خواجہ فخر جہاں
خواجہ فخر جہاں | |
---|---|
پیدائش | فخر الدین |
وفات | 1872ء[1] چاچڑاں شریف |
قلمی نام | احدی |
نمایاں کام | تصانیف دیوان احدی، فخرالحسن |
رشتہ دار | چھوٹے بھائی اور مریدحضرتخواجہ غلام فرید |
غلام فخر الدین فخر جہاں اوحدی یہ خواجہ غلام فرید چاچڑاں شریف کے مرشد اور بڑے بھائی تھے۔
تعارف
[ترمیم]خواجہ فخرجہاں ایک اعلٰی مرتبت صوفی بزرگ تھے۔ آپ کا شمار اپنے دور کے چیده عالموں میں ہوتا تھا۔ آپ خواجہ غلام فریدؒ کے بڑے بھائی اور پیرو مرشد تھے۔ آپ کا تخلص "اوحدی" تھا۔ آپ کا نظریہ تصوف ہمہ اوست تھا۔ آپ نے شاعری بھی کی ہے اور آپ کی شاعری کامواد اگرچہ بہت کم ہے لیکن اس کا معیار بہت اعلٰی ہے۔ آپ بچپن سے ہی ذوق سخن رکھتے تھے۔ آپ نے اپنے والد خواجہ خدا بخش کی وفات کے بعد خلافت کی ذمہ داری سنبھالی آپ کی کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی اور چھوٹے بھائی خواجہ غلام فرید کو اپنی سر پرستی میں لے لیا۔ آپ نے نہ صرف خواجہ صاحب کی جسمانی پروش کی بلکہ آپ نے ان کی روحانی نشو و نما بھی کی۔ آپ نے اپنی زیر نگرانیخواجہ صاحب کی سلوک کی منزلیں طے کروائیں۔ خواجہ صاحب کی خواہش پر آپ نے ان کی بیعت لی۔ آپ صاحب کردار اور صاحب کمال شخصیت تھے۔ آپ نے 74سال کی عمر پائی۔ کوٹ مٹھن میں ابدی راحت فرما رہے ہیں۔
ولادت
[ترمیم]آپ ولادت 1797ء میں ہوئی۔ آپ کا نام فخر الدین ہے اور لقب فخر جہاں ہے۔ آپ کا تخلص احدی ہے۔[2]
کلام
[ترمیم]آپ کا کلام فارسی زبان میں ہے اور کئی شہره آفاق غزلیں کہی ہیں آپ کے کلام کے مجموعہ کانام دیوان اوحدی ہے اس کتا ب میں 320غزلیں ہیں۔ [3]
خلافت
[ترمیم]آپ اپنے والد خواجہ خدا بخش (1853ء) کی رحلت کے بعد خلافت کے رتبہ پر فائز ہوئے۔
تصانیف
[ترمیم]آپ نے کئی کتب تصانیف کی ہیں آپ کا کلام فارسی میں ہے جس کا نام دیوان اوحدی ہے اور آپ نے تصور پرفخرالحسن کے عنوان سے قلم کاری ہے۔۔ دیوان اوحدی کا سرائیکی زبان میں ترجمہ حافظ قادربخش متیلا نے کیا جبکہ اردو ترجمہ مجاہد جتوئی نے کیا ہے۔۔
مذہبی خدمات
[ترمیم]آپ نے کوٹ مٹھن کی سیلاب بردگی کے بعد موجودہ دربار عالیہ کی تعمیر کروائی۔ ایک مسجد اور مدرسہ قائم کیا۔ جہاں عبادت کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم اور رشدو ہدایت کا سلسلہ پھر سے قائم کیا۔ مسافر خانہ طلبہ کی رہائش کے لیے کمرے تعمیر کیے گئے۔
وصال
[ترمیم]مولاناخواجہ فخرجہاں کا اگست 1871ء میں انتقال ہو گیا۔ ان کی رحلت کے بعد ان کی خدمات کو خواجہ غلام فرید آگے بڑھایا۔ جب خواجہ صاحب کی دستار بندی کی گئی صادق الاخبار بہاولپور کے ایڈیٹر سید مہر شاہ نے یہ قطع لکھا:
- صاحب عرفان زمانے فخر دیں سمت بقا عزیمت نمود
- ہا تف غیب از پئی تاریخ او ادخل خلدی باید گفت زود[4]
خواجہ صاحبؒ کی عقیدت
[ترمیم]خواجہ فخرجہاں کے ساتھ حضرت خواجہ غلام فریدؒ والہانہ اورعقیدت ومحبت رکھتے تھے جس کا اعتراف انہونے اپنی شاعری میں کیا۔
کتھے حسن ؓ ،کتھے حسین ؓ شہید بنے
کتھے مرشد فخر جہانؒ آیا
ایک اور کافی میں ارشاد فرماتے ہیں
فخر جہاںؒ قبول کیتوسے
کل واقف اسرار تھیوسے
دیوان فرید میں ان کی شان میں عرض کرتے ہیں
گھول گھتاں سوہنے فخرجہاںؒ تو سب جنت حورقصور
فخر الدین مٹھل دیاں تن من کیتا چوروچور
اہم کارنامہ
[ترمیم]1862ء میں کوٹ مٹھن سیلاب برد ہو گیا اس کے ساتھ ہی تقریباً 150 سے قائم مکتب بھی صفحہ ہستی سے مٹ گیا آپ نے موجودہ دربارفرید کے مقام پر پھر مدرسہ قائم کر کے تدریس وتعلیم کا سلسلہ شروع کیا اور آپ کے دورحیات میں دربار فریدکی تعمیر شروع ہوئی بعد ازاں دربار فرید کے مغرب میں کوٹ مٹھن نئے سرے سے بسا گیا۔[5]
وابستگی
[ترمیم]پاکستان بھر میں بہت سے مقامات، عمارتیں، پل، لائبریریاں، پارکس اور دیگر کئی چیزوں کے نام آپ سے وابستہ ہیں جن کا مختصر احوال قلم بند کیا جا رہا ہے۔
فخر جہاں پارک
[ترمیم]یہ پارک راجن پور شہر میں واقع ہے۔ اس پارک کی تعمیرمیں سابق ڈی سی او راجن پور غازی امان الله نے کلیدی کردار ادا کیا۔ اس سے ضلعی ہیڈ کواٹر راجن پور میں کوئی تفریحی اور سیرگاه نہیں تھی۔ عوام نے اس خوبصورت اور بہترین پارک کاخیر مقدم کیا۔
باب فخر جہاں
[ترمیم]کوٹ مٹھن قائم ہونے کے ابتدائی دور میں بیرونی راستے سے ملحقہ گلی بازار میں بڑے بڑے دروازے ہوتے تھے جو سر شام بند کر دیے جاتے تھے تاکہ چور ڈاکو یا حملہ آوروں سے بچا جا سکے آج دروازے اور محراب زمانے کی گردشوں کی زد میں آکر نام و نشان کھو چکے ہیں ماسوائے باب فخرجہاں کے .اگرچہ آج دروازہ موجود نہیں لیکن محراب موجود ہے جس پر باب فخرجہاں کنندہ ہے شان مصطفیٰ میں عربی زبان میں تحریر لکھی ہوئی ہے اور خواجہ فرید کا شعر بھی درج ہے
خلقت کوں جیندی گول اے
ہر دم فرید دے کول اے
ترجمہ:مخلوق کو جس کی تلاش ہے
وہ ہروقت فرید کے پاس ہے
فخرمائنر
[ترمیم]فخرمائنر کوٹ مٹھن کی شمال مشرق، مشرق، مشرق جنوب کی جانب سے سیلاب اور رودھ کوہی سے بچاؤ کا بند ہے۔ یہ بند کمند کی شکل کی طرح ہے۔ بعض مقام پر اس کا فاصلہ ایک کلومیٹر تک ہے اور اس کی لمبائی تین کلومیٹر ہے اور یہ بستی میانی سے تھوڑا پہلے اختتام پزیر ہو جاتی ہے۔ یہ شہر کو سیلابسے بچاؤ کا آخری حصار بھی ہے۔ اس بند کے ساتھ ایک نالا ہے اس نالا میں پل قادرہ سے پانی چھوڑا جاتا ہے جس سے زرعی رقبوں کو سیراب کیا جاتا ہے۔