افتخار احمد حافظ قادری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
افتخار احمد حافظ قادری

معلومات شخصیت
پیدائش 5 اپریل 1954ء (70 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
راولپنڈی ،  پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش راولپنڈی   ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ سفرنامہ نگار ،  سوانح نگار ،  سیاح   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو ،  عربی ،  انگریزی ،  فارسی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
 کویت تمغا آزادی (سعودی عرب) (1992)  ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

افتخار احمد حافظ قادری (پیدائش:5 اپریل، 1954ء) اردو زبان کے نامور مصنف، سفرنامہ نگار، سیاح، محقق اور سوانح نگارہیں۔ پیشے کے اعتبار سے اکاؤنٹنٹ اور مترجم ہیں لیکن ان کی وجہ شہرت سفرنامہ نگاری ہے۔ سلسلہ قادریہ میں بیعت ہیں۔ اردو، عربی، فارسی اور انگریزی زبان میں مہارت رکھتے ہیں۔ سعودی عرب، ایران، شام، اردن، مراکش، ازبکستان اور عراق سمیت بہت سے ممالک کی سیاحت کر چکے ہیں۔ آپ کی اب تک 65 کتابیں شائع ہو چکی ہیں، جن میں زیارات مقدسہ، خزانہ درود و سلام، بارگاہ پیر رومی میں، زیارات مدینہ منورہ، زیارات ترکی، گلدستہ درود و سلام، سفرنامہ زیاراتِ ازبکستان، سیدنا حمزہ بن عبد المطلب، شانِ خلفائے راشدین بزبان سید المرسلینﷺ، شان علی ؓ بزبانِ رسولﷺ، سفرنامہ زیاراتِ ایران، شہزادی کونین، سفرنامہ زیارات شام، سیدنا ابو طالب اور شاہِ حبشہ حضرت اصحمۃ النجاشی قابلِ ذکر ہیں۔ 1986ء میں فریضہ حج کی ادائیگی اور ستمبر 1996ء میں خانہ کعبہ کے اندر دو بار حاضری کی سعادت حاصل ہوئی۔ اندرون اور بیرونِ ملک کئی علمی اور روحانی شخصیات سے ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی، جن میں سر فہرست سابق مفتی اعظم عراق شیخ عبد الکریم مدرس (متوفی 2005ء)سے دو مرتبہ ملاقات کا شرف بھی شامل ہے۔ یہ وہ شخصیت تھے جب سال 1932ء میں عراق کے شاہ فیصل اول کے دورِ حکومت میں بغداد میں دو صحابہ کرام کے مزارات منتقل ہوئے تھے تو ان صحابہ کرام کی زیارت کی سعادت انھیں حاصل ہوئی تھی۔

خاندانی پس منظر[ترمیم]

قریباً ایک صدی پہلے ان کے جدِ امجد گل محمد مرحوم سر زمین افغانستان سے سفر کرتے کرتے پشاور پہنچے۔ پشاور میں کچھ عرصہ قیام کے دوران میں جناب گل محمد کو معلوم ہوا کہ راولپنڈی کے قریب مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں گولڑہ شریف میں پیر فضل دین شاہ المعروف بڑے پیر صاحب (حضرت پیر مہر علی شاہ کے والدِ محترم کے ماموں اور سلسلہ قادریہ میں پیر مہر علی شاہ کے پیرِ طریقت) اپنے روحانی فیض سے عوام و خواص کی روحانی تربیت فرما رہے ہیں، گل محمد پشاور سے گولڑہ شریف میں فضل دین شاہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہیں سکونت اختیار کی۔ گل محمد کا انتقال اندازہً 1923ء میں گولڑہ شریف میں ہوا اور وہیں مدفون ہوئے۔ افتخار احمد حافظ کے والد حافظ فقیر محمد 1910ء کے قریب گولڑہ شریف میں پیدا ہوئے۔ قرآن پاک حفظ کیا اور پیر مہر علی شاہ کے دستِ مبارک پر بیعت کاشرف حاصل کیا۔ فارسی اور پشتو زبان روانی سے بولتے تھے۔ پیر مہر علی شاہ کے حکم سے فتح جنگ کے موضع ٹھٹھی کی ایک خاتون سے شادی ہوئی جو خانقاہ گولڑہ شریف کی عقیدت مند تھی۔ ان کو اللہ نے سات بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا۔ حافظ فقیر محمد 1930ء کی دہائی میں راولپنڈی کے ایک مقام پرانا قلعہ منتقل ہو گئے۔ پھر 1956ء-1957ء میں کوچہ شاہین، صدر بازار منتقل ہوئے جہاں کچھ عرصہ رہائش کے بعد پریم گلی مولوی محلہ میں اپنا مکان خرید لیا اور یہاں مستقل رہائش اختیار کر لی۔ حافظ فقیر محمد کا انتقال 21 جنوری 1989ء کو راولپنڈی میں ہوا۔[1]

پیدائش و تعلیم[ترمیم]

افتخار احمد حافظ 5 اپریل 1954ء کو راولپنڈی کی قدیم آبادی پرانا قلعہ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے پرائمری کا امتحان سی بی اسکول (موجودہ ایف جی اسکول) واقع احاطہ مٹھو خان سے پاس کیا۔1970ء میں راولپنڈی کے ڈینیز ہائی اسکول سے میٹرک کا امتحان سائنس گروپ میں سرگودھا بورڈ سے پاس کیا۔ پھر ملازمت اور تعلیم دونوں ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ اپنے والد کی زیرِ نگرانی حفظِ قرآن کی سعادت حاصل کی۔ معروف عالم دین مولانا عبد الرحمٰن طاہر سورتی کے زیر سرپرستی چلنے والے ادارے ادارہ فروغِ عربی میرپور خاص سے 1977ء میں عربی زبان کا بذریعہ خط کتابت کورس اعزازی نمبروں سے پاس کیا۔ 1976ء -1977ء میں سعودی عربین سینٹڑ راولپنڈی سے عربی زبان کا دو سالہ ڈپلوما مکمل کیا۔ 1984ء میں علم و ادب گروپ میں عربی مضمون کے ساتھ ایف اے کا امتحان راولپنڈی بورڈ سے پاس کیا۔ 1998ء میں خانہ فرہنگ ایران راولپنڈی سے فارسی زبان کا ایک سالہ ایڈوانس کورس مکمل کیا۔[2]

اساتذہ کرام[ترمیم]

افتخار احمد حافظ کے عربی کے اساتذہ میں مولانا عبد الرحمٰن طاہر سورتی اور صلاح الدین العراقی کا نام سر فہرست ہے۔ فارسی زبان کے دیگر اساتذہ کے علاوہ مشہور محقق، بے شمار کتب کے مصنف، فارسی شاعر و تاریخ گو، سابقہ لائبریرین گنج بخش لائبریری مرکزِ تحقیقاتِ فارسی ایران و پاکستان ڈاکٹر محمد حسین تسبیحی رہا سے سیکھی۔[3]

ملازمت[ترمیم]

  • خیبر موٹرز کمپنی، راولپنڈی  پاکستان (شعبہ اکاؤنٹس - مدت 2 سال)
  • R.E.P. CO.  پاکستان (شعبہ اکاؤنٹس - مدت 3 سال)
  • سفارت خانہ شام، اسلام آباد  پاکستان (عربی ٹائپسٹ - مدت 2 سال)
  • سفارت خانہ لبنان، اسلام آباد  پاکستان (اسسٹنٹ اکاؤنٹنٹ / اکاؤنٹنٹ - مدت 9 سال)
  • سفارت خانہ قطر، اسلام آباد  پاکستان (افسر تعلقات عامہ - مدت 6 ماہ)
  • سعودی ملٹری اتاشی، اسلام آباد  پاکستان (اسسٹنٹ اکاؤنٹنٹ - مدت 1 سال)
  • تیموریہ العربیۃ السعودیۃ  سعودی عرب (عربی انگلش ٹائپسٹ - مدت 7 سال)
  • وزارت الدفاع و الطیران  سعودی عرب (اکاؤنٹنٹ - مدت 1 سال)

شادی[ترمیم]

افتخار احمد حافظ کے شادی 12 اکتوبر 1978ء میں ٹاہلی موہری راولپنڈی کے ایک معزز خاندان میں ہوئی۔ 1991ء میں افتخار احمد حافظ مولوی محلہ صدر سے اپنے نئے مکان افشاں کالونی راولپنڈی میں منتقل ہوئے۔ اللہ نے انھیں تین بیٹے اور تین بیٹیاں عطا فرمائیں۔[4]

بیعت ارادت[ترمیم]

مدینہ منورہ میں 23 اکتوبر 2000ء کو سلسلہ عالیہ قادریہ میں مدینہ منورہ میں السید تیسیر محمد یوسف الحسنی السمہودی کے دستِ مبارک پر بیعت کا شرف حاصل کیا۔آپ حضرت علامہ نور الدین علی بن احمد الحسنی السمہودی (متوفی 911ھ مدفون جنت البقیع) مصنف وفاء الوفاء باخبار دارالمصطفیٰ کی آل سے ہیں۔

اعزازات[ترمیم]

ناقدین، محققین اور اہلِ علم کے تاثرات[ترمیم]

محترم حافظ صاحب نے زیاراتِ اولیاء کے ہر سفر کو اہلِ محبت سے اوجھل نہ رکھا بلکہ خوبصورت کتاب کی صورت میں انھیں بھی اس کارواںِ شوق میں ساتھ ساتھ شامل کیا۔ مقاماتِ مقدسہ کی رنگین تصاویر اور نقشہ جات اپنے قارئین کو خیالوں کی دنیا میں ان مقدس مقامات پر رسائی کا ذریعہ بنتے ہیں۔

محترم حافظ صاحب کا قلم ہمیشہ رواں رہتا ہے۔ آپ ایک کہنہ مشق پختہ ادیب ہیں۔ ان کی تصانیف کا ایک خاص پہلو جو قاری کے ذہن میں اترتا چلا جاتا ہے وہ زبان و اسلوب کی سادگی اور مستند احوال کی سنجیدگی ہے۔ جتنی بھی نگارشات اب تک نوکِ قلم سے ظہور پزیر ہوئی ہیں انھوں نے اربابِ عشق و محبت سے خوب پزیرائی حاصل کی ہے اور شائقین علم و ادب نے ان سے بھرپور استفادہ حاصل کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ شب و روز یک جہتی کے ساتھ محنت کیے جا رہے ہیں اور ہر وقت کسی نہ کسی تصنیف میں مگن رہتے ہیں۔ اولیائے عالم اسلام کو پاکستان کے دور دراز علاقوں میں رہنے والے محبانِ طریقت میں متعارف کروانے کا عظیم کام محترم حافظ صاحب کے نامۂ اعمال میں ہمیشہ چمکتا دمکتا رہے گا۔[6] (پیر محمد طاہر حسین قادری، آستانہ عالیہ قادریہ غوثیہ دربار کرمیہ، منگانی شریف، جھنگ)

مصنف ایک باذوق اور باخبر سیاح کی حیثیت سے ہمیں ان روحانی مقامات تک لے جاتا ہے جہاں سے رُشد و ہدایت اور خداوند تعالیٰ کے جمال و جلال کی کرنیں چار دانگ عالم کو روشن منور کر رہی ہیں۔[7] (حافظ خبیب احمد، ڈپٹی ڈائریکٹر، نیشنل لائبریری اف پاکستان، اسلام آباد)
محترم افتخار صاحب نے عشق و عقیدت کے بہت سارے سفر کئے اور اپنی قلبی کیفیات کو بڑے خوبصورت انداز میں ضبطِ تحریر لا چکے ہیں۔ موجودہ کتاب کی اہمیت یوں بڑھ جاتی ہے کہ شہزادہ غوث الثقلین مدظلہ العالی کی راہنمائی سے یہ سفر عقیدت جس کے ہر لفظ میں عشق رسولﷺ اور اپنے عشقِ طریقت سے والہانہ لگاؤ کا اظہار ہوتا ہے۔ میری خوش قسمتی ہے کہ افتخار صاحب کے ساتھ تہران میں رومی بین الاقوامی کانفرنس کے موقع پر ان کی ہم نشینی کا شرف مجھے حاصل رہا۔ خدا سے دعا ہے کہ انہیں اپنے حفظ و امان میں رکھےہوا اور ان کے قلم سے ایسی ہی خوبصورت کتابیں لکھوائے۔ آمین۔[8] (حافظ پروفیسر ڈاکٹر عفان سلجوقی)
مجھے یہ کہنے میں بھی کچھ تکلف نہیں کہ گرامی قدر افتخار احمد حافظ قادری شاذلی نے سفرناموں کی تاریخ میں اس نئے آہنگ کو متعارف کرا کے اس شعبے میں تجدیدی کارنامہ سر انجام دیا ہے اور اس حوالے سے وہ اس طرزِ نو کے بانی اور مؤسس ہیں۔ یہی جذبات ہی تو حقیقی زندگی ہے، ترقی ہے، کامیابی ہے۔[9] (ملک محبوب رسول قادری)

تصانیف و تالیفات[ترمیم]

  • 1- زیارات مقدسہ (بلاد اسلامیہ میں زیارات مقدسہ پر ایمان افروز تذکرہ) - 1999ء
  • 2- زیارات مقدسہ کا سفر نامہ (ایران افغانستان اور پاکستان)- 2000ء
  • 3- زیارت حبیب صلی اللہ علیہ وسلم - 2000ء
  • 4- ارشادات مرشد - 2001ء
  • 5- خزانہ درود و سلام- 2001ء
  • 6- دیار حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم - 2001ء
  • 7- گلدستہ قصائد مبارکہ- 2001ء
  • 8- قصائد غوثیہ- 2002ء
  • 9- سرزمین انبیا و اولیاء - 2002ء
  • 10- بلد الاولیاء - 2002ء
  • 11- بارگاہِ غوث الثقلین ؒ( تصاویر کے آئینے میں) - 2002ء
  • 12- الباز الاشہب (سرکارِ غوث اعظم ؒ)- 2002ء
  • 13- مقامات مبارکہ آل و اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم - 2002ء
  • 14- زیاراتِ شام (تصویری البم)- 2003ء
  • 15- شہر رسول (تصویری البم) – 2003ء
  • 16- اولیائے ڈھوک قاضیاں شریف - 2003ء
  • 17- فضیلت اہل بیتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم - 2005ء
  • 18- زیارات مصر - 2006ء
  • 19- بارگاہِ پیر رومی میں - 2003ء
  • 20- سفرنامہ زیارات مراکش - 2008ء
  • 21- زیارات مدینہ منورہ (متبرک و تاریخی مقامات کا تذکرہ) - 2008ء
  • 22- زیارات ترکی - 2008ء
  • 23- زیارات اولیائے کشمیر (تحریر و تصاویر کے آئینے میں) - 2009ء
  • 24-گلدستہ درود و سلام از افضل الصلوات و سعادة الدارین ۔ 2019ء
  • 25- تکمیل الحسنات تلخیص افضل الصلوات علی سید السادات - 2010ء
  • 26- انوار الحق فی الصلاۃ علی سید الخلق محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم - 2010ء
  • 27- خزینہ درود و سلام - 2010ء
  • 28- فرموداتِ حضرت سیدنا داتا گنج بخش - 2010ء
  • 29- التفکر و الاعتبار فی فضل الصلاۃ والسلام - 2010ء
  • 30- گلدستہ 70 صیغہ ہائے درود و سلام- 2010ء
  • 31- ورفعنا لک ذکرک (92 صیغہ ہائے درود و سلام) – 2011ء
  • 32- زیارات ایران - 2012ء
  • 33- سفرنامہ زیارات ترکی - 2013ء
  • 34- کتابچہ حضرت دادا برلاس - 2013ء
  • 35- ہدیہ درود و سلام بیاد پروین گولڑہ - 2013ء
  • 36- سفرنامہ زیارات عراق و اردن - 2013ء
  • 37- درود و سلام کا نادر و انمول انسائیکلوپیڈیا (جلد اول و جلد دوم) – 2013ء
  • 38- سدرہ شریف تا مدینہ منورہ - 2014ء
  • 39- شان بتول بزبان رسول - 2014ء
  • 40- الصلوات الالفیہ مع صلوات النبویہ - 2015ء
  • 41- شان علی بزبان نبی - 2016ء
  • 42- عظائم الصلوٰات و التسلیمات - 2016ء
  • 43- شان خلفائے راشدین بزبان سید المرسلین - 2016ء
  • 44- سیدنا حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہما ( احوال آثار مناقب ) - 2016ء
  • 45- الصلوات الالفية باسماء خير البرية - 2016ء
  • 46- سفرنامہ زیارات ازبکستان - 2017ء
  • 47- شاہ حبشہ ( سوانح حیات) - 2017ء
  • 48- سفرنامہ زیاراتِ ترکی - 2017ء
  • 49- صلاة و سلام برائے زیارت خیر الانام صلی اللہ علیہ وسلم - 2017ء
  • 50- سفرنامہ زیارت شام - 2017ء
  • 51- محافظ رسول سیدنا ابو طالب ( احوال آثار مناقب) - 2018ء
  • 52- درود و سلام کا گلدستہ الفية الصلوات على فخر الموجودات - 2018ء
  • 53- مناقب والدین مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وسلم - 2018ء
  • 54- حیات انور - 2018ء
  • 55-شہزادی کونین علیھا السلام (احوال آثار اور مناقب) – 2018ء
  • 56- مومنین کی مائیں (احوال آثار مناقب) - 2019ء
  • 57- سفرنامہ زیاراتِ ایران - 2019ء
  • 58- سید یعقوب علی شاہ چشتی صابری وارثی - 2019ء
  • 59- التفکر و الاعتبار اور کنز فی الصلاۃ- 2019ء
  • 60- کسری العرب سیدنا معاویہ بن ابو سفیان - 2020 ء
  • 61- فضائل حسنین کریمین بزبان وسیلتنا فی الدارین - 2021ء
  • 62- باقہ الصلوات علی فخر الموجودات - 2021ء
  • 63- درود سلطان محمود غزنوی درود دس ھزاری درود نامیہ - 2021ء
  • 64 - بشائر الخیرات - 2021ء
  • 65- گلدستہ درود و سلام - 2021ء

نگار خانہ[ترمیم]

بیرونی روابط[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تعارف مصنف کتابِ ہٰذا، مشمولہ: زیاراتِ ایران، افتخار احمد حافظ قادری، 2012ء، ص 338-339
  2. زیاراتِ ایران، ص 340
  3. زیاراتِ ایران، ص 340-341
  4. زیاراتِ ایران، ص 343
  5. 12/20/2/ص (15 جنوری 1992ء)
  6. تقریظ از فقیر محمد طاہر حسین قادری، مشمولہ: زیاراتِ ایران، افتخار احمد حافظ قادری، 2012ء
  7. تقریظ از حافظ خبیب احمد، مشمولہ: مقامات مقدسہ، افتخار احمد حافظ قادری، 1999ء، ص 27
  8. سدرہ شریف تا مدینہ شریف، افتخار احمد حافظ قادری، 2014ء، ص 189
  9. سفرنامہ زیارات ازبکستان، افتخار احمد حافظ قادری، 2017ء، ص 121