مندرجات کا رخ کریں

دیوبند کا خانوادۂ عثمانی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

دیوبند کا خانوادۂ عثمانی (انگریزی: Usmani family of Deoband) تیسرے خلیفۂ راشد ، عثمان ذو النورین کی اولاد میں سے ہے ، جو بنیادی طور پر بھارت کے دیوبند شہر میں مقیم ہے۔ اس خاندان کے قابلِ ذکر افراد میں فضل الرحمن عثمانی دیوبندی ، محمود حسن دیوبندی ، عزیز الرحمن عثمانی اور شبیر احمد عثمانی شامل ہیں۔

اس خاندان سے فضل الرحمن عثمانی ، نہال احمد ، مہتاب علی اور ذو الفقار علی دیوبندی دارالعلوم دیوبند کے بانیان میں سے تھے۔ عتیق الرحمن عثمانی ، جو اسی خاندان سے تھے، نے ندوۃ المصنفین اور آل انڈیا مسلم مجلس مشورات کی مشترکہ بنیاد رکھی۔

تاریخ

[ترمیم]

عبید اقبال عاصم نے اپنی کتاب " مولانا ظفر احمد: حیات و خدمات" میں دیوبند کے عثمانیوں کے پس منظر پر گفتگو کرتے ہوئے ذکر کیا ہے کہ دیوبند میں رہائش پزیر مشہور شخصیات میں سے ایک خواجہ ابوالوفاء عثمانی ہیں۔ جو جلال الدین کبیر الاولیاء پانی پتی کے چچازاد بھائی تھے۔[1] وہ آٹھویں صدی ہجری میں دیوبند میں آباد ہوئے تھے۔[1] عاصم کا دعوی ہے کہ دیوبند کے تقریباً تمام ہی عثمانی شیوخ ابوالوفا کی اولاد میں سے ہیں۔[1]

دس نسلوں بعد لطف اللہ؛ ابو الوفا عثمانی کے خاندان میں پیدا ہوئے۔ وہ شاہ جہاں کے دربار میں خزانچی کے منصب پر فائز تھے۔[1]

نسب

[ترمیم]

ابوالوفا عثمانی کا سلسلۂ نسب یہ ہے: خواجہ ابوالوفاء بن عبید اللہ بن حسین بن عبد الرزاق بن عبد الحکیم بن حسن بن عبد اللہ عرف ضیاء الدین بن یعقوب عرف معزالدین بن عیسیٰ بن اسماعیل بن محمد بن ابوبکر بن علی بن عثمان بن عبد اللہ حرمانی بن عبد اللہ گارزونی بن عبد العزیز ثالث بن خالد بن ولید بن عبد العزیز ثانی بن شہاب الدین المعروف بہ عبد الرحمن اکبر بن عبد اللہ ثانی بن عبد العزیز بن عبد اللہ الکبیر بن عمرو بن امیر المومنین عثمان بن عفان۔[2]

شخصیات

[ترمیم]

فضل الرحمن عثمانی

[ترمیم]

فضل الرحمن عثمانی دیوبندی 1831 سے 15 جون 1907 کے درمیان باحیات تھے۔[3] وہ دار العلوم دیوبند کے شریک بانیوں میں سے ایک تھے۔[4] ان کا سلسلۂ نسب یہ ہے: فضل الرحمن بن مراد بخش بن غلام محمد بن غلام نبی بن لطف اللہ بن محمد عاشق بن فرید بن ابو محمد بن محمد حافظ ابن ابن شیخ محمد بن عبد المالک بن عبد العزیز بن عبد الحکیم بن سعید بن محمد بن فضل اللہ ابن ابوالوفاء عثمانی۔[2]

ان کے بیٹوں میں عزیز الرحمن عثمانی اور شبیر احمد عثمانی شامل ہیں۔ ندوۃ المصنفین اور آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے شریک بانی عتیق الرحمن عثمانی ان کے پوتے تھے۔[5][4] شمس نوید عثمانی فضل الرحمن عثمانی کے ایک دوسرے پوتے تھے۔[6] کفیل الرحمن نشاط عثمانی؛ جو عزیز الرحمن عثمانی کے پوتے تھے ، نے فتاوی عالمگیری' "کا ترجمہ اردو زبان میں کیا۔[7]

1947 میں پاکستان کی تشکیل کے بعد شبیر احمد عثمانی نے کراچی میں محمد علی جناح اور دیگر آل انڈیا مسلم لیگ رہنماؤں کی موجودگی میں اپنا پرچم لہرایا۔[8]

شیخ فتح علی

[ترمیم]

فتح علی محمود حسن دیوبندی کے دادا تھے۔[9] ان کے تین بیٹے: مہتاب علی، مسعود علی اور ذوالفقار علی دیوبندی تھے۔[9] مہتاب علی دیوبندی اور ذو الفقار علی دیوبندی بھی دار العلوم دیوبند کے شریک بانیوں میں شامل تھے۔[10] ذو الفقار علی کے فرزند محمود حسن دیوبندی دار العلوم دیوبند میں تعلیم حاصل کرنے والے پہلے طالب علم تھے۔[11]

کرامت حسین

[ترمیم]

کرامت حسین کو دیوبند میں اپنے گھر پر مدرسہ قائم کرنے کے بارے میں جانا جاتا ہے۔[12] اس مدرسہ کے استاد مہتاب علی تھے ، جو محمود حسن دیوبندی کا چچا تھے۔[12] یہ مدرسہ دار العلوم دیوبند کے قیام تک چلتا رہا۔ محمد قاسم نانوتوی نے مہتاب علی کی نگرانی میں وہاں تعلیم حاصل کی۔[12]

کرامت حسین کے بیٹے نہال احمد؛ دار العلوم دیوبند کے شریک بانیوں میں سے تھے۔[13] وہ محمد قاسم نانوتوی کے بہنوئی تھے۔[12] نہال کے ایک بیٹے، لطیف احمد تھے، جن کی شادی اشرف علی تھانوی کی بہن سے ہوئی تھی۔[12] ظفر احمد عثمانی لطیف احمد کے فرزند اور تھانوی کے بہن کے بیٹے (بھانجے)تھے۔[14]

ظفر احمد عثمانی نے 1947ء میں ڈھاکہ میں محمد علی جناح اور آل انڈیا مسلم لیگ کے رہنماؤں کی موجودگی میں پاکستان کا پرچم لہرایا۔[8]

میاں جی شکر اللہ

[ترمیم]

شکر اللہ محمد شفیع عثمانی کے آباء میں شامل تھا۔ یہ خاندان عثمانی نژاد کا دعوی بھی کرتا ہے ، تاہم ان کے پاس مکمل نسب نامہ نہیں ہے۔[15] تحریک پاکستان‎ کے سرگرم ممبروں میں سے ایک محمد شفیع عثمانی کے دو بیٹے محمد رفیع عثمانی اور محمد تقی عثمانی بھی ہیں۔[16]

محمد رفیع عثمانی نے حیات مفتی اعظم کے عنوان سے اپنے والد کی سوانح حیات میں نامکمل نسب کا تذکرہ کیا ہے ، "محمد شفیع بن محمد یاسین بن خلیفہ تحسین علی بن امام علی بن کریم اللہ بن خیراللہ بن شکراللہ"۔[15] رفیع عثمانی کے مطابق ، کریم اللہ 1183 ہجری میں دیوبند چلے گئے تھے۔[17] شفیع عثمانی کے والد محمد یاسین عثمانی دار العلوم دیوبند کے اولین طالب علموں میں شامل تھے۔[18] یاسین عثمانی کے تلامذہ میں اصغر حسین دیوبندی ، شبیر احمد عثمانی اور ثناء اللہ امرتسری شامل ہیں۔[19]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. ^ ا ب پ ت اقبال عاصم عبید (2001)، مولانا ظفر احمد: حیات و خدمات، صفحہ: 49 
  2. ^ ا ب اشتیاق احمد قاسمی (دسمبر 2017)۔ "مفتی اعظم مفتی عزیز الرحمن عثمانی: حیات و خدمات"۔ دار العلوم۔ دار العلوم دیوبند۔ 101 (12)۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 جنوری 2021 
  3. ابو عکاشہ رحمان، تاریخ کے قاتل، صفحہ: 45 
  4. ^ ا ب محمد طیب قاسمی۔ مدیر: اکبر شاہ بخاری۔ 50 مثالی شخصیات (جولائی 1999 ایڈیشن)۔ صفحہ: 58–59 
  5. جمیل مہدی (مدیر)۔ "عتیق الرحمن عثمانی (1901–1984)"۔ مفکر ملت نمبر، برہان (نومبر 1987 ایڈیشن)۔ دہلی: ندوۃ المصنفین۔ صفحہ: 506–507 
  6. تابش مہدی (ستمبر 2010)۔ "یاد رفتگان: شمس نوید عثمانی"۔ زندگی نو۔ 36 (9)۔ 23 اکتوبر 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 جنوری 2021 
  7. امانت علی قاسمی (28 فروری 2018)۔ "نستعلیق صفت انسان مفتی کفیل الرحمن نشاط عثمانی"۔ جہان اردو (بزبان Urdu)۔ 14 جنوری 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 جنوری 2021 
  8. ^ ا ب سید طلحہ شاہ (20 نومبر ، 2018)۔ "Asia Bibi: Pakistanis need to bridge the mister-mulla divide"۔ ڈیلی ٹائمز۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جنوری 2021 
  9. ^ ا ب اقبال حسن خان، شیخ الہند مولانا محمود حسن: حیات اور علمی کارنامے، صفحہ: 115 
  10. اقبال حسن خان، شیخ الہند مولانا محمود حسن: حیات اور علمی کارنامے، صفحہ: 116 
  11. اقبال حسن خان، شیخ الہند مولانا محمود حسن: حیات اور علمی کارنامے، صفحہ: 119 
  12. ^ ا ب پ ت ٹ اقبال عاصم Ubaid (2001)، مولانا ظفر احمد: حیات و خدمات، صفحہ: 50 
  13. محمد میاں دیوبندی، علمائے حق اور ان کے مجاہدانہ کارنامے، 1، صفحہ: 22–23 
  14. اقبال عاصم عبید (2001)، مولانا ظفر احمد: حیات و خدمات، صفحہ: 52 
  15. ^ ا ب محمد رفیع عثمانی، حیات مفتی اعظم، صفحہ: 15 
  16. عاصم خان، امتیاز علی (22 مارچ 2019)۔ "Mufti Taqi Usmani survives assassination attempt in Karachi"۔ ڈان۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 جنوری 2021 
  17. محمد رفیع عثمانی، حیات مفتی اعظم، صفحہ: 16 
  18. محمد رفیع عثمانی، حیات مفتی اعظم، صفحہ: 18 
  19. محمد رفیع عثمانی، حیات مفتی اعظم، صفحہ: 21