نواب اربعہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

نُوّاب اَربَعہ، شیعہ اصطلاح میں غیبت صغری کے زمانے میں امام زمانہ(عج) کے ان چار نمائندوں اور نائبین خاص کو کہا جاتا ہے جو آپ(ع) اور شیعیان اہل بیت(ع) کے درمیان رابطے کا کام سر انجام دیتے رہے ہیں۔ ان کو نواب خاص بھی کہا جاتا ہے۔ ان کے نام بالترتیب یہ ہیں: عثمان بن سعید، محمد بن عثمان، حسین بن روح اور علی بن محمد سمری۔ نواب اربعہ، ائمہ معصومین(ع) کے با اعتماد اصحاص میں سے تھے جو یکے بعد دیگرے خود امام زمانہ(ع) یا پہلے نائب خاص کی طرف سے منتخب کیے جاتے تھے۔ یہ چار افراد تقریبا ستر سال تک امام زمانہ(ع) کے نائب خاص کے عنوان سے خدمات سر انجام دیتے رہے اور دور و دراز علاقوں میں اپنی جانب سے وکلا کو تعیین کرنے کے ذریعے شیعوں کی درخواستیں اور پیغامات امام زمانہ(ع) تک پھر امام علیہ السلام کی طرف سے ان کے جوابات کو لوگوں تک پہنجاتے تھے۔ ان نائبین خاص کی دیگر زمہ داریوں میں امام زمانہ(ع) کے بارے میں ایجاد ہونے والے شکوک و شبہات کا ازالہ اور آپ(ع) کی محل زندگی اور مشخصات کو مخفی رکھنا، شامل ہیں۔

نیابت خاصہ[ترمیم]

نیابت خاصہ سے مراد امام(ع) کی طرف سے کسی خاص شخص کو لوگوں کے ساتھ رابطے کے لیے اپنا نمائندہ مقرر کرنا ہے جس وقت خود امام براہ راست لوگوں کے ساتھ رابطہ برقرار نہ کر سکتا ہو۔ اس صورت میں امام(ع) بعض مشخص افراد میں سے پہلے شخص کو خود اپنا نمائنده مقرر فرماتا ہے پھر آگے چل کر نئے نائب کو پرانا نائب اپنی زندگی میں ہی مقرر کر کے چلا جاتا ہے۔[1]

نواب اربعہ اور ان کی مدت نیابت[ترمیم]

امام زمانہ کے نائبین خاص کی فعالیت غیبت صغری کے دور یعنی سنہ 260 سے 329 ہجری قمری (تقریباً 70 سال) تک جاری رہی۔ اس عرصے میں شیعہ علما میں سے چار اشخاص کہ ان میں سے بعض دسویں اور گیارہویں امام کے اصحاب اور شناختہ شدہ افراد میں سے تھے۔ جنھوں نے امام زمانہ(ع) کی نیابت اور امام زمانہ اور شیعوں کے درمیان رابطے کے فرائض انجام دئے۔ ان کے علاوہ تقریبا تمام اسلامی شہروں میں ان کے وکلا موجود تھے۔[2]

  • عثمان بن سعید عمری (متوفی 267ه.ق) امام زمانہ کے پہلے نائب خاص ہیں۔ احادیث میں آیا ہے کہ امام حسن عسکری(ع) نے اپنے فرزند ارجمند یعنی امام مہدی(ع) کو اپنے اصحاب میں سے چالیس افراد کو دکھاتے ہوئے فرمایا امام زمانہ(ع) کی غیبت امام زمانہ کے دوران عثمان بن سعید کی اطاعت کریں۔[3] اسی طرح امام حسن عسکری(ع) نے اہل قم کے ساتھ ملاقات میں عثمان بن سعید کی نیابت کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے انھیں ان کی طرف ارجاع دیا۔[4] عثمان بن سعید اپنی زندگی کے آخری لمحات تک یعنی (تقریبا 6 سال) امام زمانہ(ع) کے نائب خاص کے عہدے پر فائز رہے۔
  • محمد بن عثمان بن سعید عَمری (متوفی 305ہ.ق)، جو پہلے نائب خاص کے بیٹے تھے، امام زمانہ(ع) کے دوسرے نائب خاص ہیں۔ جب پہلے نائب خاص وفات پا گئے تو امام زمانہ(ع) نے ایک توقیع کے ذریعے ان کے بیٹے محمد بن عثمان کو تسلیت و تعزیت کے ساتھ اپنے والد کا جانشین اور اپنا نائب خاص مقرر فرمایا۔[5] اس سے پہلے بھی امام حسن عسکری(ع) نے محمد بن عثمان کو امام زمانہ(ع) کے نائب خاص کے عنوان سے معرفی کر چکے تھے۔[6] محمد بن عثمان عمری تقریبا چالیس سال تک امام زمانہ(ع) کے نائب خاص کے عہدے پر فائز رہے ہیں۔[7]
  • حسین بن روح نوبختی (متوفی 326ہ.ق)، امام زمانہ(ع) کے تیسرے نائب خاص تھے۔ آپ محمد بن عثمان کے قریبی ساتھیوں اور بغداد میں ان کے وکیل تھے۔ محمد بن عثمان نے اپنی عمر کے آخری ایام میں امام زمانہ(ع) کے حکم سے آپ کو امام(ع) کا نائب خاص مقرر کیا۔[8] انھیں شروع میں عباسی حکومت میں مقام و مرتبہ حاصل تھا لیکن بعد میں ان کے تعلقات خراب ہو گئے یوں کچھ مدت انھیں مخفیانہ طور پر زندگی گزارنا پڑا یہاں تک کہ پاس سال کا عرصہ انھیں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑا۔ [9] آپ نے تقریبا 21 سال تک نیابت خاصہ کے فرائض انجام دئے۔
علی بن محمد سمری کے امام زمانہ(ع) کی توقیع
"خداوندعالم تیری وفات پر تمھارے بھائیوں کو اجر عظیم عطا فرمائے۔ تم چھ دن کے اندر اندر اس دنیا سے رخصت ہو جاؤگے۔ پس اپنے کاموں کو سمیٹ لو اور کسی کو بھی اپنا جانشین مقرر مت کرو کیونکہ اس کے بعد غیبت کبری کا آغاز ہوگا اور ایک طویل عرصے تک جب تک خداوندعالم اجازت نہ دے ظہور نہیں کروں گا یہاں تک کہ لوگوں کے دل قساوت سے اور دنیا بے انصافی سے بھر جائیں گے اور یاد رکھو سفیانی کے قیام اور صیحہ آسمانی سے پہلے جو بھی مجھ سے ملاقات کا دعوا کرے وہ جھوٹا ہے۔"

  • علی بن محمد سَمُری (متوفی 329ہ.ق) امام زمانہ(ع) کے چوتھے نائب خاص ہیں جنھوں نے سنہ326 سے 329ق تک نیابت خاصہ کا عہدہ سنبھالا۔ سمری کی نیابت کا دور حکومت وقت کی کڑی نگرانی اور سخت دباؤ کا شکار رہا جس نے انھیں اس وکالتی نظام میں وسیع سرگرمیوں سے باز رکھا۔[10] علی بن محمد سمری کے نام امام زمانہ(ع) کی توقیع، جس میں آپ نے ان کی موت کی خبر دینے کے ساتھ ساتھ نیابت خاصہ کے دور کے اختتام اور غیبت کبری کے آغاز کی خبر دی جو امام زمانہ(ع) کے آخری نائب خاص کی زندگی کے اہم واقعات میں سے ہیں۔[11]

اقدامات اور فعالیتیں[ترمیم]

تمام نواب اربعہ کے سارے اقدامات اور فعالیتیں امام زمانہ(ع) کے حکم سے انجام پاتے تھے۔[12] ان فعالیتوں کو چند گروہ میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

فعالیتوں کو مخفیانہ طور پر انجام دینا[ترمیم]

مام حسن عسکری(ع) کی شہادت اور بارہویں امام(ع) کی غیبت کے دوران صرف نواب اربعہ شیعوں کے مسائل کو حل و فصل کرتے تھے۔ عباسی حکومت کی کڑی نگرانی کے باعث مخفیانہ فعالیتوں کی انجام دہی اور تقیہ کرنا بطور خاص دوسرے، تنسرے اور چوتھے نائب خاص کے زمانے میں اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی۔[13][14] یہاں تک کہ حسین بن روح کچھ مدت کے لیے روپوش ہو گئے اور آخر کار پانچ سال تک قید و بن کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑا۔ تقیہ اور مخفیانہ طور پر فعالیتوں کی انجام دہی کا فائدہ یہ ہوا کہ شیعہ اثنا عشری بنی عباسی کے سخت ترین دور میں حتی ان کے دار الخلافہ میں بھی موجود رہ کر اپنی حفاظت اور باقاعدہ ایک اقلیت کے عنوان سے عباسی حکومت اور ان کے با اثر اور افراطی سنی درباریوں سامنے اپنا اظہار وجود کرنے میں کامیاب ہو گئے۔[15]

حکومت وقت کے ساتھ تعلقات[ترمیم]

اس دور میں بعض شیعہ شخصیات، بطور خاص امام زمانہ(ع) کے نائبین خاص جن حکمت عملیوں پر عمل پیرا ہوتے تھے اور جسے امام معصوم کی جمایت اور تائید بھی حاصل تھی، وہ حکومت وقت کے دربار تک رسائی اور اگر ممکن ہوا تو کسی خاص عہدے اور وزارت تک پہنچنا تھا۔[16] حسین بن روح نوبختی اپنی نیابت کے ابتدائی دور میں بنی عباسی کے مقتدر حکمران کے دربار تک رسائی رکھتا تھا۔ خاندان نوبختی اور خاندان ابن فرات جو شیعوں کے حامی تھے، عباسی حکومت کے مختلف عہدوں پر فائز ہونے کی وجہ سے ان کے دربار میں نہایت اثر و رسوخ کے حامل تھے۔[17] [18]

غالیوں سے مقابلہ[ترمیم]

ائمہ معصومین کے حوالے سے غُلوّ کا مسئلہ نواب اربعہ کے دور کے اہم مسائل میں سے ایک تھا یہاں تک کہ ائمہ معصومین(ع) کے بعض اولاد جیسے امام ہادی کے بیٹے جعفر جو بعد میں جعفر کذاب کے نام سے مشہور ہوا، اسی طرح بعض شیعہ شخصیات بھی غالیوں کے ساتھ تھے اور ان کی حمایت کرتے تھے۔[19] غیبت صغری کے دوران نواب اربعہ کے وظائف میں سے ایک ان چھوٹے دعویداروں کو رسوا کرنا اور امام زمانہ(ع) کی طرف سے ان کے بارے میں لعن و تبری کو لوگوں تک پہنچانا تھا۔[20] نمونے کے طور پر ایک دو مورد کا ذکر کرتے ہیں: محمد بن نصیر جو فرقہ نُصَیریہ کے مؤسس ہیں، غالی تھا اور ائمہ اثنا عشریہ کی ربوبیت کا اعتقاد رکھتا تھا اور محارم کے ساتھ نکاح کے جواز کو معاشرے میں رائج کرنا چاہتا تھا۔ محمد بن عثمان نے ان پر لعن اور نفرین کی اور ان سے بیزاری اختیار کی۔[21]

شلمغانی امام زمانہ(ع) کے تیسرے نائب خاص حسین بن روح کے دور میں امام(ع) کے وکلا میں سے تھا لیکن اپنی جاہ طلبی اور دوسری وجوہات کی بنا پر اپنے مقام اور منصب سے سوء استفادہ کرتے ہوئے غلوّ کے منزل تک پہنچ گیا۔ حسین بن روح نے ان کو اپنے سے دور کیا امام زمانہ نے بھی ایک توقیع کے ذریعے ان پر لعن فرمایا۔[22]

امام مہدی(ع) کے حوالے سے پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کا ازالہ[ترمیم]

شیخ طوسی کے مطابق ابن ابی غانم قزوینی اور بعض شیعہ حضرات کے درمیان امام حسن عسکری کے صاحب فرزند ہونے اور نہ ہونے پر بحث چھڑ گئی اس بنا پر شیعوں کی طرف سے امام مہدی کے نام ایک تحریر ارسال کی گئی اور ان سے یہ اس اختلاف کے حل و فصل کی درخواست کی گئی تھی۔ امام مہدی(ع) نے ان کے اس خط کے جواب میں اس بات کی تاکید فرمائی کہ خداوندعالم نے گیارہویں امام کے بعد اپنے پسندیدہ دین کو ختم نہیں فرمایا اور اپنے اور اپنی مخلوقات کے درمیان رابطے کو ختم نہیں فرمایا ہے اور قیامت ایسا نہیں کیا جائے گا۔[23]

امام مہدی(ع) کی ایک اور توقیع کے بارے میں روایات ملتی ہیں۔ یہ توقیع اس وقت صادر ہوئی جب جعفر کذاب نے امام حسن عسکری کے جانشین ہونے کا دعوی کیا۔ امام(ع) نے اس توقیع میں ائمہ معصومین(ع) کی امامت اور عصمت کو ثابت کرتے ہوئے جعفر کے حلال و حرام سے عدم آشنائی اور حق و باطل میں تشخیص نہ دے سکنے کی طرف اشارہ فرمایا اور یہ سوال مطرح فرمایا کہ آیا ایک ایسا شخص جو خود حلاف و حرام اور حق و باطل کی تشخیص نہیں دے سکتا لوگوں کا امام ہونے کا دعویدار ہے۔؟[24]

محمد بن ابراہیم بن مہزیار جن کا والد خود امام حسن عسکری(ع) کے وکلا میں سے تھا کو بھی بارہویں امام کے بارے میں بعض شکوک و شبہات تھی جو امام زمانہ(عج) کی طرف سے بعض توقیعات کے دریافت ہونے کے بعد برطرف ہوا۔[25] اسی طرح امام مہدی(ع) کی ایک اور توقیع کے بارے میں احادیث میں نقل ہوئی ہے جس میں امام(ع) شکاکوں کے مقابلے میں اپنے وجود کو ثابت کرتے ہوئے بعض فقہی مسائل کا جواب دیتے ہیں۔[26]

وکلا کو منظم کرنا[ترمیم]

دور دراز مناطق میں شیعوں کے ساتھ رابطہ اور ان کے امور کو بطور احسن انجام دینے کی خاطر وکلا کو معین کرنا تقریبا امام کاظم(ع) کے زمانے سے ایک معمول بن گیا تھا۔ امام زمانہ(ع) کی غیبت کے بعد ان وکلا کا براہ راست رابطہ آپ(ع) سے منقطع ہو گیا اور امام مہدی(ع) کا اپنے چاہنے والوں کے ساتھ رابطے کا واحد ذریعہ نواب اربعہ تھے جنہیں خود امام تعیین فرماتے تھے۔ وكلاء مختلف مناطق میں لوگوں سے جمع شدہ وجوہات شرعی کسی نہ کسی طرح بغداد میں امام زمانہ(ع) کے نائب خاص تک پہنچاتے تھے اور وہ ان اموال کو امام(ع) کے حکم کے مطابق مختلف امور میں صرف کرتے تھے۔

اہواز، سامرا، مصر، حجاز، یمن اور ایران کے مختلف شہروں جیسے خراسان، ری اور قم وغیرہ میں ایسے وکلا کے موجود ہونے کی خبر کم و بیش احادیث کی کتابوں میں موجود ہے۔[27]

امام مہدی(ع) کو مخفی رکھنا[ترمیم]

امام زمانہ(ع) اور آپ کی نشانیوں کو مخفی رکھنا نواب اربعہ کے وظائف میں سے ایک تھا۔ و مشخصات وی، یکی از وظایف اساسی نایبان خاص بودہ است. تاریخ و حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام زمانہ(عج) عراق، مکہ اور مدینہ میں رہتے تھے اور نائبین خاص کسی وقت آپ(عج) سے ملاقات کرسکتے تھے۔[28] حسین بن روح نوبختی کی نیابت خاصہ کے دور میں ان کے مقام و منزلت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ابو سہل اسمعیل بن علی نوبختی کہتے ہیں: اگر محھے امام زمانہ کے بارے میں اتنا علم ہوتا جتنا حسین بن روح کو ہے تو شاید دشمن کے ساتھ مناظرے کے دوران ضرورت پڑنے پر میں دشمن کے لیے امام کا پتہ بتا دیتا حالنکہ حسین بن روح اگر امام کو اپنے دامن کے نیچے چھپا رکھا ہو اور امام کی تلاش میں ان کے بدن کو قیچی سے کاٹ کر ٹکڑوں میں تبدیل کر دیا جائے تو بھی وہ امام کے بارے میں کسی کو نہیں بتائے گا۔[29] نوّاب خاص اگرچہ امام زمانہ(ع) کے وجود کو ثابت کرنے کے درپے ہوتے تھے لیکن اس کے باوجود شیعوں سے درخواست کرتے تھے کہ وہ امام(ع) کی نشانی جاننے کی کوشش نہ کریں اور یہ کام امام(ع) کی حفاظت کی خاطر تھا۔[30]

فقہی اور اعتقادی سوالوں کا جواب[ترمیم]

نواب اربعہ شیعوں کو درپیش مسائل شرعیہ کو امام مہدی(ع) کی خدمت میں بیان کرتے تھے اور امام(ع) کی طرف سے دئے گئے جوابات کو لوگوں تک پہنچاتے تھے۔ یہ کام صرف فقہی مسائل تک محدود نہیں تھا بلکہ نائبین خاص لوگوں کی علمی اور اعتقادی مسائل نیز عوام الناس کی رہنمائی کے لیے مختلف علمی مباحث اور مناظرات میں بھی شرکت کرتے تھے۔[31] اسحاق بن یعقوب[32] اور محمد بن جعفر اسدی[33] کے نام لکھے گئے توقیعات جو اہم شرعی مسائل پر مشتمل ہیں نیز حسین بن روح کا علمی اور اعتقادی مناظروں میں شرکت کرنا ان موارد میں نواب اربعہ کی فعالیتوں کی نشان دہی کرتا ہے۔[34]

نُواب اربعہ کے زیارت نامے[ترمیم]

سید بن طاووس نے کتاب مصباح الزائر میں ایک زیارتنامہ نقل کیا ہے جو امام زمانہ(ع) کے چاروں نائبین خاص کے لیے پڑھ سکتے ہیں۔ آپ اس زیارتنامے کے متن کو حسین بن روح نوبختی کے والد سے منسوب کرتے ہیں۔[35] اس زیارت نامے کا متن یہ ہے: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا فُلَانَ بْنَ فُلَانٍ (نواب اربعہ میں سے کسی ایک کا نام) أَشْهَدُ أَنَّكَ بَابُ الْوَلِيِّ أَدَّيْتَ عَنْهُ وَ أَدَّيْتَ إِلَيْهِ مَا خَالَفْتَهُ وَ لَا خَالَفْتَ عَلَيْهِ...(بقیہ متن کو حاشیے میں ملاحضہ فرمائیں)[36]

علامہ مجلسی نے بحارالانوار میں عثمان بن سعید کے لیے ایک زیارت نامہ نقل کرتے ہوئے تصریح کرتے ہیں کہ انھوں نے اس زیارت نامے کو ایک شیعہ عالم دین کے کسی پرانے نسخے میں پایا ہے۔[37] اس زیارت نامے کا متن کچھ یوں ہے: "السَّلَامُ عَلَیک أَیهَا الْعَبْدُ الصَّالِحُ النَّاصِحُ لِلَّهِ وَ لِرَسُولِهِ وَ لِأَوْلِیائِهِ الْمُجِدُّ فِی خِدْمَةِ مُلُوک الْخَلَائِقِ أُمَنَاءِ اللَّهِ وَ أَصْفِیائِهِ... (زیارت کا بقیہ حصہ حاشیے میں ملاحضہ فرمائیں) [38]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. احمدی، نواب اربعہ و شخصیت اجتماعی آنان، 1390ش.
  2. احمدی، نواب اربعہ و شخصیت اجتماعی آنان، 1390ش.
  3. طوسی، الغیبہ، ص232- 231، صدوق، کمال الدین، ص435.
  4. صدوق، کمال الدین، 1395ق، ج2، ص476.
  5. صدوق، کمال الدین، 1395ق، ج2، ص510.
  6. طوسی، الغیبہ، 1411ق، ص356.
  7. صدر، تاریخ الغیبۃ، 1412ق، ج1، ص404.
  8. طوسی، الغیبہ، 1411ق، ص371.
  9. جعفریان، حیات فکری و سیاسی ائمہ، 1381ش، ص583.
  10. جباری، سازمان وکالت، 1382ش، ج2، ص480.
  11. صدوق، کمال الدین، 1395ق، ج2، ص516.
  12. غفارزادہ، پژوہشی پیرامون زندگانی نواب خاص امام زمان، ص85.
  13. طوسی، الغیبہ، 1411ق، ص112.
  14. غفارزادہ، زندگانی نواب خاص امام زمان، 1375ش، ص304.
  15. جباری، سازمان وکالت و نقش آن در عصر ائمہ، ج1، ص66.
  16. طوسی، الغیبہ، 1411ق، ص109.
  17. جاسم حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدہم، 1385ش، ص198.
  18. جعفریان، حیات فکری و سیاسی ائمہ، 1381ش، ص583.
  19. جعفریان، حیات فکری و سیاسی ائمہ، 1381ش، ص585.
  20. جبارى، سازمان وكالت، 1382ش، ج2، ص688
  21. طوسی، الغیبہ، 1411ق، ص398.
  22. طوسی، الغیبۃ، 1411ق، ص187، 252و253.
  23. طوسی، الغیبہ، 1411ق، ص285و286.
  24. طوسی، الغیبہ، 1411ق، ص287-289.
  25. کلینی، کافی، 1362ش، ج1، ص518.
  26. کلینی، کافی، 1362ش، ج1، ص176.
  27. جعفریان، حیات فکری و سیاسی ائمہ، 1381ش، ص588.
  28. جاسم حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدہم، 1385ش، ص166.
  29. طوسی، الغیبہ، 1411ق، ص391.
  30. جعفریان، حیات فکری و سیاسی ائمہ، 1381ش، ص588.
  31. غفارزادہ، زندگانی نواب خاص امام زمان، 1379ش، ص86و87.
  32. طوسی، الغیبہ، 1411ق، ص290.
  33. صدوق، کمال الدین، 1395ق، ج2، ص520.
  34. طوسی، الغیبۃ، 1411ق، ص324، 373، 378، 388، 390؛ صدوق، کمال الدین، 1395ق، 1403ق، ج2، ص519؛ مجلسی، بحار الانوار، 1403، ج53، ص192.
  35. ابن طاووس، مصباح الزائر، 1416ق، ص514.
  36. السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا فُلَانَ بْنَ فُلَانٍ (نام یکی از نواب را بگوید) أَشْهَدُ أَنَّكَ بَابُ الْوَلِيِّ أَدَّيْتَ عَنْهُ وَ أَدَّيْتَ إِلَيْهِ مَا خَالَفْتَهُ وَ لَا خَالَفْتَ عَلَيْهِ قُمْتَ خَاصّاً وَ انْصَرَفْتَ سَابِقاً جِئْتُكَ عَارِفاً بِالْحَقِّ الَّذِي أَنْتَ عَلَيْهِ وَ أَنَّكَ مَا خُنْتَ فِي التَّأْدِيَةِ وَ السِّفَارَةِ السَّلَامُ عَلَيْكَ مِنْ بَابٍ مَا أَوْسَعَكَ وَ مِنْ سَفِيرٍ مَا آمَنَكَ وَ مِنْ ثِقَةٍ مَا أَمْكَنَكَ أَشْهَدُ أَنَّ اللَّهَ اخْتَصَّكَ بِنُورِهِ حَتَّى عَايَنْتَ الشَّخْصَ فَأَدَّيْتَ عَنْهُ وَ أَدَّيْتَ إِلَيْهِ ثُمَّ تَرْجِعُ فَتَبْتَدِئُ بِالسَّلَامِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ص إِلَى صَاحِبِ الزَّمَانِ وَ تَقُولُ بَعْدَ ذَلِكَ جِئْتُكَ مُخْلِصاً بِتَوْحِيدِ اللَّهِ وَ مُوَالاةِ أَوْلِيَائِهِ وَ الْبَرَاءَةِ مِنْ أَعْدَائِهِمْ وَ مِنَ الَّذِينَ خَالَفُوكَ يَا حُجَّةَ الْمَوْلَى وَ بِكَ اللَّهُمَّ تَوَجُّهِي وَ بِهِمْ إِلَيْكَ تَوَسُّلِي ثُمَّ تَدْعُو وَ تَسْأَلُ اللَّهَ مَا تُحِبُّ تَجِبُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى .
  37. مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج99، ص293.
  38. السَّلَامُ عَلَیک أَیهَا الْعَبْدُ الصَّالِحُ النَّاصِحُ لِلَّهِ وَ لِرَسُولِهِ وَ لِأَوْلِیائِهِ الْمُجِدُّ فِی خِدْمَةِ مُلُوک الْخَلَائِقِ أُمَنَاءِ اللَّهِ وَ أَصْفِیائِهِ السَّلَامُ عَلَیک أَیهَا الْبَابُ الْأَعْظَمُ وَ الصِّرَاطُ الْأَقْوَمُ وَ الْوَلِی الْأَکرَمُ السَّلَامُ عَلَیک أَیهَا الْمُتَوَّجُ بِالْأَنْوَارِ الْإِمَامِیةِ الْمُتَسَرْبِلُ بِالْجَلَابِیبِ الْمَهْدِیةِ الْمَخْصُوصُ بِالْأَسْرَارِ الْأَحْمَدِیةِ وَ الشُّهُبِ الْعَلَوِیةِ وَ الْمَوَالِیدِ الْفَاطِمِیةِ السَّلَامُ عَلَیک یا قُرَّةَ الْعُیونِ وَ السِّرَّ الْمَکنُونَ السَّلَامُ عَلَیک یا فَرَجَ الْقُلُوبِ وَ نِهَایةَ الْمَطْلُوبِ السَّلَامُ عَلَیک یا شَمْسَ الْمُؤْمِنِینَ وَ رُکنَ الْأَشْیاعِ الْمُنْقَطِعِینَ السَّلَامُ عَلَی وَلِی الْأَیتَامِ وَ عَمِیدِ الْجَحَاجِحَةِ الْکرَامِ السَّلَامُ عَلَی الْوَسِیلَةِ إِلَی سِرِّ اللَّهِ فِی الْخَلَائِقِ وَ خَلِیفَةِ وَلِی اللَّهِ الْفَاتِقِ الرَّاتِقِ السَّلَامُ عَلَیک یا نَائِبَ قُوَّامِ الْإِسْلَامِ وَ بَهَاءِ الْأَیامِ وَ حُجَّةَ اللَّهِ الْمَلِک الْعَلَّامِ عَلَی الْخَاصِّ وَ الْعَامِّ الْفَارُوقَ بَینَ الْحَلَالِ وَ الْحَرَامِ وَ النُّورَ الزَّاهِرَ وَ الْمَجْدَ الْبَاهِرَ فِی کلِّ مَوْقِفٍ وَ مَقَامٍ السَّلَامُ عَلَیک یا وَلِی بَقِیةِ الْأَنْبِیاءِ وَ خِیرَةَ إِلَهِ السَّمَاءِ الْمُخْتَصَّ بِأَعْلَی مَرَاتِبِ الْمَلِک الْعَظِیمِ الْمُنْجِی مِنْ مَتَالِفِ الْعَطَبِ الْعَمِیمِ ذی [ذَا اللِّوَاءِ الْمَنْصُورِ وَ الْعَلَمِ الْمَنْشُورِ وَ الْعِلْمِ الْمَسْتُورِ الْمَحَجَّةَ الْعُظْمَی وَ الْحُجَّةَ الْکبْرَی سُلَالَةَ الْمُقَدَّسِینَ وَ ذُرِّیةَ الْمُرْسَلِینَ وَ ابْنَ خَاتِمِ النَّبِیینَ وَ بَهْجَةَ الْعَابِدِینَ وَ رُکنَ الْمُوَحِّدِینَ وَ وَارِثَ الْخِیرَةِ الطَّاهِرِینَ صَلَّی اللَّهُ عَلَیهِمْ صَلَاةً لَا تَنْفَدُ وَ إِنْ نَفِدَ الدَّهْرُ وَ لَا تَحُولُ وَ إِنْ حَالَ الزَّمَنُ وَ الْعَصْرُ اللَّهُمَّ إِنِّی أُقَدِّمُ بَینَ یدَی سُؤَالِی الِاعْتِرَافَ لَک بِالْوَحْدَانِیةِ وَ لِمُحَمَّدٍ بِالنُّبُوَّةِ وَ لِعَلِی بِالْإِمَامَةِ وَ لِذُرِّیتِهِمَا بِالْعِصْمَةِ وَ فَرْضِ الطَّاعَةِ وَ بِهَذَا الْوَلِی الرَّشِیدِ وَ الْمَوْلَی السَّدِیدِ أَبِی مُحَمَّدٍ عُثْمَانَ بْنِ سَعِیدٍ أَتَوَسَّلُ إِلَی اللَّهِ بِالشَّفَاعَةِ إِلَیهِ لِیشْفَعَ إِلَی شُفَعَائِهِ وَ أَهْلِ مَوَدَّتِهِ وَ خُلَصَائِهِ أَنْ یسْتَنْقِذُونِی مِنْ مَکارِهِ الدُّنْیا وَ الْآخِرَةِ اللَّهُمَّ إِنِّی أَتَوَسَّلُ إِلَیک بِعَبْدِک عُثْمَانَ بْنِ سَعِیدٍ وَ أُقَدِّمُهُ بَینَ یدَی حَوَائِجِی أَنْ تُصَلِّی عَلَی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ شِیعَتِهِ وَ أَوْلِیائِهِ وَ أَنْ تَغْفِرَ لِی الْحُوبَ وَ الْخَطَایا وَ تَسْتُرَ عَلَی الزَّلَلَ وَ السَّیئَاتِ وَ تَرْزُقَنِی السَّلَامَةَ مِنَ الرَّزَایا فَکنْ لِی یا وَلِی اللَّهِ شَافِعاً نَافِعاً وَ رُکناً مَنِیعاً دَافِعاً فَقَدْ أَلْقَیتُ إِلَیک بِالْآمَالِ وَ وَثِقْتُ مِنْک بِتَخْفِیفِ الْأَثْقَالِ وَ قَرَعْتُ بِک یا سَیدِی بَابَ الْحَاجَةِ وَ رَجَوْتُ مِنْک جَمِیلَ سِفَارَتِک وَ حُصُولَ الْفَلَاحِ بِمَقَامِ غِیاثٍ أَعْتَمِدُ عَلَیهِ وَ أَقْصِدُ إِلَیهِ وَ أَطْرَحُ نَفْسِی بَینَ یدَیهِ وَ السَّلَامُ عَلَیک وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَکاتُهُ ثُمَّ صَلِّ صَلَاةَ الزِّیارَةِ وَ أَهْدِهَا لَهُ وَ لِشُرَکائِهِ فِی النِّیابَةِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیهِمْ أَجْمَعِینَ ثُمَّ وَدِّعْهُ مُسْتَقْبِلًا لَهُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَی.


قال بعض علما الحديث مثل أبو القاسم محبوب الله الجسري ، والدكتور أبو حيان عادل سعيد أن كل رواية عن مهدي, الفتن, کساء , الحديث مثل المتعة واللحوم والحبر والحديث والورق وكلها مزيفة ومزخرفة ، وقال إن البخاري والمسلم أخذوا آلاف المزيفة. ، أحاديث مفبركة في مجموعاتهم.

مآخذ[ترمیم]

  • ابن طاووس، علی بن موسی، مصباح الزائر، قم، آل البیت، 1375ش.
  • احمدی، محمد حسین، نواب اربعہ و شخصیت اجتماعی آنان، سیمای تاریخ، تابستان 1390 - شمارہ 4.
  • جباری، محمدرضا؛ سازمان وکالت و نقش آن در عصر ائمۃ علیہم السلام، قم، مؤسسہ آموزش پژوہشی امام خمینی، 1382ش.
  • جعفریان، رسول، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، قم، انصاریان، 1381ش.
  • حسین، جاسم، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدہم (عج)، مترجم سید محمد تقی آیت اللہی، تہران امیرکبیر، 1385ش.
  • صدر، سید محمد؛ تاریخ الغیبہ، بیروت، دار التعارف، 1412ق.
  • صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمۃ، تہران، اسلامیہ، 1395ق.
  • طوسی؛ محمد بن حسن، الغیبہ، قم، دار المعارف الإسلامیۃ، 1411ق.
  • غفارزادہ، علی، زندگانی نواب خاص امام زمان، قم، انتشارات نبوغ، 1379ش.
  • کلینی؛ محمد بن یعقوب، اصول کافی، تحقیق علی اکبر غفاری، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1388ق.
  • مجلسی؛ محمدباقر، بحار الأنوار الجامعۃ لدرر أخبار الأئمۃ الأطہار، تہران، اسلامیۃ، 1363ش.