ممتاز دولتانہ
میاں ممتاز دولتانہ Mian Mumtaz Daultana | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 20 جنوری 1915ء لڈن |
وفات | 30 جنوری 1995ء (80 سال) لاہور |
شہریت | پاکستان |
مناصب | |
وزیر اعلیٰ پنجاب | |
برسر عہدہ 15 اپریل 1951 – 3 اپریل 1953 |
|
وزیر دفاع پاکستان [1] | |
برسر عہدہ 19 اکتوبر 1957 – 18 دسمبر 1957 |
|
عملی زندگی | |
مادر علمی | گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور |
پیشہ | سیاست دان، سیاسی عہدہ دار |
مادری زبان | اردو |
پیشہ ورانہ زبان | اردو |
وجہ شہرت | عقلمند سیاسی حکمت عملی * 1953 violent street protests in Lahore against the Non-Muslim Qadianis as Chief Minister of Punjab |
درستی - ترمیم |
میاں ممتاز دولتانہ تحریک پاکستان کے ایک سرگرم رکن جنھوں نے برطانوی صوبہ پنجاب میں مقامی آبادی کی حمایت حاصل کرنے میں مدد کی۔[2] جوئیہ راجپوت : چند مشہور جوئیہ گوتیں دولتانہ,لالیکا,عاکوکا اور لکھویرا جوئیہ خاندان قبیلہ کے معروف سردار لونے خان اور اس کے دو بھائی بر اور وسیل اپنے ہزاروں اہل قبیلہ کے ساتھ 635ھ کے قریب بابا فرید رحمۃ اللہ کے دست حق پر مشرف بہ اسلام ہوئے۔ بابا فرید نے لونے خان کو دعا دی، تو 12 فرزند ہوئے اس کا بڑا بیٹا لکھو خاں سردار بنا، بیکانیر میں رنگ محل کا قلعہ بنوایا بیکانیر میں قصبہ لکھویرا بھی اسی کے نام سے منسوب ہے۔ اس کی اولاد کو لکھویرا کہا جاتا ہے جو ضلع بہاولنگر اور پاکپتن میں آباد ہیں۔ بعض جوئیے اپنے قبیلے کو عربی النسل کہتے ہیں مگر اصل میں جوئیہ قوم ہند کی ایک قدیم قوم ہے۔ ٹاڈ کے مطابق جوئیہ قوم سری کرشن جی کی اولاد ہے یہ قوم پہلے بھٹنیر، ناگور اور ہریانہ کے علاقہ میں حکمران تھی اب بھی بھی یہ قوم راجپوتانہ میں اور اس کے ملحقہ علاقے میں کافی تعداد میں آباد ہے۔ قیام پاکستان کے بعد یہ قبیلہ بیکانیر سے ہجرت کر کے زیادہ تر ریاست بہاولپور اور ضلع ساہیوال، عارف والا، پاکپتن میں آباد ہو گیا۔ ساتویں صدی ہجری میں جوئیوں کی بھٹی راجپوتوں سے بے شمار لڑائیاں ہوئیں، دسویں صدی ہجری میں راجپوتانہ کے جاٹ اور گدارے جوئیوں کے خلاف متحد ہو گئے ان لڑائیوں سے تنگ آکر دریائے گھاگرہ کے خشک ہونے کی بنا پر جوئیہ سردار نے دسویں صدی ہجری میں اپنے آبائی شہر رنگ محل کو خیر باد کہا اور دریائے ستلج کے گرد و نواح ایک نیا شہر سلیم گڑھ آباد کیا زبانی روایات کے مطابق سلیم گڑھ کا ابتدائی نام شہر فرید تھا۔
بعد میں نواب صادق محمد خان اول نے لکھویروں کے محاصل ادا نہ کرنے کی وجہ سے نواب فرید خان دوم اور ان کے بھائی معروف خان اور علی خان کے ساتھ جنگ کی۔ جس کی بنا پر جنوب میں بیکانیر کی سرحد تک اور شمال میں پاکپتن کی جاگیر تک نواب صادق محمد خان کا قبضہ ہو گیا اور لکھویرا کی ریاست بہاولپور کی ریاست میں مدغم ہو گی۔ تاہم بعد ازیں شاہان عباسی نے لکھویروں کی ذاتی جاگیریں بحال کر دیں اور انھیں درباری اعزازات بھی دیے۔
جنرل بخت خان جنگ (آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا سپہ سالار) بھی جوئیہ تھا یہ کوروپانڈوؤں کی نسل سے خیال کیے جاتے ہیں۔ راجپوتوں کے 36 شاہی خاندانوں میں شامل ہیں۔ ایک روایت کے مطابق راجا پورس جس نے سکندر اعظم کا مقابلہ کیا، جوئیہ راجپوت تھا۔ ملتان بار اور جنگل کے بادشاہ مشہور تھے۔ چونکہ سرسبز گھاس والے میدان کو جوہ کہا جاتا ہے۔ اسی جوہ کے مالک ہونے کی وجہ سے یہ جوھیہ اور جوئیہ مشہور ہوئے جو بابا فرید رحمۃ اللہ کے دست حق پر مشرف بہ اسلام ہوئے۔
حوالہ جات
[ترمیم]بیرونی روابط
[ترمیم]سیاسی عہدے | ||
---|---|---|
ماقبل | وزیر اعلیٰ پنجاب 1951–1953 |
مابعد |
ماقبل | وزیر دفاع پاکستان 1957 |
مابعد |
- 1915ء کی پیدائشیں
- 20 جنوری کی پیدائشیں
- 1995ء کی وفیات
- 30 جنوری کی وفیات
- لاہور میں وفات پانے والی شخصیات
- مقام و منصب سانچے
- سانچہ جات برائے پاکستانی سیاسی رہنما
- 1916ء کی پیدائشیں
- پاکستانی ارکان قومی اسمبلی 1947ء تا 1954ء
- پاکستانی وزرائے دفاع
- پاکستانی ہائی کمشنر برائے برطانیہ
- پنجاب (پاکستان) کے وزرائے اعلیٰ
- پنجابی شخصیات
- ضلع وہاڑی کی شخصیات
- دولتانہ خاندان
- پنجاب ارکان صوبائی اسمبلی 1947ء تا 1949ء
- پنجاب ارکان صوبائی اسمبلی 1951ء تا 1955ء
- تحریک پاکستان کے پنجاب سے کارکنان
- پاکستانی زمیندار
- پاکستانی سفارت کار