محاکات

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
اردو زبان
اردو زبان

یہ مضمون اردو زبان پر مضامین کا تسلسل ہے
اصناف ادب

محاکات کے معانی پر اگر غور کیا جائے تو اس کے معانی :آپس میں بات چیت کرنا : باہم حکایت کرنا : کسی کے قول و فعل کی نقل کرنا : نقالی : باہم داستان گو. لیکن اگر اس کی تعریف کی طرف جائے کہ محاکات کیا ہے؟ اس کا استعمال کہاں ہوتا ہے تو سمجھنے اور آسانی کے لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جو کام نثر میں خاکہ نگار کرتا ہے وہی کام شاعری میں شاعر محاکات کے ذریعے سر انجام دیتا ہے...

یعنی شاعری میں کسی واقعے، منظر یا امر کی تصویر کشی یا منظر کشی کرنا محاکات کہلاتا ہیں..

شاعری میں ایسے الفاظ کا استعمال کرنا کے تصویر یا وہ منظر آنکھوں کے سامنے آئے.. جیسے عابد صاحب کا یہ شعر ملاحظہ ہو کہ:

دم رخصت وہ چپ رہے عابد

آنکھ میں پھیلتا گیا کاجل..

شعر سے آنکھوں سے بہنے والے آنسو اور چہرے پر ان آنسوؤں کے نقش قاری کے ذہن میں آجاتی ہیں جسے کوئی اس کے سامنے ہو..

مزید

شعری مثالیں.

احمد فراز کی پوری غزل محاکات کی بہترین مثال ہیں۔


سُنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں

یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے ربط ہے اُس کو خراب حالوں سے

سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے دن میں اُسے تتلیاں ستاتی ہیں

سُنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے اُس کے بدن کی تراش ایسی ہے

کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے اُسے بھی ہے شعر و شاعری سے شغف

سو ہم بھی معجزے اپنے ھُنر کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے درد کی گاہگ ہے چشمِ ناز اُس کی

سو ہم بھی اُس کی گلی سے گذر کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے حشر ہیں اُس کی غزال سی آنکھیں

سُنا ہے اُس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے اُس کی سیاہ چشمگیں قیامت ہے

سو اُس کو سُرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے رات اُسے چاند تکتا رہتا ہے

ستارے بامِ فلک سے اُتر کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں کاکلیں اُس کی

سُنا ہے شام کو سائے گذر کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے اُس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں

سو ہم بہار پر الزام دھر کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے اُس کے شبستاں سے مُتصل ہے بہشت

مکیں اُدھر کے بھی جلوے اِدھر کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے آئینہ تمثال ہے جبیں اُس کی

جو سادہ دل ہیں اُسے بن سنور کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے چشمِ تصور سے دشتِ اِمکاں میں

پلنگ زاویے اُس کی کمر کے دیکھتے ہیں

رُکے تو گردشیں اُس کا طواف کرتی ہیں

چلے تو اُس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں

بس اِک نگاہ سے لُٹتا ہے قافلہ دل کا

سو راہروانِ تمنّا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں


ایک اور شعری مثال ملاحظہ ہو..

ذرا ان کی شوخی تو دیکھیے

لیے زلف خم شدہ ہاتھ میں

میرے پاس آکے دبے دبے

مجھے سانپ کہہ کے ڈرا دیا..