فتاویٰ ہندیہ (عالمگیری)
فتاوی عالمگیری کا مخطوطہ | |
مصنف | اورنگزیب عالمگیر اور مختلف ممتاز عالم دین |
---|---|
مترجم | کفیل الرحمن نشاط عثمانی (اردو) |
زبان | عربی زبان اور فارسی زبان |
صنف | شریعت (حنفی) |
تاریخ اشاعت | 17 ون صدی |
فتاویٰ ہندیہ: فتاویٰ عالمگیری کے نام سے مشہور ترین کتاب ہے جو مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کے حکم پر تالیف کی گئی۔
فتاویٰ عالمگیری کی ضرورت
[ترمیم]یہ حقیقت ہے کہ عالمگیر کے عہد حکومت سے قبل اسلامی دنیا میں فقہ کی کئی مستند کتابیں رائج تھیں، لیکن برصغیر پاک و ہند تو درکنار پوری اسلامی دنیا میں فقہ حنفی میں کوئی ایسی کتاب موجود نہ تھی جس سے ایک عام مسلمان آسانی کے ساتھ کسی مسئلہ کو اخذ کرسکے اوراحکام شرعیہ سے بخوبی واقف ہو سکے، خود اورنگ زیب کو اس کا خاص خیال تھا کہ تمام مسلمان ان دینی مسائل پر عمل کیسے کریں جنہیں فقہ حنفی کے علما و اکابر واجب العمل سمجھتے ہیں، لیکن مشکل یہ تھی کہ علما فقہا کے اختلاف رائے کے سبب یہ مسائل فقہی کتابوں اورفتاویٰ کے مجموعوں میں کچھ اس طرح مل گئے تھے کہ جب تک کسی شخص کو فقہ میں مہارت تامہ حاصل نہ ہو اور بہت سی مبسوط کتابیں اسے میسر نہ ہو۔ صریح مسائل، نیز حکم صحیح کا معلوم کرنااس کے لیے ناممکن تھا۔ اس خیال کے پیش نظر اورنگزیب عالمگیرنے علمائے دہلی کے علاوہ سلطنت کے اطراف سے ایسے علما جمع کیے جنہیں علم فقہ میں کافی دستگاہ تھی اورانہیں حکم دیا کہ مختلف کتابوں کی مدد سے ایک ایسی جامع اور مستند کتاب تیار کریں جس میں نہایت تحقیق و تدقیق کے ساتھ یہ تمام مسائل جمع کیے جائیں تاکہ قاضی اور مفتی نیز دیگر تمام مسلمان علم فقہ کی بہت سی کتابیں جمع کرنے اور ان کی ورق گردانی سے بے نیاز ہوجائیں۔
فتاویٰ کے مدونین
[ترمیم]جب اورنگ زیب عالمگیرنے اس امر کا عزم کر لیا اور فقہ حنفی کی ایک جامع کتاب کی شدید ضرورت محسوس کی تو پہلے انھوں نے ملک کے مشہور علما و فقہا کو فرمان کے ذریعے شاہی دربار میں طلب کیا۔ گفتگو کے بعد اس عظیم الشان کام کی انجام دہی کے لیے باقاعدہ کمیٹی تشکیل دی گئی، اسے چار حصوں میں تقسیم کیا گیا، اس علمی و تحقیقی کمٹی کے صدر شیخ نظام برہان پوری (1092ھ/ 1681ء) ملا نظام صدر منتخب ہوئے اور بنفس نفیس بادشاہ نے کمیٹی کی سرپرستی قبول کی۔ جن چار افراد کو یہ کام ذمہ کیا گیا تھا ان کے ساتھ ساتھ دس دس افراد کو اور متعین کیا گیا تھا تاکہ یہ کام انتہائی دلجمعی اور حسن خوبی سے اختتام پذیرہو۔
- ایک چوتھائی کام قاضی محمد حسین جونپوری محتسب فوج کے سپرد کیا گیا
- ایک چوتھائی سید جلال الدین محمد مچھلی شہری کے
- ایک چوتھائی شیخ وجیہ الدین گوپاموی کے
- ایک چوتھائی محمد اکرم لاہوری کے حوالہ کیا جو شہزادہ کام بخش کے استاد تھے۔
- ملا حامد جونپوری
- سید محمد قنوجی
- شیخ رضی الدین بھاگلپوری
- محمد جمیل صدیقی
- قاضی علی اکبر الٰہ آبادی
- شیخ نظام الدین ثانی ٹھٹوی
- شیخ ابو الخیر ٹھٹوی
- علامہ ابو الواعظ ہرگامی
- شیخ احمد بن ابو منصور گوپامی
- شیخ محمد غوث کاکوروی
- فصیح الدین جعفری پھلواروی
- عبد الفتاح صمدانی
- قاضی عصمت اللہ لکھنوی
- قاضی محمد دولت فتحپوری
- محمد سعید سہالوی
- قاضی عبد الصمد دہلوی
- مفتی ابو البرکات دہلوی
- قاضی سید عنایت اللہ مونگھیری
- شاہ عبد الرحیم دہلوی
- شیخ محمد شفیع
- شیخ وجیہ الرب
- سید محمد فائق
- ابو الفرح سید معدن
- قاضی القضاۃ غلام محمد
مدت تالیف
[ترمیم]اس کی تالیف میں آٹھ سال کا عرصہ لگا جو 1074ھ سے لے کر 1082ھ تک ہے تقریباً 40 سے 50 علما نے اس میں خدمات سر انجام دیں کیونکہ شیخ وجیہ الدین گوپاموی کی مدد کے لیے 10 علما مامور تھے، اصل کتاب عربی میں تھی اس کے ترجمہ کے لیے چلبی عبد اللہ رومی کی خدمات لی گئیں۔
فتاویٰ کے مراجع
[ترمیم]جن کتابوں سے اس میں مدد لی گئی ہے ان کی فہرست کافی طویل ہے یہاں چند اہم اور خاص کتابیں یہ ہیں۔’’ہدایہ، قدوری، عنایہ، مبسوط، محیط برہانی، الجامع الكبير، محیط سرخسی، مختصر المعانی، فتح القدیر، بدائع الصنائع، البحر الرائق، غایۃ البیان، السراج الوہاج، الدر المختار، الکافی، قتیۃ المنیہ، برجندی، فتاویٰ قاضی خان، فتاویٰ تاتارخانیہ، التجنیس والمزید۔‘‘[1][2]
حوالہ جات
[ترمیم]فتاوي عالمگیر کے مؤلفین مولانا مجيب الله صاحب ندوی