سورہ السجدہ
سورة السجدة al-Sajda سورت السجدة | |
---|---|
----
| |
دور نزول | مکی |
عددِ پارہ | 21 واں پارہ |
اعداد و شمار | 3 رکوع, 30 آیات, 374 الفاظ, 1,523 حروف |
قرآن مقدس |
---|
متعلقہ مضامین |
قرآن مجید کی 32 ویں سورت جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کے مکی دور میں نازل ہوئی۔ اس میں 3 رکوع اور 30 آیات ہیں۔
نام
آیت 15 میں سجدہ کا جو مضمون آیا ہے اسی کو سورت کا عنوان قرار دیا گیا ہے۔
زمانۂ نزول
اندازِ بیاں سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کا زمانۂ نزول مکہ کا دورِ متوسط ہے اور اُس کا بھی ابتدائی زمانہ، کیونکہ اس کلام کے پس منظر میں ظلم و ستم کی وہ شدت نظر نہیں آتی جو بعد کے ادوار کی سورتوں کے پیچھے نظر آتی ہے۔
موضوع اور مباحث
سورت کا موضوع توحید، آخرت اور رسالت کے متعلق لوگوں کے شبہات کو رفع کرنا اور ان تین حقیقتوں پر ایمان کی دعوت دینا ہے۔ کفار مکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے متعلق آپس میں چرچے کر رہے تھے کہ یہ شخص عجیب عجیب باتیں گھڑ گھڑ کر سنا رہا ہے۔ کبھی مرنے کے بعد کی خبریں دیتا ہے اور کہتا ہے کہ مٹی میں رَل مِل جانے کے بعد تم پھر اٹھائے جاؤ گے اور حساب کتاب ہوگا اور دوزخ ہوگی اور جنت ہوگی۔ کبھی کہتا ہے کہ یہ دیوی دیوتا اور بزرگ کوئی چیز نہیں ہیں، بس اکیلا ایک ہی خدا معبود ہے۔ کبھی کہتا ہے کہ میں خدا کا رسول ہوں، آسمان سے مجھ پر وحی آتی ہے اور یہ کلام جو میں تم کو سنا رہا ہوں، میرا کلام نہیں بلکہ خدا کا کلام ہے۔ یہ عجیب افسانے ہیں جو یہ شخص ہمیں سنا رہا ہے، انہی باتوں کا جواب اس سورت کا موضوعِ بحث ہے۔
اس جواب میں کفار سے کہا گیا ہے کہ بلا شک و ریب یہ خدا ہی کا کلام ہے اور اس لیے نازل کیا گیا ہے کہ نبوت کے فیض سے محروم، غفلت میں پڑی ہوئی ایک قوم کو چونکایا جائے۔ اسے تم افتراء کیسے کہہ سکتے ہو جبکہ اس کا منزل من اللہ ہونا ظاہر و باہر ہے۔
پھر ان سے فرمایا گیا ہے کہ یہ قرآن جن حقیقتوں کو تمھارے سامنے پیش کرتا ہے، عقل سے کام لے کر خود سوچو کہ ان میں کیا چیز اچھنبے کی ہے۔ آسمان و زمین کے انتظام دیکھو، خود اپنی پیدائش اور بناوٹ پر غور کرو، کیا یہ سب کچھ اس تعلیم کی صداقت پر شاہد نہیں ہے جو اس نبی کی زبان سے اس قرآن میں تم کو دی جا رہی ہے؟ یہ نظام کائنات توحید پر دلالت کر رہا ہے یا شرک پر؟ اور اس سارے نظام کو دیکھ کر اور خود اپنی پیدائش پر نگاہ ڈال کر کیا تمھاری عقل یہ گواہی دیتی ہے جس نے اب تمھیں پیدا کر رکھا ہے وہ پھر تمھیں پیدا نہ کر سکے گا؟
پھر عالمِ آخرت کا ایک نقشہ کھینچا گیا ہے اور ایمان کے ثمرات اور کفر کے نتائج و عواقب بیان کرکے یہ ترغیب دلائی گئی ہے کہ لوگ برا انجام سامنے آنے سے پہلے کفر چھوڑ دیں اور قرآن کی اس تعلیم کو قبول کر لیں جسے مان کر خود ان کی اپنی ہی عاقبت درست ہوگی۔
پھر ان کو بتایا گیاہے کہ یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ وہ انسان کے قصوروں پر یکایک آخری اور فیصلہ کن عذاب میں اسے نہیں پکڑ لیتا بلکہ اس سے پہلے چھوٹی چھوٹی تکلیفیں، مصیبتیں، آفات اور نقصانات بھیجتا رہتا ہے، ہلکی ہلکی چوٹیں لگاتا رہتا ہے تاکہ اسے تنبیہ ہو اور اس کی آنکھیں کھل جائیں۔ آدمی اگر ان ابتدائی جوٹوں ہی سے ہوش میں آ جائے تو اس کے اپنے حق میں بہتر ہے۔
پھر فرمایا کہ دنیا میں یہ کوئی پہلا اور انوکھا واقعہ تو نہیں ہے کہ ایک شخص پر خدا کی طرف سے کتاب آئی ہو۔ اس سے پہلے آخر موسیٰ علیہ السلام پر بھی تو کتاب آئی تھی جسے تم سب لوگ جانتے ہو۔ یہ آخر کون سی ایسی بات ہے کہ اس پر تم لوگ یوں کان کھڑے کر رہے ہو یقین مانو کہ یہ کتاب خدا ہی کی طرف سے آئی ہے اور خوب سمجھ لو کہ اب پھر وہی کچھ ہوگا جو موسیٰ کے عہد میں ہو چکا ہے۔ امامت و پیشوائی اب انہی کو نصیب ہوگی جو اس کتاب الٰہی کو مان لیں گے، اسے رد کر دینے والوں کے لیے ناکامی مقدر ہو چکی ہے۔
پھر کفار مکہ سے کہا گیا ہے کہ اپنے تجارتی سفروں کے دوران میں تم جن پچھلی تباہ شدہ قوموں کی بستیوں پر سے گذرتے ہو ان کا انجام دیکھ لو، کیا یہی انجام تم اپنے لیے پسند کرتے ہو؟ ظاہر سے دھوکا نہ کھاؤ۔ آج تم دیکھ رہے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بات چند لڑکوں اور چند غلاموں اور غریب لوگوں کے سوا کوئی نہیں سن رہا ہے اور ہر طرف سے ان پر طعن اور ملامت اور پھبتیوں کی بارش ہو رہی ہے۔ اس سے تم یہ سمجھ بیٹھے ہو کہ یہ چلنے والی بات نہیں ہے، چار دن چلے گی اور پھر ختم ہو جائے گی لیکن یہ محض تمھاری نظر کا دھوکا ہے۔ کیا یہ تمھارا رات دن کا مشاہدہ نہیں ہے کہ آج ایک زمین بالکل بے آب و گیاہ پڑی ہے جسے دیکھ کر گمان تک نہیں ہوتا کہ اس کے پیٹ میں روئیدگی کے خزانے چھپے ہوئے ہیں، مگرکل ایک ہی بارش میں وہ اس طرح پھبک اٹھتی ہے کہ اس کے چپے چپے سے نمو کی طاقتیں پھوٹنی شروع ہو جاتی ہیں۔
خاتمۂ کلام پر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خطاب کرکے فرمایا گیا ہے کہ یہ لوگ تمھاری باتیں سن کر مذاق اڑاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ حضرت، یہ فیصلہ کن فتح آپ کو کب نصیب ہونے والی ہے، ذرا تاریخ تو ارشاد ہو۔ ان سے کہو کہ جب ہمارے اور تمھارے فیصلے کا وقت آ جائے گا اس وقت ماننا تمھارے لیے کچھ بھی مفید نہ ہوگا۔ ماننا ہے تو اب مان لو اورآخری فیصلے ہی کا انتظار کرنا ہے تو بیٹھے انتظار کرتے رہو۔