی بنا پر یہ قدر والی رات ہے یا پھر یہ معنی ہے کہ جو بھی اس رات بیدار ہو کر عبادت کرے گا وہ قدر و شان والا ہوگا۔ اس رات کو شرف حاصل ہوا ہے کیونکہ اس میں نزول قرآن ہوا ہے، قرآن مجید کتابوں میں عظمت و شرف والی کتاب ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر یہ کتاب نازل ہوئی وہ تمام انبیا پر عظمت و شرف رکھتے ہے۔ اس کتاب کو لانے والے جبریل بھی سب فرشتوں پر عظمت و شرف رکھتے ہیں تو یہ رات لیلۃ القدر بن گئی۔

قدر کا معنی تنگی بھی کیا گیا ہے، یعنی اس کی تعیین کا علم خفیہ رکھا گیا ہے۔ خلیل بن احمد الفراہیدی کہتے ہیں کہ لیلۃ القدر کو قدر والی رات اس لیے کہتے ہیں کہ اس رات فرشتوں کی کثرت کی وجہ سے زمین تنگ ہوجاتی ہے، یعنی قدر تنگی کے معنی میں ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ ”اور جب اللہ تعالی اسے آزمائش میں ڈالتا ہے تو اس پر اس کے رزق کو تنگ کر دیتا ہے۔“ (الفجر 16) تو یہاں پر قدر کا معنی ہے کہ اس کا رزق تنگ کر دیا جاتا ہے۔

ایک قول یہ بھی ہے کہ لیلۃ القدر، القدر کے معنی میں ہے یعنی دال پر زبر ہے جس کا معنی تقدیر ہے، وہ اس لیے کہ اس رات میں پورے سال کے احکام کی تقدید لکھی جاتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ ”اس رات میں ہر حکمت والے کام کی تقسیم ہوتی ہے۔“ اور اس لیے بھی کہ اس رات میں تقادیر لکھی اور بنائی جاتی ہیں۔

تاریخ

[ترمیم]

اکثر علما کا خیال ہے کہ یہ 27ویں رات ہے۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ اس رمضان کی آخری دس راتوں میں تلاش کرو جبکہ مہینہ ختم ہونے میں نو دن باقی (اکیسویں) ہوں یا سات دن (تیئسویں) یا پانچ دن باقی (پچیسویں/ستائیسویں)۔[2] استنباطات کی بنا پر ابن عباس یہی خیال کرتے تھے کہ لیلۃ القدر ستائیسویں رات ہی ہے اور ابن عباس سے یہ بات ثابت ہے۔ اور ان امور میں سے جن سے یہ استنباط کیا جاتا ہے کہ لیلۃ القدر ستائیسویں رات ہے وہ اللہ تعالی کے فرمان کا کلمہ ہے جس میں یہ ہے: (تنزل الملائکۃ والروح فیھا) اس میں فرشتے اور روح اترتے ہیں۔ یہ سورۃ القدر کا ستائیسواں کلمہ ہے۔ بعض علمائے کرام نے تو اسے راجح قرار دیا ہے کہ شب قدر ہر سال ہی کسی ایک معین رات میں نہیں ہوتی بلکہ منتقل ہوتی رہتی ہے، یحییٰ بن شرف نووی کہتے ہیں کہ اس میں صحیح احادیث کے تعارض کی بنا پر ظاہر، صحیح اور مختار یہی ہے یہ منتقل ہوتی رہتی ہے اور انتقال کے بغیر احادیث میں جمع ممکن نہیں۔ [3]

یہ درست نہیں معلوم کہ شب قدر کون سی رات ہے۔ اہل تشیع کے مطابق یہ انیسویں، اکیسویں یا تئیسویں رات ہے اور ستائیسویں رات اور پندرہ شعبان کی رات کے بارے میں بھی شب قدر ہونے کا احتمال دیا جاتا ہے۔[4] اہل سنت رمضان کی ستائیسویں رات جبکہ اہل تشیع رمضان کی تئیسویں رات[5] پر زیادہ زور دیتے ہیں۔

علامات

[ترمیم]

شب قدر پہچاننے کی علامات اور نشانیاں یہ تین احادیث صحیح ہیں:

  1. شب قدر کی علامات میں یہ بھی ہے کہ اس صبح سورج طلوع ہو تو اس میں تمازت نہیں ہوتی۔[6]
  2. شب قدر معتدل نہ تو گرم اور نہ سرد ہوتی ہے، اس دن صبح سورج کمزور اور سرخ طلوع ہوتا یعنی تمازت نہیں ہوتی۔ (مسند ابو داؤد طیالسی)[7]
  3. سب قدر روشن رات ہوتی ہے نہ تو گرم اور نہ سرد ہوتی اور اس میں کوئی ستارہ نہیں پھینکا جاتا، یعنی شہاب ثاقب نہیں گرتا۔ (مسند احمد بن حنبل)[8]

قرآن میں شب قدر

[ترمیم]

قرآن مقدس میں اس کا ذکر خاص انداز میں کیا گیا ہے۔
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ • وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ • لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ • تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ • سَلَامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ

بے شک ہم نے اسے شب قدر میں اتارا ٭ اور تم نے کیا جانا، کیا شب قدر؟ ٭ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ٭ اس رات میں فرشتے اور جبریل اترتے ہیں اپنے رب کے حکم سے، ہر کام کے لیے، وہ سلامتی ہے صبح چمکنے تک۔[9]

مزید دیکھیے

[ترمیم]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. معارف القرآن از محمد شفیع عثمانی، جلد 8، صفحہ 791
  2. بخاری (4 / 260)
  3. المجموع للنووی 6 / 450
  4. کاشانی، منہج الصادقین، 1344ش، ج4، ص274 بہ نقل از افتخاری، «دعا و شب قدر از منظر موسی صدر»، ص17۔
  5. اتفق مشایخنا [فی لیلۃ القدر] علی انہا اللیلۃ الثالثۃ و العشرون من شہر رمضان۔ صدوق، الخصال، 1362ش، ص519۔
  6. صحیح مسلم 762
  7. صحیح ابن خزیمہ 2912
  8. مجمع الزوائد 3 / 179
  9. ترجمہ کنزالایمان، قرآن:سورہ قدر مکمل