عیون اخبار الرضا

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عیون اخبار الرضا
زبانعربی
موضوعروایات امام رضا (ع)، حالات زندگی
ناشرمؤسسہ الأعلمی للمطبوعات

عیون اخبار رضا شیعہ محدث شیخ ابن بابویہ قمی المعروف بہ شیخ صدوق کی تصنیف ہے۔ امامیہ اثنا عشر شیعوں کے نزدیک یہ مستند کتب میں شامل ہے۔ یہ تالیف اہل بیت کے بزرگ اور آٹھویں شیعہ امام علی رضا (متوفی: 5 ستمبر 818ء) کے اقوال اور فرامین پر مشتمل ہے۔شیخ صدوق نے شاید اس کتاب کو رکن الدولہ بویہی کی وفات کے بعد یعنی 366ھ کے بعد لکھا۔[1]

عُیونُ اخْبارِ الرّضا یا عیون الاخبار عربی زبان میں شیعہ امامیہ عالم دین شیخ صدوق (متوفی 381ھ) کی تصنیف ہے۔ اس کتاب میں حضرت امام علی بن موسی رضا (ع) کے حالات زندگی اور ان سے مروی روایات مذکور ہیں۔ یہ کتاب 69 ابواب پر مشتمل ہے۔ ان میں سے ایک حصہ خود امام علی بن موسی رضا کی احادیث اور کچھ حصوں میں ان کی وہ احادیث ہیں جو انھوں نے اپنے سے پہلے آئمہ سے روایت کی ہیں۔ عیون اخبار رضا کسی ایک موضوع کے بارے میں نہیں ہے بلکہ اس میں فقہی، اخلاقی، سیرت اور کلام سے متعلق احادیث ہیں۔ یہ شیعہ مکتب کی مصدر کتابوں میں سے ایک ہے۔

مؤلف[ترمیم]

محمد بن علی بن حسین بن موسی بن بابویہ قمی مشہور بنام شیخ صدوق چوتھی صدی ہجری کے بزرگ شیعہ فقیہ اور محدث ہیں جو 305 ق کے بعد پیدا ہوئے اور ان کی وفات 381ق میں واقع ہوئی ہے اور ان کا مدفن ایران کا شہر ری (تہران) ہے۔ مکتب حدیثی قم کے بانی مانے جاتے ہیں۔ 300 کے قریب ان کے آثار کہے جاتے ہیں جن میں سے بہت سارے آثار مفقود ہیں۔ کتاب من لا یحضرہ الفقیہ مکتب تشیع کی کتب اربعہ میں سے ایک ہے۔

تاریخ تالیف[ترمیم]

شیخ ابن بابویہ قمی نے غالباً اِس کتاب کی ترتیب و تدوین رکن الدین بویہی کی وفات یعنی 366ھ مطابق ستمبر 976ء کے بعد کی۔[2]


امام رضا(ع) پر لکھی جانے والی قدیمی کتب[ترمیم]

عیون الاخبار سے پہلے اس امام کے متعلق کتابیں لکھی جانا شروع ہو چکی تھیں جیسے:

سبب تألیف‏[ترمیم]

شیخ صدوق کے مقدمہ کتاب کے مطابق جب صاحب بن عباد دیلمی (وزیر وقت اور شیعہ حاکم علی بن موسی الرضا(ع) کی مدح میں اشعار کہتا ہے اور وہ شیخ صدوق کو ہدیہ دیتا ہے تو اس کے جواب میں شیخ صدوق صاحب بن عباد کی زحمت کی پاسداری میں عیون اخبار الرضا تالیف کرتے ہیں۔ شیخ خود اس کے متعلق لکھتے ہیں:

معارف بیکران امام رضا (ع) سے تالیف شدہ کتاب سے بہتر کوئی ہدیہ نہیں پاتا ہوں کہ جسے صاحب بن عباد کے دو قصیدوں کے جواب میں دیا جائے۔

[4]

کتاب کے مقدمے میں صاحب کے قصیدے کے چند اشعار بھی ذکر کیے ہیں ان میں چند درج ذیل ہیں:

[5]
یا سائرا زائرا إلی طوسمشہد طہر و أرض تقدیس‏
أبلغ سلامی الرضا و حط علیأکرم رمس لخیر مرموس
اللہ و اللہ حلفہ صدرتمن مخلص فی الولاء مغموس‏‏

متن و مواد[ترمیم]

فہرست مضامین‏[ترمیم]

یہ کتاب مختلف انواع کی ابحاث پر مشتمل ہے:

  • پہلا باب : امام رضا(ع) کا یہ نام کیوں رکھا گیا؟
  • دوسراباب : امام رضا (ع) کی والدہ کے متعلق۔
  • تیسرا باب : حضرت رضا (ع) کی ولادت کے متعلق۔
  • چوتھا باب : امام رضا کی جانشینی سے متعلق امام موسی کاظم سے روایات۔
  • باب پنجم: وصیتنامۂ امام موسی کاظم (ع)۔
  • چھٹا باب : امامت امام رضا (ع)
  • ساتواں باب : ہارون الرشید اور موسی بن مہدی کے ساتھ امام موسی کاظم کے احوال۔
  • آٹھواں باب : شہادت امام ہفتم (ع)۔
  • نواں باب : ساداتی کہ جنہیں ہارون نے شہید کیا۔
  • دسواں باب : واقفیون۔
  • گیارھواں باب : توحید کے متعلق امام رضا (ع) کے خطبے‌ ۔
  • بارھواں باب : امام کے مناظرات توحید۔
  • تیرھواں باب: سلیمان مروزی سے امام رضا کا مناظرہ۔
  • چودھواں باب : دیگر علمائے ادیان سے مناظرے۔
  • پندرھواں باب : عصمت انبیا کے متعلق مناظرہ۔
  • سولواں باب : اصحاب رس۔
  • سترواں باب : آیت و فدیناہ بذبح عظیم۔[6]
  • اٹھارواں باب : فرمان پیغمبر اکرم : اناابن الذبیحین (میں دو ذبیحوں کا بیٹا ہوں)۔
  • انیسواں باب : علامات‌ امام معصوم(ع)۔
  • بیسواں باب : مقام و مرتبہ امام (ع)۔
  • اکیسواں باب : ازدواج حضرت رضا (ع)۔
  • بائیسواں باب : مرتبہ و انواع ایمان۔
  • تئیسواں باب : عترت اور امت کے درمیان فرق کے بارے میں مامون عباسی سے مناظرہ۔
  • چوبیسواں باب : حضرت علی (ع) سے واقعہ۔
  • پچیسواں باب : زید بن علی۔
  • چھبیسواں باب : فنون مختلف۔
  • ستائیسواں باب : واقعۂ ہاروت و ماروت۔
  • اٹھائیس تا اکتیسواں باب : حضرت کی زبان سے مختلف مسائل۔
  • بتیسواں باب : محمد بن سنان کو خطوط۔
  • تینتیسواں باب : روایات فضل بن شاذان۔
  • چونتیسواں باب : اسلام اور شریعت کے قوی نقاط۔
  • پینتیسواں باب : نیشاپور میں امام کا حضور اور گھر میں داخل ہونا۔
  • چھتیسواں باب : حضرت کے مکانات اور ان میں رفت و آمد۔
  • سینتیسواں باب : نادر روایت۔
  • اٹھتیسواں باب : حضرت کا طوس اور پھر مرو کا سفر۔
  • انتالیسواں باب : ولایت عہدی کے قبول کرنے کا مسئلہ، مخالفین اور موافقین۔
  • چالیسوان باب: نماز استسقا اور اس کے ساتھ ہونے والے واقعات ۔
  • اکتالیسواں باب : مأمون کا امام کے ساتھ برتاؤ۔
  • بیالیسواں باب : مامون کے رویے پر امام کے اشعار۔
  • تینتالیسواں باب : پسندیدہ اخلاق اور امام کی عبادات۔
  • چوالیسواں باب : امام علی و امام رضا(ع) کے اثبات کے لیے مامون کا نزاع۔
  • پینتالیسواں باب : اہل بیت کا علوم پر احاطہ اور ردّ غلات۔
  • چھیالیسواں باب : ولایت امام کے اثبات میں 42 روایات۔
  • سینتالیسواں باب : دشمن پر نفرین امام۔
  • اڑتالیسواں باب : : مامون کے متعلق امام کی پیش گویاں۔
  • انچاسواں باب: برمکیوں پر امام کی نفرین، ہارون کا امام کو گزند نہ پہنچا سکنے پر امام کی روایت۔
  • پچاسواں باب : مدفن امام رضا (ع) کی روایتی، امام کی حقانیت اور امامت کا اثبات۔
  • اکیاونواں باب : امام کو مسموم کرنے اور ان کے مدفن کی پیش گوئی۔
  • باونواں باب : شان حضرت رضا اور محبوں کے دلوں میں ان کی محبت کی روایات۔
  • ترپنواں باب : امام کا تمام زبانیں جاننا۔
  • چونواں باب :حسن بن علی الوشا کے سوالات سے پہلے ان کا جواب دینا۔
  • پچپنواں باب: ابی قرہ کے سوال کا جواب۔
  • چھپنواں باب : مناظرۂ یحیی ضحاک سمرقندی۔
  • ستاونواں باب : اپنے بھائی زید بن موسی سے گفتگو۔
  • اٹھاونواں باب : مسمویت امام (ع)۔
  • انسٹھوانواں باب : خلافت امام جواد (ع) کی روایت۔
  • ساٹھواں باب : امام کو زہر دینے کے لیے مامون کے مکر و حیلے۔
  • ساٹھویں سے لے کر پینسٹھویں باب تک : امام کی مسمومیت، زہر اور اس سے متعلق واقعات۔
  • چھیاسٹھواں باب : زیارت حرم حضرت معصومہ (س) کا ثواب۔
  • ستاسٹھواں باب  : کیفیت زیارت حضرت رضا (ع)۔
  • اڑسٹھواں باب : زیارت اور حضرت رضا (ع) سے وداع۔
  • انھترواں باب : امام کی ماثورہ زیارت، تمام ائمہ کی زیارت اور معجزات حضرت رضا (ع)۔[7]

شيخ صدوق اس کتاب میں بھی دوسری کتابوں کی مانند بعض روایات کی مکمل سند ذکر کرتے ہیں اور بعض مقامات پر روایت مرسلہ یا بعض راویوں کے اسما پر اکتفا کرتے ہیں۔

اہمیت[ترمیم]

عیون الاخبار شیعہ کے اہم روائی آثار میں سے شمار ہوتی ہے۔ شیخ صدوق کے دیگر آثار کی مانند یہ بھی نہایت قابل ارزش اور مخصوص اہمیت کی حامل ہے۔ اسی وجہ سے بعد کی کتب میں اس میں موجود مطالب سے استناد کیا جاتا تھا اور یہ بحار کے مآخذ میں سے ایک ہے۔

میرداماد اس کی مدح میں کہتے ہیں:[8]

عـیـون أخبـار الـرضا صیـقـل تجلوعـن الـقـلـب صـداء الـکرب
عیون اخبار الرضا ایک صیقل کی مانند ہے جو دل کو زنگ کرب سے صاف کرتی ہے
لـم یـبــد للـدہـــر نـظـیـرا لـہـالـناظر فی الشرق و الغرب
اس کی نظیر زمانے میں ظاہر نہیں ہوئی شرق و غرب میں دیکھنے والے کیلئے
و کــل فــن فــی أســـالـیـبـہایـکـفـیـک و تـخـلیہ السرب
اس کے اسلوب میں تمام فنون موجود ہیں وہ تمہارے لئے کافی ہے اور بے نیاز کرتی ہے
کالشمس من نور الہدی مشرقبـالسلم یقضی وطر القلب
خورشید کی مانند نور ہدایت سے چمکتی ہے دل کی آرزو پورا کرتی ہے

تحقیقات کتاب[ترمیم]

اس کتاب کی شرحوں کی تعداد 15 اور ترجموں کی تعداد 10 کے نزدیک پہنچتی ہے۔

شرح و حواشی[ترمیم]

اہم شروحات اور تعلقات:

  1. لوامع الانوار|لوامع الأنوار، تالیف سید نعمت اللہ جزائری (م 1112 ق)۔
  2. فارسی شرح شیخ محمد علی حزین زاہدی گیلانی (م 1181 ق)۔
  3. شرح مولی ہادی بنابی (م 1281 ق) (شیخ مرتضی انصاری کے شاگرد)۔
  4. فارسی شرح سید علی اصغر شوشتری اخلاقی
  5. حواشی سید حسین مجتہد قزوینی۔
  6. تعلیقات سید حسین بن حسن عاملی کرکی.[9]

تراجم[ترمیم]

بعض فارسی ترجموں کے اسما:

  1. ترجمہ محمد صالح بن محمد باقر قزوینی
  2. ترجمہ سید جلیل میرزا ذبیح اللہ بن میرزا ہدایہ اللہ
  3. ترجمہ مولی علی بن طیفور بسطامی
  4. ترجمہ سید علی بن محمد بن اسد اللہ امامی
  5. ترجمہ محمد تقی بن محمد باقر اصفہانی
  6. ترجمہ کاشف النقاب
  7. ترجمہ‌بنام برکات المشہد المقدس
  8. ترجمہ ایک اہل مشہد نے 1245 ہجری میں سید محمد بن سید دلدار علی نقوی نصیرآبادی کے حکم پر ترجمہ کیا۔
  9. ترجمہ علامہ مجلسی، کچھ حصوں کا ترجمہ کیا۔ جیسے خطبہ توحید امام رضا[10] و نیز مأموریت رجاء بن ابی ضحاک کا ترجمہ جس میں امام رضا کو خراسان کی دعوت دی گئی۔ [11]
  10. ترجمہ‌ محمد باقر ساعدی خراسانی۔

عیون اخبار الرضا کا اردو ترجمہ منیر الحسن جعفری نے کیا جس کا ناشر:اکبر حسین جیوانی ٹرسٹ کراچی تھا اور اسی طرح اردو کا ایک اور ترجمہ سید تبشر الرضا کاظمی نے کیا۔

طباعت[ترمیم]

عیون الاخبار پہلی مرتبہ 1275ق کو ایران کے شہر تہران سے سنگی حالت میں چھپی۔اس کے بعد کئی مرتبہ اسلامی ممالک لبنان، عراق اور ایران کے نجف، قم اور بیروت وغیرہ سے چھپی۔ اس کی معروف‌ ترین چاپ سال طباعت 1317ق، میں حاج نجم الدولہ تہران تھا۔

عیون الاخبار‌ نام کی کتب[ترمیم]

  1. «عیون الأخبار‌ اور عمدہ عیون صحاح الاخبار فی مناقب امام الابرار:دونوں یحیی بن بطریق (قرن7) نے لکھیں۔
  2. عیون الأخبار‌: عبد الرحمن بن ابی بکر نیشابوری کی تالیف ہے۔
  3. عیون الأخبار و الآثار فی ذکر النبی المصطفی المختار و وصیہ علی بن ابی طالب قاتل الکفار و آلہ الأئمہ الاطہار‌:عماد الدین ادریس بن حسن عبد اللہ الأنف۔ [12]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. نعمت‌ اللہ صفری فروشانی، بررسی دو اثر تاریخ نگاری شیخ صدوق، 1386ش.
  2. نعمت‌ اللہ صفری فروشانی: بررسی دو اثر تاریخ نگاری شیخ صدوق، 1389 شمسی ہجری۔ تہران۔
  3. نجاشی، رجال النجاشی، 1416ق، ص244 و 245.
  4. صدوق، عیون اخبار الرضا، 1404ق، ج1، ص4.
  5. صدوق، عیون اخبار الرضا، ترجمہ حمیدرضا مستفید- علی اکبر غفاری‏، 1373ش، ج1، ص5-9.
  6. صافات: 107.
  7. صدوق، عیون اخبار الرضا، ترجمہ حمید رضا مستفید- علی اکبر غفاری‏، 1373ش، ج1، ص13-23.
  8. تہرانی، الذریعہ، ج15، ص376.
  9. تہرانی، الذریعہ، ج23، ص375.
  10. خطبہ الرضا خطبہ توحید امام رضا ع
  11. تہرانی، الذریعہ، ج4، ص99. 120 و 121. ج17، 240. ج26، ص95.
  12. تہرانی، الذریعہ، ج15، ص375.

مآخذ[ترمیم]

  • تہرانی، آقا بزرگ، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، بیروت، دار الاضواء.
  • نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، قم، جامعہ مدرسین، 1416ق.
  • صدوق، محمد بن علی، عیون أخبار الرضا(ع)، بیروت، مؤسسہ الأعلمی للمطبوعات، 1404ق.
  • صدوق، محمد بن علی، عیون أخبار الرضا(ع)، مترجم حمیدرضا مستفید - علی اکبر غفاری‏، تہران، نشر صدوق، 1373ش.
  • صفری فروشانی، نعمت اللہ، بررسی دو اثر تاریخ‌ نگاری شیخ صدوق، تابستان 1386ش، شمارہ 10.
  • کتاب شناخت سیرہ معصومان، مرکز تحقیقات رایانہ ای علوم اسلامی نور.