غازی علم دین (شہید)
علم الدین | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 4 دسمبر 1908 لاہور، پنجاب، برطانوی ہند (موجودہ پاکستان) |
وفات | 31 اکتوبر 1929ء (21 سال)[1] سینٹرل جیل میانوالی، پنجاب، برطانوی ہند (موجودہ پاکستان) |
وجہ وفات | پھانسی |
مدفن | میانی صاحب قبرستان |
طرز وفات | سزائے موت |
شہریت | برطانوی ہند |
مذہب | سنی اسلام |
عملی زندگی | |
پیشہ | نجارت |
الزام و سزا | |
جرم | قتل |
درستی - ترمیم |
غازی علم الدین شہید 3 دسمبر 1908ء[2] بمطابق 8 ذیقعد 1366ھ کو لاہور کے ایک علاقے کوچہ چابک سواراں (موجودہ نام محلہ سرفروشاں) میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام طالع مند تھا جو مغل قبیلے سے تھے اور ترکھان یعنی لکڑی کے کاریگر تھے۔ غازی علم دین نے ابتدائی تعلیم اپنے محلے کی تکیہ سادھواں کی مسجد اوربازار نوہریاں اندرون اکبری دروازہ بابا کالو کے مدرسہ میں حاصل کی۔ تعلیم سے فراغت کے بعد آپ نے اپنے آبائی پیشہ کو اختیار کیا اور اس فن میں اپنے والد اور بڑے بھائی میاں محمد امین کی شاگردی اختیار کی۔1928ء میں آپ کوہاٹ منتقل ہو گئے اور بنوں بازار میں اپنا فرنیچر سازی کا کام شروع کیا۔[3]
خاندان
[ترمیم]علم الدین کے آباء و اجداد سکھ مت کے پیروکار تھے، مغل فرمانروا جہانگیر کے دور میں اس وقت کے اولیاء اللہ کی صحبت میں رہ کر علم الدین کے ایک جد بابا لہنا سنگھ سندھو نے اسلام قبول کیا۔ جس پر انھیں سخت تکالیف کا سامنا کرنا پڑا، بعد میں عبادت و ریاضت میں لگے رہے اور عوام میں ان کو بھی ولی کا مقام ملا۔
بابا لہنا سنگھ وہاں سے ہجرت کر کے موضع پڈانہ میں آ کر آباد ہوئے۔ یہ اس وقت پاک بھارت سرحد پر واقع ہے۔ وہاں ہی، بابا لہنا کا وصال ہوا۔ آپ کا مزار بابا لہنو کے نام سے مشہور ہے۔ ان کے دو بیٹے تھے ایک کی اولاد آج بھی برکی ہڈیارہ کے علاقہ میں آباد ہے اور دوسرے کی لاہور میں۔
؛نسب: علم الدین ولد طالع مند ولد عبد الرحیم ولد جوایا برخوردار ولد عبد اللہ ولد عیسی ولد برخواردار ولد بابا لہنو۔[2]
پس منظر
[ترمیم]لاہور کے ایک ناشر راج پال نے بدنام زمانہ کتاب شائع کی۔ جس پر مسلمانوں میں سخت اضطراب پیدا ہو گیا۔ مسلمان رہنماؤں نے انگریز حکومت سے اس دل آزار کتاب کو ضبط کرنے اور ناشر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔مجسٹریٹ نے ناشر کو صرف چھ ماہ قید کی سزا سنائی۔ جس کے خلاف مجرم نے ہائی کورٹ میں اپیل کی جہاں جسٹس دلیپ سنگھ مسیح نے اس کو رہا کر دیا۔انگریز حکومت کی عدم توجہی پر مایوس ہوکر مسلمانوں نے متعدد جلسے جلوس منعقد کیے۔ مگر انگریز حکومت نے روایتی مسلم دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دفعہ 144 نافذ کرکے الٹا مسلمان رہنماؤں کو ہی گرفتار کرنا شروع کر دیا۔ مسلمانوں میں یہ احساس جاگزیں ہونے لگا کہ حکومت وقت ملعون ناشر کو بچانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور یہ کہ اس ملعون کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے ان کو خود ہی کچھ کرنا ہوگا۔
رد عمل
[ترمیم]لاہور کے ایک غازی خدابخش گجر نے 24 ستمبر 1928ء کو اس گستاخ کو اس کی دکان پر نشانہ بنایا تاہم یہ بھاگ کر اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوگيا۔ غازی خدابخش کو گرفتاری کے بعد 7 سال کی سزاسنائی گئی۔افغانستان کے ایک غازی عبدالعزیز خان نے لاہور آکر اس شاتم رسول کی دکان کا رخ کیا مگر یہ بدبخت دکان میں موجود نہیں تھا اس کی جگہ اس کا دوست سوامی ستیانند موجود تھا۔ غازی عبد العزیز نے غلط فہمی میں اس کو راج پال سمجھ کر اس پر حملہ کر کے ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کر دیا۔ غازی عبد العزیزکو حکومت وقت نے چودہ سال کی سزا سنائی۔راج پال ان حملوں کے بعد نہایت خوفزدہ رہنے لگا۔ حکومت نے اس کی پشت پناہی کرتے ہوئے دو ہندو سپاہیوں اور ایک سکھ حوالدار کو اس کی حفاظت پر متعین کر دیا۔ راج پال کچھ عرصے کے لیے لاہور چھوڑ کر کاشی، ہردوار اور متھرا چلا گیا مگر چند ماہ بعد ہی واپس آگیا اور دوبارہ اپنا کاروبار شروع کر دیا۔غازی علم دین کی غیرت ایمانی نے یہ گوارا نا کیا کہ یہ ملعون اتنی آسانی سے بچ نکلے آپ نے اس کو اس کے انجام تک پہنچانے کا فیصلہ کر لیا۔ آپ نے 29 اپریل 1929ء کو راج پال کی دکان کا رخ کیا۔ اس وقت یہ ملعون اپنی دکان پر ہی موجود تھا۔ آپ نے اس کو للکارتے ہوئے کہا "اپنے جرم کی معافی مانگ لو اور اس دل آزار کتاب کو تلف کردو اور آئندہ کے لیے ان حرکات سے باز رہو" راج پال نے اس کو گیدڑ بھپکی سمجھ کر نظر انداز کر دیا۔ اس پر آپ نے ایک ہی بھرپور وار میں اس بدبخت کا کام تمام کر دیا۔اس کی دکان کے ایک ملازم نے قریبی تھانے انارکلی کو خبر دی جس پر پولیس نے آپ کو گرفتار کر لیا۔ آپ اس واقعہ کے بعد نا صرف مکمل پرسکون رہے بلکہ آپ نے فرار ہونے کی بھی کوئی کوشش نہیں کی۔ آپ نے اس کارروائی کا اعتراف کیا اور گرفتاری پیش کردی۔مقدمہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ لوئس کی عدالت میں پیش ہوا جس نے ملزم پر فرد جرم عائد کر کے صفائی کا موقع دیے بغیر مقدمہ سیشن کورٹ میں منتقل کر دیا۔ آپ کی جانب سے سلیم بارایٹ لا پیش ہوئے جنھوں نے آپ کے حق میں دلائل دیے مگر نیپ نامی انگریز جج نے آپ کو مورخہ 22 مئی 1929ء کو سزائے موت کا حکم سنایا۔مسلمانان لاہور نے فیصلہ کیا کہ کہ سیشن کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی جائے اور اس مقدمے میں غازی کی وکالت کے لیے شہرہ آفاق وکیل محمد علی جناح کو نامزد کیا جائے۔ چنانچہ محمد علی جناح بمبئی سے لاہور تشریف لائے ان کی معاونت جناب فرخ حسین بیرسٹر نے کی۔ 15 جولائی 1929ء کو ہائی کورٹ کے دو جج نے فیصلہ سناتے ہوئے سیشن کورٹ کی سزا کو بحال رکھا۔ اور غازی کی اپیل خارج کردی۔اپیل خارج ہونے کی اطلاع جب جیل میں غازی کو ملی تو آپ مسکرا کر فرمایا" شکر الحمد للہ ! میں یہی چاہتا تھا۔ بزدلوں کی طرح قیدی بن کر جیل میں سڑنے کی بجائے تختہ دار پر چڑھ کر ناموس رسالت پر اپنی جان فدا کرنا موجب ہزار ابدی سکون و راحت ہے"مسلمان عمائدین نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف لندن کی پریوی کونسل میں اپیل دائر کی۔ اس اپیل کا مسودہ محمد علی جناح (جو بعد میں قائد اعظم کہلائے) کی زیر نگرانی تیار کیا گیا۔ مگر انگریز حکومت جو ایڈیشنل سیشن کورٹ سے ہائی کورٹ تک مسلم دشمنی کا مسلسل مظاہرہ کرتی آئی تھی نے اس اپیل کو بھی رد کر دیا۔
وصیت
[ترمیم]غازی کی اپنے رشتہ داروں کوجو وصیت فرمائی وہ قابل غور ہے۔
” | " میرے تختہ دار پر چڑھ جانے سے وہ بخشے نہیں جائیں گے‘ بلکہ ہر ایک اپنے اعمال کے مطابق جزا اور سزا کا حق دار ہوگا اور انہیں تاکید کی کہ وہ نماز نہ چھوڑیں اور زکوٰة برابر ادا کریں اور شرعِ محمدی پر قائم رہیں"۔ | “ |
شہادت
[ترمیم]31 اکتوبر 1929ء بروز جمعرات کو میانوالی جیل میں آپ کی سزا پر عمل درآمد کیا گیا۔
جسد خاکی کی ضبطگی
[ترمیم]آپ کی شہادت کے بعد انگریز حکومت نے آپ کے جسد خاکی کو قبضے میں رکھا اور کسی نامعلوم مقام پر سپرد خاک کر دیا جس پر شدید احتجاجی لہر اٹھی۔ 4 نومبر 1929ء کو مسلمان رہنماؤں کے ایک وفد (جن میں علامہ اقبال، سر محمد شفیع، مولانا عبد العزیز، مولانا ظفر علی خان، سر فضل حسین، خلیفہ شجاع، میاں امیر الدین، مولانا غلام محی الدین قصوری شامل تھے) نے گورنر پنجاب سے ملاقات کی اور جسد خاکی کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔ گورنر نے شرط عائد کی کہ اگر مذکورہ رہنما پرامن تدفین کی ذمہ داری اور کسی گڑبڑ کے نہ ہونے کی یقین دہانی کرائیں تو جسد خاکی مسلمانوں کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔ مذکورہ وفد نے یہ شرط منظور کرلی۔ 13 نومبر 1929ء کو مسلمانوں کا ایک وفد سید مراتب علی شاہ اور مجسٹریٹ مرزا مہدی حسن کی قیادت میں میانوالی روانہ ہوا اور دوسرے روز جسد خاکی وصول کیا۔ موقع پر موجود لوگوں کا بیان ہے کہ دو ہفتے گذر جانے کے باوجود جسد خاکی میں ذرا بھی تعفن نہیں تھا اور جسدِ مبارک بالکل صحیح وسالم تھا۔ چہرے پر غسل کے پانی کے قطرے ایسے چمک رہے تھے جیسے ابھی غازی نے وُضوء کیا ھو اور چہرے پر جلال و جمال کا حسین امتزاج تھا اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ کیوں کہ شہید زندہ ہوتے ہیں یہ اللہ تعٰالی نے قُرآن میں بھی ارشاد فرمایا ہے۔ محکمہ ریلوے نے یہ جسد خاکی 15 نومبر 1929ء کو لاہور چھاؤنی میں دو مسلم رہنماؤں علامہ اقبال اور سر محمد شفیع کے حوالے کیا۔
جنازہ
[ترمیم]شہید کا جنازہ لاہو ر کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ کہلاتا ہے۔ جنازہ کا جلوس ساڑھے پانچ میل لمبا تھا۔نماز جنازہ یونیورسٹی گراؤنڈ میں ادا کی گئی جس میں کم و بیش چھ لاکھ عشاق رسول نے شرکت کی ہندوستان میں مقیم جید علما کرام و مشائخ عظام بھی کونے کونے سے رسول پاک کے سچے عاشق کے آخری دیدار کے لیے لاہور تشریف لائے۔ تدفین کے انتظامات کی سرپرستی مولانا ظفر علی خان، علامہ محمد اقبال اور سید دیدار علی شاہ نے فرمائی۔ صندوق و بانس کا اہتمام ڈاکٹر محمد دین تاثیر نے کیا تھا جو پنجاب کے مقتول گورنر سلمان تاثیر کے والد تھے۔ شہید کی پہلی نماز جنازہ قاری شمس الدین خطیب مسجد وزیر خان نے پڑھائی اور دوسری نماز جنازہ مولانا دیدار علی شاہ الوری نے پڑھائی۔[4] مولانا دیدار علی شاہ اور علامہ اقبال نے شہید کو اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارا تھا۔ جس پر مولانا ظفر علی خان نے کہا تھا" کاش! "یہ مقام مجھے نصیب ہوتا۔"اس موقع پر علامہ نے فرمایا " یہ ترکھان کا لڑکا ہم سب پڑھے لکھوں سے بازی لے گیا "۔ لوگوں نے عقیدت میں اتنے پھول نچھاور کیے کہ میت ان میں چھپ گئی۔ اور رویات میں آتا ہے کہ دیدار علی شاہ صآحب نےبذاتِ خود نبی علیہما اسلام تشریف لائے ہیں اور جنازہ میں شرکت کی ۔شاہ صاحب نے حیرت میں کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ساری زندگی آپ کی حدیث پڑھی اور پڑھائی کھبی ایک دفع بھی خواب میں نہ آئے آج علم دین کے جنازہ میں خود چلے آئے ۔![5]
آخری آرام گاہ
[ترمیم]لاہور میں بہاولپور روڈ کے کنارے میانی صاحب قبرستان میں ایک نمایاں مقام پر آپ کی آخری آرام گاہ موجود ہے۔ مزار کے چہار اطراف برآمدہ ہے، مزار بغیر چھت کے ہے، مزار کے مشرق میں غازی کے والد محترم اور والدہ محترمہ کی بھی آخری آرامگاہیں موجود ہیں۔ لوح مزار پر پنجابی اور اردو کے کئي اشعار کندہ ہیں۔
غازی علم دین شہید اور اقبال
[ترمیم]غازی علم الدین شہید ۔ علم الدین نے جب شاتمِ رسول راجپال کو اُس کی گستاخی پر قتل کیا تو انگریز سرکار نے گرفتار کر کے مقدمات چلائے۔ محمد علی جناح اور علامہ اقبال دونوں کا براہِ راست تعلق اس مقدمے سے تھا۔ لیکن انگریز سرکار علم دین کی پھانسی پر ڈٹی رہی اور بالآخر 31 اکتوبر 1929ء کو علم دین کو پھانسی کے تختے پر لٹکا دیا گیا۔ اس کی میت کو میانوالی سے لاہور لانے کے لیے علامہ اقبال کی رہائش گاہ پر یکم نومبر 1929ء کو اجلاس ہوا۔ 2 نومبر کو پنجاب پراونشل مسلم لیگ کی کونسل کے اجلاس میں علامہ اقبال کی تحریک سے ایک قرارداد منظور کی گئی۔ علم دین کا جنازہ لاہور کی تاریخ کے بڑے جنازوں میں شمار ہوتا ہے۔ علم دین کے والد نے اقبال کو کہا کہ آپ اس کا نمازِ جنازہ پڑھائیں‘ اقبال کے انکار پر دیدار علی شاہ نے نمازِ جنازہ پڑھایا۔ اسی طرح کا ایک واقعہ ستمبر 1934ء میں کراچی میں بھی پیش آیا جس میں غازی عبد القیوم شہید نے شاتمِ رسول نتھورام کو موت کے گھاٹ اُتارا اور شہادت پائی۔ ان دونوں واقعات سے متاثر ہو کر اقبال نے نظم بعنوان ’لاہور و کراچی‘ لکھی جو ضرب کلیم میں شامل ہے۔
نوٹ
[ترمیم]مزید دیکھیے
[ترمیم]حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ ایف اے ایس ٹی - آئی ڈی: https://id.worldcat.org/fast/286827 — بنام: ʻIlmuddīn — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ^ ا ب فرحان ذوالفقار (2008ء)۔ غازی علم الدین شہید رحمۃہ اللہ علیہ۔ لاہور: حمزہ بکس، لاہور۔ ص 56
- ↑ شہیدان ناموس رسالت، محمد متین خالد،صفحہ 60 فاتح پبلشر لاہور
- ↑ https://www.nawaiwaqt.com.pk/30-Oct-2017/690143
- ↑ Irfan، Hafiz Muhammad؛ Rizwan، Dr. Muhammad (31 دسمبر 2021)۔ "Services of Peerzada Imdad Hussain in Promotion of Religion: A Review"۔ Al-Aijaz Research Journal of Islamic Studies & Humanities۔ ج 5 شمارہ 4: 52–69۔ DOI:10.53575/u6.v5.04(21)52-69۔ ISSN:2707-1219