مندرجات کا رخ کریں

احمد الشرع

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(ابو محمد الجولانی سے رجوع مکرر)
احمد شرع
أحمد الشرع
سربراہ ریاست برائے شام
عہدہ سنبھالا
8 دسمبر 2024ء
وزیر اعظممحمد البشیر
پیشروبشار الاسد (بطور صدر)
امیرِ تحریر الشام
عہدہ سنبھالا
1 اکتوبر 2017ء
پیشروابو جابر شیخ
امیرِ جبہۃ فتح الشام
عہدہ سنبھالا
28 جولائی 2016ء – 28 جنوری 2017ء
امیرِ جبہۃ النصرہ
عہدہ سنبھالا
23 جنوری 2012ء – 28 جولائی 2016ء
ذاتی تفصیلات
پیدائش1982 (عمر 41–42 سال)[1]
ریاض، سعودی عرب[1][2]
قومیتشامی
عرفیت'الشیخ الفاتح'[3]
'
وفاداریموجودہ:
حکومت انقاذ سوریہ (2017–اب تک)

تحریر الشام (2017–اب تک)
سابقہ:
القاعدہ (2003–2016)[4]

جبہۃ فتح الشام (2016–2017)

تحریر الشام (28 جنوری 2017 – اب تک)
سالہائے فعالیت2003–موجود
درجہامیرِ تحریر الشام
مقابلے/جنگیں

احمد حسین شرع[5] (عربی: أحمد حسين الشرع؛ جنم: 1982ء)، جو اپنے سابقہ جنگی نام ابو محمد جولانی[6] (عربی: أبو محمد الجولاني) سے معروف ہیں، ایک شامی انقلابی عسکریت پسند ہیں[7][8] جو دسمبر 2024ء سے شام (سوریہ) کے عبوری سربراہ ریاست[9][10] اور سنہ 2017ء سے جنگجو گروہ تحریر الشام کے سپہ سالار (امیر) ہیں۔[11] تحریر الشام کے رہنما کے طور پر انھوں نے سنہ 2024ء کی شامی مزاحمتیوں کی کارروائیوں میں کلیدی کردار ادا کیا، جو بالآخر بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کا باعث بنی۔

سنہ 2016ء میں القاعدہ سے اعلانِ براءت کرنے سے قبل[12] جولانی القاعدہ کی شامی شاخ جبہۃ النصرہ (شام کی فتح کے لیے محاذ) کے امیر رہ چکے ہیں۔[13] امریکی وزارتِ خارجہ نے مئی 2013ء میں جولانی کو عالمی دہشت گرد قرار دیا،[14] اور چار سال بعد ان کو پکڑنے کے لیے معلومات فراہم کرنے والے کو دس ملین امریکی ڈالر انعام دینے کا اعلان کیا۔[15][16] 20 دسمبر 2024ء کو امریکا نے احمد الشرع کی گرفتاری پر مقرر انعام ختم کر دیا۔[17][18]

"جولانی" کی نسبت مرتفعاتِ جولان کی طرف ہے، جو ان کے جنگی نام کا حصہ ہے۔ سنہ 1967ء میں مرتفعاتِ جولان کے اکثر حصہ پر اسرائیل نے چھ روزہ جنگ میں قبضہ کر لیا تھا۔[19] جولانی نے 28 ستمبر 2014ء کو ایک آڈیو بیان جاری کیا، جس میں انھوں نے کہا کہ وہ "امریکا اور اس کے اتحادیوں" سے لڑیں گے اور اپنے جنگجوؤں پر زور دیا کہ وہ داعش کے خلاف جنگ میں مغرب کی مدد قبول نہ کریں۔[20]

حالات زندگی

[ترمیم]

خاندانی پس منظر

[ترمیم]

احمد حسین کا خاندان شام میں گولان کی پہاڑیوں تعلق رکھتا ہے۔ یہ خاندان سنہ 1967ء میں چھ روزہ جنگ کے دوران گولان کے علاقوں پر اسرائیلی قبضے کے بعد بے گھر ہو گیا تھا۔ احمد کے والد ایک عرب قوم پرست طالب علم تھے جو شام میں ناصریت پسندوں کے لیے سرگرم تھے۔ انھیں سنہ 1961ء اور سنہ 1963ء کی بغاوتوں کے بعد شروع ہونے والی ناصریت مخالف کارروائیوں کے دوران شامی بعثیوں نے قید کیا، جس میں متحدہ عرب جمہوریہ میں ٹوٹ گئی اور عرب سوشلسٹ بعث پارٹی کا قیام عمل میں آیا۔[21]

احمد کے والد بعد میں سنہ 1971ء میں عراق میں اپنی اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے کے لیے جیل سے فرار ہو گئے۔ اس عرصے کے دوران میں انھوں نے تنظیم آزادی فلسطین کی فدائیوں فلسطینیون کے ساتھ تعاون کے لیے اردن کا سفر بھی کیا تھا۔ سنہ 1970ء کی دہائی میں شام واپس آئے تو احمد کے والد کو دوبارہ قید کر دیا گیا، اس دور میں حافظ الاسد شخصی آمریت کے طور پر حکومت کر رہے تھے۔ بعد میں انھیں رہا کر دیا گیا اور ان کو سعودی عرب میں پناہ مل گئی۔[22]

ابتدائی زندگی اور جنگِ عراق

[ترمیم]

احمد سنہ 1982ء میں ریاض، سعودی عرب میں پیدا ہوئے، جہاں ان کے والد نے سنہ 1989ء تک بطور آئل انجینئر کام کیا۔ اسی سال احمد کا خاندان شام واپس آیا، اور انھوں نے دمشق کے محلے المزہ کے مشرقی دیہی مسکن میں پرورش پائی اور وہیں رہائش پزیر رہے، یہاں تک کہ سنہ 2003ء میں عراق منتقل ہوگئے۔[1]

سنہ 2006ء میں عراق میں امریکی افواج کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے بعد ابو محمد الجولانی کا مگ شاٹ

سنہ 2003ء میں عراق پر امریکی حملہ کے بعد امریکی دستوں سے لڑنے کے لیے جب احمد عراق منتقل ہو گئے تو وہ عراق میں القاعدہ میں رہتے ہوئے تیزی کے ساتھ پروان چڑھے۔ ٹائمز آف اسرائیل اخبار نے دعویٰ کیا کہ احمد عراقی القاعدہ کے رہنما ابو مصعب زرقاوی کے قریبی ساتھی تھے۔[6] امریکی ٹی وی چینل "فرنٹ لائن" کے ساتھ سنہ 2021ء کے ایک انٹرویو میں احمد نے زور دیتے ہوئے کہا کہ انھوں نے کبھی زرقاوی سے ذاتی طور پر ملاقات تک نہیں کی اور ابتدائی عراقی شورش (سنہ 2003ء تا سنہ 2006ء) کے دوران کسی بھی قیادت کے کردار سے انکار کیا، سوائے اس کے کہ وہ عراق میں القاعدہ کی کمان کے تحت ایک باقاعدہ پیادہ سپاہی کے طور پر عراق میں امریکی قبضہ کے خلاف لڑتے رہے تھے۔ سنہ 2006ء میں عراقی خانہ جنگی شروع ہونے سے پہلے احمد کو امریکی افواج نے گرفتار کر لیا اور مختلف جیلوں اور حراستی مراکز میں پانچ سال سے زیادہ عرصے تک قید رکھا۔ ان جیلوں میں ابو غریب، کیمپ بوکا، کیمپ کروپر اور تاجی جیل شامل ہیں۔[23]

شام کی خانہ جنگی

[ترمیم]

شام (سوریہ) کی بغاوت اور النُصرہ کی بُنیاد

[ترمیم]

سنہ 2011ء میں شامی انقلاب کے برپا ہونے کے بعد احمد نے ابو بکر بغدادی کے ساتھ شام میں منتقل ہونے اور القاعدہ کی شامی شاخ قائم کرنے کے لیے منصوبہ بندی اور اسے نافذ کرنے میں اہم کردار ادا کیا جسے جبہت النصرہ کہا جاتا ہے۔ یہ گروہ سنہ 2013ء تک دولۃ اسلامیہ عراق سے وابستہ تھا اور القاعدہ کے امیر ایمن ظواہری کی وساطت سے احمد اور ابو بکر بغدادی کے درمیان میں کسی بھی ممکنہ اختلافات کو حل کرنے کے لیے ایک معاہدہ ہوا تھا۔ احمد کی شام میں القاعدہ سے وابستہ تنظیم کی تشکیل میں آئی ایس آئی کی طرف سے دیے گئے مردوں، اسلحہ اور رقم سے مدد کی گئی۔ ان منصوبوں کو احمد اور دولۃ اسلامیہ عراق کے کچھ باغی رہنماؤں نے جیل سے رہائی کے بعد نافذ کیا تھا۔[24] احمد کو النصرہ کا "جنرل امیر" قرار دیا گیا، جس کا اعلان پہلی بار جنوری سنہ 2012ء میں کیا گیا۔ دسمبر 2012ء تک امریکی محکمہ خارجہ نے جبہۃ النصرہ کو سرکاری طور پر نامزد دہشت گرد تنظیم قرار دیا، یہ ملاحظہ کرتے ہوئے کہ یہ عراق میں القاعدہ (عراقی دولۃ اسلامیہ) کے لیے محض ایک نیا عرف تھا۔[25] احمد کی قیادت میں النصرہ شام کے طاقتور ترین گروہوں میں سے ایک بن گئی۔[6]

داعش کے ساتھ منازعات

[ترمیم]

احمد کو اپریل 2013ء میں اہمیت حاصل ہوئی، جب انھوں نے بغدادی کی النصرہ کو ایک آزاد گروہ کے طور پر تحلیل کرنے اور اسے عراقی دولۃ اسلامیہ (القاعدہ) (ISI) اور عراق اور شام میں دولۃ اسلامیہ (داعش) (ISIL) کے نام سے شامل کرنے سے انکار کر دیا۔ اس اقدام سے جبہۃا لنصرہ کی تمام مقامی خود مختاری ختم ہو گئی اور تمام رہنماؤں، فیصلوں اور اقدامات کو براہ راست ابوبکر البغدادی کے کنٹرول میں آگئے۔ جبہہ النصرہ کی خود مختاری اور انفرادی شناخت کو کھونے سے بچنے کے لیے، احمد نے براہ راست القاعدہ کے رہنما ایمن ظواہری سے وفاداری کا عہد کیا، ظواہری نے ایک آزاد تنظیم کے طور پر ان کے گروپ سے خروج کی احمد کی درخواست کی حمایت کی۔ اگرچہ، اس سے پہلے، النصرہ نے پہلے ہی دولۃ اسلامیہ عراق کے ذریعے القاعدہ کی بیعت کرچکی تھی، اب وہ سابقہ تنظیم کے ما تحت ہوگئی۔ بیعت کے بعد اس تبدیلی نے النصرہ کو القاعدہ کی باضابطہ شامی شاخ بنا دیا۔[26][27] ایمن ظواہری کے ساتھ اپنی وفاداری کے حلف کے باوجود ابو بکر بغدادی نے ان کے فیصلے کو مسترد کر دیا اور اعلان کیا کہ دونوں تنظیموں کا اتحاد آگے بڑھ رہا ہے۔ شامی علاقے پر کنٹرول کے لیے جبہت النصرہ اور داعش کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔[28][6]

النصرہ کی بحالی

[ترمیم]

مئی سنہ 2015ء کے آخر میں شام کی خانہ جنگی کے دوران احمد کا انٹرویو احمد منصور نے قطری نیوز براڈکاسٹر الجزیرہ پر چہرہ چھپا کر کیا۔ انھوں نے جنیوا امن کانفرنس کو ایک مذاق قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ مغربی حمایت یافتہ شامی قومی اتحاد شامی عوام کی نمائندگی نہیں کرتا اور شام میں زمینی موجودگی نہیں رکھتا۔ احمد نے ذکر کیا کہ النصرہ کا مغربی اہداف پر حملہ کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے، اور یہ کہ ان کی ترجیح بشار بعثی حکومت، حزب اللہ، اور دولت اسلامیہ عراق و شام (داعش) سے لڑنے پر مرکوز ہے۔ احمد کا کہنا ہے کہ "جبہہ النصرہ کے پاس مغرب کو نشانہ بنانے کا کوئی منصوبہ یا ہدایت نہیں ہے۔ ہمیں ایمن ظواہری کی طرف سے واضح احکامات موصول ہوئے ہیں کہ شام کو امریکا یا یورپ پر حملہ کرنے کے لیے لانچ پیڈ کے طور پر استعمال نہ کریں۔ حکومت کے خلاف حقیقی مشن کو سبوتاژ کرنے کے لیے شاید القاعدہ ایسا نہیں کرتی لیکن یہاں شام میں ایک طرف سے بشار حکومت، دوسری طرف سے حزب اللہ اور تیسرے محاذ پر داعش ہم سے لڑ رہے ہین۔ یہ سب ان کے باہمی مفادات سے متعلق ہے۔"[29]

جنگ کے بعد شام کے لیے النصرہ کے منصوبوں کے بارے میں پوچھے جانے پر، احمد نے کہا کہ جنگ ختم ہونے کے بعد، ملک کے تمام دھڑوں سے مشاورت کی جائے گی، اس سے پہلے کہ کوئی بھی "اسلامی ریاست کے قیام" پر غور کرے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ النصرہ بشار الاسد حکومت کی حمایت کے باوجود ملک کی نُصیری اقلیت کو نشانہ نہیں بنائے گی۔ "ہماری جنگ علویوں (نُصیریوں) کے خلاف انتقام کا معاملہ نہیں ہے، باوجود اس کے کہ اسلام میں انھیں بدعتی سمجھا جاتا ہے۔"[29] تاہم اس انٹرویو پر ایک تبصرہ کہتا ہے کہ احمد نے یہ بھی کہا کہ علویوں کو اس وقت تک تنہا چھوڑ دیا جائے گا جب تک وہ اپنے عقیدے کے ایسے عناصر کو ترک نہیں کرتے جو اسلام سے متصادم ہیں۔[30]

اکتوبر 2015ء میں احمد نے شام میں نُصیری دیہاتوں پر اندھا دھند حملوں کی کال دی۔ انھوں نے کہا، "جنگ کو تیز کرنے اور لاذقیہ میں علوی (نصیری) قصبوں اور دیہاتوں کو نشانہ بنانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔"[31] احمد نے روسی شہریوں پر سابق سوویت مسلمانوں کے حملے کی کال بھی دی۔[32][33]

جبہۃ فتح الشام

[ترمیم]

28 جولائی 2016ء کو احمد نے ایک ریکارڈ شدہ پیغام میں اعلان کیا کہ جبہۃ النصرہ آئندہ جبہۃ فتح الشام [شام کی فتح کے لیے محاذ] کے نئے نام سے کام کرے گی۔[34] اعلان کے ایک حصے کے طور پر احمد نے کہا کہ تجدید کیے گئے گروہ کا "کسی بیرونی ادارے سے کوئی تعلق نہیں ہے"۔ اگرچہ کچھ تجزیہ کاروں نے اس کا مطلب القاعدہ سے علیحدگی سے تعبیر کیا ہے، اعلان میں اس گروپ کا خاص طور پر ذکر نہیں کیا گیا تھا، اور احمد نے اس وقت ایمن ظواہری سے اپنی بیعت کو واضح طور پر ختم نہیں کیا تھا۔[35]

تحریر الشام کی تشکیل

[ترمیم]

28 جنوری 2017 کو احمد نے اعلان کیا کہ جبہۃ الفتح الشام تحلیل ہو جائے گی اور ایک نئے، بڑے شامی اسلام پسند گروپ میں شامل ہو جائے گی جسے ہیئۃ تحریر الشام ("جمعیت برائے آزادئ شام ") کہا جائے گا۔ ہیئۃ تحریر الشام (جسے مختصراً تحریر الشام کہا جاتا ہے) کے نام کے تحت، اس گروہ نے القاعدہ اور داعش نے لڑنے پر توجہ مرکوز کی تاکہ مغرب کے مخالفانہ تاثرات سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے۔ تحریر الشام کے ساتھ احمد نے داعش، القاعدہ، اور تحریر الشام کی نزدیکی مخالف طاقتوں کی اکثریت کو کچل دیا اور اب تحریر الشام سے منسلک حکومت برائے نجاتِ شام (سوریہ) کے زیر انتظام، تقریباً تمام محافظہ ادلب کو کنٹرول کر رہی ہے۔[36]

سنہ 2020ء کے موسم گرما میں، احمد نے رعایا کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ادلب کے اردگرد کئی مرتبہ عوام میں ظاہر ہوئے۔ سنہ 2020ء کے وسط میں تحریر الشام سے وابستہ میڈیا کے ذریعے ویڈیو آؤٹ پٹ میں نمایاں اضافہ ہوا، روزانہ متعدد ویڈیو شائع کی گئیں، جن میں حکومت کی ویڈیو، دیہی دیہاتوں میں ٹیکسوں کی تقسیم، فرنٹ لائن ویڈیو، اور احمد کی مقامی ملیشیا گروپوں کے ساتھ ملاقاتیں دکھائی گئیں۔

یکم دسمبر 2024ء کو ہفت روزہ رسالہ دی ویک نے روسی فضائی حملے میں احمد کی موت کے غیر مصدقہ دعووں کی اطلاع دی، جو بعض عرب میڈیا چینلوں اور سوشل میڈیا ذرائع میں گردش کر رہے تھے۔[37] تاہم یہ دعوے جھوٹے ثابت ہوئے جب ابو محمد احمد نے 4 دسمبر 2024ء کو حلب کے قلعہ کا دورہ کیا، جس پر ان کی افواج نے دسمبر 2024ء کے اوائل میں قبضہ کر لیا تھا۔[38][39]

دستاویزی فلم

[ترمیم]

1 جون 2021ء کو پی بی ایس فرنٹ لائن نے ایک دستاویزی فلم دی جہادسٹ جاری کی جس میں احمد الشرع کے ماضی کی شام کی خانہ جنگی کے تناظر میں تحقیق کی گئی۔

القاعدہ کے ساتھ اپنی ماضی کی وابستگی پر غور کرتے ہوئے، احمد الشرع نے انٹرویو میں تبصرہ کیا:

"خطے کی تاریخ اور پچھلے بیس یا تیس سالوں میں جو گذری اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے... ہم ایک ایسے خطے کے بارے میں بات کر رہے ہیں جس پر طواغیت کی حکومت ہے، ایسے لوگ جو جابرانہ اور ظالمانہ طریقہ اور اپنے حفاظتی آلات سے حکومت کرتے ہیں۔ ایک ہی وقت میں، یہ خطہ متعدد منازعات اور جنگوں میں گھرا ہوا ہے... ہم اس تاریخ کا ایک حصہ نہیں لے سکتے اور یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں فلاں شخص القاعدہ میں شامل ہو گیا۔ ہزاروں لوگ ایسے ہیں جنھوں نے القاعدہ میں شمولیت اختیار کی، لیکن ہم پوچھتے ہیں کہ ان لوگوں کے القاعدہ میں شامل ہونے کی وجہ کیا تھی؟ یہی سوال ہے۔ کیا دوسری جنگ عظیم کے بعد خطے کے بارے میں امریکی پالیسیاں لوگوں کو القاعدہ تنظیم کی طرف لے جانے کی جزوی طور پر ذمہ دار ہیں؟ اور کیا خطے میں یورپی پالیسیاں قضیہ فلسطین سے ہمدردی رکھنے والے لوگوں کے رد عمل کی ذمہ دار ہیں یا صیہونی سامراج فلسطینیوں کے ساتھ جس طرح کا برتاؤ کرتا ہے؟... شکستہ دل اور مظلوم لوگ جنھوں نے عراق یا افغانستان میں جو کچھ ہوا، کیا وہ اس کے ذمہ دار ہیں؟... ماضی میں القاعدہ کے ساتھ ہماری شمولیت ایک دور تھا، اور یہ اس وقت بھی ختم ہوا، اور اس وقت بھی جب ہم القاعدہ کے ساتھ تھے، ہم بیرونی حملوں کے خلاف تھے، اور یورپی یا امریکی لوگوں کو نشانہ بنانے کے لیے شام سے بیرونی کارروائیاں کرنا ہماری پالیسیوں کے بالکل خلاف ہے۔ یہ بالکل ہماری منصوبہ بندی کا حصہ نہیں تھا، اور ہم نے ایسا بالکل نہیں کیا۔"[40]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. ^ ا ب پ "بعد شهور.. الجولاني يكشف عن أسرار حياته لمارتن سميث"۔ Al Alam TV۔ 5 June 2021۔ 07 جون 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 جون 2021 
  2. "الجولاني يكشف أسراراً تتعلق بـ النصرة والبغدادي وجيفري يعلق: يجب علينا العمل معه"۔ أورينت نت (بزبان عربی)۔ 15 فروری 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 جون 2021 
  3. "Hearts, Minds and Black Flags: Jabhat al-Nusra's Data Dump Takes Aim at the Islamic State"۔ Syria: direct۔ February 2015۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 اکتوبر 2016 
  4. "State Department amends terror designation for al Nusrah Front | FDD's Long War Journal"۔ June 2018۔ 26 فروری 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مارچ 2021 
  5. "The Nusra Front breaks ties with al-Qaeda"۔ The World Weekly۔ 07 اگست 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 جولا‎ئی 2016 
  6. ^ ا ب پ ت "Elusive Al-Qaeda leader in Syria stays in shadows"۔ Times of Israel۔ 4 November 2013۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جون 2015 
  7. Mostafa Salem (2024-12-06)۔ "How Syria's rebel leader went from radical jihadist to a blazer-wearing 'revolutionary'"۔ CNN (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 دسمبر 2024 
  8. "Is the overthrow of Assad good for the Palestinians?"۔ Middle East Monitor۔ 2024-12-09۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 دسمبر 2024 
  9. Adam Haskel (2024-12-08)۔ "Abu Mohammad al-Julani: Who is Syria's de facto ruler?"۔ JNS.org (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 دسمبر 2024 
  10. "Syrian fighters name Mohammed al-Bashir as caretaker prime minister"۔ Al Jazeera (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 دسمبر 2024 
  11. "Julani is a temporary leader of the "Liberation of the Sham" .. This is the fate of its former leader"۔ ہف پوسٹ۔ 2 October 2017۔ 02 اکتوبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 اکتوبر 2017 
  12. "Al-Nusra leader Jolani announces split from al-Qaeda"۔ Al Jazeera۔ 29 July 2016۔ 03 دسمبر 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  13. "Syrian Nusra Front announces split from al-Qaeda"۔ BBC News۔ 29 July 2016۔ 30 جولا‎ئی 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 جولا‎ئی 2016 
  14. "Terrorist Designation of Al-Nusrah Front Leader Muhammad Al-Jawlani"۔ U.S. Department of State۔ 22 اگست 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جون 2017 
  15. "U.S. offers $10M reward for information on al-Nusra leader"۔ UPI.com۔ 11 مئی 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 مئی 2017 
  16. "Muhammad al-Jawlani"۔ Rewards for Justice۔ 20 اگست 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 اگست 2021 
  17. "امریکہ نے شام کے رہنما احمد الشرع کی گرفتاری پر مقرر انعام ختم کر دیا"۔ وائس آف امریکہ۔ 21 دسمبر 2020۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 دسمبر 2024 
  18. Tom Bateman۔ "US scraps $10m bounty for arrest of Syria's new leader Sharaa"۔ BBC (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 دسمبر 2024 
  19. "Meet the Islamist militants fighting alongside Syria's rebels"۔ Time۔ 26 July 2012۔ 01 ستمبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 اکتوبر 2014 
  20. "U.S. and its allies strike ISIS tank, refineries and checkpoints"۔ CNN۔ 28 September 2014۔ 12 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 اکتوبر 2014 
  21. "The Jihadist"۔ پی بی ایس۔ 07 جون 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 جون 2021 
  22. "The Jihadist"۔ پی بی ایس۔ 07 جون 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 جون 2021 
  23. "Interview-Abu Mohammad al-Jolani"۔ PBS Frontline۔ 2 April 2021۔ Most of the information available on the internet is false... No, I didn’t meet Abu Musab al-Zarqawi. Abu Musab al-Zarqawi was mostly present in Fallujah and Ramadi and around this region, and I was in Mosul during that time. I was a regular soldier. I wasn’t involved in any major operations that I would meet al-Zarqawi. 
  24. "Interview-Abu Mohammad al-Jolani"۔ PBS Frontline۔ 2 April 2021 
  25. "Terrorist Designations of the al-Nusrah Front as an Alias for al-Qa'ida in Iraq"۔ U.S. Department of State۔ 30 جنوری 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2017 
  26. "Al-Nusra Commits to al-Qaeda, Deny Iraq Branch 'Merger'"۔ Agence France Presse۔ 10 April 2013۔ 01 اپریل 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 اکتوبر 2014 
  27. "Qaeda chief annuls Syrian-Iraqi jihad merger"۔ Al Jazeera English۔ 9 June 2013۔ 25 مئی 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 اکتوبر 2014 
  28. "ISIS vows to crush rival rebel groups"۔ The Daily Star۔ 8 January 2014۔ 07 جنوری 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 اکتوبر 2014 
  29. ^ ا ب "Syria Al-Qaeda leader: Our mission is to defeat regime, not attack West"۔ al-Jazeera۔ 28 May 2015۔ 01 جون 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 مئی 2015 
  30. Aron Lund (29 May 2015)۔ ""Abu Mohammed al-Golani's Aljazeera Interview""۔ Syria Comment۔ 26 جون 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جون 2015 
  31. "Syria's Nusra Front leader urges wider attacks on Assad's Alawite areas to avenge Russian bombing"۔ The Daily Telegraph۔ 13 October 2015۔ 26 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 اپریل 2018 
  32. "Russian Embassy shelled in Syria as insurgents hit back"۔ Yahoo News۔ 13 October 2015۔ 19 اکتوبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 اکتوبر 2015 
  33. "Head of al Qaeda's Syrian branch threatens Russia in audio message"۔ The Long War Journal۔ 13 October 2015۔ 13 اپریل 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اکتوبر 2015 
  34. "Syrian Nusra Front announces split from al-Qaeda"۔ 28 July 2016۔ 30 جولا‎ئی 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 جولا‎ئی 2016 
  35. "Analysis: Al Nusrah Front rebrands itself as Jabhat Fath Al Sham | FDD's Long War Journal"۔ FDD's Long War Journal۔ 28 July 2016۔ 24 مارچ 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جنوری 2017 
  36. "The Jihadist"۔ پی بی ایس۔ 07 جون 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 جون 2021 
  37. "Did Russia kill the leader of the Islamist group HTS hours after his men stormed Syria's Aleppo?"۔ The Week (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 دسمبر 2024 
  38. "Syrian rebels surround key city Hama on 'three sides', war monitor says" (بزبان انگریزی)۔ France 24۔ 4 December 2024۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 دسمبر 2024 
  39. Agence France-Presse (2024-12-05)۔ "Syrian rebels surround strategic city of Hama after Aleppo takeover"۔ The Guardian (بزبان انگریزی)۔ ISSN 0261-3077۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 دسمبر 2024 
  40. "Interview-Abu Mohammad al-Jolani"۔ PBS Frontline۔ 2 April 2021