اصطلاحات حدیث
حصہ مضامین بسلسلہ | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
حدیث | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
سنی1
|
||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
|
||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
|
||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
|
||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
متعلقہ موضوعات |
||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
اصطلاحات حدیث (عربی: مُصْطَلَحُ الحَدِيْث) حدیث اقسام حدیث، راویان حدیث وغیرہ کے علم کو اسلام میں بنیادی ماخذ کی حیثیت حاصل ہے۔ جس کے لیے کئی اصطلاحات حدیث وضع کی گئی ہیں۔
بنیادی اصطلاحات
[ترمیم]علم مُصطلح الحدیث کی 14 بنیادی اصطلاحات ہیں :
وہ علم جس کے ذریعہ سے حدیث کے سند و متن کے احوال کی معرفت حاصل کی جاتی ہے تاکہ حدیث کے قبول و عدم کا فیصلہ کیا جاسکے۔
موضوع:
[ترمیم]اِس میں حدیث کے سند اور متن کے صحیح یا موضوع ہونے کا فیصلہ کیا جاتا ہے
غایت:
[ترمیم]اِس اصطلاح میں علم کی بابت صحیح و سقیم احادیث کے درمیان امتیازی خط کھینچنا ہوتا ہے۔
اقسامِ حدیث باعتبار مُسند الیہ | |
اقسامِ حدیث باعتبار تعدادِ سند | |
اقسامِ اُحاد باعتبار تعدادِ سند | |
اقسامِ اُحاد باعتبار قوت و ضعف | |
اقسامِ حدیثِ مقبول | |
حدیثِ صحیح · حدیثِ صحیح لذاتہٖ · حدیثِ صحیح لغیرہٖ | |
اقسامِ حدیثِ مردود | |
حدیث ضعیف | |
اقسامِ حدیثِ مردود بوجہ سقوطِ راوی | |
حدیث مُعلق · حدیث مُرسل | |
اقسامِ حدیثِ مردود بوجہ طعنِ راوی | |
اقسامِ حدیثِ معلل | |
حدیث مدرج · حدیث مقلوب | |
طعنِ راوی کے اسباب | |
اقسامِ کتبِ حدیث | |
دیگر اصطلاحاتِ حدیث | |
اعتبار · شاہد · متابع |
الحدیث:
[ترمیم]حدیث کے لغوی معنی جدید یا نئی چیز کے ہیں اور اِس کی جمع خلافِ قیاس الاحادیث آتی ہے۔ اِصطلاح حدیث میں ہر اُس قول، فعل یا تقریر کو حدیث کہا جاتا ہے جس کی نسبت پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منسوب کی جاتی ہو۔ تقریر سے مراد وہ فعل ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سامنے کیا گیا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نہ تو اِس کے کرنے کا حکم دیا اور نہ ہی منع فرمایا بلکہ اِس پر سکوت فرمایا۔
الخبر:
[ترمیم]اِس کے لفظی معنی تو عام خبر کے ہیں اور اِس کی جمع الاخبار ہے۔ اصطلاحی تعریف میں تین اقوال مشہور ترین یہ ہیں کہ:
(ا) پہلا قول یہ ہے کہ خبر بالکل حدیث کے ہم معنی لفظ ہے یعنی باہم خبر اور حدیث مترادف ہیں۔
(ب) دوسرا قول یہ ہے کہ خبر کا مفہوم حدیث کے بالکل برعکس ہے، اِس مفہوم میں حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منقول کلام کو سمجھا جاتا ہے اور خبر اُس کلام کو کہتے ہیں جس کی نسبت خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نہ ہو بلکہ کسی اور شخصیت سے منسوب وہ کلام ہو۔ یہ قول اول کے برعکس ہے۔
(ج) تیسرا قول یہ ہے کہ حدیث سے زیادہ عام لفظ خبر ہے، یعنی حدیث اُس کلام کو کہتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منقول ہو اور خبر اُس کلام کو کہتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یا کسی اور شخص سے منقول ہو۔
عموماً علما و محدثین دوسرے قول کی نسبت زیادہ اعتماد کرتے ہیں کیونکہ اُس میں خبر کی وضاحت آسان ہے۔ اگر پہلے اور تیسرے قول کو اپنایا جائے تو تمام اخبار احادیث میں شامل ہوجائیں گی اور حدیث کا اطلاق خبر پر بھی ہونے لگے گا۔ ابتدائی محدثین خبر کو بھی حدیث ہی جانتے تھے مگر تدوین فقہ کے زمانہ میں خبر کو حدیث سے الگ کر لیا گیا۔
الاثر:
[ترمیم]اِس کے لفظی معنی ہیں : کسی چیز کا باقی ماندہ نشان یا علامت۔ اِصطلاح میں اِس کے دو اقوال ہیں :
(ا) پہلا قول یہ ہے کہ لفظ اثر، حدیث کے ہم معنی ہے اور باہم دونوں مترادف ہیں۔
(ب) دوسرا قول یہ ہے کہ اِس لفظ کا مفہوم حدیث کے بالکل برعکس ہے، اِس میں اثر وہ قول یا فعل ہے جس کی نسبت صحابہ کرام یا تابعین یا تبع تابعین کی طرف سے کی گئی ہو۔
محدثین عظام اثر کا مفہوم دوسرے قول کی نسبت سے لیتے ہیں۔
الاسناد:
[ترمیم]اِس کے دو مفہوم ہیں :
(ا) حدیث کی نسبت اُس کے قائل کی طرف کرنا۔
(ب) متن حدیث تک پہنچانے والے سلسلہ سند کے رجال، یہ لفظ سند کے ہم معنی ہی ہے۔ محدثین عظام اِسی قول کو تسلیم کرتے ہیں۔
السَنَد:
[ترمیم]اِس کا لغوی معنی ہے : سہارا۔ مُصطلح الحدیث میں سند کے ذریعہ جو کسی بھی حدیث میں مروی ہوتی ہے، اُس کی ثقاہت کا انحصار اِسی سند پر ہوتا ہے۔ اِس اصطلاح میں سند اُس سلسلہ رجال کو کہا جاتا ہے جو حدیث کے متن تک پہنچا دے۔ کسی بھی حدیث کی ثقاہت جاننے کے لیے سند اہم ستون ہے، گویا ایک سیڑھی ہے جس کے سہارے حدیث کے متن تک پہنچا جاتا ہے۔
المَتَن:
[ترمیم]متن کا لغوی معنی ہے : زمین کا وہ سخت حصہ جو سطح زمین سے کچھ بلند ہو۔ اِصطلاح میں اِس سے مراد کلام کا وہ حصہ ہے جس پر سند کا سلسلہ ختم ہو جائے۔
المُسنَد:
[ترمیم]اَسنَد سے اسم مفعول ہے یعنی جس کی طرف کوئی جزء منسوب ہو۔ اِصطلاح میں اِس کے لیے تین اقوال مشہور ہیں :
(ا) ہر وہ کتاب جس میں ہر صحابی کی الگ الگ مرویات جمع کی گئی ہوں۔ اِس اعتبار سے بیشتر کتب ہائے حدیث تالیف کی گئی ہیں جن میں امام احمد بن حنبل کی مُسنَد احمد بن حنبل مشہور ہے۔
(ب) ہر وہ مرفوع حدیث جو سند کے اعتبار سے متصل ہو۔
(ج) تیسرے قول کے مطابق یہ ہے کہ اِس سے سند مراد لی جائے۔ اِس صورت میں مصدر میمی بمعنیٰ اسناد ہوکر سند ہی کے ہم معنی ہوگا۔
المُسنِد:
[ترمیم]وہ شخص جو سند کو حدیث کے ساتھ روایت کرے، خواہ وہ اُس حدیث کا علم رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو۔
المُحَدِّث:
[ترمیم]اِس سے مراد وہ شخص ہے جس کا شغف روایت و درایت کے اعتبار سے علم حدیث اور اُسے اکثر روایات اور اُن کے رواۃ کے احوال کا علم ہو، ایسا شخص محدث کہلاتا ہے۔
الحَافِظ:
[ترمیم]حافظ کے متعلق محدثین کے دو اقوال ہیں :
(ا) بیشتر محدثین کے نزدیک یہ لفظ محدث کے معنی میں لیا جاتا ہے۔
(ب) دوسرا قول یہ ہے کہ حافظ کا درجہ محدث سے قدرے بلند ہوتا ہے کیونکہ اُسے محدثین کے ہر طبقہ میں سے اکثر کا علم ہوتا ہے۔
الحَاکِم :
[ترمیم]الحاکم کی اصطلاح بعض محدثین عظام کے اقوال میں اُس شخص پر لازم آتی ہے جس کا علم جملہ احادیث پر محیط ہو، چہ جائیکہ جو احادیث اُس کے علم میں نہ ہوں اُن کی تعداد محض مختصر ہی ہو۔
ذرائع خبر
[ترمیم]ہم تک خبر یعنی حدیث کے پہنچنے کے دو اہم ذرائع ہیں : خبر متواتر اور خبر آحاد۔
- اگر خبر کی روایت کے سلاسل میں تعداد متعین نہ ہو تو اُسے خبر متواتر کہا جاتا ہے۔
- اگر خبر کی روایت کے سلاسل کی تعداد متعین ہو تو اُسے خبر آحاد کہا جاتا ہے۔
خبر متواتر:
[ترمیم]اِس کی لغوی تعریف یہ ہے کہ متواتر لفظ تواتر سے مشتق ہوکر اسم فاعل بنا ہے جس کے معنی ہیں : پے در پے ہونا۔ مثال جیسے کہ مسلسل بارش کی صورت میں کہا جاتا ہے : تواتر المطر، یعنی مسلسل بارش ہوئی۔ اصطلاحی تعریف میں متواتر اُس حدیث کو کہتے ہیں جسے ہر زمانہ میں محدثین اور علما کی کثیر جماعت نے اِس قدر روایت کیا ہو کہ اُس کا کذب بیانی پر متفق ہونا محال ہو۔[1]
اِس کی وضاحت یوں کی جا سکتی ہے کہ خبر متواتر سے مراد وہ حدیث یا خبر ہے جس کے سلسلہ روایت کے ہر طبقہ یا مرحلہ روایت میں راویوں کی اتنی بڑی تعداد ہو کہ عقل کے نزدیک اُن سب کا اِس حدیث یا خبر کو من گھڑت کہنے پر متفق ہونا محال ہو جائے۔
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ ڈاکٹر محمود الطحان: مصطلح الحدیث، صفحہ 29/30، مطبوعہ لاہور۔