مشکوۃ المصابیح

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

مِشکاۃُ المصابیح پانچ ہزار نو سو پنتالیس (5945) احادیث پر مشتمل یہ مجموعہ احادیث، احادیث ہی کے ایک مجموعہ مصابیح السنۃ کا تتمہ و تکملہ ہے جو مصابیح السنۃ کی چار ہزار چار سو چونتیس (4434) احادیث سمیت ایک ہزار پانچ سو گیارہ (1511) مزید احادیث کا اضافہ ہے۔

اس کے مؤلف کا نام محمد بن عبد اللہ ہے جن کا لقب ولی الدین اور کنیت ابو عبد اللہ ہے۔ تبریز میں پیدا ہوئے اور خطیب تبریزی کے نام سے مشہور ہوئے۔ وقت کے جید علما سے تعلیم پائی اور آٹھویں صدی ہجری کے جلیل القدر علما کی صف میں شامل ہوئے۔ آپ کی سوانح حیات آج تک پردۂ اخفا میں ہے۔ سنہ ولادت کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہو سکا۔ وفات کے بارے میں اتنا معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے 740ھ کے بعد کسی سال میں وفات پائی۔ ان کے علم و معرفت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے استاد سلطان المفسرین، امام المحققین امام حسین بن عبد اللہ الطیبی نے آپ کو قطب الصلحاء، بقیۃ الاولیاء اور شرف الزہاد سے مخاطب کیا۔

سبب تالیف[ترمیم]

آپ نے اپنے استاذ حسین بن محمد عبد اللہ طیبی کی تحریک اور ایماء پر لکھی۔ استاد حدیثوں کے ایک مستند مجموعہ کی ضرورت شدت سے محسوس کر رہے تھے۔ اس خیال کا اظہار انھوں نے اپنے لائق و فائق شاگرد خطیب تبریزی سے کیا۔ آخر طے پایا کہ کسی نئے مجموعہ کی تالیف کی بجائے بغوی کی مصابیح السنۃ میں تہذیب و اضافہ کر لیا جائے۔ مجموعہ تیار کیا گیا اور اس کا نام مشکاۃ المصابیح رکھا گیا۔

امام بغوی نے طریقہ اختصار اختیار کرتے ہوئے احادیث کی اسناد و مآخذ کو چھوڑ دیا۔ یہ بات محققین اور ناقدین کے لیے ناگواری کا باعث چلی آ رہی تھی۔ بعض ناقدین نے چہ میگوئیاں کیں اور اس میں مذکور احادیث پر شبہ کرنے لگے کہ جب اس میں اسناد اور تخریج کا ذکر ہی نہیں تو کیا معلوم کہ احادیث صحیح بھی ہیں یا نہیں حالانکہ صاحب مصابیح اس پایہ کہ محدث ہیں کہ ان کا بغیر جرح و تعدیل کسی حدیث کو نقل فرما دینا اس حدیث کی قوت کی دلیل ہے۔ اس بنا پر مصنف نے ہر حدیث کے اول صحابی راوی کا نام اور آخر میں کتاب حدیث کا نام صراحتاً بتا دیا۔ مصنف نے مشکوۃ المصابیح لکھنے سے پہلے باقاعدہ استخارہ کیا۔

ترتیب تدوین[ترمیم]

مصابیح السنۃ کے ہر باب میں دو فصلیں تھیں۔ فصل اول میں صحیح بخاری و صحیح مسلم کی روایت کردہ احادیث تھیں اور فصل دوم میں دیگر محدثین کی احادیث۔ خطیب تبریزی نے اپنی تالیف میں فصل اول و دوم کو تقریبا اسی طرح قائم رکھا، لیکن اپنی طرف سے تیسری فصل کا اضافہ کیا اور اس میں کتب حدیث میں سے وہ تمام احادیث بھی جمع کر دیں جن کا تعلق کسی نہ کسی طرح سے اس موضوع سے تھا۔

وجہ تسمیہ[ترمیم]

مشکوة اس طاق کو کہتے ہیں جس میں چراغ رکھا جاتا ہے۔ مصابیح جمع ہے اور اس کا واحد مصباح ہے، جس کے معنی ’چراغ‘ ہیں۔ مشکوة المصابیح کے معنی ہوئے چراغوں کا طاق۔

  1. مشکوة دیوار کے اس سوراخ کو کہتے ہیں جو آر پار نہ ہو یعنی دوسری جانب سے بند ہو اور اس سوراخ میں چراغ یا دِیا جلا کر رکھا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہوا جس طرح چراغ کو طاق میں رکھا جاتا ہے اسی طرح مصابیح السنۃ کو مشکوة المصابیح کے طاق کی زینت بنا دیا گیا۔
  2. مشکوة المصابیح ایک طاق ہے جس کی ہر حدیث ایک چراغ ہے گویا ایک طاق میں کئی چراغ روشن ہیں اور ان کی روشنی سے بدعت و ضلالت کی تاریکیوں کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔
  3. مصابیح السنۃ میں درج احادیث میں حدیث کے راوی اور مآخذ کا ذکر نہیں تھا۔ صاحب مشکوہ نے ان کو اسناد و مآخذ کے زیور سے مزین کر دیا۔ یہ امر ان کی تابانی اور درخشانی میں مزید اضافہ کا باعث بنا۔ طاق ایک محدود جگہ ہوتی ہے۔ جب اس میں چراغ رکھ دیا جاتا ہے تو روشنی کشادہ مکان کی بہ نسبت زیادہ ہو جاتی ہے۔ اس کا یہ مطلب نکالا گیا ہے مصابیح السنۃ میں درج کی گئی احادیث اسناد کے بغیر ایک کھلی جگہ پر تھیں اور تنقید نگاروں نے ان کی چمک دمک میں رخنہ اندازی کو اپنا رکھا تھا لیکن جب یہ احادیث طاق کی زینت بن گئیں تو ان کی روشنی میں اور اضافہ ہو گیا۔

مشکوة شریف فن حدیث میں درس نظامی کی پہلی کتاب ہے، جو کتب حدیث کی جامع ہے۔ اس کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ عرب و عجم میں ہر جگہ پڑھائی جاتی ہے اور عربی، فارسی اور اردو زبانوں میں اس کی بہت سی شروحات لکھی جا چکی ہیں۔ عربی شروحات مرقاة اور لمعات ہیں۔ فارسی شرح اشعۃ اللمعات ہے۔[1][2]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. مرآت المناجیح، حکیم الامت مفتی احمد یار خاں نعیمی اشرفی بدایونی
  2. نصابی کتاب۔ اسلامیات اختیاری ⟨بی۔ اے یونٹ 18-1 کوڈ نمبر 437⟩ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد