"6 روزہ جنگ" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار صفائی+ترتیب (14.9 core)
2 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.7
سطر 52: سطر 52:
<small>پاک فضائیہ پر مضمون کے لیے دیکھیے [[پاک فضائیہ]]</small>
<small>پاک فضائیہ پر مضمون کے لیے دیکھیے [[پاک فضائیہ]]</small>


6 روزہ جنگ میں پاک فضائیہ کے ہوا بازوں (پائلٹوں) نے بھی حصہ لیا ۔<ref>[http://www.scramble.nl/pk.htm اسکریمبل ڈاٹ این ایل]</ref> پاکستانی ہوا باز [[اردن]]، [[مصر]] اور [[عراق]] کی فضائیہ کی جانب سے لڑے اور اسرائیلی فضائیہ کے 3 جہازوں کو مار گرایا جبکہ ان کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔ بعض اطلاعات کے  مطابق اسرائیلی کی پیش قدمی رکنے کی سب سے  بڑی وجہ جنگ 
6 روزہ جنگ میں پاک فضائیہ کے ہوا بازوں (پائلٹوں) نے بھی حصہ لیا ۔<ref>{{Cite web |url=http://www.scramble.nl/pk.htm |title=اسکریمبل ڈاٹ این ایل |access-date=2008-02-20 |archive-date=2001-12-17 |archive-url=https://web.archive.org/web/20011217224910/http://www.scramble.nl/pk.htm |url-status=dead }}</ref> پاکستانی ہوا باز [[اردن]]، [[مصر]] اور [[عراق]] کی فضائیہ کی جانب سے لڑے اور اسرائیلی فضائیہ کے 3 جہازوں کو مار گرایا جبکہ ان کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔ بعض اطلاعات کے  مطابق اسرائیلی کی پیش قدمی رکنے کی سب سے  بڑی وجہ جنگ 
 میں پاک فوج کی شمولیت تھی گو کہ پاکستان کی صرف فضائیہ نے حصہ لیا تھا
 میں پاک فوج کی شمولیت تھی گو کہ پاکستان کی صرف فضائیہ نے حصہ لیا تھا


سطر 71: سطر 71:


== مغربی ذرائع ابلاغ ==
== مغربی ذرائع ابلاغ ==
اگرچہ جنگ کا آغاز اسرائیل نے کیا تھا، مگر دوسرے دن یورپ کی کئی معزز اخبارات نے چیختی ہوئی سرخیاں لگائیں جس میں عربوں کو جارح بتایا گیا تھا۔ میڈیا پر کنٹرول کا فائدہ ہمیشہ کی طرح مغرب نے اٹھایا<ref>
اگرچہ جنگ کا آغاز اسرائیل نے کیا تھا، مگر دوسرے دن یورپ کی کئی معزز اخبارات نے چیختی ہوئی سرخیاں لگائیں جس میں عربوں کو جارح بتایا گیا تھا۔ میڈیا پر کنٹرول کا فائدہ ہمیشہ کی طرح مغرب نے اٹھایا<ref>[http://news.independent.co.uk/fisk/article2636206.ece انڈیپنڈنٹ، برطانیہ، 9 جون 2007ء] {{wayback|url=http://news.independent.co.uk/fisk/article2636206.ece |date=20080830062725 }} Robert Fisk: Lies and outrages... would you believe it?</ref>
[http://news.independent.co.uk/fisk/article2636206.ece انڈیپنڈنٹ، برطانیہ، 9 جون 2007ء] Robert Fisk: Lies and outrages... would you believe it?
</ref>


== مزید دیکھیے ==
== مزید دیکھیے ==

نسخہ بمطابق 05:54، 1 جنوری 2021ء

6 روزہ جنگ
عرب اسرائیل جنگیں
سلسلہ عرب اسرائیل تنازعہ   ویکی ڈیٹا پر (P361) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عمومی معلومات
آغاز 5 جون 1967  ویکی ڈیٹا پر (P580) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اختتام 10 جون 1967  ویکی ڈیٹا پر (P582) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مقام مشرق وسطیٰ   ویکی ڈیٹا پر (P276) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
متحارب گروہ
 اسرائیل باقاعدہ:
 مصر
 سوریہ
 اردن
امداد:
 عراق
قائد
اسحاق رابین
موشے دایان
آرئیل شارون
عبدالحکیم عامر
عبدالمنیم ریاض
زید ابن شاکر
حافظ الاسد
قوت
2 لاکھ 64 ہزار، 197 لڑاکا طیارے مصر ایک لاکھ 50 ہزار، شام 75 ہزار، اردن 55 ہزار، سعودی عرب 20 ہزار؛ 812 لڑاکا طیارے
نقصانات
779 ہلاکتیں، 2563 زخمی، 15 قیدی 21 ہزار ہلاکتیں، 45 ہزار زخمی، 6 ہزار قیدی، 400 سے زائد طیارے تباہ
سوئز بحران   ویکی ڈیٹا پر (P155) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جنگ استنزاف   ویکی ڈیٹا پر (P156) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

6 روزہ جنگ (عربی:حرب الأيام الستة) جسے عرب اسرائیل جنگ 1967ء، تیسری عرب اسرائیل جنگ اور جنگ جون بھی کہا جاتا ہے مصر، عراق، اردن اور شام کے اتحاد اور اسرائیل کے درمیان لڑی گئی جس میں اسرائیل نے فیصلہ کن کامیابی حاصل کی۔

پس منظر

عرب اسرائیل تنازع
عرب اسرائیل جنگ 1948سوئز بحران6 روزہ جنگجنگ استنزافجنگ یوم کپورجنوبی لبنان تنازع 1978جنگ لبنان 1982جنوبی لبنان تنازع 1982-2000انتفاضہ اولجنگ خلیجالاقصی انتفاضہ2006 اسرائیل لبنان تنازع

مصر کے صدر جمال عبدالناصر کی جانب سے دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی سب سے نمایاں مثال یمن کی ہے۔ یہاں انہوں نے پہلے تو یمنی حریت پسندوں کے ایک گروہ سے سازش کرکے ستمبر 1965ء میں امام یمن کا تختہ الٹ دیا اور جب اس کے نتیجے میں شاہ پسندوں اور جمہوریت پسندوں کے درمیان جنگ چھڑگئی تو صدر ناصر نے اپنے حامیوں کی مدد کے لیے وسیع پیمانے پر فوج اور اسلحہ یمن بھیجنا شرع کر دیا اور چند ماہ کے اندر یمن میں مصری فوجوں کی تعداد 70 ہزار تک پہنچ گئی۔ بلاشبہ صدر ناصر کے اس جرات مندانہ اقدام کی وجہ سے عرب کے ایک انتہائی پسماندہ ملک یمن میں بادشاہت کا قدیم اور فرسودہ نظام ختم ہو گیا اور جمہوریت کی داغ بیل ڈال دی گئی لیکن یہ اقدام خود مصر کے لیے تباہ کن ثابت ہوا۔ ہمیشہ کی طرح یہاں بھی جمہوریت نے تباہی پھیلانا شروع کر دی 

صدر ناصر کی غلط فہمی

صدر ناصر یمن کی فوجی امداد کے بعد اس غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے تھے کہ اب مصر دنیائے عرب کا سب سے طاقتور ملک بن گیا ہے وہ اسرائیل کے مقابلے میں روس پر مکمل بھروسا کر سکتا ہے چنانچہ ایک طرف تو انہوں نے طاقت کے مظاہرے کے لیے ہزاروں فوجی یمن بھیج دیے اور دوسری طرف اسرائیل کو دھمکیاں دینا اور مشتعل کرنا شروع کر دیا۔ اقوام متحدہ کی جو فوج 1956ء سے اسرائیل اور مصر کی سرحد پر تعینات تھی صدر ناصر نے اس کی واپسی کا مطالبہ کر دیا اور آبنائے عقبہ کو جہاز رانی کے لیے بند کرکے اسرائیل کی ناکہ بندی کردی۔

واقعات جنگ

جزیرہ نما سینا پر اسرائیلی قبضہ 1967ء

اسرائیل نے جو جنگ کے لیے پوری طرح تیار تھا اور جس کو امریکا کی امداد پر بجا طور پر بھروسا تھا مصر کی کمزوری کا اندازہ کرکے جون 1967ء کے پہلے ہفتے میں بغیر کسی اعلان جنگ کے اچانک مصر پر حملہ کر دیا اور مصر کا بیشتر فضائی بیڑا ایک ہی حملے میں تباہ کر دیا۔ مصر کی فوج کا بڑا حصہ یمن میں تھا جسے بروقت بلانا نا ممکن تھا نتیجہ یہ ہوا کہ 6 دن کی مختصر مدت میں اسرائیل نے نہ صرف باقی فلسطین سے مصر اور اردن کو نکال باہر کیا بلکہ شام میں جولان کے پہاڑی علاقے اور مصر کے پورے جزیرہ نمائے سینا پر بھی قبضہ کر لیا اور مغربی بیت المقدس پر بھی اسرائیلی افواج کا قبضہ ہو گیا۔

ہزاروں مصری فوجی قیدی بنالئے گئے اور روسی اسلحہ اور ٹینک یا تو جنگ میں برباد ہو گئے یا اسرائیلیوں کے قبضے میں چلے گئے۔ عربوں نے اپنی تاریخ میں کبھی اتنی ذلت آمیز شکست نہیں کھائی ہوگی اور اس کے اثرات سے ابھی تک عربوں کو نجات نہیں ملی۔ اسرائیل کے مقابلے میں اس ذلت آمیز شکست کے بعد صدر ناصر کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ سعودی عرب اور اردن سے مفاہمت پیدا کی اور شاہ فیصل سے تصفیہ کے بعد جس کے تحت مصر نے یمن میں مداخلت نہ کرنے کا عہد کیا، مصری فوجیں یمن سے واپس بلالی گئیں۔ مصر کی شکست کی سب سے بڑی وجہ مصری فوج کی نااہلی اور مصری فوجی نظام کے نقائص تھے لیکن مصری فوج اور اسلحہ کی بڑی تعداد کو یمن بھیجنا بھی شکست کی ایک بڑی وجہ تھی۔

اسرائیل کا امریکی بحری جہاز پر حملہ

مصری سمندر کے قریب اسرائیلی جہازوں نے امریکی بحریہ کے جہاز لبرٹی پر حملہ کیا، جس میں 34 امریکی ہلاک ہوئے۔ اسرائیل اور امریکا نے بعد میں اسے غلط فہمی کا نتیجہ قرار دیا مگر اس کی امریکا نے باقاعدہ تحقیقات سے گریز کیا۔ بعض محققین نے دعوٰی کیا ہے کہ حملہ منصوبے کے تحت کیا گیا۔ ارادہ یہ تھا کہ جہاز ڈوبنے کے بعد ملبہ مصر پر ڈال کر امریکا کو براہِ راست جنگ میں گھسیٹ لیا جائے۔ مگر جہاز ڈوبا نہیں اور اس لیے مصر پر الزام نہیں لگایا جا سکا۔[1]

پاک فضائیہ

پاک فضائیہ پر مضمون کے لیے دیکھیے پاک فضائیہ

6 روزہ جنگ میں پاک فضائیہ کے ہوا بازوں (پائلٹوں) نے بھی حصہ لیا ۔[2] پاکستانی ہوا باز اردن، مصر اور عراق کی فضائیہ کی جانب سے لڑے اور اسرائیلی فضائیہ کے 3 جہازوں کو مار گرایا جبکہ ان کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔ بعض اطلاعات کے  مطابق اسرائیلی کی پیش قدمی رکنے کی سب سے  بڑی وجہ جنگ   میں پاک فوج کی شمولیت تھی گو کہ پاکستان کی صرف فضائیہ نے حصہ لیا تھا

نتائج

لائف میگزین کا سرورق، ایک اسرائیلی فوجی (بعد ازاں میجر یوسی بن حنان) نہر سوئز پر اسرائیلی قبضے کے بعد، ہاتھ میں کلاشنکوف جو کسی عربی سپاہی سے چھینی گئی ہے

اس جنگ میں عرب افواج کے 21 ہزار فوجی ہلاک، 45 ہزار زحمی اور 6 ہزار قیدی بنالئے گئے جبکہ اندازہ 400 سے زائد طیارے تباہ ہوئے۔

جبکہ اس کے مقابلے میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اسرائیل کے 779 فوجی مارے گئے جبکہ 2563 زخمی اور 15 قیدی بنالئے گئے۔

جون 1967ء کی جنگ میں شکست کے نتیجے میں غزہ (فلسطین) اور جزیرہ نمائے سینا کا 24 ہزار مربع میل (ایک لاکھ 8 ہزار مربع کلومیٹر) کا علاقہ اسرائیل کے قبضے میں آ گیا، نہر سوئز بند ہو گئی اور مصر جزیرہ نمائے سینا کے تیل کے چشموں سے محروم ہو گیا۔ صدر ناصر نے شکست کی ذمہ داری تسلیم کرتے ہوئے فورا استعفی دے دیا لیکن ان کا استعفی واپس لینے کے لیے قاہرہ میں مظاہرے کیے گئے اور صدر ناصر نے استعفی واپس لے لیا۔ اس طرح صدر ناصر کا اقتدار تو قائم رہا لیکن 1967ء کی شکست کی وجہ سے مصری فوج کی عزت خاک میں مل گئی۔ لوگ فوجیوں کو دیکھ کر فقرے چست کرنے لگے جس کی وجہ سے فوجیوں کو عام اوقات میں وردی پہن کر سڑکوں پر نکلنے سے روک دیا گیا۔

مصر کو معاشی نقصانات

1967ء کی جنگ نے مصر کی معیشت کو بھی سخت نقصان پہنچایا۔ مصر کی آمدنی کا ایک بہت بڑا ذریعہ نہر سوئز تھی جس کی وجہ سے مصر کو ہر سال ساڑھے 9 کروڑ ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے۔ نہر کے مشرقی کنارے پر اسرائیل کا قبضہ ہوجانے کے بعد نہر سوئز میں جہاز رانی بند ہو گئی۔ ایک ایسے موقع پر جبکہ مصر کو اسرائیل کی جارحانہ کارروائیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اور اپنی معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے سرمائے کی ضرورت تھی نہر سوئز کی آمدنی کا بند ہونا بڑا تباہ کن ثابت ہوتا لیکن سعودی عرب، کویت اور لیبیا آڑے آئے اور تینوں نے مل کر ساڑھے 9 کروڑ ڈالر سالانہ کی امداد فراہم کرکے نہر سوئز کی بندش سے ہونے والے نقصان کی تلافی کردی۔

جولائی 1968ء میں صدر ناصر نے روس کا دورہ کیا جس کے بعد روس نے مصر کو از سر نو مسلح کرنا شروع کیا۔ روس نے پہلی مرتبہ زمین سے ہوا میں چلائے جانے والے کم فاصلے کے میزائل مصر کو دیے۔ آواز کی رفتار سے ڈیڑھ گنا تیز چلنے والے جیٹ طیارے اور 500 ٹینک دینے کا وعدہ کیا۔ تین ہزار فوجی مشیر اور فنی ماہر بھی فراہم کیے۔ عرب ملکوں میں سعودی عرب، کویت اور لیبیا نے وسیع پیمانے پر مالی امداد فراہم کی۔ روس اور عرب ملکوں کی اس امداد سے مصر کے فوجی نقصانات کی ایک حد تک تلافی بھی ہو گئی اور اقتصادی حالت بھی سنبھل گئی۔ 1968ء کے آخر میں اسوان بند نے بھی کام شروع کر دیا۔

مغربی ذرائع ابلاغ

اگرچہ جنگ کا آغاز اسرائیل نے کیا تھا، مگر دوسرے دن یورپ کی کئی معزز اخبارات نے چیختی ہوئی سرخیاں لگائیں جس میں عربوں کو جارح بتایا گیا تھا۔ میڈیا پر کنٹرول کا فائدہ ہمیشہ کی طرح مغرب نے اٹھایا[3]

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. بی بی سی، 8 جون 2007ء Why did Israel attack USS Liberty?
  2. "اسکریمبل ڈاٹ این ایل"۔ 17 دسمبر 2001 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 فروری 2008 
  3. انڈیپنڈنٹ، برطانیہ، 9 جون 2007ء آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ news.independent.co.uk (Error: unknown archive URL) Robert Fisk: Lies and outrages... would you believe it?