بھارتی انتخابات

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سلسلہ مضامین
سیاست و حکومت
بھارت

بھارت میں وفاقی حکومت ہے جس کے افسران وفاقی، ریاستی اور مقامی سطح پر انتخابات کے ذریعہ منتخب ہوتے ہیں۔ قومی سطح پر سربراہ حکومت وزیر اعظم ہوتا ہے جسے بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں لوک سبھا کے اراکین منتخب کرتے ہیں۔[1] انتخابات کے انعقاد و انتظام کی مکمل ذمہ داری بھارتی الیکشن کمیشن کے سپرد ہے جسے آئین ہند کے تحت قائم کیا گیا ہے۔ لوک سبھا کے تمام اراکین (ان میں وہ دو ارکان مستثنی ہیں جنہیں براہ راست صدر جمہوریہ منتخب کرتا ہے) کو ہر پانچ سال میں ہونے والے عمومی انتخابات کے ذریعہ بالغ رائے دہندوں کے ووٹوں کی مدد سے منتخب کیا جاتا ہے۔[2] پارلیمنٹ کے ایوان بالا راجیہ سبھا کے ارکان کو بھارت کی متحدہ عمل داریوں اور صوبوں کی قانون ساز اسمبلیوں کے منتخب شدہ اراکین منتخب کرتے ہیں۔[3]

1951–52 میں ہونے والے عمومی انتخابات میں رائے دہندگان کی تعداد 17،32،12،343 تھی، جو 2014ء میں بڑھ کر 81،45،91،184 ہو گئی۔ 2004ء میں بھارتی انتخابات میں 670 ملین رائے دہندگان نے حصہ لیا (یہ تعداد دوسرے سب سے بڑے یورپی پارلیمانی انتخابات کے دوگنے سے زیادہ تھی) اور اس کے اخراجات 1989ء کے مقابلے میں تین گنا بڑھ کر $300 ملین ڈالر ہو گئے۔ ان انتخابات میں دس لاکھ سے زیادہ برقی ووٹنگ مشینوں کا استعمال کیا گیا۔ 2009ء کے انتخابات میں 714 ملین رائے دہندگان نے حصہ لیا (امریکا اور یورپی یونین کی مشترکہ تعداد سے بھی زیادہ)۔

رائے دہندگان کی بڑی تعداد کو دیکھتے ہوئے انتخابات کو کئی مراحل میں تقسیم کرنا ضروری ہو گیا لہذا 2004ء کے عمومی انتخابات میں چار مرحلے اور 2009ء کے انتخابات میں پانچ مرحلے تھے۔ انتخابات کے اس عمل میں مرحلہ وار طریقے سے کام کیا جاتا ہے۔ پہلے بھارتی الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوتا ہے، اس تاریخ سے سیاسی جماعتوں پر "مثالی ضابطہ اخلاق" کا اطلاق ہوتا ہے، پھر انتخابات مکمل ہونے کے بعد نتائج کا اعلان اور کامیاب امیدواروں کی فہرست ریاست یا مرکز کی عاملہ کے سربراہ کو سپرد کی جاتی ہے۔ نتائج کے اعلان کے ساتھ انتخابی عمل کی تکمیل ہوتی ہے اور نئی حکومت کا قیام عمل میں آتا ہے۔

قومی انتخابات کی فہرست[ترمیم]

راجیہ سبھا کے انتخابات (رائے دہندہ ← اسمبلی اور نامزدگی ← راجیہ سبھا)[ترمیم]

راجیہ سبھا کے ارکان بالواسطہ طور پر منتخب ہوتے ہیں اور یہ تقریباً مکمل طور پر علاحدہ علاحدہ ریاستوں کی اسمبلی کے ارکان کی جانب سے منتخب کیے جاتے ہیں، جبکہ 12 ارکان کی نامزدگی بھارت کا صدر کرتا ہے۔ عام طور پر اس میں بھارت کے وزیر اعظم کا مشورہ اور رضامندی شامل ہوتی ہے۔[4]

صدارتی انتخابات (لوک سبھا، راجیہ سبھا اور اسمبلی ← صدر)[ترمیم]

بھارت کے صدارتی انتخابات 5 سال کے لیے بالواسطہ طور پر کیے جاتے ہیں۔ ان کے لیے الیکشن منڈل کا استعمال کیا جاتا ہے جہاں لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے رکن اور بھارت کے تمام علاقوں اور ان کی قانون ساز اسمبلیوں کے ارکان اپنے ووٹ دیتے ہیں۔

نظام انتخابات[ترمیم]

بھارتی پارلیمنٹ میں صدر جمہوریہ اور دو ایوان شامل ہیں جو مقننہ کہلاتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے پانچ سالہ مدت کے لیے بھارت کے صدارتی انتخابات کرائے جاتے ہیں جن میں یونین اور ریاستی اسمبلیوں کے ارکان ووٹ دیتے ہیں۔

بھارتی پارلیمنٹ کے دو ایوان ہیں، لوک سبھا جس میں 545 ارکان ہوتے ہیں۔ 543 ارکان کا انتخاب پانچ برس کی مدت کے لیے ہوتا ہے جبکہ بقیہ دو ارکان کو اینگلو بھارتی برادری کی نمائندگی کے لیے منتخب کیا جاتا ہے۔ 550 ارکان کا انتخاب اکثریتی انتخابات کے نظام کے تحت ہوتا ہے۔

ریاستی کونسلوں (راجیہ سبھا) میں 245 ارکان ہوتے ہیں جن میں 233 ارکان چھ سال کے لیے منتخب ہوتے ہیں، جن میں سے ہر دو سال میں ایک تہائی سبکدوش ہو جاتے ہیں۔ ان ارکان کا انتخاب ریاست اور مرکز (یونین) کے زیر انتظام علاقوں کے ارکان اسمبلی کی جانب سے کیا جاتا ہے۔ منتخب شدہ ارکان کا انتخاب متناسب نمائندگی کے نظام کے تحت ہوتا ہے۔ بارہ نامزد ارکان کو عام طور پر نامور فنکاروں (بشمول اداکار)، سائنسدانوں، قانون دانوں، کھلاڑیوں، تاجروں، صحافیوں اور عام لوگوں میں سے منتخب کیا جاتا ہے۔

تاریخ[ترمیم]

لوک سبھا عوامی نمائندوں پر مشتمل ہوتی ہے جنہیں بالغ رائے دہندگی کی بنیاد پر براہ راست انتخابات کے ذریعہ منتخب کیا جاتا ہے۔ آئین ہند میں مذکور ایوان کی زیادہ سے زیادہ صلاحیت 552 ارکان کی ہے جن میں سے 530 ارکان ریاستوں کی اور 20 ارکان مرکز کی نمائندگی کرتے ہیں نیز دو رکن اینگلو بھارتی برادریوں کی نمائندگی کے لیے صدر کی جانب سے نامزد کیا جاتا ہے؛ ایسا اس وقت کیا جاتا ہے جب صدر جمہوریہ کو محسوس ہو کہ اس برادری کی ایوان میں نمائندگی ناکافی ہے۔

تاریخ انتخابات اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی یا اتحاد وزیر اعظم
1 1952ء کانگریس جواہر لعل نہرو
2 1957ء کانگریس جواہر لعل نہرو
3 1962ء کانگریس جواہر لعل نہرو، گلزاری لال نندا، لال بہادر شاستری، اندرا گاندھی
4 1967ء کانگریس اندرا گاندھی
5 1971ء کانگریس اندرا گاندھی
6 1977ء جنتا پارٹی مورار جی دیسائی، چرن سنگھ
7 1980ء کانگریس اندرا گاندھی، راجیو گاندھی
8 1984ء کانگریس راجیو گاندھی
9 1989ء قومی محاذ وی پی سنگھ، چندر شیکھر
10 1991ء کانگریس نرسمہا راؤ
11 1996ء متحدہ محاذ اٹل بہاری واجپائی، ایچ ڈی دیوے گوڑا، اندر کمار گجرال
12 1998ء این ڈی اے اٹل بہاری واجپائی
13 1999ء این ڈی اے اٹل بہاری واجپائی
14 2004ء یو پی اے منموہن سنگھ
15 2009ء یو پی اے منموہن سنگھ
16 2014ء این ڈی اے نریندر مودی
17 2019ء این ڈی اے نریندر مودی

سیاسی جماعتیں[ترمیم]

انڈین نیشنل کانگریس کے اثرات پہلی بار 1977ء میں ماند پڑے جب اندرا گاندھی کی قیادت میں کانگریس کو دیگر تمام بڑی جماعتوں کے اتحاد سے شکست کا سامنا کرنا پڑا، یہ تمام جماعتیں 1975ء-1977ء کی متنازع ایمرجنسی کے نفاذ کی مخالفت کر رہی تھیں۔ اسی طرح وشوناتھ پرتاپ سنگھ کی قیادت میں ایک اتحاد 1989ء میں بدعنوانی کے ملزم راجیو گاندھی کو شکست دے کر اقتدار میں داخل ہوا تاہم اسے 1990ء میں اقتدار سے ہٹنا پڑا۔

1992ء میں بھارت میں اب تک چلی آ رہی ایک جماعت کے غلبے والی سیاست نے اتحادی نظام کا راستہ سجھایا جس میں کوئی ایک جماعت حکومت بنانے کے لیے پارلیمنٹ میں اکثریت کی امید نہیں رکھ سکتی اور اسے دیگر جماعتوں کے ساتھ اتحاد کرنا اور حکومت بنانے کے لیے اکثریت ثابت کرنا ہوتا تھا۔ اس سے مضبوط علاقائی جماعتوں کی اہمیت بڑھ گئی جو اب تک صرف علاقائی مطالبات تک محدود تھیں۔ ایک طرف جہاں تیلگو دیشم پارٹی اور انادرمک جیسی جماعتیں روایتی طور پر مضبوط علاقائی دعویدار بنی ہوئی تھیں وہیں دوسری طرف 1990ء کی دہائی میں لوک دل، سماج وادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی اور جنتا دل جیسی دیگر علاقائی جماعتوں کا بھی جنم ہوا۔ یہ جماعتیں روایتی طور پر علاقائی مطالبوں پر مبنی تھیں (مثلاً تلنگانہ راشٹر سمیتی) یا کلی طور ذات پر مبنی (مثلاً بہوجن سماج پارٹی جو دلتوں کی نمائندگی کا دعوی کرتی ہے)۔

الیکشن کمیشن[ترمیم]

بھارت میں انتخابات کا انعقاد آئین ہند کے تحت بنائے گئے بھارتی الیکشن کمیشن کی جانب سے کیا جاتا ہے۔ یہ مستحکم روایت ہے کہ ایک بار انتخابی عمل شروع ہو جائے تو کوئی عدالت الیکشن کمیشن کی جانب سے نتائج کا اعلان کیے جانے تک کسی بھی قسم کی مداخلت نہیں کر سکتی۔ انتخابات کے دوران میں الیکشن کمیشن کو بہت سے حقوق حاصل ہو جاتے ہیں اور بوقت ضرورت یہ شہری عدالت کی حیثیت سے بھی کام کر سکتا ہے۔

انتخابی عمل[ترمیم]

بھارت کے انتخابی عمل میں ریاستی اسمبلی انتخابات کے لیے کم از کم ایک ماہ کا وقت لگتا ہے جبکہ عمومی انتخابات کے لیے یہ مدت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ رائے دہندگان کی فہرست کی اشاعت انتخابات سے قبل ایک اہم کام ہے، یہ فہرست بھارتی انتخابات کے انعقاد کے لیے انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ آئین ہند کے مطابق کوئی بھی شخص جو بھارت کا شہری ہے اور اس کی عمر 18 سال سے زیادہ ہے، وہ اس فہرست میں رائے دہندہ کی حیثیت سے شامل ہونے کے قابل ہے اور یہ اس شخص کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس فہرست میں اپنا نام درج کرائے۔ عموماً امیدواروں کے پرچہ نامزدگی داخل کرنے کی آخری تاریخ سے ایک ہفتہ پہلے تک اس فہرست میں اندراج کی اجازت ہوتی ہے۔

انتخابات سے قبل[ترمیم]

انتخابات سے پہلے نامزدگی، رائے دہندگی اور ووٹ شماری کی تاریخوں کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اور انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے دن سے مثالی ضابطہ اخلاق نافذ ہو جاتا ہے۔

کسی بھی پارٹی کو انتخابی مہم اور تشہیر کے لیے سرکاری وسائل کے استعمال کی اجازت نہیں ہے۔ ضابطہ اخلاق کے مطابق رائے دہندگی کے دن سے 48 گھنٹے پہلے انتخابی عمل بند کر دیا جانا چاہیے۔ بھارتی ریاستوں کے انتخابات سے پہلے کی سرگرمیاں انتہائی ضروری ہوتی ہیں۔ ضابطہ اخلاق کے مطابق انتخابی مہم کے لیے ایک امیدوار 10 چار پہیا گاڑی رکھ سکتا ہے جبکہ رائے دہندگی کے دن محض تین چار پہیا گاڑیوں کی اجازت ہے۔

رائے دہندگی کا دن[ترمیم]

رائے دہندگی (پولنگ) کے دن سے ایک دن پہلے انتخابی مہم ختم ہو جاتی ہے۔ سرکاری اسکولوں اور کالجوں کو رائے دہندگی کا مرکز بنایا جاتا ہے۔ پولنگ کرانے کی ذمہ داری ہر ضلع کے ضلع مجسٹریٹ کی ہوتی ہے۔ بہت سے سرکاری ملازمین کو رائے دہندگی کے مراکز میں مقرر کیا جاتا ہے۔ انتخابات میں جعل سازی روکنے کے لیے ووٹ کی پیٹیوں کی بجائے الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں (ای وی ایم) کا استعمال زیادہ تعداد میں کیا جاتا ہے، جو بھارت کے کچھ حصوں میں زیادہ مقبول ہے۔ رائے دہندگان کی انگشت شہادت پر میسور پینٹ اور وارنش لمیٹڈ کی تیار کردہ انمٹ سیاہی لگادی جاتی ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ یہ شخص اپنی رائے دے چکا ہے۔ سنہ 1962ء کے عمومی انتخابات کے بعد سے فرضی رائے دہندگی کے انسداد کے لیے اس طریقہ کا استعمال کیا جاتا ہے۔

انتخابات کے بعد[ترمیم]

رائے دہندگی مکمل ہونے کے بعد ای وی ایم کو بھاری سیکورٹی کے درمیان میں ایک مضبوط کمرے میں جمع کیا جاتا ہے۔ انتخابات کے مختلف مرحلے پورے ہونے کے بعد ووٹ شماری کا دن مقرر ہوتا ہے۔ عام طور پر ووٹ شماری میں کچھ گھنٹوں کے اندر فاتح جماعت/امیدوار کا پتہ چل جاتا ہے۔ سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے امیدوار کو انتخابی حلقہ کا فاتح قرار دیا جاتا ہے۔

سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت یا اتحاد کو صدر جمہوریہ کی جانب سے نئی حکومت بنانے کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔ تاہم کسی بھی پارٹی یا اتحاد کے لیے ایوان میں ووٹوں کی سادہ اکثریت (کم از کم 50٪) حاصل کرکے اعتماد کے ووٹوں کے دوران میں ایوان (لوک سبھا) میں اپنی اکثریت ثابت کرنا ضروری ہے۔

رائے دہندگان کا اندراج[ترمیم]

بھارت کے کچھ شہروں میں آن لائن ووٹر رجسٹریشن فارم حاصل کرکے انھیں قریب ترین انتخابی دفتر میں جمع کیے جا سکتے ہیں۔ جاگور ڈاٹ کام جیسی ویب سائٹیں اس اندراج کی معلومات حاصل کرنے کا اچھا ذریعہ ہیں۔

فاصلاتی رائے دہندگی[ترمیم]

اب تک بھارت میں فاصلاتی رائے دہندگی کا انتظام نہیں ہے۔ عوامی نمائندگی ایکٹ (آر پی اے) 1950ء کی دفعہ 19 کے تحت ایک شخص کو اپنی رائے کے اندراج کا حق ہے اگر اس کی عمر 18 سال سے زیادہ ہے اور وہ حلقہ میں رہنے والا "عام شہری" ہے، یعنی چھ ماہ یا زائد عرصے سے موجودہ پتے پر رہ رہا ہو۔ مذکورہ ایکٹ کی دفعہ 20 بھارتی تارکین وطن کو رائے دہندگان کی فہرست میں اپنا نام درج کرانے کے لیے نااہل قرار دیتی ہے۔ لہذا پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں غیر مقیم بھارتی کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔

اگست 2010ء میں عوامی نمائندگی بل (ترمیم شدہ) 2010ء کو لوک سبھا میں 24 نومبر 2010ء کے بعد کی گزٹ اطلاعات کے ساتھ منظور کر دیا گیا، اس بل میں غیر مقیم بھارتی کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اب غیر مقیم بھارتی بھارت کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے قابل ہو جائیں گے، لیکن رائے دہندگی کے وقت ان کا بنفس نفیس موجود ہونا ضروری ہے۔ بہت سی سماجی تنظیموں نے حکومت پر زور دیا تھا کہ فاصلاتی رائے دہندگی کے نظام کے ذریعہ غیر مقیم بھارتیوں کو ووٹ ڈالنے کے لیے مذکورہ ایکٹ میں ترمیم کرنا چاہیے۔ پیپل فار لوک ستا اس بات پر زور دیتی رہی ہے کہ غیر مقیم بھارتیوں کی ووٹنگ کے لیے انٹرنیٹ اور ڈاک ووٹ کا استعمال کیا جانا چاہیے۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Durga D. Basu (2009)۔ "11"۔ Introduction to the Constitution of بھارت۔ Nagpur, بھارت: LexisNexis Butterworths Wadhwa Nagpur۔ صفحہ: 199۔ ISBN 9788180385599۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 نومبر 2016 
  2. "Lok Sabha: Introduction"۔ parliamentofindia.nic.in۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 اگست 2011 
  3. Rajya Sabha Secretariat۔ "Council of States (Rajya Sabha)"۔ The national portal of بھارت۔ Parliament of بھارت۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 مئی 2012 
  4. http://rajyasabha.nic.in/rsnew/about_parliament/rajya_sabha_introduction.asp

بیرونی روابط[ترمیم]