حیات محمد خان
حیات محمد خان | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
8واں گورنر خیبر پختونخوا | |||||||
مدت منصب 25 دسمبر 1971ء – 20 اپریل 1972ء | |||||||
صدر | ذوالفقار علی بھٹو | ||||||
| |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | 1 فروری 1937ء پشاور |
||||||
وفات | 5 فروری 1975ء (38 سال) پشاور |
||||||
شہریت | پاکستان برطانوی ہند |
||||||
مذہب | اسلام | ||||||
جماعت | پاکستان پیپلز پارٹی | ||||||
رشتے دار | آفتاب شیرپاؤ, Wali Muhammad Khan, امیر دوست محمد خان, Abdul Wadood Khan, ابن انشا | ||||||
عملی زندگی | |||||||
مادر علمی | اسلامیہ کالج یونیورسٹی | ||||||
پیشہ | سیاست دان | ||||||
مادری زبان | اردو | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | اردو | ||||||
درستی - ترمیم |
حیات محمد خان شیرپاؤ(پیدائش:یکم فروری 1937ء| وفات:8 فروری 1975ء ) صوبہ سرحد کے سینیئر وزیر اور صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) کے گورنر تھے ابتدا میں حیات شیر پاؤ کونسل مسلم لیگ میں تھے اور انھوں نے 1964ء میں صدارتی انتخابات میں ایوب خان کے خلاف محترمہ فاطمہ جناح کے حق میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 1967ء میں پیپلز پارٹی کا قیام عمل میں آیا تو وہ اس میں شامل ہو گئے۔ انھیں خیبر پختونخوا پیپلز پارٹی کا صدر مقرر کیا گیا۔ 1970ء کے عام انتخابات میں اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے گورنر مقرر ہوئے، پھر وفاقی وزیر۔ 8 فروری، 1975ء کو صوبہ خیبر پختونخوا کے سینیئر وزیر کی حیثیت سے پشاور یونیورسٹی کے ایک اجلاس میں شرکت کے دوران بم دھماکے میں جاں بحق ہوئے۔
8 فروری 1975ء کو ہوا کیا ؟
[ترمیم]پشاور یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ میں طلبہ یونین کی حلف برداری کی تقریب کے دوران سٹیج پر رکھے ٹیپ ریکارڈر میں نصب بم پھٹنے سے دھماکا ہوتا ہے۔ سارا ہال چیخوں اور دھوئیں سے بھر جاتا ہے۔ دھماکے کے وقت خطاب کرنے والے مقرر کا جسم کئی فٹ دور جا گرتا ہے۔ انھیں فوراً ہسپتال لے جایا جاتا ہے۔ مگر گلے اور سر کی شدید چوٹیں جان لیوا ثابت ہوتی ہیں۔8 فروری 1975ء کو دہشت گردی کے اس واقعے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے اس وقت کے صوبہ سرحد کے سینیئر وزیر حیات محمد خان شیرپاؤ تھے[1] وہ صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) کے گورنر بھی رہ چکے تھے۔ اس کے علاوہ وہ قومی وطن پارٹی کے موجودہ صدر اور سابق وزیر اعلیٰ آفتاب احمد خان شیرپاؤ کے بھائی تھے۔ان کی سیاسی زندگی کے بارے میں آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے بتایا کے حیات شیر پاؤ نے سیاسی زندگی کا آغاز کونسل مسلم لیگ سے کیا تھا۔ وہ پیپلز پارٹی کے بانی اراکین میں بھی شامل تھے۔ ذو الفقار علی بھٹو سے ان کی قربت اس قدر زیادہ تھی کہ پیپلز پارٹی کے ابتدائی دنوں میں لاڑکانہ کے بعد دوسرا جلسہ ان کے گاؤں شیر پاؤ میں ہوا تھا[2]
حیات محمد خان شیرپاؤ کے قتل کے بعد ؟
[ترمیم]وزیر اعظم بھٹو اس وقت امریکا کے دورے پر تھے۔ حیات شیر پاؤ کی ہلاکت کی خبر پاتے ہیں وہ دورہ ادھورا چھوڑ کر وطن واپس پہنچ گئے۔ اگلے روز قومی اسمبلی کے ہنگامی اجلاس میں انھوں نے پاکستان کو افراتفری اور تشدد میں ملوث عناصر سے پاک کرنے کا اعلان کیا اسی روز قومی اسمبلی نے مخصوص صورت حال کے پیش نظر دو بلوں کی منظوری بھی دی۔ پہلا بل قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کی گرفتاری کے استثنیٰ کو ختم کرنے کے بارے میں تھا۔ جبکہ دوسرا پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے حکومت کو یہ اختیار دیتا تھا کہ وہ قومی سلامتی کے منافی سرگرمیوں میں ملوث پارٹیوں کو خلاف قانون قرار دے۔ 10 فروری 1975ء کے اخبارات میں نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی کی خبر نمایاں تھی۔ وفاقی حکومت کے نوٹیفکیشن کے مطابق پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ 1962ء کی دفعہ 4 کے مطابق نیپ کی سرگرمیوں کو پاکستان کی سالمیت کے لیے نقصان دہ قرار دیتے ہوئے اسے تحلیل کرنے کا حکم جاری کیا گیا۔ اس جماعت کی لیڈرشپ کو گرفتار، اثا ثے ضبط اور ریکارڈ قبضے میں لینے کا حکم بھی دیا گیا۔ 26 فروری 1975ء کو حکومت نے نیپ کو غیر آئینی قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ میں ایک ریفرنس دائر کیا۔ نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی پاکستان کی سیاسی تاریخ کا اہم واقعہ تھا۔ آج کی نسل کی اکثریت اس نام سے واقف ہی نہیں۔ اور نہ وہ یہ جانتی ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی،۔ بلوچستان نیشنل پارٹی اور صوبہ بلوچستان کی نیشنل پارٹی نے دراصل نیپ کے بطن سے جنم لیا ہے[3]
کیا نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی کی وجہ حیات محمد خان شیرپائو کا قتل ہی تھا؟ ؟
[ترمیم]درحقیقت شیر پاؤ کے قتل کے بعد اٹھائے گئے اقدامات اندرون خانہ جنم لیتے بحران اور طویل سیاسی کشمکش سے پیدا شدہ نتائج کا اظہار تھا جس کے لیے اس سیاسی قتل نے راہ ہموار کر دی۔ یہ نیپ کے رہنماؤں کی پہلی گرفتاریاں نہیں تھیں۔ اس سے قبل سردار عطاء اللہ مینگل، غوث بخش بزنجو اور نواب خیر بخش مری جیسے بلوچ لیڈر زیر حراست تھے۔ 1970ء کے انتخابات کے بعد بلوچستان اور سرحد میں مخلوط حکومت بنانے والی نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی کی دیگر تفصیلات سے قبل ہم اس کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں۔ یہ پارٹی مشرقی اور مغربی پاکستان کے تمام علاقوں سے بائیں بازو کے سیاسی نظریات رکھنے والے رہنماؤں اور کارکنوں نے مل کر 1975ء میں قائم کی جن میں خان عبد الغفار خان، جی ایم سید، مولانا عبد الحمید بھاشانی، عبد الصمد اچکزئی اور میاں افتخار الدین شامل تھے۔ ایوب خان کے مارشل لا کے بعد انیس سو چونسٹھ میں اندرونی دھڑے بندی کا شکار ہو گئی۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کی علاقائی تقسیم نے عملاً پارٹی کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ نظریاتی محاذ پر یہ روس اور چین نواز گروپوں میں بٹ چکی تھی۔ ایوب دور میں قید سے رہائی کے بعد خان عبد الغفار خان افغانستان چلے گئے۔ 1967ء میں ان کے بیٹے ولی خان نیب کے صدر بنے۔ 1970 کے انتخابات سے قبل بھاشانی نے اپنی جماعت الگ کر لی اور بلوچستان کے قوم پرست سیاست دان اس کا حصہ بن گئے نیپ کو بلوچستان اور صوبہ سرحد میں کامیابی ملی۔ جہاں اس نے جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنا لی۔ بلوچستان میں عطاء اللہ مینگل جب کہ سرحد میں مفتی محمود وزیر اعلیٰ بنے۔ پاکستان کی سیاست میں لندن میں ہونے والی ملاقاتیں اور سیاسی سرگرمیاں آج بھی خبروں کا موضوع بنتی ہیں۔ اس طرح کے سیاسی جوڑ توڑ کو عموماً ’لندن پلان‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ پہلی بار لندن پلان کا چرچا ذو الفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں ہوا۔ جس میں کہا گیا تھا کہ ولی خان اور بلوچستان کے قوم پرستوں نے لندن میں ایک منصوبہ ترتیب دیا ہے جس میں وفاق پاکستان سے صوبوں کی آزادی کی سازش تیار کی گئی ہے۔ ان انکشافات کے بعد نیپ کے رہنماؤں کے بارے میں حکومتی اور سرکاری رویہ اور لب و لہجہ تلخ اور تند ہو گیا[4]
ایک غیر ملکی محقق لارنس زائرنگ کی کتاب؟ ؟
[ترمیم]Pakistan The Engima of Political Development کے مطابق اسی دور میں بلوچستان میں کچھ قبائلی سرداروں نے مینگل حکومت پر سیاسی انتقام کا الزام لگایا۔ لسبیلہ کے جام خاندان نے مبینہ طور پر اپنے خلاف قبائلی لشکر کے حملے کی شکایت کی تو بھٹو حکومت نے امن و امان کے مسائل سے نمٹنے کے لیے ان علاقوں میں فوج تعینات کر دی جس سے وفاقی اور صوبائی حکومت میں تصادم کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ وفاق نے نیپ کی حکومت ختم کر کے اکبر بگٹی کو بلوچستان کا گورنر بنا کر اختیارات ان کے حوالے کر دیے۔ بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ، سابق گورنر اور دیگر رہنماؤں کو ملکی سالمیت کے خلاف سازش کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ اس غیر جمہوری طرز عمل پر صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ نے احتجاجاً استعفی دے دیا۔ قومی اسمبلی میں ولی خان اپوزیشن لیڈر تھے۔ وہ حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے رہتے تھے۔ کئی بار ایوان میں ہاتھا پائی تک نوبت آ جاتی۔ بھٹو اور ولی خان ایک دوسرے کی ذات پر تند و تیز حملے کرنے لگے تھے[5]
نیشنل عوامی پارٹی اور پیپلز پارٹی میں سیاسی اختلافات ؟
[ترمیم]نیشنل عوامی پارٹی اور پیپلز پارٹی میں اپنے مزاج اور منشور کے حوالے سے بہت ساری قدریں مشترک تھیں مگر دونوں میں سیاسی اختلاف دشمنی کی حد تک جا پہنچا۔ اس کی دیگر سیاسی اور ذاتی وجوہات کے علاوہ ایک وجہ اس دور کے وزیر داخلہ بھی تھے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت میں انسپکٹر جنرل پولیس رہنے والے راؤ عبد الرشید کے انٹرویو پر مبنی کتاب ’جو میں نے دیکھا‘ میں اس کی کچھ تفصیل بیان ہوئی ہے۔ راؤ رشید کے مطابق 1970ء کے انتخابات میں حیات محمد خان شیرپاؤ مسلم لیگ قیوم گروپ کے سربراہ خان عبد القیوم خان کے مدمقابل پیپلز پارٹی اور نیپ کے مشترکہ امیدوار تھے۔ خان قیوم قومی جب کہ حیات شیرپاؤ صوبائی نشست پر کامیاب ہوئے۔ خان عبد القیوم سرحد میں نیپ سے مل کر حکومت سازی کرنا چاہتے تھے۔ راؤ رشید کہتے ہیں کہ ذو الفقار علی بھٹو نے ولی خان کے گھر فون لگوانے کا حکم دیا تاکہ ان سے بات کر سکیں مگر اچانک صورت حال ڈرامائی انداز میں بدل گئی[6] پاکستانی سیاست میں ماضی کے سیاسی حریفوں کا مل کر حکومت بنانا اور سیاسی دشمنوں کا دوستوں کی طرح کابینہ میں اکٹھے بیٹھنے کے واقعات ماضی اور حال میں عام ہیں۔ یہی کچھ پچاس برس قبل بھی ہوا جب مسلم لیگ کے ایک دھڑے کے سربراہ خان عبد القیوم خان ذو الفقار علی بھٹو کی حکومت میں وزیر داخلہ بن بیٹھے۔ ان کی نیشنل عوامی پارٹی اور ولی خان خاندان کے ساتھ ذاتی مخاصمت ڈھکی چھپی نہیں تھی۔
سردار شوکت حیات کی کتاب ’گم گشتہ قوم‘
[ترمیم]تقسیم سے قبل متحدہ پنجاب کے وزیر اعظم سر سکندر حیات کے بیٹے اور سابق صوبائی وزیر سردار شوکت حیات نے اپنی کتاب ’گم گشتہ قوم‘ میں لگ بھگ انہی خیالات کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے ذو الفقار علی بھٹو سے اپنی ملاقات کے حوالے سے لکھا ہے کہ بھٹو نیپ کے ارکان قومی اسمبلی سردار شیر باز مزاری سے مل کر حالات کو سنبھالنے کے لیے سمجھوتے کی راہ نکالنا چاہتے تھے۔ اس وقت کے وزیر داخلہ خان عبد القیوم کو جب اس کی خبر ہوئی تو انھوں نے سکیورٹی اہلکاروں کے ذریعہ شیر باز مزاری کے گھر کراچی میں ہلڑ بازی کروا کر دونوں کے درمیان ملاقات کے امکانات ختم کروا دیے۔ نیشنل عوامی پارٹی اور حکومت کی سیاسی مخالفت لیاقت باغ کے سانحے کے بعد دشمنی میں ڈھل گئی۔ دسمبر 1972ء میں وزیر اعظم بھٹو لیاقت باغ راولپنڈی کے جلسے میں شریک تھے۔ اس دوران جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم کے کارکن احتجاجی نعرے لگاتے جلسہ گاہ میں داخل ہوئے۔ ان کے ساتھ گورڈن کالج کی سٹوڈنٹس یونین کے رہنما اور موجودہ وزیر داخلہ شیخ رشید بھی تھے۔ جلسے میں افراتفری اور فائرنگ نے ماحول میں تناؤ پیدا کر دیا۔ حکومت کا خیال تھا کہ اس ہنگامہ آرائی کے پیچھے اپوزیشن کا ہاتھ ہے۔ متحدہ اپوزیشن نے 23 مارچ 1973ء کو اسی جگہ جلسہ منعقد کرنے کا اعلان کر دیا[7] اس دور میں راولپنڈی میں تعینات پولیس افسر اور سابق آئی جی پنجاب سردار محمد چودھری اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ اس سے قبل ہوئے واقعے کی وجہ سے پیپلزپارٹی کے ورکر پنجاب کے مختلف شہروں سے پنڈی پہنچنا شروع ہو گئے۔ ادھر نیپ کے کارکن بڑی تعداد میں صوبہ سرحد سے پہنچ چکے تھے۔راولپنڈی میں منڈی بہاؤ الدین سے پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو لانے والی بس پر فائرنگ سے اس کے پانچ کارکن جاں بحق ہو گئے۔ دونوں طرف سے مسلح تصادم نے کئی افراد کی جان لے لی۔
نیپ کے رہنمااجمل خٹک کی گیارہ برس تک جلاوطنی
[ترمیم]سیاسی تناؤ تشدد میں بدلا تو اس نے ماحول کی تلخیوں میں اور اضافہ کر دیا۔ نیپ کے رہنما اجمل خٹک قانونی کارروائی سے بچنے کے لیے افغانستان چلے گئے جہاں انھوں نے گیارہ برس تک جلاوطنی اختیار کیے رکھی۔ سنہ 1974ء کے وسط میں پنجاب اور سرحد میں بم دھماکوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ واپڈا ہاؤس لاہور کے غسل خانے میں نصب بم پھٹنے سے دو افراد کی جان چلی گئی۔ اسی طرح لاہور ریلوے اسٹیشن پر اصغر خان کی آمد سے قبل بم برآمد ہوا۔ صوبہ سرحد میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے سینئر وزیر حیات محمد خان شیرپاؤ پر کوہاٹ اور ان کے آبائی گاؤں میں دو قاتلانہ حملے ہوئے۔ حکومت کو اس تمام تخریبی کارروائیوں میں نیپ کے ملوث ہونے کا شبہ تھا۔ راؤ رشید کے مطابق یہ پلاسٹک بم روسی ساختہ تھے جو افغانستان کے ذریعے نیپ کو مہیا کیے جا رہے تھے۔ ادھر نیشنل عوامی پارٹی ان تمام الزامات کی تردید کرتی تھی۔ لارنس ڑائرنگ کے مطابق ولی خان نے جولائی 1974ء کو آؤٹ لک میگزین کو انٹرویو میں اپنی پارٹی کے کسی غیر ملکی سازش میں ملوث ہونے کی سختی سے تردید کی۔ حکومتی دباؤ کے زیر اثر اس انٹرویو کی اشاعت روک دی گئی[8]
نیپ پر پابندی اور بلوچستان کے قوم پرستوں میں مایوسی
[ترمیم]نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی بظاہر سکیورٹی اور سازش کو جواز بنا کر لگائی گئی۔ مگر اس کے سیاسی اثرات و نتائج نے پاکستانی سیاست کی صورتگری میں اہم کردار ادا کیا۔ نیپ پر پابندی کے پاکستانی سیاست پر اثرات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے قائد اعظم یونیورسٹی کے اسکول آف پالیٹکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فرحان صدیقی نے اردو نیوز کو بتایا کہ قومی سطح کی ایک سیاسی جماعت پر پابندی کا فیصلہ فائدے کی بجائے نقصان کا موجب بنا۔ اس نے بلوچستان کے قوم پرستوں میں مایوسی اور بڑھا دی تھی۔ ڈاکٹر فرحان کے خیال میں آج کے بلوچستان کے بہت سارے سیاسی اور انتظامی انتشار کی دیگر وجوہات کے علاوہ ایک وجہ نیپ پر پابندی کا فیصلہ بھی تھا[9] یہ پابندی سیاسی عدم برداشت کے باعث لگی۔ ان کا کہنا تھا کہ ذو الفقار علی بھٹو نے بعد میں خود ہی لندن پلان سے لاعلمی کا اظہار بھی کیا۔ صوبہ سرحد کے سابق وزیر اعلیٰ اور سابق وزیر داخلہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ہماری تاریخ میں سیاسی قتل کے محرکات اور ملزموں کا کبھی درست سراغ نہیں مل سکا۔ نیپ پر پابندی کے بارے میں انھوں نے کہا کہ ’میرا خیال ہے کہ سیاسی پابندیاں غیر فطری ہوتی ہیں۔ میرے علم میں نہیں کے اس وقت کی حکومت کے سامنے اس حوالے سے کیا ثبوت تھے۔ مگر میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ اس پابندی کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔‘
سپریم کورٹ کو بھیجے گیا ریفرنس
[ترمیم]حکومت کی طرف سے اس جماعت کو غیر قانونی قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ کو بھیجے گئے ریفرنس پر سپریم کورٹ کے بینچ نے سماعت شروع کی اور گرفتار رہنماؤں کو نوٹس جاری کیے۔ 24 مئی 1975ء کو پارٹی کی جانب سے جواب جمع کروایا گیا، اسی طرح گرفتار لیڈروں نے اپنی صفائی میں انفرادی بیانات بھی سپریم کورٹ میں جمع کروائے۔ جون 1975ء کو ولی خان سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تو انھیں وکیل کے ذریعے اپنا موقف بیان کرنے کا کہا گیا۔ اگلی پیشی پر آنے سے قبل انھوں نے وکیل کو فارغ کر دیا اور اپنی صفائی میں خود بیان دینے کا موقع حاصل کر لیا۔ ولی خان نے بینچ میں موجود دو ججوں جسٹس محمد گل اور جسٹس افضل چیمہ پر عدم اعتماد کیا۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ مذکورہ جج سپریم کورٹ آنے سے پہلے سیکریٹری قانون رہ چکے ہیں اس لیے نیپ پر پابندی کے قانونی معاملات میں ان کی رائے شامل ہو سکتی ہے[10] سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس جسٹس حمود الرحمان کی جانب سے ان اعتراضات کو مسترد کیے جانے پر ولی خان احتجاجاً کارروائی کا بائیکاٹ کر کے کمرہ عدالت سے باہر چلے گئے سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں نیپ کو پاکستان کی سلامتی اور استحکام کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر خلاف قانون قرار دیا۔ اس کے رہنماؤں کی صوبائی خود مختاری کے نام پر لامحدود اختیارات کے مطالبے اور سرگرمیاں پاکستان کی خود مختاری کے خلاف قرار دی گئیں۔
حیدرآباد ٹریبونل
[ترمیم]معروف قانون دان حامد خان ایڈووکیٹ اپنی کتاب ’کانسٹیٹیوشنل اینڈ پولیٹیکل ہسٹری آف پاکستان‘ میں اس فیصلے کی خامیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ فیصلہ یکطرفہ کارروائی کی وجہ سے یک طرفہ فیصلہ لگتا ہے۔ سپریم کورٹ نے بینچ میں شامل ججز پر اعتراضات بغیر ٹھوس دلیل کے مسترد کیے۔ حامد خان کے خیال میں ان ججوں کو انتہائی اہمیت والے کیس سے خود ہی الگ ہو جانا چاہیے تھا۔ وہ صاف ستھری شہرت کے حامل چیف جسٹس حمود الرحمٰن کے مذکورہ فیصلے کو مایوس کن قرار دیتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد گرفتار لیڈروں کے حیدرآباد جیل میں خصوصی ٹربیونل کورٹ بنا کر ٹرائل کا آغاز ہوا جو اسی نسبت سے حیدرآباد ٹریبونل کہلاتا ہے۔ اس خصوصی ٹریبونل کورٹ کے سربراہ جسٹس اسلم ریاض حسین تھے۔ انھوں نے سہیل وڑائچ کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ اس مقدمے میں 17 پنجابی لڑکے بھی شامل تھے جو بلوچوں کے ساتھ مل کر لڑنے کے لیے وہاں گئے تھے۔ ان میں جسٹس ایس اے رحمان کے دو بیٹے اور موجودہ دور کے پاکستان کے ایک نمایاں صحافی بھی شامل تھے۔ جسٹس اسلم کے مطابق اسی دوران ایک یورپین عورت عدالت کی کارروائی دیکھنا چاہتی تھی۔ انھوں نے بھٹو کی مرضی کے برخلاف اسے اجازت دے دی جس کے بعد حکومت نے انھیں لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنا کر اس مقدمے سے الگ کر دیا۔ اس مقدمے کا فیصلہ نہیں ہوا تھا کہ ضیاء الحق کا مارشل لا آگیا۔ جسٹس اسلم کے مطابق ضیاءالحق وردی میں حیدرآباد گئے اور ملزمان کو سلیوٹ کر کے کہا کہ آپ محب وطن ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اصل میں ضیاء الحق کو اینٹی بھٹو لوگوں کی ضرورت تھی اس لیے انھیں رہا کر دیا[11] غیر قانونی قرار دی گئی پارٹی کے کچھ رہنماؤں نے نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے نام سے نئی جماعت قائم کی جس کی سربراہی شیرباز مزاری اور بیگم نسیم ولی خان کے پاس رہی۔ آنے والے برسوں میں عوامی نیشنل پارٹی اسی کا دوسرا جنم تھی۔ یہ ولی خان خاندان اور ان کے آبائی صوبے تک محدود ہو کر رہ گئی۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے تمام سیاسی رہنماؤں نے اپنی الگ الگ پارٹیاں قائم کر لیں۔ اے این پی صوبے کے نام میں تبدیلی کے بعد ماضی کے نعروں سے دستبردار ہوکر قومی اور صوبائی اسمبلی میں حصہ لے رہی ہے۔ کے پی اور بلوچستان میں قوم پرست جماعتوں کے اقتدار کے باوجود بہت سارے انتظامی، سیاسی اور نظریاتی مسائل جوں کے توں ہیں۔ جنہیں دیکھتے ہوئے یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اگر نیشنل عوامی پارٹی جیسی ملک گیر تنظیم پر پابندی نہ لگتی تو شاید ان خطوں کے سیاسی مسائل کی نوعیت اور ان کے حل کا انداز مختلف ہوتا۔
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ https://www.urdunews.com/node/642596
- ↑ https://www.urdunews.com/node/642596
- ↑ https://www.urdunews.com/node/642596
- ↑ https://www.urdunews.com/node/642596
- ↑ https://www.urdunews.com/node/642596
- ↑ https://www.urdunews.com/node/642596
- ↑ https://www.urdunews.com/node/642596
- ↑ https://www.urdunews.com/node/642596
- ↑ https://www.urdunews.com/node/642596
- ↑ https://www.urdunews.com/node/642596
- ↑ https://www.urdunews.com/node/642596