6 روزہ جنگ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
6 روزہ جنگ
عرب اسرائیل جنگیں
سلسلہ عرب اسرائیل تنازعہ  ویکی ڈیٹا پر (P361) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عمومی معلومات
آغاز 5 جون 1967  ویکی ڈیٹا پر (P580) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اختتام 10 جون 1967  ویکی ڈیٹا پر (P582) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مقام مشرق وسطیٰ  ویکی ڈیٹا پر (P276) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
متحارب گروہ
 اسرائیل باقاعدہ:
 مصر
 سوریہ
 اردن
امداد:
 عراق
قائد
اسحاق رابین
موشے دایان
آرئیل شارون
عبدالحکیم عامر
عبدالمنیم ریاض
زید ابن شاکر
حافظ الاسد
قوت
2 لاکھ 64 ہزار، 197 لڑاکا طیارے مصر ایک لاکھ 50 ہزار، شام 75 ہزار، اردن 55 ہزار، سعودی عرب 20 ہزار؛ 812 لڑاکا طیارے
نقصانات
779 ہلاکتیں، 2563 زخمی، 15 قیدی 21 ہزار ہلاکتیں، 45 ہزار زخمی، 6 ہزار قیدی، 400 سے زائد طیارے تباہ
سوئز بحران  ویکی ڈیٹا پر (P155) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جنگ استنزاف  ویکی ڈیٹا پر (P156) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

6 روزہ جنگ (عربی:حرب الأيام الستة) جسے عرب اسرائیل جنگ 1967ء، تیسری عرب اسرائیل جنگ اور جنگ جون بھی کہا جاتا ہے مصر، عراق، اردن اور شام کے اتحاد اور اسرائیل کے درمیان لڑی گئی جس میں اسرائیل نے فیصلہ کُن کامیابی حاصل کی۔

پس منظر[ترمیم]

عرب اسرائیل تنازع
عرب اسرائیل جنگ 1948سوئز بحران6 روزہ جنگجنگ استنزافجنگ یوم کپورجنوبی لبنان تنازع 1978جنگ لبنان 1982جنوبی لبنان تنازع 1982-2000انتفاضہ اولجنگ خلیجالاقصی انتفاضہ2006 اسرائیل لبنان تنازع

مصر کے صدر جمال عبدالناصر کی جانب سے دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی سب سے نمایاں مثال یمن کی ہے۔ یہاں انھوں نے پہلے تو یمنی حریت پسندوں کے ایک گروہ سے سازش کرکے ستمبر 1965ء میں امام یمن کا تختہ الٹ دیا اور جب اس کے نتیجے میں شاہ پسندوں اور جمہوریت پسندوں کے درمیان جنگ چھڑگئی تو صدر عبدالناصر نے اپنے حامیوں کی مدد کے لیے وسیع پیمانے پر جیش اور اسلحہ یمن بھیجنا شرع کر دیا اور چند ماہ کے اندر یمن میں مصری فوجوں کی تعداد 70 ہزار تک پہنچ گئی۔ بلاشبہ صدر ناصر کے اس جرات مندانہ اقدام کی وجہ سے عرب کے ایک انتہائی پسماندہ ملک یمن میں بادشاہت کا قدیم اور فرسودہ نظام ختم ہو گیا اور جمہوریت کی داغ بیل ڈال دی گئی لیکن یہ اقدام خود مصر کے لیے تباہ کن ثابت ہوا۔ ہمیشہ کی طرح یہاں بھی جمہوریت نے تباہی پھیلانا شروع کر دی۔ 

صدر ناصر کی غلط فہمی[ترمیم]

صدرعبدالناصر یمن کی فوجی امداد کے بعد اس غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے تھے کہ اب مصر دنیائے عرب کا سب سے طاقتور ملک بن گیا ہے وہ اسرائیل کے مقابلے میں روس پر مکمل اعتماد کر سکتا ہے چنانچہ ایک طرف تو انھوں نے طاقت کے مظاہرے کے لیے ہزاروں فوجی یمن بھیج دیے اور دوسری طرف اسرائیل کو دھمکیاں دینا اور مشتعل کرنا شروع کر دیا۔ اقوام متحدہ کی جو جیش 1956ء سے اسرائیل اور مصر کی سرحد پر تعینات تھی صدر عبدالناصر نے اس کی واپسی کا مطالبہ کر دیا اور آبنائے عقبہ کو جہازرانی کے لیے بند کرکے اسرائیل کی ناکہ بندی کردی۔

واقعات جنگ[ترمیم]

جزیرہ نما سینا پر اسرائیلی قبضہ 1967ء

اسرائیل نے جو جنگ کے لیے پوری طرح تیار تھا اور جس کو امریکا کی امداد پر بجا طور پر بھروسا تھا مصر کی کمزوری کا اندازہ کرکے جون 1967ء کے پہلے ہفتے میں بغیر کسی اعلان جنگ کے اچانک مصر پر حملہ کر دیا اور مصر کا بیشتر فضائی بیڑا ایک ہی حملے میں تباہ کر دیا۔ مصر کی جیش کا بڑا حصہ یمن میں تھا جسے بروقت بلانا نا ممکن تھا نتیجہ یہ ہوا کہ 6 دن کی مختصر مدت میں اسرائیل نے نہ صرف باقی فلسطین سے مصر اور اردن کو نکال باہر کیا بلکہ شام میں گولان پہاڑیاں اور مصر کے پورے جزیرہ نمائے سینا پر بھی قبضہ کر لیا اور مغربی بیت المقدس پر بھی اسرائیلی جیش کا قبضہ ہو گیا۔

ہزاروں مصری فوجی کو اسیر بنا لیے گئے اور روسی اسلحہ اور ٹینک یا تو جنگ میں برباد ہو گئے یا اسرائیلیوں کے قبضے میں چلے گئے۔ عربوں نے اپنی تاریخ میں کبھی اتنی ذلت آمیز شکست نہیں کھائی ہوگی اور اس کے اثرات سے ابھی تک عربوں کو نجات نہیں ملی۔ اسرائیل کے مقابلے میں اس ذلت آمیز شکست کے بعد مصری صدر عبدالناصر کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ سعودی عرب اور اردن سے مفاہمت پیدا کی اور شاہ فیصل سے تصفیہ کے بعد جس کے تحت مصر نے یمن میں مداخلت نہ کرنے کا عہد کیا، مصری جُیُوش یمن سے واپس بلالی گئیں۔ مصر کی ہزیمت کی سب سے بڑی وجہ مصری جیش کی نااہلی اور مصری عسکری نظام کے نقائص تھے لیکن مصری جیش اور اسلحہ کی بڑی تعداد کو یمن بھیجنا بھی ہزیمت کی بڑی بڑی وجوہات تھی۔

اسرائیل کا امریکی بحری جہاز پر حملہ[ترمیم]

مصری سمندر کے قریب اسرائیلی جہازوں نے امریکی بحریہ کے جہاز لبرٹی پر حملہ کیا، جس میں 34 امریکی ہلاک ہوئے۔ اسرائیل اور امریکا نے بعد میں اسے غلط فہمی کا نتیجہ قرار دیا مگر اس کی امریکا نے باقاعدہ تحقیقات سے گریز کیا۔ بعض محققین نے دعوٰی کیا ہے کہ حملہ منصوبے کے تحت کیا گیا۔ ارادہ یہ تھا کہ جہاز ڈوبنے کے بعد ملبہ مصر پر ڈال کر امریکا کو براہِ راست جنگ میں گھسیٹ لیا جائے۔ مگر جہاز ڈوبا نہیں اور اس لیے مصر پر اتّہام نہیں لگایا جا سکا۔[1]

پاک فضائیہ[ترمیم]

پاک فضائیہ پر مضمون کے لیے دیکھیے پاک فضائیہ

6 روزہ جنگ میں پاک فضائیہ کے ہوا بازوں (پائلٹوں) نے بھی حصہ لیا ۔[2] پاکستانی ہوا باز اردن، مصر اور عراق کی فضائیہ کی جانب سے لڑے اور اسرائیلی فضائیہ کے 3 جہازوں کو مار گرایا جبکہ ان کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔ بعض اطلاعات کے  مطابق اسرائیلی جیش کی پیش قدمی رکنے کی سب سے بڑی وجہ جنگ میں پاک فوج کی شمولیت تھی گویا کہ پاکستان کی صرف فضائیہ نے حصہ لیا تھا۔

نتائج[ترمیم]

امریکی لائف میگزین کا سرورق، ایک اسرائیلی فوجی (بعد ازاں میجر یوسی بن حنان) نہر سوئز پر اسرائیلی قبضے کے بعد، ہاتھ میں کلاشنکوف جو کسی عرب سپاہی سے چھینی گئی ہے

اس جنگ میں عرب افواج کے 21 ہزار فوجی ہلاک، 45 ہزار مجروح اور 6 ہزاراسیر بنالئے گئے جبکہ اندازہ 400 سے زائد طیارے تباہ ہوئے۔

جبکہ اس کے مقابلے میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اسرائیل کے 779 فوجی مارے گئے جبکہ 2563 مجروح اور 15 اسیر بنالئے گئے۔

جون 1967ء کی جنگ میں ہزیمت کے نتیجے میں غزہ (فلسطین) اور جزیرہ نمائے سینا کا 24 ہزار مربع میل (ایک لاکھ 8 ہزار مربع کلومیٹر) کا علاقہ اسرائیل کے قبضے میں آ گیا، نہر سوئز بند ہو گئی اور مصر جزیرہ نمائے سینا کے تیل کے چشموں سے محروم ہو گیا۔ صدر عبدالناصر نے شکست کی ذمہ داری تسلیم کرتے ہوئے فورا استعفی دے دیا لیکن ان کا استعفی واپس لینے کے لیے قاہرہ میں مظاہرے کیے گئے اور صدر عبدالناصر نے استعفی واپس لے لیا۔ اس طرح صدر عبدالناصر کا اقتدار تو قائم رہا لیکن 1967ء کی ہزیمت کی وجہ سے مصری جیش کی عزت خاک میں مل گئی۔ لوگ فوجیوں کو دیکھ کر فقرے چست کرنے لگے جس کی وجہ سے فوجیوں کو عام اوقات میں وردی پہن کر سڑکوں پر نکلنے سے روک دیا گیا۔

مصر کو معاشی نقصانات[ترمیم]

1967ء کی جنگ نے مصر کی معیشت کو بھی سخت نقصان پہنچایا۔ مصر کی آمدنی کا ایک بہت بڑا ذریعہ نہر سوئز تھی جس کی وجہ سے مصر کو ہر سال ساڑھے 9 کروڑ ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے۔ نہر کے مشرقی کنارے پر اسرائیل کا قبضہ ہوجانے کے بعد نہر سوئز میں جہاز رانی بند ہو گئی۔ ایک ایسے موقع پر جبکہ مصر کو اسرائیل کی جارحانہ کارروائیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اور اپنی معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے سرمائے کی ضرورت تھی نہر سوئز کی آمدنی کا بند ہونا بڑا تباہ کن ثابت ہوتا لیکن سعودی عرب، کویت اور لیبیا آڑے آئے اور تینوں نے مل کر ساڑھے 9 کروڑ ڈالر سالانہ کی امداد فراہم کرکے نہر سوئز کی بندش سے ہونے والے نقصان کی تلافی کردی۔

جولائی 1968ء میں صدر ناصر نے روس کا دورہ کیا جس کے بعد روس نے مصر کو از سر نو مسلح کرنا شروع کیا۔ روس نے پہلی مرتبہ زمین سے ہوا میں چلائے جانے والے کم فاصلے کے میزائل مصر کو دیے۔ آواز کی رفتار سے ڈیڑھ گنا تیز چلنے والے جیٹ طیارے اور 500 ٹینک دینے کا وعدہ کیا۔ تین ہزار فوجی مشیر اور فنی ماہر بھی فراہم کیے۔ عرب ملکوں میں سعودی عرب، کویت اور لیبیا نے وسیع پیمانے پر مالی امداد فراہم کی۔ روس اور عرب ملکوں کی اس امداد سے مصر کے فوجی نقصانات کی ایک حد تک تلافی بھی ہو گئی اور اقتصادی حالت بھی سنبھل گئی۔ 1968ء کے آخر میں اسوان بند نے بھی کام شروع کر دیا۔

مغربی ذرائع ابلاغ[ترمیم]

اگرچہ جنگ کا آغاز اسرائیل نے کیا تھا، مگر دوسرے دن یورپ کی کئی معزز اخبارات نے چیختی ہوئی سرخیاں لگائیں جس میں عربوں کو جارح بتایا گیا تھا۔ میڈیا پر کنٹرول کا فائدہ ہمیشہ کی طرح مغرب نے اٹھایا[3]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. بی بی سی، 8 جون 2007ء Why did Israel attack USS Liberty?
  2. "اسکریمبل ڈاٹ این ایل"۔ 17 دسمبر 2001 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 فروری 2008 
  3. انڈیپنڈنٹ، برطانیہ، 9 جون 2007ء آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ news.independent.co.uk (Error: unknown archive URL) Robert Fisk: Lies and outrages... would you believe it?