مندرجات کا رخ کریں

نادرہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
نادرہ

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1968ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لاہور   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 6 اگست 1995ء (26–27 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لاہور   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن میانی صاحب قبرستان   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات قتل   ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تعداد اولاد 2   ویکی ڈیٹا پر (P1971) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ ادکارہ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
IMDB پر صفحہ  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نادرہ (انگریزی: Nadira) پاکستانی فلمی اداکارہ اور رقاضہ تھیں۔[1] انھیں ناچے ناگن (1987) اور مِس اللہ راکھی (1989) کے لیے جانا جاتا ہے۔

لاہور، میں 1968ء میں پیدا ہوئیں۔ انھوں 6 اگست، 1995ء کو لاہور میں وفات پائی۔ نادرہ اپنے ابتدائی فلمی کیریئر سے لے کر اپنی وفات تک لاکھوں دلوں پر راج کرتی تھیں۔ ان کا فلمی سفر صرف 8 سال تک رہا۔ اس دوران میں انھوں نے درجنوں فلموں میں کام کیا اور ہر فلم میں ان کے بہ کمال رقص بھی شامل تھے۔ اداکارہ نادرہ نے اپنی زیادہ تر فلموں میں ڈرامائی مناظر کو نہایت مہارت اور خوبصورتی کے ساتھ عکس بند کرایا۔ وہ جب بھی اپنی فلم کی شوٹنگ پر آتی تھیں تو ان کے پاس سب سے مہنگی کار ہوتی تھی جبکہ اس کے برعکس دوسری اداکارائیں یا تو معمولی قسم کی کار میں ہوتی تھیں یا کسی اور کی گاڑی میں آتی تھیں۔ ان میں بعض تو ایسی بھی تھیں جو رکشہ اور ٹیکسی میں آتی تھیں۔[1]

پیدائش

[ترمیم]

سنہ 1968ء میں لاہور میں پیدا ہوئیں۔[2]

فنی زندگی

[ترمیم]

ہدایت کار یونس ملک نے 1986ء میں اپنی فلم ‘آخری جنگ‘‘ میں متعارف کرایا۔[3] ان کی سب سے پہلی فلم ”آخری جنگ“ تھی، مگر ’’نشان‘‘ پہلے ریلیز ہو گئی۔ اس لیے ریکارڈ میں نشان پہلے آ گئی، یوں نشان ان کی پہلی فلم ہے، اس فلم کو امبر پکچرز کی جانب سے ریلیز کیا گیا، پروڈیوسر اور ڈائریکٹر الطاف حسین تھے اور موسیقی وجاہت عطرے کی تھی۔ اس فلم میں ان کے ساتھ سنگیتا، شہباز اکمل، زمرد، بابرہ، ظاہر شاہ، نصر اللہ بٹ، افضال احمد اور عابد علی تھے۔ یہ فلم 4 جولائی 1986ء کو ریلیز ہوئی۔ ان کی دوسری فلم ’’آخری جنگ‘‘ کے نام سے ریلیز ہوئی۔ اس کے ہدایت کار یونس ملک تھے اور موسقی وجاہت عطرے کی تھی۔ اس فلم میں نادرہ نے سلطان راہی اور غلام محی الدین کے ساتھ اپنی عمدہ اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ اداکاروں میں بہار بیگم، سنگیتا، حبیب، زمرد اور الیاس کاشمیری وغیرہ تھے۔ یہ فلم 17 اگست 1986ء کو ریلیز ہوئی۔ ان کو عروج پر پہنچانے میں یہی دونوں فلمیں کافی تھیں کیونکہ شائقین، فلم کی کہانی پر توجہ کم دیتے تھے اور ان کی خوبصورتی پر زیادہ۔ ساتھ ہی ساتھ ان کا رقص بھی ان کو بہت متاثر کرتا تھا۔ ان کی چھٹی فلم اردو زبان میں ریلیز ہوئی تھی۔ یہ ان کی سب سے پہلی اور آخری فلم تھی کیونکہ اس فلم کے بعد انھوں نے کسی بھی اردو فلم میں کام نہیں کیا تھا۔ زیادہ تر ان کی فلمیں پنجابی زبان میں یا ڈبل ورژن تھیں۔ ان کی اس اردو فلم کا نام ’’میری آواز‘‘ تھا، جس میں ان کے ساتھ ہیرو اسماعیل شاہ تھے۔ یہ فلم کراچی کے عرشی سنیما میں کافی عرصہ ہاؤس فل گئی۔ اس فلم کے دو گانے جو ناہید اختر کی آواز میں تھے، انھیں نادرہ پر فلمایا گیا تھا، بہت ہٹ ہوئے تھے، خاص کر ایک گانا جس کے بول ہیں ’’تیرے چھونے سے گورا یہ رنگ میرا‘‘، عمدہ رقص کے ساتھ پکچرائز ہوا تھا اور بہت سے لوگوں کو یہ بھی کہتے ہوئے سنا تھا کہ انھوں نے مادھوری دیکشت (بھارتی اداکارہ) کو بھی رقص میں مات دے دی۔ اس فلم کا دوسرا گیت ’’میں یونہی دیکھوں تجھے، انکھیوں کی پیاس بجھے، ساری عمر بیت جائے۔‘‘ ان دونوں گانوں پر نادرہ کے ساتھ اسماعیل شاہ نے بھی بہت عمدہ رقص کیے تھے۔ یہ فلم 25 اکتوبر 1987ء کو ریلیز ہوئی تھی۔ فلم تو کامیاب ہوئی تھی مگر پھر انھوں نے کسی بھی اردو فلم میں کام نہیں کیا۔

تین ماہ بعد ان کی ایک ایکشن سے بھرپور فلم ’’کمانڈو ایکشن‘‘ ریلیز ہوئی، یہ فلم تعمیر پکچرز کی جانب سے پیش کی گئی۔ اس فلم کے پروڈیوسر رفیق خان تھے اور ہدایت کار اے ریاض جبکہ موسیقی مشتاق علی کی تھی۔ اس میں نادرہ کے ساتھ غلام محی الدین، چکوری، شاہد، مصطفٰی قریشی، بہار، قوی، افشاں اور شجاعت ہاشمی تھے۔ نادرہ کی اس فلم کا افتتاح 8 جنوری 1988ء کو ہوا تھا۔ دو ماہ بعد ہی ان کی ایک اور ایکشن سے بھرپور فلم ’’مولا بخش‘‘ ریلیز ہوئی۔ یہ فلم سنگیت پکچر کی جانب سے ریلیز ہوئی۔ پروڈیوسر اداکار اعجاز درانی تھے، ہدایت کار یونس ملک تھے اور موسیقی وجاہت عطرے نے مرتب کی تھی۔ اس فلم میں نادرہ کے ساتھ غلام محی الدین، سلطان راہی، نیلی، بہار بیگم، انور خان اور ظریف لاڈلا وغیرہ تھے۔ اس فلم کا ایک گانا جو ملکہ ترنم نور جہاں کی آواز میں تھا، بڑا ہِٹ ہوا تھا جس کے بول ہیں ’’منڈے بڑے تنگ کر دے‘‘ مارچ 88ء میں یہ فلم منظرعام پر آئی۔

اداکارہ نادرہ نے بہت ہی مختصر عرصہ میں پاکستانی فلمی صنعت میں اپنے قدم جما لیے تھے۔ ان کے پاس وہ دونوں چیزیں موجود تھیں جو شائقین فلم کو زیادہ پسند تھیں ایک تو ان کا رقص کرنے کا انداز اور دوسرا حسن کا جادو۔

نادرہ نے سلطان راہی، غلام محی الدین اور اسماعیل شاہ کے ساتھ سب سے زیادہ فلموں میں کام کیا تھا۔ اداکار ندیم کے ساتھ یہ فلم ’’تیس مار خان‘‘ میں جلوہ گر ہوئیں۔ غریب نواز پروڈکشن کی اس فلم کے پروڈیوسر خالد فیروز تھے، ہدایت کار اقبال کاشمیری اور موسیقی وجاہت عطرے کی تھی۔ اس فلم میں ندیم، شمیم آرا، عثمان پیرزادہ، رنگیلا اور بدر منیر نے کام کیا تھا۔ نادرہ کی یہ فلم بھی ہِٹ ہوئی تھی۔ اس کا افتتاح 10 نومبر 1989ء کو ہوا تھا۔ نادرہ کی مسلسل فلمیں ریلیز ہوتی گئیں اور ان کے چاہنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ اس وقت کی سپر اسٹار اداکارائیں صائمہ نور، انجمن اور نیلی وغیرہ بھی عروج پر تھیں۔ ان کی اداکاری کرنے کا اپنا انداز تھا اور نادرہ نے اپنا انداز اپنایا ہوا تھا۔

گل پکچرز کی فلم ’’مس اللہ رکھی‘‘ بھی اسی سال ریلیز ہوئی تھی جس میں نادرہ اسماعیل شاہ کے ساتھ تھیں۔ اداکارہ نادرہ نے تھوڑے ہی عرصہ میں سلور اسکرین پر اپنا قبضہ جما لیا تھا اور ان کے مداحوں کی تعداد روز بروز بڑھتی ہی چلی جارہی تھی۔ ان کی پہلی ڈبل ورژن فلم کیپری فلم کی جانب سے ریلیز ہوئی۔ فلم کا نام تھا ’’زخمی عورت‘‘، پروڈیوسر انور محمود تھے، ہدایت کار اقبال کاشمیری اور موسیقی وجاہت عطرے کی تھی۔ اس فلم میں نادرہ کے ساتھ جاوید شیخ، سلطان راہی، نغمہ سحر اور طالش وغیرہ تھے۔ فلم ’’راجا‘‘ بھی نادرہ کی ڈبل ورژن فلم تھی۔ اس کے ہدایت کار اقبال کشمیری تھے، موسیقی وجاہت عطرے کی تھی۔ اس فلم میں ندیم، نیلی، جاوید شیخ، نادرہ کے ساتھ تھے۔ ساتھ میں ششما شاہی اور مدیحہ شاہ بھی تھے۔ یہ درمیانی درجے کی فلم تھی مگر نادرہ کے مداحوں کو اس سے کوئی غرض نہیں تھی وہ صرف نادرہ کا رقص اور اس کی خوبصورتی پر فدا تھے۔ نادرہ کی ایک فلم ’’حسن کا چور‘‘ اداکار شان کے ساتھ ریلیز ہوئی، ہدایت کار الطاف حسین تھے۔ اس فلم میں جاوید شیخ، فردوس جمال اور عابد علی نے بھی بہت عمدہ اداکاری کی تھی۔ ان کی شہرت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہدایت کار الطاف حسین نے انہی کے نام سے فلم ’’نادرہ‘‘ ریلیز کی۔ یہ بھی ڈبل ورژن فلم تھی۔ فلم کی موسیقی وجاہت عطرے کی مرتب کردہ تھی۔ اس فلم میں نادرہ کے ساتھ صائمہ نور، شان، ہمایوں قریشی اور عابد علی وغیرہ تھے۔ یہ فلم اگست 1991ء میں ریلیز ہوئی۔ اداکارہ نادرہ نے تقریباً 30 کے قریب پنجابی فلموں میں کام کیا تھا۔ اس کے علاوہ تقریباً 12، 13 فلمیں ڈبل ورژن میں تھیں جبکہ صرف ایک اردو فلم میں انھوں نے کام کیا تھا۔ ان کی چار فلمیں پشتو زبان میں بھی ریلیز ہوئی تھیں۔ اس میں بھی وہ کافی حد تک کامیاب رہی تھیں۔

نادرہ کی ایک فلم ’’محبوبہ‘‘ کے نام سے بھی ریلیز ہوئی تھی جس میں ان کے مقابلے پر انجمن اور ریما خان تھیں۔ یہ فلم بھی ڈبل ورژن تھی۔ اس فلم کے پروڈیوسر ایم جہانگیر تھے اور ہدایت کار حسنین جبکہ موسیقی ایم اشرف اور ایم ارشد کی تھی۔ فلم کے ہیرو اداکار شان تھے جو بیک وقت تین ہیروئنوں کے ساتھ کام کر رہے تھے۔ یہ فلم 6 نومبر 1992ء کو ریلیز ہوئی۔

نادرہ کی پہلی پشتو فلم ’’قانون زماپا لاسکے‘‘ تھی جس کے ہدایت کار عنایت اللہ خان تھے اور موسیقی ایس سنی کی تھی۔ اس فلم میں نادرہ کے ساتھ اسماعیل شاہ، آصف خان، بدر منیر، مسرت شاہین اور ہمایوں قریشی تھے۔ یہ فلم 21 فروری 1992ء کو ریلیز ہوئی اور درمیانی درجے کی فلم ثابت ہوئی۔ ان دنوں وی سی آر پر ویڈیو کیسٹ کے ذریعے بے تحاشا انڈین فلموں کی بارش ہورہی تھی اس کے باوجود نادرہ فلم بینوں کے حواس پر بری طرح چھائی ہوئی تھیں۔

اداکارہ نادرہ نے ایک سونے کے تاجر اعجاز حسین سے شادی کی تھی اور ان دنوں وہ بہت زیادہ پاکستان کے مختلف اخبارات کی سرخیوں میں زیربحث تھیں۔ کہیں ان کی فلموں کے تذکرے تھے تو کہیں ان کی شادی کے، ہر طرف نادرہ ہی نادرہ تھیں۔ ایک اور فلم ’’جگا ڈاکو‘‘ بھی بڑی کامیاب ہوئی تھی۔ ہدایت کار یونس ملک تھے اور موسیقی وجاہت عطرے نے بنائی تھی۔ اس فلم میں نادرہ کے ساتھ سلطان راہی، غلام محی الدین، افضال احمد، طارق شاہ اور ہمایوں قریشی وغیرہ تھے۔ یہ فلم بھی ہِٹ ہوئی تھی اور 10 ستمبر 1993ء کو اس فلم کا افتتاح ہوا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ایک ڈبل ورژن فلم ’’عادل‘‘ بھی ریلیز ہوئی تھی جس کے پروڈیوسر شیخ محمد سعید تھے۔ ہدایت کار الطاف حسین تھے اور موسیقی منظور اشرف اور ایم ارشد نے ترتیب دی تھی۔ اس فلم میں نادرہ کے ساتھ اسماعیل شاہ، کنول، طالش، غلام محی الدین، محمد قوی خان، ہمایوں قریشی، ادیب، جمیل بابر اور رنگیلا وغیرہ تھے۔ یہ فلم اکتوبر 1993ء میں ریلیز ہوئی تھی اور ہٹ ہوئی تھی۔ اس فلم کے علاوہ نادرہ کی اور بھی بہت سی فلمیں ہیں جن میں یہ جلوہ گر ہوئیں۔ ان میں چند فلمیں یہ ہیں۔ ’’لاہوری بدمعاش (بابرہ شریف اور سلطان راہی)، گوڈ فادر (نادرہ، سلطان راہی)، جوشیلے (نادرہ، غلام محی الدین)، محمد خان (ریما، سلطان راہی)، شیرجنگ (نادرہ، سلطان راہی)، حفاظت (سلطان راہی، غلام محی الدین)، جنگ باز (غلام محی الدین، سلطان راہی)، وقت (جاوید شیخ، سلطان راہی، کویتا)، یارانہ (نیلی، سلطان راہی)، ظلم دا سورج (نشو، یوسف خان)، دولت دے پجاری (ندیم، سلطان راہی)، جادوگرنی (اسماعیل شاہ، صائمہ نور)، لکھن (سلطان راہی، اسماعیل شاہ) کے علاوہ اور بھی کئی فلمیں ہیں جس میں انھوں نے عمدہ اداکاری کی اور شائقین فلم سے بھرپور داد وصول کی۔

ان کی آخری فلم ’’لیلیٰ‘‘ تھی جو ڈبل ورژن فلم تھی جس کے پروڈیوسر اسماعیل چوہدری تھے۔ ہدایت کار نذر اسلام تھے اور موسیقی وجاہت عطرے نے بنائی تھی۔ اس فلم میں نادرہ کے ساتھ اظہار قاضی، عابد علی، ہمایوں قریشی اور افضال احمد تھے۔ یہ فلم اسمٰعیل پکچرز کی جانب سے 14 اکتوبر 1994ء کو نمائش کے لیے پیش کی گئی۔

ازدواجی زندگی

[ترمیم]

سنہ 1993ء میں انھوں نے سونے کے تاجر ملک اعجاز حسین سے شادی کی تھی[4] جن سے ان کے دو بچے ہوئے، بڑی بیٹی رباب اور چھوٹا بیٹا حیدر علی۔[2] نادرہ نے شادی کے بعد شوبز کو خیرآباد کہہ دیا تھا۔[2]

وفات

[ترمیم]

ابھی ان کی بیشتر فلموں کی نمائش ہونے والی ہی تھی کہ 6 اگست کو اپنی فیملی کے ہمراہ گلبرگ میں ایک ریستوران میں ڈنر کرنے کے بعد جب اپنی گاڑی میں آکر بیٹھی ہی تھیں کہ اچانک ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی گئی۔ ان کو تین گولیاں لگیں اوروہ موقع پر ہی دَم توڑ گئیں جبکہ ان کی والدہ، شوہر اور دونوں بچے محفوظ رہے۔ آج تک یہ کیس اسی طرح الجھا ہوا ہے کہ ان کا قتل کیوں ہوا جبکہ وہ کسی بھی لینے دینے میں نہیں تھیں بلکہ نہایت ملنسار طبیعت کی مالک تھیں۔ ان کے قتل ہونے کے ٹھیک پانچ ماہ تین دن کے بعد کسی نے سلطان راہی کو قتل کر دیا۔ ان کا قتل 9 جنوری 1996ء کو گوجرانوالہ میں ہوا جبکہ ان کے ساتھ کئی فلموں میں کام کرنے والے ہیرو اسماعیل شاہ اس سے تین سال قبل ہارٹ اٹیک سے کوئٹہ میں چل بسے۔ ان کا انتقال 29 اکتوبر 1992ء کو ہوا اور ان کی آخری فلم کے ہیرو اظہار قاضی بھی 23 دسمبر 2007ء کو کراچی میں گلستان جوہر کے قریب ہارٹ اٹیک میں دُنیا سے چل بسے۔ اظہار قاضی کی عمر صرف 42 سال تھی اور اسماعیل شاہ کی عمر صرف 30 سال کے قریب تھی۔ یوں اداکارہ نادرہ کے ساتھ ساتھ ان کے ہیرو بھی اس دُنیا سے انتہائی کم وقت میں زیادہ کام کرکے اچانک ہی رخصت ہو گئے۔

فلمیں

[ترمیم]
# سال عنوان ہدایت کار زبان حواشی
1 1986 نشان الطاف حسین پنجابی پہلے ریلیز ہوئی
2 1986 آخری جنگ یونس ملک پنجابی پہلی فلم
3 1986 پتر شیراں دے الطاف حسین پنجابی
4 1987 بادل یونس ملک پنجابی
5 1987 ناچے ناگن حیدر چودھری پنجابی
6 1987 میری آواز اقبال رضوی اُردو پہلی اُردو فلم
7 1987 کمانڈ ایکشن اے ریاض پنجابی
8 1988 مولا بخش یونس ملک پنجابی
9 1988 مفرور حسن عسکری پنجابی
10 1988 حکومت حیدر چودھری پنجابی
11 1988 تحفہ داؤد بٹ پنجابی
12 1988 برداشت حیدر چودھری ڈبل ورژن
13 1989 یارانہ یونس ملک پنجابی
14 1989 زبردست حیدر چودھری پنجابی
15 1989 مس اللہ رکھی حیدر چودھری پنجابی
16 1989 کرما جہانگیر قیصر پنجابی
17 1989 رکھوالا وحید ڈار پنجابی
18 1989 میرا چیلنج عظمت نواز پنجابی
19 1989 ناگن جوگی مسعود بٹ ڈبل ورژن
20 1989 ظلم دا سورج ایم جاوید اقبال پنجابی
21 1989 تیس مار خان اقبال کاشمیری پنجابی
22 1989 زخمی عورت اقبال کاشمیری ڈبل ورژن
23 1989 مجرم حیدر چودھری پنجابی
24 1990 جیلر داؤد بٹ پنجابی
25 1990 حفاظت حیدر چودھری پنجابی
26 1990 پتر جگے دا حسن عسکری پنجابی
27 1990 وقت ایم ادریس خان پنجابی
28 1990 راجا اقبال کاشمیری ڈبل ورژن
29 1990 مارشل یونس ملک پنجابی
30 1990 جنگ باز ارشاد ساجد پنجابی
31 1991 دولت کے پوجاری ایم ادریس خان ڈبل ورژن
32 1991 جادو گرنی حسنین پنجابی
33 1991 حسن کا چور الطاف حسین ڈبل ورژن
34 1991 لکھن مسعود بٹ پنجابی
35 1991 وطن کے رکھوالے حسنین ڈبل ورژن
36 1991 لاہوری بدمعاش شاہد رانا پنجابی
37 1991 نادرہ الطاف حسین ڈبل ورژن
38 1991 کوبر شاہد رانا ڈبل ورژن
39 1991 میری جنگ محمد رشید ڈوگر پنجابی
40 1991 شیر افگن یونس ملک پنجابی
41 1991 شیرے بدمعاش سعید علی خان پشتو [nb 1]
42 1992 جوشیلے امتیاز رانا اُردو
43 1992 محمد خان کیفی پنجابی
44 1992 قانون زماپا لاسکے عنایت اللہ خان پشتو
45 1992 شیر جنگ یونس ملک پنجابی
46 1992 محبوبہ حسنین ڈبل ورژن
47 1992 گاڈ فادر پرویز رانا ڈبل ورژن
48 1992 میرا انتقام فیض ملک پنجابی
49 1993 جگا ڈاکو یونس ملک پنجابی
50 1993 عادل الطاف حسین ڈبل ورژن
51 1993 علاقہ غیر ممتاز علی خان ڈبل ورژن
52 1994 لیلیٰ نذر الاسلام ڈبل ورژن آخری فلم

حواشی

[ترمیم]
  1. اس فلم میں نادرہ کی پنجابی فلموں کے مناظر قلمبند شامل تھے۔ لیکن فلم میں نادرہ نے باضابطہ کام نہیں کیا تھا۔

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. ^ ا ب M. Saeed Awan (اکتوبر 26, 2014)۔ "The dark side of Lollywood"۔ DAWN.COM 
  2. ^ ا ب پ راجا فیض (3 اگست 2018)۔ "حسین و جمیل۔.۔.۔.نادرہ"۔ نگار۔ کراچی 
  3. "لالی وڈ کی 'جٹیاں'"۔ jang.com.pk 
  4. اے آر گل (ستمبر 2009)۔ "14 سال بیت گئے قاتل بے نقاب نہیں ہو پایا"۔ سپر اسٹار ڈسٹ۔ کراچی۔ صفحہ: 244 

بیرونی روابط

[ترمیم]