اسرائیل میں دروز

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
اسرائیلی دروز
דְּרוּזִים יִשְׂרְאֵלִים
الدروز الإسرائيليون
کل آبادی
130,600 (2012)[1]
گنجان آبادی والے علاقے
 اسرائیل
زبانیں
مذہب
دروز
خود کی دروز شناخت بتانے والے، 2008ء
اسرائیلی دروز
  
94%
دیگر
  
6%
اسرائیلی دروز

اسرائیل میں دروز (عربی: الدروز الإسرائيليون، عبرانی: דְּרוּזִים יִשְׂרְאֵלִים‬) اسرائیل کی عربی النسل اقلیت کا ایک منفرد شناخت کا حامل مذہبی گروہ ہے۔ [2] سنہ 2012ء میں اسرائیل میں رہنے والے دروزوں کی کل تعداد 130600 تھی۔[1] گوکہ ان کا عقیدہ اسماعیلی مذہب سے وجود میں آیا ہے مگر ان کو مسلمان تصور نہیں کیا جاتا ہے۔ سنہ 1957ء میں حکومت اسرائیل نے دروزی رہنماؤں کی درخواست پر ان کو ایک الگ نسلی گروہ کی شناخت دی۔ دروز عربی زبان بولتے ہیں، اسرائیل کے باشندے ہیں اور اسرائیلی دفاعی فوج میں خدمات انجام دیتے ہیں۔ اس گروہ کے کئی ارکان کو اسرائیل کی سیاست میں اہم عہدے عطا کیے گئے ہیں۔[3] اسرائیل کے اعلان آزادی سے قبل دروز کو ایک علاحدہ مذہبی گروہ کے طور پر شناخت نہیں ملی تھی اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک ہوتا تھا۔ [4] اس وقت وہ ملک کے شمالی میں حصے میں رہتے تھے۔[5]

تاریخ[ترمیم]

دروز (عربی زبان میں درزي، جمع دروز، عبرانی زبان דְּרוּזִים‬، وہ خود کو الموحدین کہلواتے ہیں) ایک باطنی اور توحیدیت پر مبنی مذہبی گروہ ہے جو سوریہ، لبنان، اسرائیل اور اردن میں پایا جاتا ہے۔ اس مذہب کے عناصر اسلام، غناسطیت، نو افلاطونیت اور دیگر فلسفوں سے مل کر بنے ہیں۔ وہ خود کو اہل توحید یا موحدین کہتے ہیں۔ دروز مذہب کا سابق مذہبی رہنما امین طريف تھا جس کی وفات سنہ 1993ء میں ہوئی۔

1948ء عرب اسرائیل جنگ کے دوران میں اسرائیل سے تعلقات[ترمیم]

1947ء-1948ء تعہدی فلسطین خانہ جنگی کے دوران میں انتداب فلسطین میں بسے دروز جانبین (یہودی يشوب اور فلسطینی عرب اعلیٰ کمیٹی) کے دباؤ میں تھے اور یہود اور فلسطینی عرب کے مابین جنگ میں کچھ بھی فیصلہ کرنا ان کے لیے بہت مشکل تھا۔ پڑوسی ممالک سے معزز دروز افراد نے علاقہ کے دروزی گاؤں کا دورہ کیا اور غیر جانبداری کا مشورہ دیا۔ جنگ کے ابتدائی دنوں میں دالیۃ الکرمیل میں دروز کے تمام گاؤں کے بڑے بڑے لوگوں کا ایک جلسہ ہوا جس میں انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس جنگ میں شرکت نہیں کریں گے۔ جبل الدروز کے رہنماؤں نے اس فیصلے کی تائید کی۔ مگر ان کے درمیان میں کچھ اختلافات بھی تھے۔ وہ علاقے جہاں دروز اور مسلمان ساتھ ساتھ رہتے تھے جیسے عسفيا، شفا عمرو اور مغار اور ان میں فرقہ وارانہ جھگڑے تھے، حیفا کے قریب اور مغربی علاقے میں یہودی بستی جیسے گلیل، ان علاقوں کے رہنماؤں نے یہودیوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ حالانکہ عرب بستیوں کے درمیان میں رہنے والے دروز یہود کے زیادہ فکر مند تھے۔ اسرائیل کی یہودی ایجنسی نے جوش پالمون کو دروز کے ساتھ تعلقات ہموار کرنے کا ذمہ سونپا تھا تاکہ دروز عرب کمانڈروں کے ساتھ نہ مل جائیں۔[6]

جنگ کے دوران میں پروسی ممالک سے دروز رضاکاروں کی آمد[ترمیم]

جنگ کے دوران میں پڑوسی ممالک سے دروز کی ٹولیاں تعہدی فلسطین کے دروز گاؤں میں آتی تھیں تاکہ وہ دروز کا دفاع کر سکیں۔ جب عرب لیگ نے عرب لبریشن آرمی بنائی تو سوری فوجی کمانڈر شکیب وہاب نے استعفی دے دیا اور عرب لبریشن آرمی کے ٹکر کی ایک دروز بٹالین تیار کر لی۔ اس بٹالین میں زیادہ تر سوریہ اور لبنان کے مفلس دروز رضاکار شامل ہوئے۔ وہاب نے 500 آدمیوں کے ساتھ شفا عمرو میں دستک دی اور 30 مارچ 1948ء کو اپنا قبضہ جما لیا۔ عرب لبریشن آرمی کے کمانڈر فوزی القوزی نے چاہا کہ دروز بٹالین کو اپنے تحت سماریہ میں تعینات کر دے لیکن عرب لیگ نے حیفا کے دروز کی مدد سے ایک الگ بٹالین بنانے کا فیصلہ کیا جس میں عکہ کو خارج کر دیا۔ وہاب نے مغربی علاقوں کا دورہ کیا اور دروز گاؤں میں اپنے آدمی دوڑائے۔ جیسے ہی دروز رضاکار آئے، ان سے بات کرنے کی کوششیں کی گئیں تاکہ علاقائی دروز ان میں شامل نہ ہو جائیں۔ اسفیہ کے صدر نجیب منصور نے وہاب کی آمد کے متعلق گفتگو کرنے کے لیے حیفا کے رضاکاروں سے ملاقات کی۔ منصور یہ ماننے کو تیار نہیں تھا کہ علاقائی دروز رضاکاروں کی مخالفت کریں گے بلکہ اس نے وہاب کو یہودی رشوت کی پیشکش کی کہ وہ برطرف ہو جائے۔ [7]

دفاعی خدمت اور عوامی دفتر[ترمیم]

اسرائیلی دفاعی افواج اور اسرائیلی سیاست میں دروز کو اہم عہدے حاصل ہیں۔ دروز اور یہودی فوج کے درمیان میں ایک معاہدہ ہے جسے خونی معاہدہ کہا جاتا ہے، عبرانی میں اسے ברית דמים کہتے ہیں۔[8] اٹھارویں کنیست میں 5 دروز قانون سازوں کا انتخاب ہوا۔ دروز کی آبادی کو دیکھتے ہوئے یہ تعداد غیر معمولی تھی۔[9] رضا منصور، ایک دروز شاعر، مورخ اور سیاست دان، کہتے ہیں ”ہم واحد غیر یہود اقلیت ہیں جن کو فوج میں عہدہ ملا ہے۔ جنگجو اکائی اور بحیثیت افسر ہماری تعداد خود یہود سے زیادہ ہے۔ اسی لیے ہم قوم پرست اور وطن دوست باشندے ہیں۔“[10]

دروز صہیونیت[ترمیم]

اسرائیلی دفاعی فوج کا دروز کمانڈر
دروز سپاہی کی یادگار

1973ء میں امل ناصر الدین نے دروز صہیونیت کی بنیاد رکھی۔[11][12] ان کا مقصد دروز کو ریاست اسرائیل کی حمایت پر ابھارنا تھا۔[13] آج ہزاروں اسرائیلی دروز، دروز صہیونی تحریک کے کارکن ہیں۔[14]

2007ء میں كسرا-سميع کے میئر نابیہ الدین اسرائیل عرب کی تنظیم عدالہ کے ذریعے پیش کردہ اسرائیل کے کثیر ثقافتی دستور کو مسترد کر دیا اور کہا "ریاست اسرائیل ایک یہودی ریاست ہے اور ساتھ جمہوری بھی ہے۔ یہاں مساوات اور انتخابات کی وکالت کی جاتی ہے۔ ہم عدالہ کی ہر درخواست کو غیر موزوں جانتے ہیں اور مسترد کرتے ہیں"۔ انھوں نے مزید کہا “ان کے مطابق دروز اور سر کیشیائی باشندے اسرائیل کے اہم جز ہیں۔“ یہ ایک خونی معاہدہ ہے اور یہ معاہدہ زندگی کا ہے۔ ہم ریاست کے ماحول میں کوئی تبدیل پسند نہیں کریں گے۔ ہم نے ریاست کے قیام سے قبل ہی اپنی منزلیں متعین کر لی تھیں۔“[15] 2005 میں صہیونی تحریک میں 7000 دروز رجسٹرڈ تھے۔[14] 2009 میں اس تحریک نے ایک دروز صہیونی کانفرنس منعقد کی جس میں 17000 شرکا تھے۔ [16]

مذہب[ترمیم]

دروز اسکاؤٹ کا مقبرہ شعیب کے لیے مارچ

مذہب دروز مذہب اسلام سے نکلا ہے۔ باوجود یہ کہ اب یہ اسلام سے الگ ایک مختلف مذہب ہے اب بھی کچھ دروز خود کو مسلم مانتے ہیں۔ [حوالہ درکار] اس مذہب کی ابتدا 10 ویں اور 11ویں صدی میں مصر میں ہوئی تھی۔ ہندو اور یونانی فلسفے نے اسلام کے اصولوں میں دخل اندازی کی اور یہ مذہب وجود میں آگیا۔ مذہب دروز میں گھر واپسی کی اجازت نہیں ہے۔ کیونکہ دروز کا ماننا ہے کہ مذہب کی ابتدا میں پہلی نسل کو اس مذہب میں شمولیت کا اختیار اور موقع تھا۔ اور آج ہرایک اسی نسل کی پیداوار ہے۔ ابراہیمی عقیدے کی طرح دروز بھی ایک توحید پرست مذہب ہے اور کئی انبیا پر ایمان لاتا ہے۔ جیسے عیسی، یعقوب، محمد اور موسی۔ ان کے سب سے برگزیدہ پیغمبر موسی کے سسر شعیب ہیں۔ [17] دروز میں دو فرقے ہیں، ۔ ایک الجہال اور دوسرا العقال۔ الجہال کو مقدس کتاب دیکھنے کی اجازت نہیں ہے اور نہ ہی وہ مذہبی جلسوں میں شرکت کر سکتے ہیں۔ تقریباً 80 فیصد دروز الجہال سے آتے ہیں۔ العقال ایک خاص قسم کا لباس زیب تن کرتے ہیں اور ان ہی کا زور چلتا ہے۔ العقال میں بھی وہ 5 فیصد سب سے زیادہ طاقت ور اور اثر و رسوخ والے ہیں جو روحانی رہنما ہیں۔ اسلام ہی کی طرح دروز میں بھی شراب، سگریٹ اور سور حرام ہیں۔ ایک سے زیادہ شوہر ہا بیوی رکھنا سخت منع ہے۔ مرد و زن کو برابر تصور کیا جاتا ہے۔ اسرائیل میں آباد بہت سے دروز اسرائیلی سماج میں مکمل طور پر شرکت کرتے ہیں اور ان میں سے کئی افراد اسرائیلی دفاعی فوج میں خدمت انجام دیتے ہیں۔ [17] دروز موسی کے سسر یترو، ریول، ایک کنعانی چرواہا اور مدین کے بزرگ، کی بہت عزت کرتے ہیں۔ [18] کتاب خروج میں مذکور ہے کہ موسی کے سسر کو اولا ریول کہا جاتا تھا۔( کتاب خروج 2:18) پھر ان کا نام یترو ہو گیا۔ (کتاب خروج 3:1)۔ بائبل کی روایات کے مطابق یترو نے خروج کے زمانے میں صحرا اسرائیلیوں کی مد دکی تھی۔ انھوں نے توحید کو اختیار کیا مگر پھر اپنے لوگوں سے جا ملے۔ طبریہ کے نزدیکیترو کا مقبرہ دروز کے لیے سب سے مقدس مذہبی جگہ ہے جہاں وہ ہر سال اپریل میں جمع ہوتے ہیں۔۔[19] امین طریف 1928ء سے لے کر اپنی وفات 1993ء تک اسرائیل اور فلسطین میں دروز کے قاضی اور روحانی پیشوا تھے۔ دروز مذہب میں ان کو بہت اہمیت حاصل تھی اور ان کو سب سے بڑے روحانی پیشوا کا درجہ حاصل تھا۔ [20]

جنوری 2004ء مٰن موجودہ روحانی پیشوا شیخ موفق طریف نے تمام غیر یہود اسرائیلیوں کو سات احکام نوح -جس کا تذکرہ بائبل میں ہے- کے مشاہدے کے لیے بلایا۔ اور یہودیت کی ثقافت میں ایک اضافہ کیا۔ شفا عمرو کے ایک شہر گلیل کے میئر نے بھی دستاویز پر دستخط کیے۔ [19] ان کا مقصد نوح کے سات احکامات اور خالق باری نے طور سینا پر موسی کو جو احکامات دیے تھے، پر مبنی ایک بہتر دنیا بنانا ہے۔ [19]

آباد کادی[ترمیم]

دروز اسرائیل میں کئی کثیر مذہبی علاقوں جیسے ما قبل 1967 کے اسرائیل کے اسرائیل میں عرب علاقے، گلیل، کوہ کرمل اور سطح مرتفع گولان میں بہت سارے گاؤں میں رہتے ہیں۔ تفصیل ذیل میں ملاحظہ ہو:[حوالہ درکار]

ما قبل 1967 اسرائیل[ترمیم]

مرتفع گولان[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب "Sources of Population Growth, by District, Population Group and Religion" (PDF)۔ CBS, Statistical abstract of Israel 2013۔ مرکزی ادارہ شماریات، اسرائیل۔ 2013۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جون 2014 
  2. 5 facts about Israeli Druze, a unique religious and ethnic group | Pew Research Center
  3. Religious Freedoms: Druze۔ Theisraelproject.org. اخذکردہ بتاریخ on 2012-01-23. آرکائیو شدہ 2012-09-14 بذریعہ archive.today
  4. Aharon Layish (1982)۔ Marriage, Divorce, and Succession in the Druze Family: A Study Based on Decisions of Druze Arbitrators and Religious Courts in Israel and the Golan Heights۔ Leiden, The Netherlands: E. J. Brill۔ صفحہ: 12۔ ISBN 90-04-06412-5۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 اکتوبر 2014 
  5. Dr. Naim Aridi۔ "The Druze in Israel: History & Overview"۔ Jewish Virtual Library۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جنوری 2012 
  6. Yoav Gelber، Independence Versus Nakba; Kinneret–Zmora-Bitan–Dvir Publishing, 2004, آئی ایس بی این 965-517-190-6، p. 115
  7. Yoav Gelber 2004, p. 116
  8. Kais Firro (2006-08-15)۔ "Druze Herev Battalion Fights 32 Days With No Casualties"۔ Arutz Sheva۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جولا‎ئی 2018 
  9. Yoav Stern (2011-08-03)۔ "Elections 2009 / Druze likely to comprise 5% of next Knesset, despite small population"۔ ہاریتز۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جنوری 2012 
  10. John Christensen (15 نومبر 2008)۔ "Consul General is an Arab Who Represents Israel Well"۔ Atlanta Journal-Constitution۔ 29 جون 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 جون 2010 
  11. Kais Firro (1999)۔ The Druzes in the Jewish state: a brief history۔ Social, Economic and Political Studies of the Middle East۔ Brill Academic Pub۔ صفحہ: 210۔ ISBN 978-9004112513 
  12. Mordechai Nisan (2002)۔ Minorities in the Middle East: a history of struggle and self-expression (2nd ایڈیشن)۔ McFarland & Company۔ صفحہ: 109۔ ISBN 978-0-7864-1375-1 
  13. Jacob M. Landau (1993)۔ The Arab minority in Israel, 1967–1991: political aspects۔ اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس۔ صفحہ: 46۔ ISBN 978-0-19-827712-5 
  14. ^ ا ب Eli Ashkenazi (3 نومبر 2005)۔ הרצל והתקווה בחגיגות 30 לתנועה הדרוזית הציונית [Herzl and hope in celebrating 30 (years of the) Druze Zionist movement]۔ ہاریتز (بزبان عبرانی)۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 اکتوبر 2014 
  15. Yoav Stern (1 مارچ 2007)۔ "Druze, Circassian forum: Israel should remain a Jewish state"۔ ہاریتز۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جون 2010 
  16. Samar Odeh (9 دسمبر 2009)۔ הציונות הדרוזית היא אהבת מדינת ישראל והתרומה למדינת ישראל ['Druze Zionism is the love of the state of Israel and contribution to the state of Israel'] (بزبان عبرانی)۔ Radio Haifa۔ 21 جولائی 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  17. ^ ا ب "Druze Religion"۔ International Fellowship of Christians and Jews. http://www.ifcj.org/learn/inside-israel/people-society/religions-of-israel/druze-religion.html آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ ifcj.org (Error: unknown archive URL)۔
  18. Harris, Stephen L.، Understanding the Bible۔ Palo Alto: Mayfield. 1985.
  19. ^ ا ب پ "Islam Religious Leader Commits to Noahide "Seven Laws of Noah""۔ Institute of Noahide Code۔ 8 اگست 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جولا‎ئی 2007 
  20. Nissim Dana (2003)۔ The Druze in the Middle East: Their Faith, Leadership, Identity and Status۔ Sussex Academic Press۔ صفحہ: 14۔ ISBN 978-1-903900-36-9