یگانگت

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

یگانگت (انگریزی: solidarity) کسی مشترکہ دل چسپی، مقاصد، معیارات یا ہم دردیوں کو کہا جاتا ہے جو گروہوں یا طبقوں کے بیچ نفسیاتی طور اتحاد پیدا کرتے ہیں۔[1][2] یہ ان سماجی بندھنوں کا نام ہے جو لوگوں ایک گونہ بناتے ہیں۔ اس اصطلاح کا عمومًا اطلاق عمرانیات اور دیگر سماجی علوم میں ہوتا ہے۔[3] اسی اصطلاح کا فلسفہ اور حیاتی اخلاقیات میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس تصور کو کیتھولک سماجی تدریس میں خاص جگہ دی گئی ہے؛ اس وجہ سے یہ مسیحی جمہوری سیاسی نقطۂ نظر میں کلیدی اہمیت حاصل ہے۔[4]

مذہبی، لسانی اور فکری یگانگت[ترمیم]

عالمی سطح پر قومی، مذہبی اور لسانی، نیز کچھ اور بنیادوں پر لوگ اپنی پسند اور دل چسپی کی وجہ کئی انجمنیں، ادارے اور تنظیمیں قائم کرتے آئے ہیں۔ منظم تاسیس کے بغیر بھی لوگوں کئی بار فکری یک گونہ پن بھی یگانگت کا سبب بنا ہے۔

ستمبر 2019ء میں مجلسِ فخرِ بحرین برائے فروغِ اُردو نے دوسری طرحی نشست، بہ یاد پنڈت ہری چند اختر منعقد کی تھی، جس میں مقررین نے اس خیال کا اظہار کیا کہ اپنے طاقتور اظہارئے اور متنوّع مزاج کی وجہ سے اردو نے سماجی یگانگت اور علمی اشتراکِ عمل کا فریضہ جس حسن و خوبی سے سر انجام دیا ہے اس کی مثال زبانوں کی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔مختلف النوع سماجوں، تہذیبوں اور نظریاتی اختلاف کے باوجود اُردو نے کئی صدیوں تک برِّ صغیر جنوبی ایشیا میں با معنی عمرانی ہم آہنگی اور معاشرتی اشتراک کو نہ صرف فروغ دیا بلکہ اس کو ایک قیمتی لسّانی اثاثے کے طور پر اگلی نسلوں کو بھی نتقل کیا۔

شیام بینیگل کی ایک 2016ء کی تصویر

بھارت کی 49 مشہور فلمی اور فن کار شخصیات نے ملک میں بڑھتی ہوئی عدم رواداری کا مسئلہ اٹھاتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک خط 24 جولائی 2019ء کو لکھا۔ خط پر دستخط کنندوں میں شیام بینیگل، منی رتنم، انوراگ کشیپ اور رام چندر گوہا شامل تھے۔ اس خط میں مطالبہ کیا گیا کہ ایک سخت تر قانون ملک میں ہونا چاہیے جو دلت اور مسلمان لوگوں پر ہجومی تشدد کے واقعات پر روک لگا سکے۔[5]

کنگنا رناوت کی ایک 2014ء کی تصویر۔ کنگنا بھی حکومت کی حمایت میں آنے والی شخصیات میں سے ایک تھی۔

اس خط کے جواب میں 62 مشہور شخصیات نے وزیر اعظم کو ایک کھلا خط لکھا جس میں مبینہ طور پر "چنندہ احتجاج" اور "غلط بیانی" پر تاسف کا اظہار کیا گیا۔ ان کے مطابق 49 خود ساختہ ملک کے 'محافظین' اور 'ضمیر اور جمہوری اقدار کے رکھوالوں' نے ایک بار پھر اپنی چنندہ رد عمل کا اظہار کیا ہے جس سے مظاہرہ ہوتا ہے کہ ایک واضح سیاسی جھکاؤ اور مقصد براری اس میں مضمر ہے۔ ان شخصیات میں کنگنا راناوت، پائل روہتگی اور پرسون جوشی شامل تھے۔[6]

بھارت کے مرکزی وزیر گری راج سنگھ کھادی ہاٹ کا 2018ء میں افتتاح کرتے ہوئے۔

بھارت کی مرکزی حکومت میں شامل جانوروں کی افزائش نسل کے وزیر گری راج سنگھ نے 49 مشہور فلمی اور فن کار شخصیات کے خط کو مودی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش قرار دیا۔ انھوں نے اسے ایوارڈ واپسی گینگ کی اسی سوچ کی ایک اور کوشش قرار دیا۔ انھوں نے سوال کیا کہ کیوں یہ لوگ کیرانہ کے ایم ایل اے ناہید حسن کے بارے کچھ نہیں کہتے جنھوں نے مسلمانوں سے ہندو دکان داروں کے بائیکاٹ کرنے کا مطالبہ کیا۔[7] تاہم وزیر موصوف نے وشوا ہندو پریشد کی قائد سادھوی پراچی کے بیان پر کچھ نہیں کہا جنھوں نے اسی طرح سے شیو بھکتوں سے اسی طرح سے مسلمانوں کا بائیکاٹ کرنے کا مطالبہ کیا۔ نہ انھوں نے ایس سادھوی کے اُس بیان کی مذمت کی جس میں اس نے کہا تھا کہ جن لوگوں نے آزادی کے بعد اس ملک میں رہنے کا فیصلہ کیا ہے، انھیں شہریوں کی طرح رہنا ہوگا، ان کے غرانے کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔[8] یہ قابل ذکر ہے کہ سادھوی پراچی اسی وشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی) کی قد آور رہنما ہے جو بی جے پی ہی کی طرح سنگھ پریوار کا حصہ ہے۔ سنگھ پریوار میں آر ایس ایس، بی جے پی، وی ایچ پی، بجرنگ دل اور کچھ ذیلی تنظیمیں شامل ہیں۔[9]

ذرائع ابلاغ میں رسمی اور غیر رسمی ایسے کئی معاملات پر بحثیں شروع ہو گئی جن میں غیر مسلم شخصیات متاثر ہوئے۔ ان میں معترضین سے یہ سوالات پوچھے گئے کہ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد سکھوں کے قتل پر انھوں نے تاسف کیوں نہیں کیا، کشمیر میں لاکھوں پنڈتوں کے نقل مکانی پر انھوں نے مذمت کیوں نہیں کی۔ داعش اور القاعدہ جیسی تنظیموں پر ان لوگوں نے مذمت کیوں نہیں کی۔ ایک طرح سے اس کا کیا کی کئی حجتیں آگے کرنے کی کوشش کی گئی جن سے بھارت میں ہجومی تشدد کے معترضین کے اعتراضات کو یک طرفہ ثابت کیا جا سکے۔

پہلے خط کو، جسے 49 لوگوں نے دستخطوں کے بعد جاری کیا تھا، ایک مجرمانہ شکایت کی نذر ہوا جس میں 9 دستخط کنندوں کے خلاف معاملہ لکھا گیا۔ اس پر انوراگ کشیپ نے اپنے ٹویٹر کھاتے سے انگریزی زبان میں جو انھوں نے جو لکھا، اس کا نچوڑ اس طرح ہے:

اگر ایک خط کا یہ اثر ہو سکتا ہے تو ہمیں ایک مکمل ٹرول فوج کی ضرورت ہے جو چن چن کر غلط بیانیوں کو ڈھونڈ نکالے اور دستخط کنندوں پر مختلف الزامات عائد کرے تو سوچیے کیا ہو گا اگر ہم اس حکومت کے خود کو نفع پہنچانے والے ہر اقدام پر سوال پوچھنے لگیں۔[10]

وزیر اعظم کو جن 49 لوگوں نے تشویش ظاہر کرتے ہوئے خط لکھا تھا، ان میں اداکار کوشیک سین بھی شامل رہے ہیں، جنہیں اس کے کچھ ہی دن کے اندر ٹیلی فون پر موت کی دھمکی دی گئی تھی۔ پی ٹی آئی کے مطابق، اس کی اطلاع پولیس کو دے گئی ہے اور پولیس کو دھمکی آمیز کال کا نمبر بھی فراہم کر دیا گیا ہے۔[11]

فلمساز انوراگ کشیپ کی تصویر

ایک اور خط کے دستخط کنندے اور فلمساز انوراگ کشیپ کو ہجومی تشدد اور حکومت کے خلاف گویائی کی وجہ سے ٹویٹر پر ٹرول کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ان کے والدین اور ان کی بیٹی کو دھمکیاں وصول ہو رہی تھی۔ ان کی بیٹی کو عصمت دری کی دھمکی دی گئی تھی۔ اس بات کا اظہار انھوں نے اپنے ٹویٹر کھاتے اسے دیے جانے والے اخیر کے دو ٹویٹوں میں کیا تھا۔ پھر انھوں نے اپنا ٹویٹر کھاتہ حذف کر دیا۔ انوراگ اکثر بی جے پی حکومت کی پالیسیوں کے ناقد بھی رہے ہیں اور انھوں نے دستور کی دفعہ 370 کی حذف شدگی اور کئی اور اہم موضوعات پر حکومت سے شدید اختلاف رائے رکھتے آئے ہیں اور ان باتوں کا بھی انھوں نے ٹویٹر پر کھل کر اظہار کیا تھا۔ [12]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Merriam Webster, http://www.merriam-webster.com/dictionary/solidarity.
  2. "solidarity"۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 مارچ 2018 – The Free Dictionary سے 
  3. Stanisław Adamiak، Ewa Chojnacka، Damian Walczak (1 دسمبر 2013)۔ "Social Security in Poland – cultural, historical and economical issues"۔ Copernican Journal of Finance & Accounting۔ 2 (2): 11–26۔ doi:10.12775/cjfa.2013.013 
  4. Tony Fitzpatrick، Huck-ju Kwon، Nick Manning، James Midgley, Gillian Pascall (4 جولائی 2013)۔ International Encyclopedia of Social Policy (بزبان انگریزی)۔ Routledge۔ صفحہ: 1866۔ ISBN 978-1-136-61003-5 
  5. "In a letter to PM Modi, 49 celebrities raise the issue of rising intolerence in India"۔ newsR۔ 28 جولا‎ئی 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 دسمبر 2019 
  6. "62 celebrities write an open letter to PM Modi against 'selective outrage' and 'false narratives'"۔ Daily Sun۔ 28 جولا‎ئی 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 دسمبر 2019 
  7. "Union Minister Terms Letter Rising 'Mob Lynching' Issue As An Attempt To Destabalise Modi Govt"۔ اے بی پی لائیو۔۔ 20 اگست 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 دسمبر 2019 
  8. "Sadhvi Prachi asks Kanwariyas to boycott Muslim shopkeepers and make way for Hindu employment"۔ نیوز ایکس ڈاٹ کام۔ 09 دسمبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 دسمبر 2019 
  9. "Lok Sabha elections 2019: Sangh push to Karnataka BJP campaign"۔ ہندوستان ٹائمز 
  10. "Letter to PM Narendra Modi: Anurag Kashyap slams Govt, mocks trolls"۔ The Asian Age۔ جولائی 28, 2019 
  11. "Mob lynching: SC issues notice in PIL seeking implementation of previous order"۔ لائیو منٹ۔ جولائی 30, 2019 
  12. "Anurag Kashyap deletes Twitter account; here's why"۔ نیوز بائٹص ایپ ڈاٹ کام۔ جولائی 30, 2019۔ 20 اگست 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 دسمبر 2019