اس مضمون میں کرونا 2019ء–2020ء عالمی وبا کے پاکستان میں اثرات کو ترتیب وار قلمبند کیا گیا ہے۔ کورونا وائرس کی وبا دسمبر 2019ء میں پوری دنیا میں پھیلنا شروع ہوئی اور اس کے اثرات پاکستان میں فروری 2020ء میں آنا شروع ہوئے جبکہ چین میں مقیم پاکستانی طالب علم جنوری 2020 میں اس کا شکار ہوئے۔
کرونا وائرس کے بارے میں پل پل کی خبر دینے والے پشاور کے تین صحافی کرونا کا مثبت ٹیسٹ آنے پرخود خبر بن گئے۔ اس طرح اپریل کے اختتام تک مجموعی طور پر پورے ملک میں 40 صحافی اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ تاہم بعض کو خدشہ ہے کہ یہ تعداد اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔[3]
پاکستان سول ایویشن اتھارٹی نے پہلے مرحلے میں پاکستان کے چار انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر اسکرننگ کا عمل شروع کیا جن میں اسلام آباد، کراچی، لاہور اور پشاور شامل تھے۔
پاکستان کا افغانستان کے ساتھ لگنے والا چمن بارڈر 2 مارچ سے 7 مارچ تک بند کر دیا گیا۔ 16 مارچ سے افغان بارڈر مکمل بند کر دیا گیا۔
ایران کے ساتھ تفتان بارڈر کو 7 مارچ تک بند کیا گیا اور پھر چند دنوں کے لیے کھول دیا گیا، اس کے بعد پھر 16 مارچ سے دوبارہ بند کر دیا گیا جب ایران میں 43 کیسوں کی رپورٹ کا علم ہوا۔
16 مارچ سے چین کے ساتھ بھی ہر قسم کا بارڈر بند کر دیا گیا۔
کرتار پور بارڈر کو بھی بند کر دیا گیا مگر ہندوستان کی طرف سے سکھ یاتریوں کی آمد کو جاری رکھا گیا۔
13 مارچ سے پاکستان سے لاہور، کراچی، اسلام آباد کے سوا تمام ایئرپورٹ سے بین الاقوامی فلائٹ بند کر دیں۔
23 مارچ کی پاکستان ڈے پریڈ کو منسوخ کر دیا گیا۔
یکم جون تک تمام تعلیمی امتحانات ملتوی کر دیے گئے۔
سندھ کے وزیر اعلیٰ نے 13 مارچ کو اعلان کیا کہ سندھ بھر کے تمام تعلیم ادارے 30 مارچ تک بند رہیں گے، بعد میں اس بندش کو 30 مئی تک بڑھا دیا گیا۔
شادی ہال، لان، سینما گھروں پر بھی پابندی لگا دی گئی۔
18 مارچ سے سندھ بھر میں جزوی تالہ بندی شروع کر دی گئی۔ عوامی پارک اور ساحل سمند بھی بند کر دیا گیا۔ ریستورانوں کی جزوی بندش کا عمل بھی شروع کر دیا گیا۔
18 مارچ تک سندھ بھر میں 208 مریض ہیں۔ جن میں151 مریض سکھر میں جبکہ 56 مریضوں کا تعلق کراچی اور ایک کا حیدرآباد سے ہے۔ 18 مارچ کو سامنے آنے والے کورونا کے تمام نئے 17 مریض تمام سکھر کے قرنطینہ میں رکھے زائرین نکلے جو تفتان کے قرنطینہ میں 14 دن کا وقت گزارنے کے بعد سندھ لائے گئے تھے۔ تفتان سے تقریباً 750 زائرین بسوں کے ذریعے سکھر پہنچائے گئے، تمام زائرین اور بسوں کے عملے کو لیبر کالونی کے قرنطینہ میں رکھا گیا۔ صوبہ سندھ میں کورونا وائرس کی تشخیص کے لیے سرکاری سطح پر تین ہسپتالوں میں اب تک مجموعی طور پر 844 ٹیسٹ کیے جا چکے ہیں، جن میں آغا خان ہسپتال میں 506، ڈاؤ یونیورسٹی کے اوجھا کیمپس میں 61 اور انڈس ہسپتال میں 277 افراد کے ٹیسٹ کیے جا چکے ہیں۔
مری کو سیاحوں کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ تعلیمی ادارے دوسرے صوبوں کی طرح 31 مارچ تک بند رہیں گے۔ ریستوران، دوکانیں اور بڑے کاروباری مراکز 10 بجے تک بند کر دیے جائیں گے۔
12 مارچ کو پنجاب بھر میں طبی ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔
17 مارچ کو پنجاب میں تفتان سے آئے زائرین میں سے 25 افراد میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی۔
18 مارچ کو پنجاب میں تفتان سے آئے زائرین میں سے مزید دو افراد میں کورونا وائرس کی تشخیص ہو گئی اور کل تعداد 28 تک پہنچ گئی۔
پنجاب میں کورونا وائرس سے متاثر مریضوں میں سے 22 افراد تفتان سے لائے زائرین ہیں جو ڈیرہ غازی خان میں مقیم ہیں۔ تمام 736 زائرین کا ٹیسٹ ہو رہا ہے جبکہ مزید تفتان سے آنے والے مزید 1276 افراد بھی ڈیرہ غازی خان ہی لائے جائیں گے۔
لاہور میں 5 کورونا مریض ہیں اور ایک کورونا مریض کا تعلق گجرات سے ہے جو سپین سے پاکستان آیا۔
199 مشتبہ افراد کا ٹیسٹ کیا جا چکا ہے، 39 زیر نگرانی ہیں۔
ایران سے آئے زائرین کو تفتان میں قرنطین کیا گیا مگر دو ہفتوں بعد سندھ، خیبرپختونخوا، پنجاب آمد پر ان میں کورونا وائرس پایا گیا جس سے وائرس سے متاثر افراد کی تعداد 53 سے یک دم بڑھ کر 184 ہو گئی۔
12 فروری 2020 کو چین میں مقیم وائرس کا شکار ہونے والے چاروں پاکستانی طالب علم صحتیاب ہو گئے۔
14 فروری 2020 کو چین میں مقیم وائرس کا شکار مزید 2 پاکستانی طالب علم صحت یاب ہو گئے جبکہ ایک طالب علم زیر علاج رہا۔
23 فروری 2020 کو وفاقی وزیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے ایران کے شہر قم میں کورونا وائرس سے ہونے والی ہلاکتوں پر تشویش کا اظہار کیا۔
26 فروری 2020 کو کورونا وائرس سے متاثر پہلے شخص کی تصدیق پاکستان تحریک انصاف کے وزیر صحت ظفر مرزا نے سماجی رابطے کی سروس ٹویٹر پر ان الفاظ سے کیا۔
"میں پاکستان میںکورونا وائرس سے متاثر دو اشخاص کی تصدیق کرتا ہوں۔ دونوں افراد کو بھرپور طبی امداد دی جا رہی ہے اور ان کی حالت قابلِ اطمینان ہے۔"
27 فروری کو وفاقی حکومت نے عوام کے ہیلپ لائن کا آغاز کیا جس کا نمبر 1166 رکھا گیا۔ وفاقی وزیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے اعلان کیا کہ اگر چین، ایران سے حالیہ دنوں میں سفر کرکے آنے والے اشخاص میں بخار، کھانسی یا سانس کی تکلیف ہو تو فوری ہیلپ لائن پر رابطہ کریں۔
28 فروری کو وفاقی وزیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے نیشنل انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے اشتراک سے آن لائن پلیٹ فارم کا آغاز کیا جہاں کورونا وائرس سے متعلق سوالات کا جواب دیا جا سکے۔ پلیٹ فارم کی ویب سائٹآرکائیو شدہ(Date missing) بذریعہ app.nhsrc.gov.pk (Error: unknown archive URL) کا نام اور اسے دوستوں، رشتہ داروں اور جاننے والوں تک پھیلانے کی استدعا کی گئی۔
13 مارچ کے بعد پاکستان سپر لیگ کے میچوں میں شائقین کے کرکٹ اسٹیڈیم جا کر میچ دیکھنے پر پابندی عائد کر دی۔
17 مارچ کے سیمی فائنل اور 18 مارچ کا فائنل میچ ملتوی کر دیے گئے۔
2 ستمبر کو پی سی بی نے آخری چار میچوں کی تاریخ اور اسٹیڈیم کا تعین کیا.جس میں قذافی اسٹیڈیم میں چاروں میچ ہونا تھے، ١٤، ١٥ نومبر کو سیمی فائنل جبکہ فائنل ١٧ نومبر کو طے پایا. لاہور کی فضائی آلودگی کے سبب میچوں کو کراچی نیشنل اسٹیڈیم منتقل کیا گیا جس میں کراچی نے لاہور کو ہرا کر ٹائٹل اپنے نام کر لیا.
16 مارچ 2020 تک سکھر میں کورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد 100 کے قریب پہنچ گئی۔ کراچی میں 26 اور حیدرآباد میں ایک مریض سامنے آیا۔ ملک بھر میں مریضوں کی تعداد 184 ہو گئی۔
17 مارچ کو سکھر میں 119 کورونا مریضوں کی تصدیق ہو گی۔ 52 نئے کرونا مریضوں کے کیس سامنے آنے سے کل تعداد 237 ہو گئی۔
18 مارچ کو کورونا وائرس سے پہلے مریض فوت ہو گیا۔ 70 نئے کیس سامنے آئے، کل مریضوں کی تعداد 307 ہو گئی۔
19 مارچ کوکورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 454 ہو گئی۔ صرف ایک دن میں 147 نئے کیس سامنے آئے۔ کرونا وائرس سے دوسرا مریض جاں بحق ہو گیا۔
20 مارچ کوکورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 588 ہو گئی۔ 134 نئے کیس سامنے آئے۔ کرونا وائرس سے 4 مریض جاں بحق ہو گئے۔
21 مارچ کو اعلان کیا گیا کہ 22 سے 28 مارچ تک تمام بین الاقوامی ہوائی سفر بند کر دیا گیا۔
28 مارچ - نئے کیسز کی تعداد 122, کل مریض 1495۔ یومیہ ہلاکتیں 1 ، کل ہلاکتیں 12۔