گوانتانمو قید خانہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
کیمپ ایکس رے میں آمد پر قیدی

ایک امریکی تھانہ ہے جو کیوبا کے مشرقی ساحل پر واقع امریکا کے زیر انتظام علاقے میں موجود ہے۔ یہاں پر 2001ء میں امریکا کی طرف سے افغانستان پر کیے جانے والے حملہ کے بعد بہت سے مسلمانوں کو بند رکھا گیا ہے۔

کیوبا کی سرزمین صوبہ گوانتانمو کی خلیج گوانتانمو میں واقعہ امریکی بحری اڈے پر واقعہ یہ قید خانہ دہشت پر جنگ کے آغاز میں قائم کیا گیا جہاں دنیا بھر سے مسلمانوں کو لا کر قید کیا گیا۔

یہاں مقید کئی عرب نژاد افراد کو 2001ء کے افغانستان پر امریکی حملہ کے دورانشمالی اتحاد نے اغوا کر کے امریکا کے حوالے کیا جن کو پہلے افغانستان میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پھر گوانتانامو میں قید کر دیا گیا۔[1] امریکی سرکار نے 2013ء میں بتایا کہ یہاں قید افراد میں سے 46 کو ہمیشہ کے لیے قید رکھا جاوے گا بغیر کسی الزام ثابت ہونے کے ۔[2]

ذرائع ابلاغ میں ایک لطیفہ شائع ہوا جو خبر کی شکل میں تھا ۔’گوانتانامو بے میں قیدیوں اور محافظوں میں جھڑپیں‘ کے عنوان سے بتایا گیا کہ ’امریکی جیل گوانتانامو بے میں بعض قیدیوں کو مشترکہ کمروں سے نکال کر دوسرے کمروں میں منتقل کرنے کے مسئلے پر قیدیوں اور محافظوں کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں‘ ابکہ معمولی عقل فہم رکھنے والا شخص بھی اسے بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ نائن الیون کے ذریعہ چھیڑی گئی اسلام مخالف جنگ میں کے شکار قیدی بھوک ہڑتال پر تھے جبکہ ’جھڑپ‘ کا تصور برابر کے مقابلہ میں ہوتا ہے ‘ قیدی اور مقید کرنے ولوں کے درمیان نہیں۔ امریکی فوج کے ایک ترجمان نے مزید شگوفہ چھوڑا کہیہ قدم اس وقت اٹھایا گیا تھا جب قیدیوں نے نگرانی کے کیمرے اور کھڑکیوں کو ڈھانپ دیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ بعض قیدیوں نے جیل میں ملنے والی چیزوں سے ہتھیار بنا رکھے تھے اور یہ کہ محافظوں کی طرف سے اس کے جواب میں ان پر 4 ’غیر مہلک‘ گولیاں چلائی گئیں۔ پینٹاگان کا کہنا تھا کہ 43 قیدی بھوک ہڑتال پر تھے تاہم قیدیوں کے وکیلوں کا کہنا ہے کہ ہڑتالی قیدیوں کی تعداد اس سے زیادہ ہے۔ فوجی حکام کے مطابق ایک درجن قیدیوں کو زبردستی کھانا کھلایا جا رہا ہے۔ امریکی فوج کے کیپٹن رابرٹ ڈیورنڈ نے کہا کہ ہفتہ کو ہونے والی جھڑپوں میں ’محافظوں یا قیدیوں کو سنگین چوٹیں نہیں آئیں۔‘ایک اور ترجمان کرنل گریگ جولین نے خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا، ’میں یہ بتا سکتا ہوں کہ ایک قیدی کو گولی لگی ہے لیکن اس کے زخم معمولی ہیں، صرف چند خراشیں۔‘قیدیوں کے بعض وکیلوں نے جیل کے حکام کے اقدامات کی مذمت کی ہے۔ ان میں سے ایک وکیل کارلوس وارنر نے اے پی کو بتایا، ’فوج جھگڑے کو ہوا دے رہی ہے۔‘اس جیل میں بھوک ہڑتال معمول کی بات ہے، لیکن یہ ہڑتال جو فروری میں شروع ہوئی تھی، سب سے لمبی ہے۔ تاہم گوانتانامو کے حکام نے اس بات کی تردید کی کہ ہڑتال بعض قیدیوں کے کمروں میں تلاشی کے دوران قرآن کی بے حرمتی کی وجہ سے شروع ہوئی تھی۔ قیدیوں کی نمائندگی کرنے والی انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس کی کشیدگی کی وجہ یہ ہے کہ امریکی فوج یہاں موجود قیدیوں کے مستقبل کا فیصلہ نہیں کر سکتی۔ اطلاعات کے مطابق تقریباً ایک سو قیدیوں کو آزاد کیے جانے کے لیے منظوری دی جا چکی ہے لیکن وہ کانگریس کی طرف سے عائد کی جانے والی پابندیوں اور ان کے اپنے ملکوں میں برے سلوک کے خدشے کے پیشِ نظر اب بھی وہاں قید ہیں۔ عراق میں امریکی فوج اپنے قبضے کے دوران کیا گل کھلاتی رہی تھی اور اس نے عراقیوں پر کیا کیا مظالم ڈھائے تھے،اس کی ہوشربا تفصیل ماضی میں منظرعام پر آتی رہی ہے لیکن امریکی فوج کے مظالم کی داستان اتنی طویل ہے کہ اس کی مختصر مگر نئی نَئی کہانیاں وقفے وقفے سے سامنے آ رہی ہیں۔ یہ کہانیاں بیان کرنے والے کوئی اور نہیں خود امریکی اور برطانوی فوجی ہیں۔ اب کہ عراق کے دار الحکومت بغداد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کی عمارت میں واقع امریکا کے زیر انتظام حراستی مرکز میں عراقی قیدیوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کی ہوشربا کہانی منظرعام پر آئی ہے۔ برطانوی فوج کے ٹو آر اے ایف اسکوارڈرن اور آرمی ائیرکور اسکوارڈرن سے تعلق رکھنے والے فوجی جنگِ عراق کے دوران اس کیمپ نما نامی حراستی مرکز میں محافظ اور ٹرانسپورٹ کی ذمے داریاں انجام دیتے رہے تھے۔ برطانوی اخبار گارجین نے منگل کوان میں سے ایک فوجی کے بیان کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی ہے اور اس نے کیمپ نما میں امریکی فوجیوں کے ہاتھوں انسانی حقوق کی سنگین پامالی کی تفصیل بیان کی ہے۔ اس برطانوی فوجی نے اخبار کو بتایا کہ اس نے ایک شخص کو دیکھا جس کو ٹانگ سے پکڑ کر کھینچا گیا اور پھر اس کو سر میں مارتے ہوئے لے جا کر ایک ٹرک میں بے دردی سے پھینک دیا گیا۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکا اور برطانیہ کے ایک مشترکہ خصوصی فورسز یونٹ کو عراق کے سابق صدر صدام حسین کے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے بارے میں جانکاری رکھنے والے افراد کا سراغ لگانے اوران کی گرفتاری کی ذمے داری سونپی گئی تھی۔ اس یونٹ کا کوڈ نام ٹاسک فورس 121 تھا۔ جب اس یونٹ کو وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے بارے میں کوئی معلومات نہ مل سکیں تو اس کو تب روپوش صدام حسین اور ان کے وفاداروں کا اتا پتا معلوم کرنے اور ان کے بارے میں معلومات رکھنے والے افراد کو پکڑنے کی ڈیوٹی دی گئی۔ اس کے بعد اس یونٹ کو عراق میں القاعدہ کے جنگجووں کو پکڑنے کا بھی ٹاسک دیا گیا تھا۔

برطانوی اخبار نے لکھا ہے کہ گذشتہ ماہ عراق جنگ کی دسویں برسی کے موقع پر مذکورہ ٹاسک فورس سے تعلق رکھنے والے متعدد سابق فوجیوں نے کیمپ نما میں عراقی قیدیوں پر بہیمانہ تشدد اور ان کے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے قصے بیان کیے ہیں۔ کیمپ نما میں عراقی قیدیوں سے تفتیش کے دوران ظالمانہ طریقے آزمائے جاتے تھے۔ انھیں وہاں بجلی کے جھٹکے دئے جاتے،ان کے سر کوکپڑے سے ڈھانپ دیا جاتا اور اس حالت میں انھیں کئی کئی گھنٹے تک تنگ کوٹھڑیوں میں رکھا جاتا تھا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’عراقی قیدیوں پر تشدد کے اس قدر ظالمانہ حربے آزمائے جاتے تھے کہ اس پر پینٹاگان کو رپورٹ کرنے والا ایک خصوصی تفتیش کار بھی چیخ اٹھا تھا اور امریکا کے انسانی حقوق کے ایک ادارے نے بھی ان مظالم کی شدید مذمت کی تھی۔‘اس وقت سابق برطانوی وزیر دفاع جیف ہون کا بالاصرار کہنا تھا کہ انھوں نے اس خفیہ جیل کے بارے میں کبھی کچھ نہیں سنا تھا جبکہ برطانوی وزارت دفاع بھی کیمپ نما میں برطانوی فوج کی کارروائیوں کی منظوری سے متعلق سوالوں کے جواب دینے میں ناکام رہی تھی۔

مارچ میں سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلئیر نے عراق جنگ میں اپنے ملک اور حکومت کے کردار کا دفاع کیا تھا۔ انھوں نے بی بی سی کے پروگرام نیوزنائٹ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ’ذرا تصور کریں،اگر ہم نے صدام حسین کو اقتدار سے نہ ہٹایا ہوتا اور جس طرح یہ عرب انقلابات رونما ہو رہے ہیں تو صدام حسین کیا کر رہے ہوتے۔ وہ شامی صدر بشارالاسد سے 20گنا زیادہ برے ثابت ہوتے۔ وہ عراق میں لوگوں کی بغاوت کو جبروتشدد کے ذریعہ دبا رہے ہوتے۔ ذرا سوچیں اگر اس رجیم کو بر سر اقتدار ہی رہنے دیا جاتا تو اس کے کیا مضمرات ہو سکتے تھے۔ ان کے ہم نوا سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش بھی اسی طرح مفروضوں پر مبنی بھاشن دیتے رہے ہیں۔ انھوں نے اور ٹونی بلئیر نے دنیا کو عراق کے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا ڈراوا دے کر عراق پر جنگ مسلط کی تھی لیکن صدام حسین کی حکومت اور جنگ کے خاتمے اور کئی برس بعد غیر ملکی فوجوں کے انخلاکے بعد بھی عراق سے یہ ہتھیار نہیں ملے تھے۔ جنگ کے دوران امریکا اور برطانیہ کے جنگی طیاروں کی وحشیانہ بمباری سے عراق کے ہنستے کھیلتے شہر تباہ و برباد ہو گئے۔ برطانیہ میں قائم ایک غیر سرکاری تنظیم’عراق باڈی کاونٹ‘کے فراہم کردہ اعداد وشمار کے مطابق اس جنگ میں ایک لاکھ62 ہزار عراقی شہریوں نے جانیں گنوائیں جبکہ ان میں80 فی صد عام شہری تھے۔‘یہ ہلاکتیں دسمبر 2011 میں عراق سے امریکی فوج کے مکمل انخلا تک ہوئی تھیں لیکن اس جنگ کے دوران امریکی فوج نے جو ممنوعہ ہتھیار استعمال کیے تھے،ان کے نتیجے میں عراقیوں کی ہلاکتوں اور ان کے ہاں معذور بچوں کی پیدائش کا سلسلہ کئی دہائیوں تک جاری رہے گا۔

گوانتاناموبے اور ابو غریب کے عقوبت خانوں میں مسلمان قیدیوں سے جو بہیمانہ سلوک کیا گیا وہ غیر متوقع نہیں تھا، امریکا جس کی تاریخ خون چکاں واقعات سے بھری ہوئی ہے اور جس نے کبھی انسانیت کی دہلیز پر قدم ہی نہیں رکھا، اس سے کسی انسانی سلوک کی توقع رکھنا امریکا کی تاریخ سے عدم واقفیت کی بنا پر ہی ممکن ہے، البتہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عقوبات خانوں میں روا رکھے جانے والے غیر انسانی سلوک کی بعض خبروں کا منظر عام پر آنا امریکا کی مرضی کے بغیر ہو گیا ہو۔ گوانتاناموبے کے عقوبت خانوں کی تصویریں ہوں یا قرآن مجید کی بے حرمتی کے واقعات، ان کا ابلاغ عامہ میں ایک موضوع بن جانا، امریکا کی پالیسی کا ایک حصہ ہے، اسی طرح گذشتہ دنوں صدام حسین کی اہانت آمیز تصویر کا شائع ہونا جس میں اسے اندرونی لباس پہنے بے بسی کی حالت میں دکھلایا گیا ہے، اس سے بھی امریکا کی ایک خاص غرض کو پورا کرنا مقصود ہے۔ واضح رہے کہ امریکی ملٹری کا کہنا ہے کہ قریب دو ماہ قبل شروع کی جانے والی اس بھوک ہڑتال میں43 قیدی شریک ہیں جبکہ قیدیوں کے وکلااس تعداد کو ایک سو کے قریب بیان کرتے ہیں۔ وائٹ ہاوس کے ترجمان جے کارنی نے بھوک ہڑتال کے معاملے پر کوئی بیان دینے سے انکار کر دیا۔ تاہم واشنگٹن میں رپورٹروں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اوباما انتظامیہ قومی سلامتی کے مفاد میں گوانتانامو بے کی بندش کے سلسلے میں پر عزم ہے۔ انٹرنیشنل ریڈ کراس کے سربراہ پیٹر ماورر نے گوانتانامو بے کے حراستی کیمپ میں بھوک ہڑتال کرنے والے قیدیوں کو زبردستی کھانا کھلانے کی مخالفت کرتے ہوئے امریکی صدر پر زور دیا ہے کہ وہ قیدیوں کے لیے اضافی اقدامات اٹھائیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کی امریکی دار الحکومت واشنگٹن سے موصولہ ایک رپورٹ کے مطابق پیٹر ماورر Peter Maurer نے امریکی صدر پر زور دیا ہے کہ وہ گوانتانامو میں زیر حراست قیدیوں کی حالت زار کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے اضافی اقدامات اٹھائیں۔ انھوں نے یہ بات رواں ہفتے ہی واشنگٹن میں صدر اوباما اور دیگر اعلیٰ امریکی اہلکاروں سے بات چیت کے دوران کہی۔ اسی دوران جنیوا میں قائم آئی سی آر سی ICRC کی ایک ٹیم نے کیوبا کے اس امریکی بحری اڈے پر قیدخانے میں بھوک ہڑتال کرنے والے درجنوں قیدیوں کو مانیٹر کیا۔ اس معاملے پر بڑھتی ہوئی بین الاقوامی تشویش کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انٹرنیشنل ریڈ کراس کے سربراہ کا کہنا تھا کہ قریب دو ماہ قبل شروع کی جانے والی یہ بھوک ہڑتال قیدیوں کی حالت زار کی ‘علامت’ ہے۔ بھوک ہڑتالی قیدیوں کو زور زبردستی سے کھانا کھلانے کے بارے میں بات کرتے ہوئے پیٹر ماورر نے محتاط انداز اختیار کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے پر آئی سی آر سی کے ڈاکٹرز بین الاقوامی میڈیکل گروپس کے معالجین کے موقف کی تائید کرتے ہیں، جنھوں نے اس عمل کی مذمت کی ہے۔

دریں اثنا گذشتہ روز امریکا میں کئی مختلف مقامات پر انسانی حقوق کے سرگرم کارکنان نے مظاہرے کرتے ہوئے گوانتانامو بے کی بندش کا مطالبہ کیا۔ قیدیوں کی حالت زار پر توجہ مرکوز کرانے کے لیے منائے جانے والے اس دن مظاہرین نے نارنجی رنگ کے لباس پہنے ہوئے تھے، بالکل ویسے ہی جیسے کہ گوانتانامو بے کے قیدی پہنتے ہیں۔ یہ مظاہرین صدر اوباما سے قیدخانے کو بند کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ امریکا میں یہ مظاہرے ایک ایسے وقت کیے گئے جب گوانتانامو بے کے قیدیوں کی جانب سے جاری بھوک ہڑتال کے معاملے پر انسانی حقوق کی 25 سرگرم تنظیموں نے امریکی صدر کے نام ایک خط لکھا۔ اس خط پر دستخط کرنے والی تنظیموں میں ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ اور امریکن سول لبرٹیز یونین شامل ہیں۔ اس خط کے مطابق قیدخانے کے 166 قیدیوں کی اکثریت اب بھوک ہڑتال کا حصہ بن چکی ہے۔ خط میں مزید درج ہے کہ’یہ صورت حال قیدیوں کو11سال سے زائد عرصے سے فرد جرم عائد کیے بغیر زیر حراست رکھے جانے کا نتیجہ ہے۔‘9 مظاہرین دار الحکومت واشنگٹن میں وائٹ ہاوس کے سامنے جمع ہوئے جبکہ30کے قریب مظاہرین نے نیو یارک میں مظاہرہ کیا۔ اسی طرح سان فرانسِسکو، لاس اینجلس اور شکاگو میں بھی مظاہرے کیے ۔

گوانتانامو میں قائم امریکی حِراستی مرکز کے اکثر قیدی صرف معمولی سے شبہ کی بنیاد پر یہاں قید ہیں اور اکثر یہ ہلکا سا شبہ بھی بہت بے سروپا ہے۔ خفیہ معلومات منکشف کرنے والی انٹرنیٹ ویب سائٹ وکی لیکس کے تازہ ترین انکشافات میں امریکی قید خانے گوانتانامو کے بارے میں رونگٹے کھڑے کردینے والے انکشافات کیے گئے ہیں۔گوانتانمو جیل کے بارے میں وکی لیکس کے تازہ ترین انکشافات سے اس مسئلے سے واقفیت رکھنے والوں کے ان شبہات کی تصدیق ہوتی ہے جو وہ گوانتانامو کے بارے میں ہمیشہ ہی ظاہر کرتے رہے ہیں۔ یعنی یہ کہ ان میں سے اکثر قیدیوں کو دہشت گردی کی تفتیش کرنے والے امریکی حکام نے محض معمولی شبہ کی وجہ سے یہاں قید میں رکھا ہوا ہے جو انصاف اور ایک قانونی ریاست کے معیارات کے قطعی خلاف ہے۔ 11 ستمبر سن 2001 کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد کے کچھ برسوں کے دوران کسی مشتبہ فرد کو گوانتانامو کا مستقل قیدی بنا دینے کے لیے صرف اتنا ہی کافی تھا کہ اس نے افغانستان سفر کا ایک مخصوص راستہ اختیار کیا ہو۔ کچھ قیدی ایسے بھی ہیں جنہیں کسی خاص مشتبہ مسجد میں جانے یا ایک مخصوص قسم کی کلائی کی گھڑی پہننے کی وجہ سے اس جیل میں بند کر دیا گیا۔ کسانوں، شادی کے لیے لڑکی تلاش کرنے والوں، حتیٰ کہ کسی دھماکے کی جگہ کے قریب موجود بچوں تک کو گوانتا نامو کی جیل میں مستقل قید کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑ رہی ہیں۔گوانتا نامو میں مجموعی طور پر 800 افراد قید ہیں۔ ان میں سے صرف 200 کے بارے میں حقیقتاً یہ ثبوت مل سکا ہے کہ ان کے دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے ساتھ روابط تھے۔ وکی لیکس نے امریکی خفیہ اداروں کے ذرائع سے جو دستاویزات حاصل کی ہیں ان سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہ خفیہ امریکی ادارے، دہشت گردی کا سراغ لگانے کے نام پر اب بھی ہسٹیریائی انداز میں اور اندھا دھند طور پر دنیا بھر میں بے قصور لوگوں کی آزادی سلب کر رہے ہیں۔ گوانتانامو، قانونی بنیاد سے محروم من مانے طور طریقوں سے قائم ایک ایسی جیل ہے جسے ختم کرنے کا وعدہ امریکی صدر بارک اوباما نے ابھی تک پورا نہیں کیا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امت مسلمہ پر غیروں کو وار کرنے کا موقع کیسے مل گیا؟ اس سلسلہ میں خود برطانوی ذرائع ابلاغ بی بی سی عربی‘ گارجین اور انڈیپنڈنٹ جیسے اشاعت و نشریاتی اداروں نے انکشاف کرچکے ہیں کہ عراق پر امریکی قبضے کے دوران مین امریکی فوج نے شیعہ سنی فسادات بھڑکانے کے لیے ’ڈیتھ اسکواڈ‘ کو اسلحہ اور تربیت فراہم کی۔ ڈیتھ اسکواڈ نے خفیہ تعذیب خانے بھی قائم کر رکھے تھے۔ ڈیتھ اسکواڈ کی نگرانی ایل سلواڈور اور نکاراگوامیں پراکسی وار لڑنے والے امریکی فوجی کرنل جیمز اسٹیل کر رہے تھے جو براہ راست امریکی فوج کے سربراہ جنرل ڈیوڈ پٹریاس کو رپورٹ دیتے تھے‘ برطانوی ذرائع ابلاغ کے سامنے ان حقائق کا انکشاف عراق میں تعینات اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے شعبے کے سربراہ جان پیس نے بھی کیا ہے۔ یعنی امریکی فوج نے عراق میں اپنی جو پٹھو اور آلہ کار حکومت قائم کی تھی اس حکومت کے وزارت داخلہ کا کام یہ تھا کہ وہ ملک میں خودکش حملہ آوروں اور قاتلوں کو تربیت دیں تاکہ عراق میں شیعہ سنی فسادات کے ذریعہ قابض امریکی فوجوں کے خلاف مزاحمت ختم کی جاسکے۔ عراق میں ہونے والے ظلم اور تعذیب و تشدد کے یہ انکشافات مغربی ذرائع ابلا غ کے ذریعے سامنے آئے ہیں لیکن اس کی تفصیلات پاکستانی ذرائع ابلاغ نے نشر نہیں کی ہیں۔ اس رپورٹ سے امریکی ’وار آن ٹیرز ‘کی حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے اور یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ دنیا میں امن قائم کرنے اور دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کی دعویدار سیکولر قوتوں نے انسانیت کے خلاف کیسے سنگین جرائم کیے ہیں۔ یہ بات تو واضح ہو چکی ہے کہ عراق پر حملہ کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی رپورٹ جھوٹ پر مبنی تھی۔ صرف ایک جھوٹ کی بنا پر لاکھوں عراقیوں کو قتل کر دیا گیا۔ عراق سے موصولہ اس رپورٹ سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں بم دھماکوں‘ خودکش حملوں اور شیعہ اور سنی علما اور عمایدین کی ٹارگٹ کلنگ کے پس پردہ کون سی طاقتیں کار فرما ہیں۔ ڈیتھ اسکواڈ اور قاتلوں کی امریکی فوجی کرتے ہیں اور اس کی براہ راست نگرانی امریکی فوج کے سربراہ کرتے ہیں۔

برطانوی اخبار گارجین اور بی بی سی عربی کی مشترکہ تحقیق BBC Arabic/Guardian investigation نے عالم اسلام میں پرتشدد مسلکی منافرت کے فروغ میں اسلام دشمن سازش سے نقاب کشائی کی ہے۔ جیمس اسٹین لی نے 1980میں ایل سلوا اڈور کی خانہ جنگی میں ’گندی جنگ‘ کے تحت پنٹاگن کے لیے کام کیا تاکہ آپسی رنجشوں کے ذریعہ آپس میں لڑایا جائے۔ کرنل جیمس کی اسی مہارت کو امریکی وزیر دفاع نے 2003-06کے دوران عراق میں شیعہ-سنی تفرقہ کو ہوا دے کرامریکی مخالف رویہ کو کمزور کرنے میں استعمال کیاتھا۔ کرنل کاف مین Caffmanنے اس کا ساتھ دیا۔ یہ دونوں امریکی وزیر دفاع زونالڈ رمس فیلڈ کو براہ راست جوابدہ تھے۔ ان کا کام سنی مزاحمت کاروں کے خلاف شیعہ مزاحمت کاروں کی حمایت کرتے ہوئے پکڑے گئے سنی مزاحمت کاروں سے معلومات حاصل کرنا تھا۔ انھوں نے عراق شیعہ ملیشیا،لیڈر بریگیڈ کے لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کر ان کی مدد سے متعدد عقوبت خانے اور تفتیشی مراکز قائم کیے۔ سی آئی اے کا ڈائریکٹر جنرل پیٹریاس بھی ایک مشیر کے طور پر اس میں شامل تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اسے حال ہی میں ایک جنسی اسکینڈل میں ملوث ہونے کے سبب سی آئی اے چھوڑنی پڑی جبکہ وہ بھی ان ٹارچرسیل میں ہونے والی براہ راست زیادتیوں مہم میں شامل تھا۔ عراقی جنرل منتظرالاسماری کا کہنا ہے کہ میں نے ان ٹارچر مراکز میں ان دونوں کو الگ الگ نہیں دیکھاجبکہ وہ کاف مین اور اٹیلی دونوں کے ساتھ کام کرچکا ہے۔ ہر مرکز میں 8افگراد پر مشتمل ٹیم ہوتی تھی جس میں ایک انٹیلی جنس آفیسر اور باقی تفتیش کار ہوتے تھے۔ یہ کمیٹی معلومات حاصل کرنے کے لیے قیدیوں کو تشد کا نشانہ بتاتی تھی‘انھیں کرنٹ لگاتے تھے‘ الٹا لٹکادیتے تھے‘ ان کے ناخن اکھاڑ تے تھے اور ان کے نازک مقامات پر ضربیں لگاتے تھے۔گارجین اور بی بی سے کی تفتیش رپورٹ کی وکی لیکس کے انکشافات کو امریکی سفارتی یالاکھو ں کی تعداد میں دداشتوں کے ذخیرہ کوافشاءکرکے امریکی بے رحم ‘خود غرض سیاست کاپردہ چاک کیا تھا۔ ان معلومات کو افشا کرنے میں وکی لیکس کا ساتھ 25امریکی فوجی بریڈلی میٹنگ نے دیا جس پر عدالت میں مقدمہ چل رہا ہے۔ اس جرم میں اسے 25سال کی سزا ہو سکتی ہے۔ اسماری کے بقول ان کمانڈوکنٹرول حامل اڈوں میں قیدیوں کے ساتھ تشدد اور ٹارچر روزانہ کا معمول تھا۔ مجھے یاد ہے کہ کس طرح ایک 14سالہ قیدی کو کھمبے میں باندھ کر اس کے پیراس کے سر سے اوپر باندھے گئے تھے اس کا سارا جسم خون کا دوران ہونے سے خراب اورمیلا ہو گیا تھا۔ وہ تکلیف کے باوجود اللہ اکبر کاوردکر رہا تھا۔گلبس پیر یز جو بہ لائبریری اٹیلی سے انٹرویو دے رہا تھاجبکہ وہ جونیویارک ٹائمس کے لیے کام کرتا تھا۔ پٹریاس نے1986 جب ایل سلواڈور میں اٹیلی اور کاف مین کے کاموں کو دیکھا تو وہ بھی مزاحمت کاری کے خلاف ان طریقوں کا معترف ہو گیالیکن اٹیلی نے دونوں مقامات پر اپنے کسی بھی رول سے انکار کیا۔ پٹریاس کے سرکاری ترجمان کے مطابق ہمیں بھی اس طرح کے تشدد کی شکایات ملیں تو ہم نے عراقی سرکار سے تبادلہ خیال کیا۔ ہم نے نہ صرف اپنے یہاں کنٹرول کمانڈ کو آگاہ کیابلکہ عراقی حکومت کو بھی آگاہ کیا۔ مطلب یہ کہ حکومتوں کے علم کے علم میں ہونے کے باوجود حقوق انسانی کی پامال ہو رہی تھی۔ اس تشدد کو عراق کی شیعہ عوام میں مقبولیت حاصل ہوئی جس کی تشہیر کے لیے وہ ان تشدد کے شکار قیدیوں کوٹی وی پر پیش کرتے تھے اور وہ اپنے اوپر ہوئے تشدد کی نتیجہ گردانتے تھے۔ بعد میں جب اس کے نتائج برعکس نکلنے لگے تو انھیں ٹی وی پرپیش کرنا بندکر دیا گیا۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس پروگرام کو ’دہشت گردی انصاف کے ہاتھوں میں‘ کے عنوان سے دکھایا جاتا تھا۔ ان عقوبت خانوں کے نگراں جنرل عدنان ثابت کا کہنا ہے کہ جو کچھ بھی عقوبت خانوں میں ہو رہا تھا‘اس کے بارے میں امریکی جنرل سب کچھ جانتے تھے۔ وہ قیدیوں کے بارے میں سب کچھ جانتے تھے۔ بلکہ بہت سے قیدیوں کو ہم نے اسرائیلوں کی طلاعات پر ہی گرفتار کیا تھا۔2005میں جب پٹریاس اور اٹیلی نے عراق چھوڑا تو جابر السلاج کو وزیر داخلہ بنایاجو شیعہ ملیشیا اور بریگیڈ سے قریبی ربط رکھتا تھا۔ جابر کے لیڈران عقوبت خانوں میں تشدد اور بھیانک ہو گیا تھا۔ اس بات کے بھی شواہد ہیں کہ یہ تفیشی کمانڈویونٹ آگے چل کرموت کے دستوںDeath Squadمیں بدل گئے تھے۔ یہ بھی پتہ چلا کہ خود عراقی المکی حکمرانوں نے بھی پٹریاس کو جابر کو وزیر داخلہ بنانے سے روکا تھالیکن پٹریاس نے ان کے مشوروں کو ٹال دیاتھا۔ امریکا نے اس نیم فوجی یونٹ کو معاشی اور تکنیکی مدد اس لیے بہم پہنچائی تھی کہ وہ اس کے ذریعہ عراق میں ایک خطرناک فرقہ وارانہ جنگ کے بیچ بونا چاہتا تھاجبکہ اس کی وجہ سے اب تک لاکھوں لوگ مارے جاچکے ہیں۔ فرقہ وارانہ تشدد کے عروج کے دنوں میں عراق کی سڑکوں پر اوسطا100لاشیں روزانہ یعنی3ہزار لاشیں ماہانہ ملتی تھیں۔ کسی کو شک ہوتو وہ 8مارچ2013کا’دی ہندو‘دہلی دیکھ سکتا ہے جس نے گارجین کے حوالے سے حقائق پیش کیے ہیں۔’تشدد اور تعذیب کا عامل محور یا تشدد اور تعدیب کاگلوبلائزیشن‘ کے عنوان سے تحریر ہے کہ جدید شیطانی جاہلی تہذیب اپنے جرائم اورمکروہ عزائم پر پردہ ڈالنے کے لیے جمہوریت وصنفی مساوات Justice Genderحقوق نسواں زارداری کی گرداڑاتا ہے او راس گردوغبار کو عالمی پروپگنڈہ مشینری کے ذریعہ دنیابھر میں پھیلا کر اپنے حقوق انسانی کے خلاف وحشیانہ ریکارڈ وسائل کی لوٹ سرمایا دار نہ لوٹ مار بے حیائی اور عصمت فروشی کے کاروبار کوپوشیدہ کرنا چاہتا ہے۔گذشتہ مہینہ وزیر اعظم منموہن سنگھ کی بیٹی امرت سنگھ نے ایک امریکی ادارہ کے تعاون سے امریکی جنگی جرائم پر رپورٹ خصوصا عراق اور افغانستان کے قیدیوں پرڈھائے گئے سفاکانہ تشدداور ایذا رسانی کی عالمگیریت کے عنوان سے شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ امریکا نے 9/11کے بعد دنیا بھر سے مشکوک لوگوں کو غیر قانونی طریقہ سے گرفتار کرکے انھیں غیر قانونی طریقہ سے غیر قانونی اور خفیہ پروازوں کے ذریعہ دنیا کے لگ بھگ54ممالک میں قائم’ ٹارچر مراکز‘ میں لیجا کر غیر انسانی وغیر قانونی اور بے رحمانہ طریقہ سے تشدد اور پوچھ تاچھ کا نشانہ بنایا۔

امریکی تنظیم اوپن سوسائٹی فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ دنیا کے 54 ممالک نے امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی مختلف طریقوں سے گرفتار شدگان پر دوران حراست تشدد اور غیر قانونی حوالگی میں مدد کی ہے۔ نیو یارک میں قائم امریکی تنظیم اوپن سوسائٹی Open Society فاؤنڈیشن نے یہ دعویٰ اپنی رپورٹ میں کیا ہے جس کا عنوان ہے ’گلوبلائزنگ ٹارچر: سی آئی اے سیکرٹ دیٹنشن اینڈ ایکسٹرا اورڈنری رینڈیشن‘ یعنی زیر حراست تشدد کو عالمی سطح پر لے کر جانا جس میں سی آئی اے کی جانب سے خفیہ طور پر حراستیں اور غیر معمولی حوالگی کے معاملات ہیں۔ غور طلب ہے کہ یہاں غیر قانونی حوالگی سے مراد مختلف مشتبہ افراد کو بغیر قانونی کارروائی کیے ایک ملک سے دوسرے ملک یا اس صورت میں امریکا کے حوالے کیا جانا ہے۔ بعض صورتوں میں اس سے مراد امریکا کا مختلف مشتبہ افراد کو دنیا میں مختلف ممالک کے حوالے کرنا بھی ہے جن میں امریکا کے خفیہ حراست خانے تھے۔ اوپن سوسائٹی فاؤنڈیشن نے مطالبہ کیا ہے کہ اس معاملے میں مزید احتساب کی ضرورت ہے جس میں الزام ہے کہ بش حکومت کے اہلکار ان معاملات میں ملوث تھے جو اوپن سوسائٹی کے مطابق انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق ’حراست کے دوران تشدد اور دوسری خلاف ورزیاں جو اس پورے عمل کے ساتھ منسلک ہیں میں شامل ہونے سے امریکی حکومت نے ملکی اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی ہے اور اپنی اخلاقی اقدار اور اصولوں کے منافی کام کیا ہے جس کے نیتجے میں بین الاقوامی سطح پر موجود دہشت گردی کے خلاف حمایت ختم ہوئی۔‘ اوپن سوسائٹی کی یہ رپورٹ اب تک بنائی گئی سب سے موثر اور مکمل رپورٹ ہے جس میں اس مسئلے پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے اور ان ممالک کی ایک فہرست تیار کی گئی ہے جو سی آئی کے ساتھ ان غیر قانونی حراستوں میس شامل رہے اور جنھوں نے مختلف افراد کو مختلف طریقوں سے سی آئی اے کے حوالے کیا۔ سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے غیر معمولی حالات میں حوالگی کی پالیسی کا اعلان کیا تھا جس کے تحت مختلف ممالک بغیر قانونی تقاضوں کو پورا کیے مختلف مطلوب افراد کو امریکا یا مختلف ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے حوالے کر سکتے تھے جو ان افراد سے بعد میں تفتیش کر سکتی تھیں۔ اس میں اہم بات یہ ہے کہ ان افراد اور ایجنسوں پر امریکی سرزمین پر موجود قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا تھا۔ اوپن سوسائٹی کا کہنا ہے کہ انھیں اس بات کے ثبوت ملے ہیں کہ دنیا کے 54ممالک نے مختلف طریقوں سے ان اقدامات کی حمایت کی تھی جن میں سی آئی اے نے جیلیں بنائیں جن میں مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ کی جاتی تھی یا ایسی خفیہ پروازوں کی اجازت دی جاتی تھی جن میں خفیہ طور پر مشتبہ افراد کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچایا جاتا تھا یا سی آئی اے کو خفیہ معلومات دی جاتی تھیں۔

رپورٹ میں امریکا کے قریبی حلیف ممالک کے نام بھی شامل ہیں جیسا کہ آسٹریلیا، برطانیہ، کینیڈا، ڈنمارک، جرمنی، آئرلینڈ، اٹلی، پولینڈ، سپین، ترکی اور تھائی لینڈ شامل ہیں۔ سابق امریکی صدر جارج ایچ ڈبلیو بش نے غیر معمولی حالات میں حوالگی کی پالیسی کا اعلان کیا تھا جس کے تحت مختلف ممالک بغیر قانونی تقاضوں کو پورا کیے مختلف مطلوب افراد کو امریکا یا مختلف ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے حوالے کر سکتے تھے جو ان افراد سے بعد میں تفیش کر سکتی تھیں۔ اس میں اہم بات یہ ہے کہ ان افراد اور ایجنسیوں پر امریکی سرزمین پر موجود قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا تھا۔ اس فہرست میں جنوبی افریقہ کو بھی شامل کیا گیا ہے جس کی وجہ جنوبی افریقہ کی حکومت کی جانب سے امریکی خفیہ ادارے کو پاکستانی شہری سعود میمن کو اغوا کرنے کی اجازت دینا ہے جنہیں 2003میں وال اسٹریٹ جرنل کے صحافی ڈینئیل پرل کو ہلاک کرنے کا الزام تھا جبکہ سعود میمن پاکستان میں 2007 میں رہا ہونے کے کچھ ہی عرصے بعد فوت ہو گئے تھے۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس رپورٹ میں ایران کا ذکر ہے جس کے ساتھ امریکا کے تعلقات بہت خراب ہیں۔ تہران نے کم از کم 10 مشتبہ افراد کو پکڑ کر کابل کی حکومت کے ذریعے امریکا کے حوالے کیا جن میں سے اکثریت عرب لوگوں پر مشتمل تھی۔ اس رپورٹ کا کہنا ہے کہ صرف امریکا ہی نہیں بلکہ دوسرے ممالک بھی اس میں ذمہ دار ہیں جن میں سے صرف کینیڈا نے اپنے کردار پر معافی مانگی ہے۔ تین دیگر ممالک آسٹریلیا، برطانیہ اور سویڈن نے متاثرین کو ہرجانہ دینے کی پیشکش کی ہے۔ صدر براک اوباما نے 2009 میں اقتدار میں آنے کے بعد ان تشدد آمیز تفتیش کے طریقوں کے استعمال کو بند کر دیا تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ اوپن سوسائٹی صدر اوباما پر بھی اس رپورٹ میں تنقید کرتی ہے جنھوں نے حوالگی کے قانون کو برقرار رکھا ہے اس شرط پر کہ ان افراد سے حوالے کیے جانا والا ملک انسانی سلوک کرے گا۔ اس رپورٹ میں تنظیم نے ایک سو 36 افراد کے نام لیے ہیں جن کو غیر معمولی حالات میں حوالگی کی پالیسی کے تحت حراست میں رکھا گیا یا حوالے کیا گیا۔ اس رپورٹ میں صرف سی آئی اے کی کارروائیوں کی بات کی گئی ہے اور امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے معاملات کو زیر غور نہیں لایا گیا ہے جس کے تحت گوتنامو بے کا متنازع قید خانہ کام کرتا رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سی آئی اے نے مختلف افراد کو گوانتانامو بے میں حراست میں رکھا جبکہ اس کے علاوہ افغانستان، لتھوینیا، مراکش، پولینڈ، رومانیہ اور تھائی لینڈ میں بھی ایسی حراست گاہیں تھیں جہاں مختلف افراد کو رکھا جاتا رہا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق دورانِ حراست کچھ قیدیوں کو مصنوعی دیواروں میں دے مارا گیا، ان کو مختلف تکلیف دینے والے جسمانی کاموں میں لگایا گیا، انھیں ان کی رضامندی کے بغیر برہنہ کیا گیا اور انھیں تھپڑ مارے گئے۔ سی آئی اے کے سابق سربراہ مائیکل ہیڈن نے ماضی میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ امریکی تفتیش کاروں نے تین افراد کو واٹر بورڈنگ کا نشانہ بنایا تھا جس میں انسان کو احساس ہوتا ہے کہ وہ ڈوب رہا جب اس پر پانی ایک مخصوص طریقے سے پھینکا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکن لواٹر بورڈنگ کو تشدد ہی کی ایک قسم کہتے ہیں۔ اس فہرست میں جنوبی افریقہ کو بھی شامل کیا گیا ہے جس کی وجہ جنوبی افریقہ کی حکومت کی جانب سے امریکی خفیہ ادارے کو پاکستانی شہری سعود میمن کو اغوا کرنے کی اجازت دینا ہے جنہیں 2003میں وال سٹریٹ جرنل کے صحافی ڈینئیل پرل کو ہلاک کرنے کا الزام تھا۔ سعود میمن پاکستان میں 2007میں رہا ہونے کے کچھ ہی عرصے بعد فوت ہو گئے تھے۔ امریکی سینیٹ کی انٹیلیجنس کمیٹی نے گذشتہ دسمبر میں سی آئی کے طریقہ کار پر 6 ہزار صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ شائع کی تھی۔ اس رپورٹ کے مندرجات ابھی تک خفیہ رکھے گئے ہیں۔ اسی کمیٹی کی سربراہ سینیٹر ڈائین فیسٹن نے کہا کہ خفیہ حراست خانے اور تشدد آمیز تفتیش ’بہت خطرناک غلطیاں‘ تھیں جبکہ سی آئی اے نے اس رپورٹ پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔ واضح رہے کہ بہت سے امریکی اراکین کانگریس اور سینیٹ نے ماضی میں شدت سے تفتیش کے لیے استعمال ہونے والی بعض طریقوں کی حمایت کی ہے جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ایک ظالم دشمن کے مقابلے کے لیے یہ سب ضروری ہے۔ اوپن سوسائٹی فاؤنڈیشن کی بنیادطالبان یا القاعدہ نے نہیں بلکہ ایک ارب پتی اور مخیر امریکی شہری جارج سوروس نے رکھی تھی۔

یورپ سے 25ممالک وایشیا سے 14ممالک وافریقہ سے 13ممالک کے علاوہ کنیڈا اور آسٹریلیا نے بھی اس مذموم انسانیت سوز مہم میں خبیث کا ساتھ دیا۔ ہندوستان ان میں شامل نہیں ہے لیکن سب سے چونکانے میں والا نام اسلامی جمہوریہ ایران کا ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان مملکت خداد اد پاکستان ،مصر،لیبیا،شام جیسے مسلمانوں کے ’ہمدرد ممالک‘ کے علاوہ سویڈن،فن لینڈ،اٹلی ،جرمن،برطانیہ،ڈنمارک آئس لینڈ سب سے آزادی اور جمہوریت اور حقوق انسان کو ’محفوظ‘ کرکے اس ’ مقدس فریضہ‘ میں پوری دلجمعی سے ساتھ دیا۔ ایک ایک قیدی کو ہوائی جہازوں میں خصوصی فلائٹ سے ہزاروں کلومیٹردور لیجا کر پرتشدد وظالمانہ ٹارچر کا نشانہ بنایاگیا ہے۔ اس سے قبل بھی امرت سنگھ کی کوششوں سے 2009میں ابو غریب جیل میں تشدد ٹارچر پر مشتمل ہزاروں صفحات پوسٹ مارٹ رپورٹم پر تشدد معلومات کی تفاصیل منظر عام پر آچکی ہیں۔ دسمبر 2012میں مقدونیہ میں ٹارچر کیے گئے اور امریکی مقدونیائی اہلکاروں کے ذریعہ اغوا کرکے مارپیٹ اوراغلام بازی کا نشانہ بناکر اور ہتھکڑیاں پہنانے کے الزام میں یورپی کورٹ نے خالد المصری سے 60000یورو کا جرمانہ وصول کیا۔ بعد میں سی آئی اے نے کہا کہ ہم نے جرمن وزیر داخلہ کو اطلاع دیکر کارروائی کی تھی لیکن انھوں اپنی کابینہ تک کو اس کی اطلاع نہیں دی۔ سی آئی اے نے قبول کیاکہ ہم نے دھوکا سے غلط آدمی کو پکڑلیا تھا۔ امریکی سپریم کورٹ خالد المصری کے مقدمہ کی سماعت سے انکار کر دیا اور کہا کہ قومی تحفظ کا مسئلہ متاثر کو پہنچے نقصان سے زیادہ اہم ہے لیکن اٹلی کی عدالت نے 23امریکیوں کو ملزم گردانا لہذا ان کے خلاف قانونی کارروائی جاری ہے۔ اٹلی کی حکومت 9دیگر حکومتوں کے شہریوں کے خلاف بھی قانونی کارروائی کی تیاری کر رہی ہے۔ شرم اور افسوس کی بات ہے کہ اپنے قومی تحفظ کے نام پر دنیا بھر میں بے گناہوں کو پکڑ پکڑ کر تشدد اور ٹارچر کی ایسی مثالیں پیش کی گئیں جیسے تشدد انتہائی ظالم بادشاہ اور مافیا ڈان بھی ہی نہ ہو کر اس بے ضررسے لفظ کی آڑ میں جدید تہذیب کے فرعونوں نے وہ مظالم ڈھائے ہیں جس سے جس سے شیطان بھی شرماجائے۔ مثلاقیدیوں کو دوسرے ممالک میں لیجا کر غیر قانونی طریقہ سے تشدد کے ساتھ تفتیش کا نام دیا گیا Rendition Quesیا تفتیش کی ترقی یافتہ تکنیک Enhanced Interogation techniques استعمال کی گئی۔ بعض ایسے دستاویزی شواہد کے ساتھ حال ہی میں کچھ اور خبریں اور شواہد عالمی پیمانہ پر آ رہی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ملت اسلامیہ میں پر تشدد مسلکی اور گروہی منافرت کو مغرب اور تمام اسلام دشمن طاقتوں کے ذریعہ انتہائی ترجیحی اور وسیع بنیادوں پر پورے وسائل جھونک کرایمان فروشوں کے ذریعہ ہی بھرکایاجا رہا ہے کہیں صوفی اسلام کو آگے کیا جا رہاہے۔ ہندوستان،بنگلہ دیش،مغرب ،مالی،مالدیپ وغیرہ کہیں لبنان،ایران،پاکستان،بحرین وغیرہ شیعہ-سنی کہیں مصر ،تیونس ،پاکستان،ایران ،الجزائر وغیرہ لبرل بمقابلہ انتہا پسند‘کہیں ساری تقسیموں کو بیک وقت منظم کیا جا رہاہے۔ اس کام کے لیے مذہبی طبقہ غیر سرکاری تنظیمیں این جی او فنون لطیفہ سے وابستہ لوگوں کو خرید کر ان کو میڈیا کو ریج دیکر مسلمانوں کی مددکے عنوان پر مسلمانوں میں اختلاف وانتشار کو پروان چڑھایا جا رہا ہے جبکہ اسلام دشمن طاقتیں عراق میں شیعہ،سنی تفریق کو پرتشدد خونریزی میں امریکی خصوصی افواج نے تبدیل کیا۔ یہی کھیل مختلف ناموں سے Remoteکنٹرول کے ذریعہ کئی کئی واسطوں سے خفیہ ایجنسیوں کے معرفت کھیل رہی ہیں۔ بصورت دیگرمصر میں ایک مسیحی این جی اوکے دفتر میں مصری افواج کی تنصیبات کے نقشہ ملنے کا کیا جواز؟اس این جی او تک کو اعلی امریکی عہدیداروں کا قریبی رشتہ دار چلا رہا تھا۔ اس طرح انڈونیشیا ،بنگلہ ،دیش،پاکستان میں یورپی ممالک کے این جی اوکا جال اندر ہی اندر مقامی غریب ضرورت مند باشندوں کا کیسے استعمال کرتے ہیں‘ وہ ملالہ کے معاملہ سے ظاہر ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک چھوٹے سے اسکول کے مالک‘ اس کی بیٹی ملالہ اور ماں کا امریکا کے ا علی ترین خفیہ اداروں کے سربراہوں سے ملنے کے کیا معنی ہیں؟

پوری دنیا کی عالمی سیاست بالخصوص عالم اسلام کے ہر ملک کے سیاسی مستقبل کو ’دہشت گردی‘ سے جوڑ دیا گیاہے۔ یہی وجہ ہے کہ باخبر ذرائع ابلاغ تسلسل سے یہ کہتے رہے ہیں کہ انسداد دہشت گردی کے نام پر جاری جنگ کا اصل ہدف یہ ہے کہ کسی بھی مسلم ملک میں نظام حکومت اسلام کی بنیاد پر تشکیل نہ دیا جاسکے۔ عالم اسلام میں بنیاد پرستی سے لے کر دہشت گردی تک تمام اصطلاحات اسلام کے نظام اجتماعی سے وحشت پیدا کرنے کے لیے بنائی گئی ہیں۔ دنیا کے ہر ملک میں اسلامی بیداری پر انتہا پسندی اور دہشت گردی کا لیبل چسپاں کر دیا گیا ہے۔ ہر مسلم ملک میں اسلامی تحریکوں کے لیے پرامن جدوجہد کے راستے بند کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دنیا بھر میں پاکستان اسلامی بیداری کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ پاکستان میں اسلام کی بنیاد پر سیاسی انقلاب کو روکنے کے لیے جو پس پردہ سازشیں کی گئی ہیں ان میں اولیت پاکستان کے امن و امان کوتباہ کرنے پر دی گئی ہے۔ پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں کے واقعات کا ایک ہدف پاکستان میں فرقہ وارانہ تقسیم کو بڑھانا ہے۔ پاکستان میں ہونے والے بم دھماکوں‘ ٹارگٹ کلنگ‘ خودکش حملوں کی وارداتوں میں اضافہ اورمحکمہ داخلہ کی خاموشی‘ بے حسی اور ان وارداتوں کو روکنے میں ناکامی اس بات کی غمازی کر رہی ہے کہ یہ ادارے بھی اس سازش میں ملوث ہو سکتے ہیں۔ ان واقعات کا پس منظر یہ ہے کہ پاکستان کے عوام نے دہشت گردی کے خاتمے کے نام پرجاری امریکی جنگ کی حمایت سے انکار کر دیاہے۔ امریکی عہدیدار اور پاکستان کے نام نہاد سیکولر طبقات بار بار اس بات کا دعویٰ کر رہے ہیں کہ دہشت گردی پاکستان کا اصل مسئلہ ہے۔ حالانکہ پاکستان کا اصل مسئلہ افغانستان پر امریکی قبضہ اور سی آئی اے‘ بلیک واٹر اور ریمنڈ ڈیوس جیسے نیٹ ورک کی موجودگی نیز وہ ضمیر فروش طبقہ ہے جس نے ڈالروں اور مفادات کے عوض اپنے ضمیر کے سودے کرلیے ہیں اور ضمیر فروشی کی اس تجارت نے پاکستان کو وحشت و درندگی کے سوا کچھ نہیں دیا ہے۔ عراق سے آنے والی خبر سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں بھی دہشت گردی کے اصل منصوبہ ساز کون ہیں۔ عراق میں امریکی فوجوں کے ذریعہ ڈیتھ اسکواڈ کے قیام کی رپورٹ گھر کی گواہی ہے۔ گویا امریکا اور مغرب کے اعضا وجوارح خود اپنے جرائم بیان کر رہے ہیں۔ ان رپورٹوں کی اشاعت کے بعدپاکستان میں بھی قائم دہشت گردوں کی اصل پناہ گاہوں اور ان کے سرپرستوں کا علم ہوجاتا ہے۔ محض ان رپورٹوں سے ہی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ عالمی امور کے فیصلے کرنے والے کتنے سفاک ہیں۔ جو لوگ ایسے درندوں کے آلہ کار بنیں گے‘ وہ وحشت و درندگی میں اپنے آقاﺅں کو بھی پیچھے چھوڑ دیں گے‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ’ سیکولر عقیدہ‘ اللہ کی قوت و طاقت اور آخرت کے حساب کتاب پر یقین نہیں رکھتا‘ دولت اور طاقت کے حصول کے علاوہ انسانی زندگی کا کوئی نصب العین نہیں ہے۔ ساری علمی ترقی کا مقصد صرف دولت اور طاقت حاصل کرنا ہے‘ جس کی وجہ سے روئے ارض فساد اور ظلم کا مرکز بن گئی ہے۔ بقول شخصے ایسے میں مذہبی افراد گروہ مسیحیوں اور یہودیوں کی طرح احبارورھبان نہیں ہو گئے ہیں تو انھیں ملت میں ہر طرح کے انتشار سے انتہائی صبر اور ضبط سے نپٹنا ہوگا ۔

قیدی[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. جان گرشہام (12 اگست 2013ء)۔ "Guantánamo Bay: the US was dead wrong, but no one can admit it"۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ گارجین 
  2. "US government identifies men on Guantánamo 'indefinite detainee' list"۔ گارجین۔ 17 جون 2013ء۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ