مرتضی حسن چاند پوری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ابنِ شیرِ خدا[1]

مرتضی حسن چاند پوری
مرتضی حسن چاند پوری کا خطاطی نام
ذاتی
پیدائش1868ء
وفات31 دسمبر 1951(1951-12-31) (عمر  82–83 سال)
مذہباسلام
مرتبہ

مرتضی حسن چاند پوری (1868-1951) ایک بھارتی سنی عالمِ دین تھے۔[2] وہ تصوف کے چشتی سلسلہ میں اشرف علی تھانوی کے مجاز تھے۔[3]

سوانح[ترمیم]

مرتضی حسن چاند پوری محمد یعقوب نانوتوی کے شاگرد تھے۔ وہ دار العلوم دیوبند سے سنہ 1304 ہجری میں فارغ التحصیل ہوئے۔ وہ تصوف میں پہلے رفیع الدین دیوبندی سے وابستہ تھے اور بعد میں انھوں نے اشرف علی تھانوی سے رجوع کیا اور ان کے مجاز ہوئے۔[2][4]

چاند پوری نے دربھنگہ اور مراد آباد کے اسلامی مکاتب فکر میں طویل عرصہ تک تدریسی خدمات انجام دیں؛ لیکن بعد میں دار العلوم دیوبند میں شمولیت اختیار کی۔ آپ ایک عرصہ تک ناظم تعلیمات رہے پھر بعد میں انھیں شعبۂ تبلیغ کی انتظامیہ سونپی گئی۔[2] وہ یکم رمضان 1350ھ کو دیوبند مدرسہ سے ریٹائر ہوئے اور اپنے آبائی وطن چاندپور، بجنور منتقل ہو گئے ، جہاں وہ 31 دسمبر 1951 کو اسلامی مہینہ ربیع الثانی 1371 ھ کے مطابق دارِ فانی کی طرف کوچ کر گئے۔ اپنے بعد ایک بیٹا چھوڑا، جن کا نام محمد انور تھا۔[1][2][4]

چاند پوری نے قادیانیوں اور بریلویوں کے ساتھ کئی مناظرے کیے[5] ان کے تلامذہ میں سید سلیمان ندوی بھی شامل ہیں ، جنھوں نے سیرت النبی تصنیف کی اور دار المصنفین شبلی اکیڈمی قائم کیا۔ [6]

تصنیفی خدمات[ترمیم]

چاند پوری نے ان الزامات اور تہمتوں کی تردید کے لیے بنیادی طور پر مضامین اور کتابچے لکھے، جو احمد رضا خان نے دیوبندی علما؛ خصوصاً محمد قاسم نانوتوی، رشید احمد گنگوہی، خلیل احمد سہارنپوری اور اشرف علی تھانوی پر لگائے تھے۔[7] ان کے بیشتر مضامین مجموعۂ رسائلِ چاند پوری کے نام سے مرتب اور شائع ہوئے ہیں۔ نظام الدین اسیر ادروی نے اپنی کتاب میں درج ذیل کتابوں کا تذکرہ کیا ہے:[8]

  • مرزائیت کا خاتمہ
  • قادیانیت میں قیامت خیز بھونچال
  • مرزا اور مرزائیوں کو دربارِ نبوت سے چیلنج
  • مرزائیوں کی تمام جماعتوں کو چیلنج
  • تحقیق الکفر
  • تعلیم الخبیر فی حدیث ابن کثیر
  • قادیانیوں سے 70 سوالات
  • صاعقۂ آسمانی بر فرقۂ قادیانی

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب ابو محمد مولانا ثناء اللہ سعد شجاع آبادی۔ علمائے دیوبند کے آخری لمحات۔ مکتبہ رشیدیہ، سہارنپور۔ صفحہ: 70 
  2. ^ ا ب پ ت سید محبوب رضوی۔ تاریخ دار العلوم دیوبند (جلد 2) (1993 ایڈیشن)۔ ادارۂ اہتمام، دار العلوم دیوبند۔ صفحہ: 63-64 
  3. "فہرست مجازین حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ"۔ اشرفیہ ڈاٹ کام۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جولا‎ئی 2019 
  4. ^ ا ب محمد طیب قاسمی۔ مدیر: حافظ محمد اکبر شاہ بخاری۔ دار العلوم دیوبند کی 50 مثالی شخصیات (جولائی 1999 ایڈیشن)۔ مکتبہ فیض القرآن، دیوبند۔ صفحہ: 143 
  5. نظام الدین اسیر ادروی۔ تذکرہ مشاہیر ہند: کاروان رفتہ (2 اپریل 2016 ایڈیشن)۔ دیوبند: دار المؤلفین۔ صفحہ: 239 
  6. محمد میاں دیوبندی۔ ریشمی رومال تحریک (PDF) (2012 ایڈیشن)۔ دیوبند: شیخ الہند اکیڈمی .۔ صفحہ: 210۔ 12 اگست 2019 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 نومبر 2019 
  7. اشرف علی تھانوی۔ حفظ الایمان۔ دار الکتاب، دیوبند۔ صفحہ: 19 
  8. نظام الدین اسیر ادروی۔ دار العلوم دیوبند، احیائے اسلام کی عظیم تحریک (مئی 2015 ایڈیشن)۔ دار المؤلفین، دیوبند۔ صفحہ: 259