2015ء میں بھارت میں رونما ہونے والے عدم رواداری کے اہم واقعات کی فہرست

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

بھارت کی تاریخ میں 2014ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے بر سر اقتدار آنے کے بعد سے وقتًا فوقتًا ایسے کئی واقعات پیش آئے جس میں عدم رواداری اور تشدد کا پہلو صاف چھلکتا ہے۔ 2015ء میں یہ موضوع اس لیے بھی زبان زد عام ہو گیا کہ اسی کی وجہ سے ملک کے کئی ادیبوں اور فلمی شخصیات نے اپنے انعامات اور اعزازات واپس کردیے۔

  • گووند پانسرے بھارت کے احمدنگر ضلع، مہاراشٹر سے تعلق رکھنے والے ایک کمیونسٹ قائد، سماجی کارکن اور مصنف تھے۔ سال 1984ء میں شائع کی گئی ان کی مراٹھی کتاب ’شیواجی کون تھے ‘ (शिवाजी कोण होता) کے لیے وہ مشہور تھے جس میں انھوں نے شیواجی کو ہندوؤں کے قائد کے طور پر پیش کرنے پر اعتراض کیا تھا۔ ان پر 16 فروری 2015ء کو جان لیوا حملہ ہوا تھا۔ گووند کے گلے میں تین گولیاں لگی تھی۔ ان کو علاج کے لیے اسپتال میں بھرتی کروایا گیا تھا۔ تاہم علاج سے کچھ فائدہ نہیں ہوا اور وہ 20 فروری کو اس جہاں سے انتقال کر گئے۔
  • مارچ 2015ء کو فرید خان نام کے بھارت کے ایک مسلم نوجوان کو جس پر ناگالینڈ کی لڑکی پر زیادتی کا الزام تھا، دیماپور جیل سے نکال کر مشتعل جنونی ہجوم کے ہاتھوں سرعام تشدد کے بعد بیدردی سے مار دیا گیا تھا۔ ناگالینڈ حکومت نے مرکزی حکومت اور وزارت داخلہ کو بھجوائی گئی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ فرید خان اور ہندو لڑکی میں ناجائز مراسم مرضی سے قائم ہوئے تھے اور آبرو ریزی کا کوئی معاملہ نہیں تھا۔
  • 19 مئی 2015ء کو ایک ایم بی اے گریجویٹ ذیشان علی خان کو اکثریتی فرفے سے وابستہ کمپنی نے ملازمت دینے سے صرف اس لیے انکار کر دیا کیونکہ وہ ایک مسلمان ہے۔ بھارت کی مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور نجمہ ہبت اللہ نے اس واقعے پر تشویش کا اظہار کیا۔ تاہم انھوں نے مذہبی امتیازات سے متعلق کسی بھی قانون سازی سے انکار کر دیا۔ اس کے علاوہ خاطی کمپنی سے مرکزی حکومت نے نہ تو کوئی وضاحت طلب کی اور نہ ہی اس کے خلاف کسی قسم کی تادیبی کارروائی کی پہل کی۔
  • کنڑا زبان کے مشہور مصنف ایم ایم کلبرگی نے توہم پرستی کے خلاف ایک مہم شروع کی اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ توہم پرستی، اندھ وشواس کے خلاف ایک بِل بنا کر قانون بنایا جائے۔ کرناٹک کے شہر دھارواڑ میں کلبرگی کے گھر کے قریب 30 اگست 2015ء کو دو نامعلوم آدمی خود کو ان کے شاگرد بتاکر ملنے آئے تھے۔ جیسے ہی کلبرگی ان لوگوں سے ملنے آئے، ان میں ایک نے گولی ماردی اور یہ دونوں موٹر سائکل پر فرار ہو گئے۔
  • دادری جنونی حملہ اس واقعے کا نام ہے جس میں 200 افراد کے ہجوم نے ایک مسلمان خاندان کو 28 ستمبر 2015ء کی رات کو دادری کے نزدیک بِسارا گاؤں، اترپردیش، بھارت میں حملے کا نشانہ بنایا۔ حملہ آوروں نے 52 سالہ محمد اخلاق سیفی کا قتل کیا اور ان کے 22 سالہ بیٹے دانش کو بری طرح زخمی کر دیا۔ اس حملے کے لیے ہجوم کو اکسانے کا کام مقامی بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن کے بیٹے نے کیا تھا۔ اس مسلم خاندان پر گاؤ کشی کا جھوٹا الزام عائد کیا گیا تھا جس سے یہ لوگ مشتعل ہو گئے تھے۔
  • * بھارت کے فرقہ پرست عناصرنے اس سلسلے کی گرفتاریوں اور معاوضے کی ادائیگی کی مذمت کی تھی۔ تاہم بلویندر سنگھ نامی ایک اور اقلیتی (سکھ) شخص کی ہلاکت پر اس سے کہیں زیادہ معاضے کی ادائیگی پر خاموشی اختیار کی حالانکہ یہ شخص اپنے ماں باپ اور قانون نافذ کرنے والوں پر قاتلانہ حملے کا مرتکب تھا۔
  • نعمان اختر کا تعلق بھارت کی ریاست اترپردیش کے سہارنپور سے تھا۔ انھیں 14 اکتوبر 2015ء کو جنونی ہجوم کی جانب سے ہماچل پردیش کے نہان علاقے میں اس لیے قتل کیا گیا تھا کیونکہ ان پر الزام تھا کہ وہ گایوں کی غیر قانونی حمل و نقل میں ملوث تھے۔ اس حملے میں ان کے چار ساتھی بھی زخمی ہو گئے۔ پولیس نے نعمان کے ساتھیوں کے خلاف جانوروں سے سختی کی روک تھام قانون (Prevention of Cruelty to Animals Act) اور انسداد گاؤکشی قانون (Prevention of Cow Slaughter Act) کے تحت مقدمات درج کیے۔ اس حملے میں شامل افراد کے خلاف پولیس نے تعزیرات ہند کی دفعہ 302 کے تحت مقدمہ درج کیا جو قتل سے تعلق رکھتا ہے۔ تاہم کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔ یہی حال ملک میں گائے کی حمل و نقل کے کچھ اور واقعات اور گاؤکشی سے جڑے معاملوں کے ساتھ رہا۔
  • 21 اکتوبر 2015ء کو ریاست کرناٹک میں واقع دیونگیرے یونیورسٹی کے 23 سالہ صحافت کے دَلِت طالب علم ہُوچَنْگی پرساد پر آٹھ سے دس افراد کے ایک جتھے نے حملہ کر دیا۔ اس حملے کا سبب طالب علم کی جانب سے ایک سال پہلے لکھی گئی کتاب "اوڈَالاَ کِچ چُو" تھی جس کے کئی اقتباسات میں ہندو مت اور ذات پات کے نظام پر تنقید تھی۔ حملہ آوروں نے ہوچنگی سے کہا کہ اس کی نگارشات مخالف ہندو ہیں کیونکہ اس نے ذات پات کے نظام کے خلاف کہا ہے۔ ان افراد نے اس کے چہرے پر کُم کُم پوت دیا اور کہا کہ وہ لوگ اس کی انگلیوں کو کاٹ دیں گے تاکہ اس کے میدان تحریر میں قدم رکھنے کا سپنا کبھی پورا نہ ہو سکے۔ یہ طالب بڑی مشکل سے وہاں بھاگ کر خود کو بچا سکا۔
  • 2 نومبر 2015ء کو بالی وڈ کے مشہور اداکار شاہ رخ خان نے بھارت میں بڑھتی عدم رواداری پر تشویش کا ظہار کیا۔ اپنی پچاسویں سالگرہ کے موقع پرانہوں نے ان ادبی اور فلمی شخصیات کی ستائش کی جنھوں نے اس صورت حال میں انعامات واپس کیے اورخود وہ ایسے قدم مستقبل میں اٹھانے کا ارادہ ظاہر کیا۔ شاہ رخ کے اس بیان سے شیو سینا اور کئی دائیں محاذ کی ہندو تنظیمیں مشتعل ہو گئی تھی۔ اسی کی وجہ سے شاہ رخ خان کی 2015ء میں جاری فلم دل والے کے خلاف ملک میں بڑے پیمانے احتجاج کیا گیا۔ مدھیہ پردیش کے تین شہروں بھوپال، اندور اور جبلپور میں یہ احتجاج کافی شدت اختیار کرگیا تھا۔ ممبئی کے دادر مال میں اس فلم کی نمائش کے خلاف پرزور احتجاج کر رہے شیوسینکوں کو پولیس کی جانب سے باہر نکالا گیا تھا۔ اس کے برعکس کرناٹک کے دکشن کنڑا کے ملٹی پلیکسوں اور تھیئٹروں سے اس فلم کی نمائش کو دائیں محاذ کے احتجاج کی وجہ سے روک دیا گیا۔
  • اسی طرح 23 نومبر 2015ء کو نئی دہلی میں ایک تقسیم انعامات کے جلسے میں عامر خان نے "بڑھتی عدم رواداری" کا تذکرہ کیا اور کہا کہ انھوں نے اس کا احساس پچھلے چھ سے آٹھ مہینے میں یہ زیادہ محسوس کیا۔ اس کے جواب میں کچھ عناصر نے عامر خان کے خلاف تھپڑ مارنے کی مہم شروع اور حقیقی دنیا میں اس کی عدم تکمیل دیکھتے ہوئے ریاستہائے متحدہ امریکا کے میامی ایڈ اسکول کے ہیمانیش آشار اور دھُوَنی شاہ نے ایک ویب گاہ کی تخلیق کی جہاں پر لوگ اپنی نفرت کے اظہار یا تفریح کے لیے عامر خان کو آن لائن تھپڑ مارسکتے ہیں۔
  • 2014ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے بھارت بر سر اقتدار آنے کے بعد سے دیگر کئی مسلم حکمرانوں کی طرح ٹیپو سلطان اور ان کے والد حیدر علی پر مذہبی عدم رواداری اور بڑے پیمانے پر ہندوؤں کے قتل کا الزام عائد کیا جانے لگا۔ نومبر 2015ء میں کرناٹک کی بر سر اقتدار سدارمیا کی زیرقیادت کانگریس حکومت نے حسب سابق ٹیپو سلطان کے یوم پیدائش کا جشن منایا تو ریاست کے مَدِیْکیرِی علاقے میں ایک مسلم تنظیم اور وشوا ہندو پریشد کے بیچ پرشدد چھڑپیں ہوئی۔ یہ دعوٰی کیا گیا کہ اس میں مقامی قائد ڈی ایس کُٹپا کی موت ہو گئی۔ تاہم بعد میں پتہ چلا کہ وہ ایک بیس فیٹ اونچی دیوار سے گرکر فوت ہو گئے۔ چھڑپوں میں ایک مسلم شخص ہلاک ہو گیا۔
  • 2015ء میں جاری سنجے لیلا بھنسالی اپنی فلم باجی راؤ مستانی کی وجہ سے شیو سینا اور کئی دائیں محاذ کی ہندو تنظیموں کی جانب سے تنازعات کا شکار بن گئے۔ پونے میں ان کے مجسمے جلائے گئے۔ فلم کے تنازع کی وجہ مراٹھا حکمران باجی راؤ اور ایک مسلم رقاصہ کا پردے پر دکھایا گیا معاشقہ ہے۔ حالانکہ فلم میں اس عشق کو محبت سے تعبیر کی گئی اور عیاشی سے حد فاصل قائم کرنے کی کوشش کی گئی، تاہم احتجاجیوں کے مطابق یہ تاریخ کو مسخ کر کے پیش کرنے کی کوشش ہے اور ملک کے کئی سنیماگھروں کے روبرو مظاہرے کیے گئے۔
  • دسمبر 2015ء میں بڑے پیمانے پر تعمیری پتھروں کو بابری مسجد کی زمین پر وشو ہندو پریشد کی جانب سے بھیجا گیا جو عدالت میں زیردوران مقدمے پر عبوری احکام کی کھلی خلاف ورزی تھی۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]