مندرجات کا رخ کریں

اسلامی امارت افغانستان (1996ء – 2001ء)

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
اسلامی امارت افغانستان
Islamic Emirate of Afghanistan
د افغانستان اسلامي امارات
Da Afghanistan Islami Amarat
1996[1]–2001
پرچم افغانستان
شعار: 
مقام افغانستان
دار الحکومتکابل
عمومی زبانیںپشتو [2]
مذہب
اسلام
حکومتاسلامی دینی حکومت
اميرالمومنين 
• 1996–2001
محمد عمر
وزیر اعظم 
• 1996–2001
محمد ربانی
• 
عبدالکبير (قائم مقام)
مقننہجرگہ
تاریخی دورخانہ جنگی / دہشت پر جنگ
• 
27 ستمبر 1996[1]
• 
13 نومبر 2001
ماقبل
مابعد
دولت اسلامی افغانستان
افغان عبوری انتظامیہ

اسلامی امارت افغانستان (Islamic Emirate of Afghanistan) (پشتو: د افغانستان امارات اسلامي) طالبان کے افغانستان پر بر سر اقتدار آنے پر 1996 میں قائم ہوئی 2001 میں ختم ہوئی۔ یہ حکومت افغان طالبان نے قائم کیا تھا اور ملا عمر مجاہد اس کی سربراہی کر رہے تھے۔ یہ ریاست ایک طویل جنگ کے بعد طالبان نے قائم کیا تھا جس سعودی عرب نے اس تسلیم کر لیا تھا۔

تاریخ

[ترمیم]

1979ء جب سوویت روس یا عام طور پر جسے روس کہا جاتا تھا، نے افغانستان پر اپنا قبضہ چاہا جس کے لیے روس ایک اور خود مختار ملک افغانستان میں کود پڑا، اسی بات نے پورے اسلامی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ اسی کے نتیجے میں روسیوں سے نمٹنے کے لیے مجاہدین کی تنظیم وجود میں آئی جس کو پاکستان،سعودی عرب،امریکا سمیت بیشتر اسلامی ممالک نے امداد فراہم کی۔ ایک طویل عرصے کے بعد مجاہدین کامیاب ہو گئے اور سوویت اتحاد کو ایک زبردست شکست دیا جس کی نتیجے میں نہ صرف سوویت اتحاد کو افغانستان سے بھاگنا پڑا بلکہ سویت اتحاد جو ایک عظیم ملک تک جو ایشیا اور یورپ کے ایک بڑے حصے پر پھیلا ہوا تھا،شکست کے بعد سوویت اتحاد بھی نہ بچ سکا اور تکڑے تکڑے ہو گیا جس سے نئے ممالک وجود میں آئے جن میں روس،ازبکستان،ترکمانستان،تاجکستان،آرمینیا،یوکرین،جارجیا،وغیرہ شامل ہیں۔ ایک طویل لڑائی اور خون ریزی کے بعد افغان مجاہدین جب فتح یاب ہوئے تو افغانستان میں اسلامی امارت افغانستان قائم ہوا جس کو پاکستان اور سعودی عرب نے کھل کر تسلیم کیا۔

اس کے بعد سانحہ گیارہ ستمبر (نائن الیون) پیش آیا جس کا الزام امریکا نے اسامہ بن لادن پر لگایا۔ اسامہ نے جا کر افغانستان میں پناہ لی، یاد رہے کہ اس وقت اسلامی امارت افغانستان کی حکومت مجاہدین یا افغان طالبان کے ہاتھوں میں تھی جس کی قیادت ملا محمد عمر کر رہے تھے۔ امریکا نے ملا محمد عمر سے مطالبہ کیا کہ وہ اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے کرے ورنہ انجام برا ہوگا۔ اس کے جواب میں ملا عمر نے کہا کہ اسلام ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ اگر تمھارے گھر میں کوئی پناہ لے تو اس کی حفاظت کرو۔ ملا عمر نے اسلامی اور پشتون روایات کی پاسداری کرتے ہوئے اسامہ بن لادن کو حوالہ کرنے سے واضح طور پر انکار کر دیا۔ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملا عمر نے ہزاروں علما کو دعوت پر بلایا اور علما سے پوچھا کہ کیا اسلام ہمیں اس بات کا اجازت دیتا ہے کہ ہم اسامہ جیسے افراد کو کسی اور کے حوالے کرے تو علما نے ان کو کہا کہ اسلام کے مطابق اگر کوئی آپ کے گھر پناہ لے تو ہر گز اس کو دشمن کے ہاتھوں حوالے مت کرنا۔

اس کے بعد جب ملا محمد عمر نے پھر واضح طور پر اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے کرنے سے انکار کیا تو امریکا نے افغانستان میں افواج اتارے اور ایک اور جنگ شروع ہو گئی۔ امریکا کے پاس وسائل تھے جبکہ دوسری طرف اسلامی امارت افغانستان کے پاس اتنے وسائل اس لیے نہیں تھے کیونکہ امریکا کے بہ نسبت افغانستان ایک چھوٹا اور کمزور ملک تھا اور اس سے پہلے وہ سوویت اتحاد سے ایک عظیم جنگ کرچکا تھا جس سے افغانستان کمزور ہوا تھا۔ پاکستان بھی امریکا کیخلاف اسلامی امارت افغانستان کی مدد کرتا رہا لیکن آخر کار اسلامی امارت ختم ہو گئی اور ملا عمر اور ان کے ساتھیوں کے ہاتھ سے افغانستان کی حکومت چلی گئی۔ امریکہ اور طالبان کے مابین جنگ 2001ء میں شروع ہوئی تھی اور 2021ءتک جاری رہی۔

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. Gary Marcin (1998)۔ "The Taliban"۔ King's College۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 ستمبر 2011 
  2. "Role of the Taliban's religious police"۔ 09 اگست 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جون 2015