سلطنت غوریہ
سلطنت غوریہ شنسبانی | |||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
1148–1215 | |||||||||
دار الحکومت | ہرات ، غور ، غزنی ، لاہور | ||||||||
عمومی زبانیں | فارسی (درباری شاعری)[1] | ||||||||
مذہب | سنی اسلام | ||||||||
حکومت | سلطان | ||||||||
سُلطان | |||||||||
• 1148-1157 | علاؤالدین جہاں سوز | ||||||||
• 1157-1202 | غیاث الدین محمد غوری | ||||||||
• 1202-1206 | شہاب الدین محمد غوری | ||||||||
• 1206-1210 | قطب الدین ایبک | ||||||||
تاریخ | |||||||||
• | 1148 | ||||||||
• | 1215 | ||||||||
|
غوری خاندان (Ghurid dynasty) یا غوری (Ghurids یا Ghorids) (فارسی: سلسله غوریان) تاجیک نژاد سابقہ زرتشت اور بعد میں سنی مسلمان وسطی افغانستان کے صوبہ غور کے خطے سے شروع ہونے والی غوری سلطنت کے بانی تھے ۔ سلطنت غوریہ 552ھ تا 603ھ تک قائم حکومت تھی جس کو برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ غوری خاندان کی اس حکومت کو تاریخ میں ”آل شنسب“ کی حکومت بھی کہا جاتا ہے ۔
اہمیت
[ترمیم]غوری خاندان کی حکومت سلطنت غزنویہ کے خاتمے کے بعد قائم ہوئی اگرچہ یہ حکومت صرف 50 سال قائم رہی لیکن تاریخ اسلام میں اس کو اس وجہ سے بڑی اہمیت حاصل ہے کہ اس کے زمانے میں شمالی ہند اور بنگال میں پہلی مرتبہ اسلامی حکومت کی بنیادیں پڑی۔
غوری خاندان شروع میں خاندان غزنی کی حکومت کا باجگذار تھا اور کابل اور ہرات کے درمیان غور کے پہاڑی علاقے پر اس کی حکومت تھی۔ اس علاقے کا مرکز فیروز کوہ تھا۔ غور کے باشندے نسلاً تاجک تھے۔ اس وقت تک اسلامی تاریخ میں جن قوموں نے نمایاں کردار ادا کیا تھا وہ عرب، ایرانی، ترک اور بربر تھے۔ غوریوں کے دور حکومت میں تاجک پہلی مرتبہ اسلامی تاریخ کی ایک عظیم قوم کی حیثیت سے نمایاں ہوئے ۔
سلطنت کا قیام
[ترمیم]سلطان ابراہیم غزنوی (451ھ تا 492ھ) کے بعد غور کے حکمران ملک عز الدین حسین نے خود مختاری حاصل کرلی۔ اس کے بعد اس کا بیٹا سیف الدین سوری حکمران ہوا۔ اس نے بہرام شاہ غزنوی (512ھ تا 547ھ) کے زمانے میں غزنی پر حملہ کیا اور شہر پر قبضہ کرکے سلطان کا لقب اختیار کیا لیکن بہرام شاہ نے جلد ہی غزنی کو اس سے چھین لیا اور سیف الدین کو قتل کرادیا۔ جب سیف الدین کے بھائی علائو الدین حسین کو اطلاع ملی تو اس نے بھائی کا انتقام لینے کے لیے غزنی پر حملہ کر دیا اور شہر کو آگ لگادی اور سات دن تک قتل عام کیا۔ اس ظالمانہ اقدام پر وہ تاریخ میں علائو الدین جہانسوز کے نام سے جانا جاتا ہے۔ 551ھ میں علائو الدین جہانسوز کا انتقال ہو گیا۔
غور کے علاقے میں اس وقت تک قرامطہ اور اسماعیلی فرقے کا بہت اثر تھا اور علائو الدین بھی ان کا ہم عقیدہ تھا لیکن جب اس کا لڑکا سیف الدین ثانی جو سنی عقیدے کا تھا، تخت پر بیٹھا تو اس نے غور کے علاقے سے قرامطہ کا اثر ختم کر دیا۔
غیاث الدین اور شہاب الدین
[ترمیم]تفصیلی مضمون کے لیے شہاب الدین غوری
غور کے خاندان کے حقیقی اہمیت دو بھائیوں غیاث الدین اور شہاب الدین محمد غوری کے زمانے میں حاصل کی جو سیف الدین ثانی کے چچا زاد بھائی تھے اور سیف الدین کے انتقال کے بعد یکے بعد دیگرے تخت نشین ہوئے۔ غیاث الدین غوری نے 567ھ بمطابق1173ء میں غزنی کو مستقل طور پر فتح کر لیا اور شہاب الدین محمد غوری کو سلطان معز الدین کا خطاب دے کر غزنی میں تخت پر بٹھایا۔ غیاث الدین نے اس دوران ہرات اور بلخ بھی فتح کر لیے اور ہرات کو اپنا دار الحکومت بنایا۔
سلطان شہاب الدین غوری اگرچہ اپنے بھائی کا نائب تھا لیکن اس نے غزنی میں ایک آزاد حکمران کی حیثیت سے حکومت کی اور پاکستان اور شمالی ہندوستان کو فتح کرکے تاریخ میں مستقل مقام پیدا کر لیا۔ 598ھ میں اپنے بھائی کے انتقال کے بعد وہ پوری غوری سلطنت کا حکمران بن گیا۔
شہاب الدین کی فتوحات
[ترمیم]شہاب الدین غوری نے اپنی فتوحات کا آغاز ملتان اور اوچ سے کیا اور 1175ء میں دونوں شہر فتح کر لیے، اس کے بعد 1179ء میں پشاور اور 1182ء میں دیبل کو فتح کرکے غوری سلطنت کی حدود کو بحیرہ عرب کے ساحل تک بڑھا دیا۔ بعد ازاں شہاب الدین نے 1186ء میں لاہور پر قبضہ کرکے غزنوی خاندان کی حکومت ہمیشہ کے لیے ختم کردی۔
فتح لاہور کے بعد شہاب الدین نے بھٹنڈہ فتح کیا، جس پر دہلی اور اجمیر کے ہندو راجا پرتھوی راج چوہان ایک زبردست فوج لے کر اس کے مقابلے پر آیا اور تلاوڑی کے میدان میں شہاب الدین کو شکست دی، لیکن شہاب نے اگلے ہی سال پچھلی شکست کا بدلہ چکاتے ہوئے نہ صرف پرتھوی راج کو شکست دی بلکہ وہ جنگ میں مارا بھی گیا۔ شہاب نے آگے بڑھ کر دہلی اور اجمیر کو فتح کر لیا اور اس کے سپہ سالار بختیار خلجی نے بہار اور بنگال کو زیرنگیں کیا، یوں پورا شمالی ہندوستان اور پاکستان مسلمانوں کے قبضے میں آگیا۔
کھوکھروں کا قبول اسلام
[ترمیم]شہاب الدین کے زمانے میں غیر مسلموں کی اکثریت نے اسلام قبول کیا۔ دریائے جہلم اور سندھ کے درمیان کھوکھر نامی ایک قوم آباد تھی جن کے یہاں ایک مسلمان قید تھا۔ اس مسلمان قیدی کی تبلیغ سے یہ قبیلہ مسلمان ہو گیا۔ پاکستان میں بلوچستان کے پہاڑی علاقوں کے پٹھان بھی اسی زمانے میں اسلام لائے ۔
ہرات کی ترقی
[ترمیم]اس تمام مدت میں شہاب الدین محمد غوری کا بھائی غیاث الدین ہرات پر حکومت کرتا رہا۔ اس نے ہرات شہر کو بڑی ترقی دی اور وہاں ایک شاندار جامع مسجد تعمیر کرائی جو آج بھی موجود ہے اور شہر ہرات کی سب سے اہم اور بڑی عمارت ہے۔ غیاث الدین نے 46 سال حکومت کی اور 598ھ میں اس کے انتقال کے بعد شہاب الدین محمد غوری ہرات میں بھائی کی جگہ پوری غوری سلطنت کا بادشاہ ہو گیا۔
خاتمہ
[ترمیم]غوریوں اور خوارزم شاہی سلطنت کے درمیان جنگوں کا سلسلہ پرانا تھا اور انہی لڑائیوں کے سلسلے میں شہاب الدین 601ھ میں خوارزم تک پہنچ گیا لیکن وہاں اس کو شکست ہوئی اور یہ مشہور ہو گیا کہ محمد غوری جنگ میں کام آگیا۔ اس خبر کے پھیلنے پر پنجاب کے کھوکھروں نے بغاوت کردی۔ محمد غوری فوراً پنجاب آیا اور بغاوت ختم کی لیکن بغاوت ختم کرنے کے بعد جب وہ واپس جا رہا تھا تو دریائے جہلم کے کنارے ایک اسماعیلی فدائی نے حملہ کرکے اسے شہید کر دیا۔ شہاب الدین محمد غوری کی شہادت کے ساتھ غوری خاندان کی حکومت بھی ختم ہو گئی۔ ہرات اور غزنی کے علاقوں پر خوارزم شاہ کی حکومت قائم ہو گئی اور برصغیر پاک و ہند میں محمد غوری کے وفادار غلام اور دہلی میں سلطان کے نائب قطب الدین ایبک نے ایک مستقل اسلامی حکومت قائم کرلی۔
معروف شخصیات
[ترمیم]غوریوں کے زمانے کے علما میں امام فخر الدین رازی (543ھ تا 606ھ بمطابق 1149ء تا 1209ء) کا نام بہت ممتاز ہوئے۔ وہ پیدا تو رے میں ہوئے لیکن زندگی کے آخری 24 سال غزنی اور ہرات میں گزارے۔ ہرات میں ان کے لیے ایک مدرسہ قائم کر دیا گیا تھا جہاں وہ درس دیتے تھے۔ امام رازی نے علم کلام اور فقہ میں کئی اہم کتابیں لکھیں لیکن ان کی شہرت تفسیر کبیر کی وجہ سے ہے جو قرآن کی بہترین تفسیروں میں شمار ہوتی ہے۔ سلطان غیاث الدین غوری کے عقائد کی اصلاح میں امام رازی کا بڑا ہاتھ تھا۔ ان کی اصلاحی کوششوں کی وجہ سے ہی باطنی ان کے دشمن ہو گئے تھے ۔
عہد غوریہ کی دوسری اہم شخصیت خواجہ معین الدین چشتی متوفی 633ھ بمطابق 1235ء کی ہے۔ وہ شہاب الدین غوری کے زمانے میں ہندوستان آئے اوراجمیر میں رہائش اختیار کی اور وہاں غیر مسلموں میں اسلام پھیلایا۔
سلاطین غوریہ
[ترمیم]552ھ تا 603ھ بمطابق 1157ء تا 1206ء
- غیاث الدین محمد غوری 552ھ تا 598ھ بمطابق 1157ء تا 1202ء
- شہاب الدین غوری 598ھ تا 602ھ بمطابق 1202ء تا 1206ء
اہم تاریخیں
[ترمیم]- تلاوڑی کی پہلی جنگ 587ھ بمطابق 1191ء
- تلاوڑی کی دوسری جنگ 588ھ بمطابق 1192ء
- دہلی کی فتح 588ھ بمطابق 1192ء
- بنگال کی فتح 595ھ بمطابق 1198ء
- مالوہ کی فتح 596ھ بمطابق 1199ء
- گوالیار کی فتح 597ھ بمطابق 1200ء
- کالپی اور کالنجر کی فتح 598ھ بمطابق 1202ء
مزید مطالعہ کے لیے
[ترمیم]- آئینہ حقیقت نما از اکبر شاہ خاں نجیب آبادی
- تاریخ اسلام حصہ چہارم از اکبر شاہ خان نجیب آبادی
- امام رازی از عبد السلام ندوی (دارالمصنفین، اعظم گڑھ)
اردو میں سلاطین غور سے متعلق کوئی مستقل اور اچھی کتاب موجود نہیں۔ مذکورہ بالا کتابوں میں ان سے متعلق مفید معلومات ہیں۔ ان کے علاوہ تاریخ فرشتہ کا اردو ترجمہ حصہ اول اور تاریخ ہندوستان حصہ اول از ذکاء اللہ بھی ملاحظہ کیجئے ۔
حوالہ جات
[ترمیم]ویکی ذخائر پر سلطنت غوریہ سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |
- ↑ The Development of Persian Culture under the Early Ghaznavids, C.E. Bosworth, Iran, Vol. 6, (1968), 35.