ایران عراق جنگ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ایران عراق جنگ
سلسلہ جنگ خلیج  ویکی ڈیٹا پر (P361) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عمومی معلومات
آغاز 22 ستمبر 1980  ویکی ڈیٹا پر (P580) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اختتام 20 اگست 1988  ویکی ڈیٹا پر (P582) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ اختتام کئی وجوہات  ویکی ڈیٹا پر (P1542) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مقام ایران،  عراق،  خلیج فارس  ویکی ڈیٹا پر (P276) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
متحارب گروہ
 ایران  عراق
قائد
روح اللہ خمینی
علی شامخانی
صدام حسین
علی حسن الماجد
نقصانات
فوجی ہلاکتیں زخمی اور گمشدہ:تقریباََ 500،000 افراد فوجی ہلاکتیں زخمی اور گمشدہ: تقریباََ 375،000 افراد
ایران عراق جنگ - 22 ستمبر ،1980ء تہران

پس منظر

ایران عراق جنگ کا باعث دریائے شط العرب ہے۔ مگر بعض مبصرین کے خیال میں شط العرب کو محض ایک بہانہ کے طور پر استعمال کیا گیا اور عراق نے امریکا کے ایما پر ایران پر حملہ کیا۔ اس دریا کے علاقے میں ایران عراق سرحد کا تعین کرنے کے لیے ایران اور خلافت عثمانیہ کے مابین 1823ء میں ارض روم میں ایک معاہدہ طے پایا تھا جس پر بوجوہ عمل نہ ہو سکا۔ 1847ء میں ایک دوسرے معاہدے (ارض روم ترکی) کے ذریعے ایران نے سلیمانیہ کا علاقہ خلافت عثمانیہ کی تحویل میں دے دیا۔ جبکہ ایران کو محمرہ (خرم شہر) اور خضر (آبادان) اور شط العرب کی مشرقی آبادیاں دے دی گئیں۔ تاہم ایران کو بھی اس دریا میں جہاز رانی کا حق دے دیا گیا۔ 1911ء میں تہران میں ایران اور عراق کے مابین یہ طے پایا کہ دونوں ملک سرحدوں کی نشان دہی کے سلسلے میں مشترکہ کمیشن قائم کریں لیکن یہ کمیشن بھی اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہا۔

معاہدہ استبنول

بالاخر ترکی، روس اور برطانیہ کی کوششوں سے 17 نومبر 1913ء کو استنبول کے مقام پر ایران اور سلطنت عثمانیہ کے مابین ایک معاہدہ طے پایا۔ جس کی رو سے برطانیہ، روس، سلطنت عثمانیہ اور ایران کے نمائندوں پر مشتمل چار رکنی کمیشن کا قیام عمل میں آیا۔ کمیشن نے ایک سال کی کوششوں کے بعد اکتوبر 1914ء میں ایران اور عراق کے مابین سرحدوں کا تعین کیا۔ نتیجے کے طور پر محمرہ کی بندرگاہ کے نواح میں دریا کے وسط میں سرحد قائم کی گئی اور فوری طور پر بندرگاہ کا نظم و نسق عراق کے حوالے کر دیا گیا۔

منسوخی اور اقوام انجمن

1932ء میں ایران میں جب رضا شاہ پہلوی کی حکومت قائم ہوئی تو اس نے 1913ء اور 1914ء میں ہونے والے معاہدوں کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ عراق نے اس مسئلے کو انجمن اقوام (League of Nations) میں پیش کر دیا۔ جمعیت اقوام نے مشورہ دیا کہ دونوں ممالک اس مسئلے کو آپس میں مذاکرات کے ذریعے حل کریں۔ چنانچہ دونوں ممالک کے مابین 4 جولائی 1937ء کو ایک معاہدے پر دستخط ہوئے۔ جس میں 1913ء اور 1914ء کے معاہدوں کو دوبارہ تسلیم کر لیا گیا۔ 1937ء میں یہ معاہدہ نافذ العمل ہوا۔

1937ء کے معاہدہ سے انکار اور الجزائر کی مداخلت

9 اپریل 1969ء میں ایران نے یکطرفہ طور پر اس معاہدے (1937ء) کو ماننے سے انکار کر دیا جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان جھڑپوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ چھ سال بعد 5 مارچ 1975ء کو الجزائر کے دار الحکومت میں الجزائر کے صرد بومدین کی نگرانی میں دونوں ملکوں کے مابین ایک معاہدہ طے پایا۔ گواہ کے طور ہر الجزائر کے صدر نے اس معاہدے پر دستخط کیے۔ اس معاہدے کے اہم نکات یہ تھے :۔

ایران فوجی جنگ کے شمالی محاذ ہر CH-47 Chinook ہیلی کاپٹر سے اتر رہے ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق اس جنگ میں صرف ایران کا نقصان 350 بلین امریکی ڈالر تھا۔
  • 1937ء میں لندن میں ہونے والے معاہدے (معاہدہ لندن) کو منسوخ تصور کیا جائے۔ ( اس معاہدے میں شط العرب پر ایرانی حاکمیت کی نفی کی گئی تھی۔ )
  • 1913ء کا معاہدہ جو میثاق استنبول کے نام سے مشہور ہوا تھا اور خلافت عثمانیہ اور سلطنت قاچار کے مابین طے پایا تھا دوبارہ بحال تصور ہوگا۔
  • معاہدہ استنبول کے تحت ایران اور عراق کے درمیان جن سرحدوں کا تعین کیا گیا تھا وہ درست تصور کی جائیں گی ار نیا سرحدی کمیشن اسی معاہدے کے مطابق حد بندی کرے گا۔
  • ایران اور عراق ملکر پورے خطے کو بیرونی یعنی غیر ملکی اثرات سے محفوظ رکھيں گے۔
  • ایران کی جانب سے کردوں کی مالی امدار بند کر دی جائے گی۔
  • کسی مسلے کی صورت میں الجزائر کے صدر کی جانب رجوع کیا جائے گا۔
  • دونوں ملکوں میں سے کسی نے بھی اس کی خلاف ورزی کی تو یہ معاہدہ نا قابل عمل تصور کیا جائے گا۔

1975معاہدے کی خلاف ورزی

22 ستمبر ،1980ء کو ایران پر حملہ کرنے کے بعد صدام حسین نے شیخی بگھاری کہ وہ 3 دن میں تہران پر قبضہ کر لیں گے .
محمد رضا شاہ پہلوی کے دور تک اس کی خلاف ورزی نہ کی گئی لیکن ستمبر 1980ء میں عراقی فوجوں نے مشترکہ سرحد عبور کر کے 1975ء کے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایران پر حملہ کر دیا۔ اور اہم علاقوں پر قبضہ کر لیا۔

اقوام متحدہ کی کوششیں

اس دوران سلامتی کونسل نے قرارداد نمبر 479 کے ذریعے دونوں ممالک سے جنگ بندی کی درخواست کی۔ اس کے لیے عراق کے صدر صدام حسین نے یہ شرائط پیش کیں :۔

اسلامی ممالک کی تنظیم کی کوششیں

ایران نے بھی اس وقت جنگ بند نہ کرنے کا اعلان کیا۔ پھر امہ امن کمیٹی (اسلامی ممالک کی تنظیم کے ذیلی ادارے) نے بھی چار نکاتی امن منصوبہ بیش کیا جس میں کہا گیا تھا:۔

  • دونوں ممالک فورا جنگ بند کریں۔
  • امن عامہ کی صورت حال کے بارے میں بین الاقوامی ضمانت حاصل کی جائے۔
  • عراقی فوجیوں کی ایرانی سر زمین سے واپسی اور
  • اسلامی کانفرنس کے زیر اہتمام مذاکرات ہوں۔

غیر جانبدار ممالک کی تنظیم نے بھی جنگ بندی کروانے کی کوششیں کیں۔

عراقی فوجیوں کا انخلاء

بعد ازاں کسی شرط کے بغیر عراق نے مقبوضہ علاقوں سے اپنی فوجیں واپس بلانے کا اعلان کیا لیکن ایران نے عراق کی اس پیش کش کو مسترد کر دیا اور یہ شرائط پیش کیں :۔

  • ایرانی سر زمین سے تمام عراقی فوجی نکال لیے جائیں۔
  • عراق خود کو جارحیت کا مرتکب قرار دے
  • عراق ایران جنگ جت نقصانات کا تاوان ادا کرے اور
  • صدر صدام حسین کو صدارت سے علاحدہ کیا جائے۔

ایسا معلوم ہوتا تھا کہ عراق نے پہلی تین شرائط مان لی ہیں لیکن چوتھی کو تسلیم نہیں کیا۔ تاہم دونوں ممالک کے مابین جنگ بند کروانے کی مثبت کوششیں نہ ہو سکیں اور یہ تنازع پہلے سے کہیں زیادہ خونی شکل اختیار کر گیا۔

اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 598

بعد ازاں 20 جون 1987ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ جو ملک جنگ بندی کو قبول نہیں کرے گا اس کے لیے ہتھیاروں کی فراہمی روک دی جائے گی۔ بات چیت کی روشنی میں قرارداد نمبر 598 منظور کی گئی جس میں دونوں ممالک سے مطالبہ کیا گیا کہ:۔

  • وہ اپنی فوجیں بین الاقوامی سرحدوں پر واپس لے جائیں۔
  • مبصروں کی ایک ٹیم مقرر کی جائے جو جنگ بندی کے عمل کی نگرانی کرے۔
  • دونوں ممالک اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے تعاون کریں۔
  • دوسرے ممالک سے بھی کہا گیا کہ وہ جنگ بندی کے لیے کوششیں کریں۔

ایران کا رد عمل

ایران نے اس قرارداد کو مسترد کر دیا۔ ستمبر 1987ء میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل پیرز ڈی کوئیا نے ایران کے حکام کے ساتھ مذاکرات کیے جن کے نتیجے میں ایران نے نومبر 1987ء میں جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کر دی۔ جبکہ جنوری اور فروری 1988ء میں جنگ نے پھر شدت اختیار کر لی۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے دارالحکومتوں پر ميزائل داغے جس سے متعدد شہرى ہلاک ہوئے۔ جون 1988ء میں ایران نے جنوبی عراق پر حملے کیے۔

مستقل جنگ بندی

تاہم 18 جولائی 1988ء میں ایران نے ڈرامائی طور پر جنگ بندی پر رضامندی کا اظہار کیا۔ چنانچہ 8 اگست 1988ء کو دونوں ممالک میں جنگ بندی ہو گئی۔ بعد ازاں تنازعات کے حل کے لیے جنیوا میں مذاکرات ہوئے جو ناکام رہے۔ یہ جنگ دس سال تک جاری رہى جس میں دونوں اطراف سے کھربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔

مزید دیکھیے