مشتری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مشتری ♃
کسینی سے لی گئی مشتری کی ایک جامع تصویر۔
تعین کاری
تلفُّظ/ˈp[invalid input: 'ɪ-']tər/ ( سنیے)[1]
صفاتمشتر
محوری خصوصیات[5][ا]
مفروضہ وقت J2000
اوج شمسی816520800 کلومیٹر (5.458104 AU)
حضیض شمسی740573600 کلومیٹر (4.950429 AU)
778547200 کلومیٹر (5.204267 AU)
انحراف0.048775
398.88 دن[3]
13.07 km/s[3]
18.818°
میلانیت
100.492°
275.066°
معلوم قدرتی سیارچہ67 بمطابق 2012
طبیعی خصوصیات
اوسط رداس
69911±6 کلومیٹر[6][ب]
قطبی رداس
  • 66854±10 کلومیٹر[6][ب]
  • 10.517 زمین
چپٹا پن0.06487±0.00015
  • 6.1419×1010 km2[ب][7]
  • 121.9 زمین
حجم
  • 1.4313×1015 km3[3][ب]
  • 1321.3 زمین
کمیت
  • 1.8986×1027 کلوg[3]
  • 317.8 زمین
  • 1/1047 سورج[8]
اوسط کثافت
1.326 g/cm3[3][ب]
24.79 m/s2[3][ب]
2.528 g
59.5 km/s[3][ب]
9.925 h[9] (9 h 55 m 30 s)
استوائی گردشی_رفتار
12.6 km/s
45300 کلومیٹر/گھنٹہ
3.13°[3]
North_pole right ascension
268.057°
17h 52m 14s[6]
North_pole declination
64.496°[6]
Albedo0.343 (Bond)
0.52 (geom.)[3]
سطحی درجہ حرارت کم اوسط زیادہ
1 bar level 165 K (-108.15 °C)[3]
0.1 bar 112 K[3]
−1.6 to −2.94[3]
29.8″ to 50.1″[3]
فضا[3]
20–200 kPa[10] (cloud layer)
27 km
Composition by volume
89.8±2.0% ہائیڈروجن (H2)
10.2±2.0% شمصر (He)
≈ 0.3% میتھین (CH4)
≈ 0.026% امونیا (NH3)
≈ 0.003% ہائیڈروجن دومداد (HD)
0.0006% ایتھین (C2H6)
0.0004% پانی (H2O)

Ices:

مشتری (انگریزی: Jupiter) ہمارے نظام شمسی کا سورج سے پانچواں اور سب سے بڑا سیارہ ہے۔ گیسی دیو ہونے کے باوجود اس کا وزن سورج کے ایک ہزارویں حصے سے بھی کم ہے لیکن نظام شمسی کے دیگر سیاروں کے مجموعی وزن سے زیادہ بھاری ہے۔ زحل، یورینس اور نیپچون کی مانند مشتری بھی گیسی دیو کی درجہ بندی میں آتا ہے۔ یہ سارے گیسی دیو ایک ساتھ مل کر جووین یعنی بیرونی سیارے کہلاتے ہیں[11]۔

قدیم زمانے سے لوگ مشتری کو جانتے تھے اور مختلف ثقافتوں اور مذاہب میں مشتری کو نمایاں حیثیت دی گئی تھی۔ رومنوں نے اس سیارے کو اپنے دیوتا جیوپیٹر کا نام دیا تھا[12]۔ زمین سے دیکھا جائے تو رات کے وقت آسمان پر چاند اور زہرہ کے بعد مشتری تیسرا روشن ترین اجرام فلکی ہے[13]۔

مشتری کا زیادہ تر حصہ ہائیڈروجن سے بنا ہے جبکہ ایک چوتھائی حصہ ہیلیئم پر بھی مشتمل ہے۔ عین ممکن ہے کہ اس کے مرکزے میں بھاری دھاتیں بھی پائی جاتی ہوں[14]۔ تیز محوری حرکت کی وجہ سے مشتری کی شکل بیضوی سی ہے۔ بیرونی فضاء مختلف پٹیوں پر مشتمل ہے۔ انہی پٹیوں کے سنگم پر طوفان جنم لیتے ہیں۔ عظیم سرخ دھبہ نامی بہت بڑا طوفان سترہویں صدی سے دوربین کی ایجاد کے بعد سے مسلسل دیکھا جا رہا ہے۔ مشتری کے گرد معمولی سا دائروی نظام بھی موجود ہے اور اس کا مقناطیسی میدان کافی طاقتور ہے۔ مشتری کے کم از کم 63 چاند ہیں جن میں چار وہ ہیں جو 1610 میں گلیلیو نے دریافت کیے تھے۔ ان میں سے سب سے بڑا چاند عطارد یعنی مرکری سے بھی بڑا ہے۔

مشتری پر خودکار روبوٹ خلائی جہاز بھیجے گئے ہیں جن میں سے پائینیر اور وائجر اہم ترین ہیں جو اس کے قریب سے ہو کر گذرے تھے۔ بعد میں اس پر گلیلیو نامی جہاز بھیجا گیا تھا جو اس کے گرد محور میں گردش کرتا رہا۔ اس وقت تک کا سب سے آخری جہاز نیو ہورائزن ہے جو فروری 2007 میں اس کے قریب سے گذرا تھا اور اس کی منزل پلوٹو ہے۔ مشتری کی کشش ثقل کی مدد سے اس جہاز نے اپنی رفتار بڑھائی ہے۔ مستقبل کے منصوبوں میں برف سے ڈھکے مائع سمندروں والے چاند یورپا کی تحقیق شامل ہے۔

بناوٹ[ترمیم]

مشتری زیادہ تر گیسوں اور مائع جات سے بنا ہے۔ نہ صرف بیرونی چار سیاروں میں بلکہ پورے نظام شمسی میں سب سے بڑا سیارہ ہے۔ اس کے خط استوا پر اس کا قطر 1،42،984 کلومیٹر ہے۔ مشتری کی کثافت 1.326 گرام فی مکعب سینٹی میٹر ہے جو گیسی سیاروں میں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ ہے تاہم چار ارضی سیاروں کی نسبت یہ کثافت کم ہے۔

ساخت[ترمیم]

مشتری کی بالائی فضاء کا 88 سے 92 فیصد حصہ ہائیڈروجن سے جبکہ 8 سے 12 فیصد ہیلیئم سے بنا ہے۔ چونکہ ہیلیئم کے ایٹم کا وزن ہائیڈروجن کے ایٹم کی نسبت 4 گنا زیادہ ہوتا ہے اس لیے مختلف جگہوں پر یہ گیسیں مختلف مقداروں میں ملتی ہیں۔ بحیثیت مجموعی فضاء کا 75 فیصد حصہ ہائیڈروجن جبکہ 24 فیصد ہیلئم سے بنا ہے۔ باقی کی ایک فیصد میں دیگر عناصر آ جاتے ہیں۔ اندرونی حصے میں زیادہ وزنی دھاتیں پائی جاتی ہیں اور ان میں 71 فیصد ہائیڈروجن، 24 فیصد ہیلیئم اور 5 فیصد دیگر عناصر بحساب وزن موجود ہیں۔ فضاء میں میتھین، آبی بخارات، امونیا اور سیلیکان پر مبنی مرکبات ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ کاربن، ایتھین، ہائیڈروجن سلفائیڈ، نیون، آکسیجن، فاسفین اور گندھک بھی انتہائی معمولی مقدار میں ملتی ہیں۔ سب سے بیرونی تہ میں جمی ہوئی امونیا کی قلمیں ملتی ہیں۔[15][16] زیریں سرخ اور بالائے بنفشی شعاعوں کی مدد سے کی گئی پیمائشوں میں بینزین اور دیگر ہائیڈرو کاربن بھی دیکھی گئی ہیں۔[17]

ہائیڈروجن اور ہیلیئم کی فضائی خصوصیات قدیم شمسی نیبولا سے بہت ملتی جلتی ہیں۔ تاہم نیون گیس کی مقدار دس لاکھ اجزاء میں محض 20 ہے جو سورج پر موجود مقدار کا محض دسواں حصہ ہے۔[18] ہیلیئم کی مقدار بھی اب کم ہو رہی ہے تاہم اب بھی اس کی مقدار سورج کی نسبت محض 80 فیصد باقی رہ گئی ہے۔[19] اس کے علاوہ مشتری کی فضاء میں انرٹ گیس کی مقدار سورج کی نسبت دو سے تین گنا زیادہ ہے۔

سپیکٹرو سکوپی کے مشاہدے کی بنا پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ سیٹرن کی ساخت مشتری سے مماثل ہے لیکن دیگر گیسی دیو یورینس اور نیپچون پر ہائیڈروجن اور ہیلیئم کی مقدار بہت کم ہے۔[20] تاہم چونکہ مشتری سے آگے کسی سیارے کی سطح پر مشاہداتی خلائی جہاز نہیں اتارے گئے اس لیے ان کی فضائی ساخت کے متعلق تفصیل سے کچھ بتانا مشکل ہے۔

کمیت[ترمیم]

مشتری کا رداس سورج سے دس گنا کم ہے اور زمین کا رداس مشتری سے دس گنا چھوٹا ہے۔ عظیم سرخ دھبے کی چوڑائی زمین کے برابر ہے

مشتری کی کمیت نظام شمسی کے دیگر تمام سیاروں کے مجموعی وزن سے اڑھائی گنا زیادہ ہے۔ زمین کی نسبت مشتری گیارہ گنا زیادہ بڑا دکھائی دیتا ہے لیکن اسی نسبت سے اگر وہ زمین جتنا بھاری ہوتا تو اسے زمین کی نسبت 1321 گنا زیادہ بھاری ہونا چاہیے تھا لیکن یہ سیارہ محض 318 گنا زیادہ بھاری ہے۔[3][21] مشتری کا قطر سورج کے قطر کا دسواں حصہ ہے,[22] اور اس کی کمیت سورج کی کمیت کے صفر اعشاریہ صفر صفر ایک فیصد کے برابر ہے۔ اس لیے سورج اور مشتری کی کثافت برابر ہے[23]۔ مشتری کی کمیت کو پیمائش کی اکائی بنا کر بین النظام الشمسی سیاروں اور بونے ستاروں کی پیمائش کی جاتی ہے۔

مختلف سائنسی مفروضات کے مطابق اگر مشتری کی کمیت زیادہ ہوتی تو یہ سیارہ سکڑ جاتا۔[24] اگر مشتری کی کمیت میں معمولی سا بھی رد و بدل کر دیا جائے تو اس کے قطر پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ تاہم اگریہ اضافہ ایک اعشاریہ چھ گنا[24] ہو جائے تو مرکزہ اپنی کشش کے باعث سکڑ نے لگے گا اور کمیت میں اضافے کے باوجود سیارے کا قطر کم ہوتا جائے گا۔ نتیجتاً یہ کہا جاتا ہے کہ مشتری کی طرح کے سیارے دراصل زیادہ سے زیادہ مشتری جتنے ہی بڑے ہو سکتے ہیں۔ تاہم اگر مشتری کی کمیت 50 گنا بڑھ جائے تو پھر یہ بھورا بونا ستارہ بن جائے گا جیسا کہ بعض کثیر الشمسی نظاموں میں ہوتا ہے [25]۔

اگرچہ مشتری کو ستارہ بننے کے لیے 75گنا زیادہ کمیت درکار ہوگی تاکہ وہ ہائیڈروجن کے ملاپ سے ستارہ بن سکے۔ سب سے چھوٹا سرخ بونا ستارہ دراصل مشتری کے قطر سے محض تیس فیصد بڑا ہے[26] ۔ اس وجہ سے مشتری ہر سال دو سینٹی میٹر جتنا سکڑ رہا ہے۔ جب مشتری پیدا ہوا تھا تو بہت زیادہ گرم اور موجودہ حجم سے دو گنا بڑا تھا[27]۔

اندورنی ساخت[ترمیم]

مشتری کے مرکزے میں مختلف عناصر پائے جاتے ہیں جن کے گرد دھاتی ہائیڈروجن بشمول کچھ ہیلیئم کے مائع شکل میں موجود ہے جس کے باہر مالیکیولر ہائیڈروجن ہے۔ اس کے علاوہ مزید باتیں ابھی یقین سے نہیں کہی جا سکتیں۔ مرکزے کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ پتھریلا ہے لیکن مزید تفصیلات معلوم نہیں۔ 1997 میں کشش ثقل کی پیمائش سے مرکزے کی موجودگی کا ثبوت ملا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ مرکزہ زمین سے 12 تا 45 گنا زیادہ بھاری ہے اور مشتری کے کل کمیت کے 4 سے 14 فیصد کے برابر[28][29]۔ تاہم یہ پیمائشیں سو فیصد قابل اعتبار نہیں ہوتیں اور عین ممکن ہے کہ مرکزہ سرے سے ہو ہی نہ۔

مشتری کے چاند، سطح اور اندرون کی پیمائش قطر
تراشہ شدہ مشتری جس میں اس کا چٹانی مرکزہ اور اس کے اوپر مائع دھاتی ہائیڈروجن کی موٹی تہ دکھائی دے رہی ہے۔

کرہ فضائی[ترمیم]

حجم کے اعتبار سے مشتری ہمارے نظام شمسی کا سب سے بڑا کرہ فضائی رکھتا ہے جو 5000 کلومیٹر تک بلند ہے[30] ۔

بادلوں کی تہ[ترمیم]

دوائجر اول کی 25 فروری 1979 کو 92 لاکھ کلومیٹر کی دوری سے لی گئی اس تصویر میں عظیم سرخ دھبہ اور اس کے آس پاس کا علاقہ دکھائی دے رہا ہے۔ عظیم سرخ دھبے کے نیچے سفید گول طوفان کا حجم زمین کے تقریباً برابر ہے

مشتری پر امونیا کی قلموں یعنی کرسٹل اور ممکنہ طور پر امونیم ہائیڈرو سلفائیڈ کے بادل مستقل طور پر چھائے رہتے ہیں۔ بعض جگہوں پر 100 میٹر فی سیکنڈ یعنی 360 کلومیٹر فی گھنٹہ تک کی ہوا عام پائی جاتی ہے[31]۔

اس متحرک تصویر میں مشتری پر گھڑیال موافق حرکت کرتے بادلوں کی پٹیاں دکھائی دے رہی ہیں: 720 پکسل، 1799 پکسل.

بادلوں کی یہ تہ تقریباً 50 کلومیٹر موٹی ہے اور اس میں دوتہیں ہیں۔ اوپری تہ ہلکی جبکہ نچلی تہ گہری اور بھاری ہے۔ مشتری پر چمکنے والی آسمانی بجلی سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان بادلوں کی تہ کے نیچے پانی کے بادلوں کی بھی ہلکی تہ موجود ہوگی[28]۔ یہ بجلی زمینی بجلی کی نسبت ہزار گنا زیادہ طاقتور ہو سکتی ہے[32]۔
بادلوں کے رنگ نارنجی اور بھورے ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ جس مادے سے بنے ہیں، وہ سورج کی بالائے بنفشی شعاعوں میں اپنا رنگ بدلتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ یہ بادل فاسفورس، گندھک اور شاید ہائیڈرو کاربن سے بنے ہوں[28][33]۔
مشتری اپنے محور کے گرد اس طرح گھومتا ہے کہ اس کے قطبین پر سورج کی روشنی نسبتاً کم پڑتی ہے[21]۔

عظیم سرخ دھبہ اور دیگر بھنور[ترمیم]

مشتری کا عظیم سرخ دھبہ مختصر ہو رہا ہے (15 مئی 2014).[34]

مشتری کا سب سے نمایاں نشان اس کا عظیم سرخ دھبہ ہے جو خط استوا سے 22 ڈگری جنوب میں موجود ایک اینٹی سائکلونک طوفان ہے اور اس کا رقبہ زمین سے بڑا ہے[35]۔ 1831 سے اس کے بارے معلومات ہیں اور عین ممکن ہے کہ اسے پہلی بار 1665 میں دیکھا گیا ہو۔ریاضیاتی ماڈلوں سے پتہ چلتا ہے کہ ممکنہ طور پر یہ طوفان مشتری کی مستقل خاصیت ہو۔ 12 سینٹی میٹر یا اس سے زیادہ قطر کے عدسے والی دوربین سے اس طوفان کا بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔

وائجر اول نے مشتری سے قریب ہوتے ہوئے ایک ماہ سے زیادہ عرصے کے دوران یہ تصویر کھینچی جس میں فضائی پٹیوں کی حرکت اور عظیم سرخ دھبے کے چکر کھانے کو دیکھا جا سکتا ہے بڑی تصمیم والی وڈیو

بیضوی جسم گھڑیال مخالف سمت گھومتا ہوا چھ دن میں ایک گردش مکمل کرتا ہے۔ عظیم سرخ دھبے کی لمبائی اور چوڑائی 24000 سے 40000 ضرب 12000 سے 14000 کلومیٹر ہے[36] اور نزدیکی بادلوں کے بالائی سرے سے آٹھ کلومیٹر اونچا ہے[37]۔
اس طرح کے طوفان دیگر گیسی دیوؤں پر بھی عام پائے جاتے ہیں۔ مشتری پر سفید اور بھورے طوفان بھی ہیں لیکن ان کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ یہ طوفان نسبتاً ٹھنڈے بادلوں سے بنے ہیں۔

سیاروی حلقے[ترمیم]

The حلقہ ہائے مشتری

مشتری کے گرد مدھم حلقے پائے جاتے ہیں جس کے تین حصے ہیں۔ ایک اندرونی، ایک درمیانی نسبتاً روشن اور ایک بیرونی[38]۔ یہ حلقے گرد سے بنے ہیں اور زحل کے حلقوں کی مانند سے برف سے نہیں بنے[28]۔ اصل حلقہ شاید مشتری کے اپنے چاندوں ایڈریاسٹا اور میٹس سے خارج شدہ مادے سے بنا ہے۔ عام طور پر خارج ہونے والا مادہ جو واپس اسی چاند میں جا گرنا چاہیے، مشتری کی طاقتور کشش کی وجہ سے مشتری پر جا گرتا ہے[39]۔

مقناطیسی میدان[ترمیم]

مشتری پرانوار قطبی

مشتری کا مقناطیسی میدان زمین کی نسبت 14 گنا زیادہ طاقتور ہے اور اس کی پیمائش 4.2 سے 10-14 گاز تک ہے۔ یہ مقدار ہمارے نظامِ شمسی میں سورج کے دھبوں کے بعد سب سے زیادہ طاقتور ہے[40]۔ مشتری کے چاند آئی او کے آتش فشاں سلفر ڈائی آکسائیڈ کی بہت بڑی مقدار خارج کرتے ہیں۔
مشتری کی 75 جسامتوں کے فاصلے پر اس کا مقناطیسی میدان اور شمسی ہوا ٹکراتے ہیں۔ مشتری کے چاروں بڑے چاند اس کے مقناطیسی میدان میں ہی حرکت کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ شمسی ہوا سے بچے رہتے ہیں[28]۔

مدار اور گردش[ترمیم]

مشتری(سرخ) سورج(مرکزہ) کے گرد ایک چکر 11.86زمینی (نیلا رنگ) گردشوں میں مکمل کرتا ہے

مشتری واحد سیارہ ہے جو سورج کے مرکزثقل سے صرف 7٪ دوری پر ہے، یہ سورج کے حجم کے باہر اس کے ساتھ ہے[41]۔مشتری کا مدار سورج سے 77 کروڑ 80 لاکھ کلومیٹر دور ہے جو زمین اور سورج کے درمیانی فاصلے کا 5 گنا ہے۔ اس کے علاوہ سورج کے گرد اس کا ایک چکر 11.86 زمینی سالوں میں پورا ہوتا ہے[42]۔ مشتری کے محوری جھکاؤ نسبتا چھوٹا ہے: صرف 3.13 °۔ جس کے نتیجے میں مشتری پر زمین اور مریخ کے برعکس زیادہ موسمی تبدیلیاں نہیں آتیں[43]۔ مشتری کی اپنے محور پر گردش پورے نظامِ شمسی میں سب سے تیز ہے جو دس گھنٹے سے بھی کم وقت میں مکمل ہو جاتی ہے۔ زمین سے اچھی دوربین کی مدد سے مشتری کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کی شکل بیضوی ہے جس کی وجہ سے اس کا نصف قطر خطِ استوا پر قطبین کی نسبت بڑا ہے۔ اسی وجہ سے قطبین پر نصف قطر خطِ استوا کی نسبت 9275 کلومیٹر کم ہے[44]۔ کیونکہ مشتری ایک ٹھوس جسم نہیں ہے، اس کی بالائی فضا میں متفاوت گردش رونما ہوتی ہیں۔مشتری کے قطبی فضا کی گردش استوائی فضا سے تقریبا 5 منٹ طویل ہے[45]۔

مشاہدہ[ترمیم]

چاند اور مشتری پہلو بہ پہلو
بظاہر واپس جاتے ہوئے بیرونی سیارے کی حرکت دراصل اس کے زمین کے مقام سے منسلک ہوتی ہے

مشتری آسمان پر سورج، چاند اور زہرہ کے بعد چوتھا روش ترین اجرام فلکی ہے[40]۔ تاہم بعض اوقات مریخ اس سے زیادہ روشن دکھائی دیتا ہے۔ مشتری کے مقام کا دارومدار زمین کی نسبت سے ہے، اس کا وہ نظارہ جو نظر آتا ہے حقیقت میں اس سے مختلف ہو سکتا ہے، یہ سورج کے عطف سے−2.9 سے −1.6 تک نیچے ہو سکتا ہے۔ اسی طرح مشتری کے زاویاتی قطر 50.1 سے 29.8 آرک سیکنڈ پر مختلف ہوتی ہے[3]۔ زمین اپنے مدار میں گردش کرتے وقت ہر 398.9 دن بعد مشتری کو پیچھے چھوڑ دیتی ہے۔ اس وجہ سے جب زمین آگے نکلتی ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے مشتری نے اچانک ہی اپنی حرکت کی سمت الٹ دی ہو۔مشتری کی سورج کے گرد بارہ سال میں ایک چکر علم نجوم میں اہمیت رکھتا ہے اور شاید برجوں کا سلسلہ اسی کے مشاہدے سے شروع ہوا تھا[21]۔ چونکہ مشتری کا مدار زمین کے مدار سے باہر کی جانب ہے، اس لیے مشتری ہمیشہ زمین سے روشن دکھائی دیتا ہے۔ خلائی جہاز سے کھینچی گئی تصویر میں مشتری ہلال کی شکل میں بھی دکھائی دے سکتا ہے[46]۔ایک چھوٹی دوربین عام طور پر مشتری کی فضا میں، مشتری کے چار گلیلی چاند اور نمایاں بادلوں کی پٹی دکھائے گی[47]۔ جب کہ ایک بڑی دوربین مشتری کا عظیم سرخ داغ بھی دکھائے گی۔

تحقیق اور مہم جوئی[ترمیم]

ماقبل دوربین[ترمیم]

عہد بابل کے لوگوں نے 7ویں یا 8ویں صدی قبل مسیح میں مشتری کا مشاہدہ کیا تھا[48] ۔ چینی فلکیاتی تاریخ دان ژی زیزنگ نے دعویٰ کیا ہے کہ ایک چینی فلکیات دان نے مشتری کے ایک چاند کو 362 ق م میں بغیر کسی آلے کے دریافت کر لیا تھا۔ اگر یہ بات سچ ہے تو یہ دریافت گلیلیو کی دریافت سے 2000 سال پہلے ہوئی ہوگی[49][50]۔ دوسری صدی میں بقراط نے مشتری کا ماڈل بنایا تھا جس کے مطابق مشتری سورج کے گرد ایک چکر 11.86 سال میں پورا کرتا ہے[51]۔ 499 عیسوی میں آریا بھاتا نامی ہندوستانی فلکیات دان اور ریاضی دان نے بھی لگ بھگ یہی نتیجہ نکالا تھا[52]۔

ارضی دوربینی مشاہدات[ترمیم]

1610 میں گلیلیو گلیلی نے دوربین کی مد سے مشتری کے چار بڑے چاند آئی او، یورپا، گائنامیڈ اور کالیسٹو (جنہیں گلیلین چاند بھی کہا جاتا ہے) دریافت کیے۔ دوربین کی مدد سے زمین کے علاوہ کسی بھی سیارے کے چاند کو پہلی بار تبھی دیکھا گیا تھا۔ گلیلیو کا یہ مشاہدہ ثابت کرتا تھا کہ کسی بھی اجرام فلکی کی حرکت اس حساب سے نہیں ہو رہی کہ زمین کو مرکز مانا جائے۔ کوپرنیکس کے نظریے کے حق میں یہ مشاہدہ بہت اہم ثابت ہوا۔ کوپرنیکس کے نظریے کی کھلی حمایت کی وجہ سے گلیلیو کو مواخذے کا سامنا کرنا پڑا[53]۔

1660 کی دہائی میں کسینی نے ایک نئی دوربین کی مدد سے مشتری پر دھبوں اور دیگر نشانات کو دریافت کیا اور بتایا کہ مشتری گول نہیں بلکہ بیضوی شکل کا ہے اور اس کے قطبین نسبتاً پچکے ہوئے ہیں[16]۔ 1690 میں کسینی نے دریافت کیا کہ مشتری کی پوری فضاء یکساں رفتار سے حرکت نہیں کرتی[28]۔

مشتری کا عظیم دھبہ جو مشتری کی اہم اور مستقل نشانی ہے، کو پہلی بار 1664 میں رابرٹ ہک نے اور پھر 1665 میں جیوانی کسینی نے الگ الگ دیکھا۔ 1831 میں فارماسیسٹ ہنرچ شوابے نے اس عظیم دھبے کی شکل پہلی بار بنا کر پیش کی[54]۔

1665 سے 1708 کے دوران یہ دھبہ مشاہدے سے اوجھل رہا اور پھر 1878 میں پھر واضح دکھائی دینے لگا۔ 1883 اور پھر 20ویں صدی کے آغاز میں پھر یہ دھندلا ہوتا دکھائی دیا[55]۔

جیوانی بوریلی اور کسینی نے مشتری کے بڑے چاندوں کی گردش کے جدول بنائے کہ کب کون سا چاند مشتری کے سامنے آئے گا اور کب اس کے پیچھے چھپ جائے گا۔ تاہم 1670 میں جب یہ بات پتہ چلی کہ مشتری زمین سے سورج کی دوسری جانب ہے تو یہ حرکات توقع سے 17 منٹ زیادہ تاخیر سے ہوں گی، کیسنی نے پہلے ہی اسے مسترد کر دیا تھا.[16] اور اس وقت کے اختلاف سے روشنی کی رفتار کا اندازہ لگانے کے لیے استعمال کیا گیا[56]۔

1892 میں برنارڈ نے 36 انچ دوربین کی مدد سے کیلیفورنیا کی لِک رصد گاہ سے مشتری کا پانچواں چاند دریافت کیا۔ اس چھوٹے چاند کو دیکھنے کی وجہ سے اس کی شہرت جلد ہی ہر طرف پھیل گئی۔ بعد میں اس چاند کو امالتھیا کا نام ملا[57]۔ براہ راست انسانی آنکھ سے دریافت ہونے والا یہ آخری سیاراتی چاند تھا[58]۔ دیگر آٹھ چاند وائجر اول کے 1979 کے چکر سے قبل دریافت ہو گئے۔

1932ء میں، روپرٹ والڈ نے مشتری کے طیف میں امونیا اور میتھین کے بینڈ کی نشاہدہی کی[59]۔ 1938 سے تین اینٹی سائیکلون جنہیں سفید بیضے کہا جاتا تھا، مشتری پر دیکھے جاتے رہے اور کئی دہائیوں تک یہ ایک دوسرے کے قریب تو آتے رہے، لیکن ایک دوسرے میں ضم نہیں ہوئے۔ اخرکار 1998 میں دو اور پھر 2000 میں تیسرا بھی ضم ہو کر ایک بڑا بیضہ بنے[60]۔

ریڈیائی دوربین سے تحقیق[ترمیم]

1955 میں برنارڈ برک اور کینیتھ فرینکلن نے مشتری سے 22.2 میگا ہرٹز کے سگنل وصول کیے جو اس کی محوری گردش کے ساتھ منسلک ہے[28]۔ اسی کی بنیاد پر مشتری کی محوری گردش کی رفتار معلوم کی گئی ہے۔ یہ سگنل دو طرح کے دورانیئے کے ہوتے ہیں۔ لمبے سگنل کئی سیکنڈ تک جبکہ مختصر سگنل ایک سیکنڈ کے سوویں حصے سے بھی کم عرصے کے لیے آتے ہیں[61] ۔

خلائی جہازوں سے تحقیق[ترمیم]

1973 سے کئی خودکار خلائی جہاز مشتری تک پہنچ چکے ہیں جن میں سے پاینئر 10 سب سے زیادہ مشہور ہے کیونکہ یہ سب سے پہلے مشتری کے قریب پہنچا تھا اور نظامِ شمسی کے سب سے بڑے سیارے کے بارے معلومات دی تھیں[62][63]۔ عموماً دوسرے سیاروں کو جانے والے راکٹوں پر توانائی پر سب سے زیادہ خرچہ آتا ہے۔ زمین کے نچلے مدار سے مشتری کو جانے کے لیے درکار رفتار 6.3 کلومیٹر فی سیکنڈ درکار ہوتی ہے[64] جبکہ زمین کی کشش پر قابو پانے کے لیے خلائی جہازوں کو 9.7 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار درکار ہوتی ہے[65]۔ اس کے علاوہ گریوٹی اسسٹ نامی تکنیک کی مدد سے دیگر سیاروں کی کشش سے رفتار کم کرتے ہوئے خلائی جہاز آسانی سے مشتری کو جا سکتے ہیں لیکن اس سے کل درکار وقت بہت بڑھ جاتا ہے[66]۔

فلائی بائی مشن[ترمیم]

  1. پائینر 10 خلائی جہاز 3 دسمبر 1973 کو 130،000 کلومیٹر کے فاصلے سے گذرا
  2. پائینر 11 خلائی جہاز 2 دسمبر 1974 کو 34،000 کلومیٹر کے فاصلے سے گذرا
  3. وائجر 1 خلائی جہاز 5 مارچ 1979 کو 349،000 کلومیٹر کے فاصلے سے گذرا
  4. وائجر 2 خلائی جہاز 9 جولائی 1979 کو 570،000 کلومیٹر کے فاصلے سے گذرا
  5. اُلائیسس خلائی جہاز پہلی بار 8 فروری 1992 کو 408،894 کلومیٹر جبکہ دوسری بار 4 فروری 2004 کو 12،000،000 کلومیٹر کے فاصلے سے گذرا
  6. کسینی خلائی جہاز 30 دسمبر 2000 کو 10،000،000 کلومیٹر کے فاصلے سے گذرا
  7. نیو ہورائزنز خلائی جہاز 28 فروری 2007 کو 2،304،535 کلومیٹر سے گذرا

1973 سے مختلف خلائی جہاز مشتری کے اتنے قریب سے گذرے ہیں کہ اس کا مشاہدہ کر سکیں۔ پاینئر مشن نے پہلی بار مشتری کی فضاء اور اس کے کئی چاندوں کی قریب سے کھینچی ہوئی تصویریں زمین کو بھیجی ہیں۔ انہی سے پتہ چلا ہے کہ مشتری کے قطبین پر موجود مقناطیسی میدان توقع سے کہیں زیادہ طاقتور ہے تاہم یہ جہاز بچ نکلنے میں کامیاب رہے[21][67]۔

چھ سال بعد وائجر جہازوں کی وجہ سے مشتری کے چاندوں اور اس کے دائروں کو سمجھنے میں بہت مدد ملی۔ اس کے علاوہ یہ بھی ثابت ہوا کہ عظیم سرخ دھبہ اینٹی سائیکلونک ہے۔ اس کے علاوہ مختلف اوقات میں لی گئی تصاویر سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ پاینئر مشنز کے بعد سے اس دھبے کا رنگ بدل رہا ہے اور نارنجی سے گہرا بھورا ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ آئی او پر آتش فشاں بھی موجود ہیں جن میں سے کئی لاوا اگل رہے ہیں۔ مشتری کے پیچھے جب خلائی جہاز گئے تو تاریک حصے میں چمکتی آسمانی بجلیاں بھی دکھائی دی ہیں[15][21]۔

مشتری کو جانے والا اگلا مشن الائسیس کا سورج کو جانے والا خلائی جہاز سورج کے گرد اپنا مدار قائم کرنے کے لیے مشتری کے پاس سے گذرا۔ چونکہ اس پر کوئی کیمرا نصب نہیں، اس لیے تصاویر نہیں لی جا سکیں۔ دوسری بار یہ خلائی جہاز چھ سال بعد بہت دور سے گذرا۔ پہلی بار گذرتے ہوئے اس خلائی جہاز نے مشتری کے مقناطیسی میدان پر کافی تحقیق کی[68]۔

زحل کو جانے والا کسینی خلائی جہاز 2000 میں مشتری کے پاس سے گذرا اور اب تک کی بہترین تصاویر بھیجیں۔ 19 دسمبر 2000 کو اس نے ہمالیہ نامی چاند کی تصاویر لیں لیکن دھندلے ہونے کی وجہ سے سطح کے بارے کچھ خاص معلومات نہیں مل سکیں[69]۔

نیو ہورائزنز خلائی جہاز جو پلوٹو کو جا رہا ہے، گریوٹی اسسٹ نامی تکنیک سے فائدہ اٹھانے مشتری کے قریب سے گذرا تھا۔ 28 فروری 2007 کو مشتری کے قریب سے گذرا[70] اور اس نے آئی او کے آتش فشانوں اور دیگر چار بڑے چاندوں پر تحقیق کی اور بہت دور سے ہمالیہ اور ایلارا کی بھی تصاویر کھینچیں[71]۔ چار بڑے چاندوں کی تصویر کشی 4 ستمبر 2006 میں شروع ہوئی[72][73]۔

گلیلیو مشن[ترمیم]

تاحال مشتری کے مدار میں پہنچنے والا واحد خلائی جہاز گلیلیو ہے۔ یہ جہاز 7 دسمبر 1995 کو مدار میں پہنچا اور سات سال تک کام کرتا رہا۔ اس نے کئی بار تمام چاندوں کے گرد بھی چکر لگائے۔ اسی خلائی جہاز کی مدد سے شو میکرِلیوی 9 نامی دمدار ستارے کو مشتری پر گرتے دیکھا گیا جو ایک انتہائی نادر واقعہ ہے۔ اگرچہ گلیلیو سے بہت قیمتی معلومات ملیں لیکن ایک خرابی کی وجہ سے اس کا اصل اینٹینا کام نہیں کر سکا جس کی وجہ سے ڈیٹا بھیجنے کا عمل سخت متائثر ہوا[74]۔

جولائی 1995 کو گلیلیو نے ایک مشین نیچے اتاری جو پیراشوٹ کی مدد سے 7 دسمبر کو مشتری کی فضاء میں اتری۔ اس نے کل 57.6 منٹ تک کام کیا اور 150 کلومیٹر نیچے اتری اور آخرکار انتہائی دباؤ کی وجہ سے ناکارہ ہو گئی۔ اس وقت اس پر پڑنے والا فضائی دباؤ زمین سے 22 گنا زیادہ اور درجہ حرارت 153 ڈگری سینٹی گریڈ تھا[75]۔ اندازہ ہے کہ پگھلنے کے بعد شاید تبخیر کا شکار ہو گئی ہو۔ 21 ستمبر 2003 کو گلیلیو کو بھی اسی مقصد کے لیے مشتری کے مدار سے سطح کی طرف گرایا گیا۔ اس وقت اس کی رفتار 50 کلومیٹر فی سیکنڈ تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ناسا نے یورپا کو کسی قسم کی ملاوٹ سے پاک رکھنے کے لیے یہ فیصلہ کیا تاکہ خلائی جہاز راستے میں ہی تباہ ہو جائے۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یورپا پر زندگی کے امکانات ہیں[74]۔

مستقبل میں بھیجی جانے والی اور منسوخ شدہ مہمات[ترمیم]

مشتری کے قطبین کے بہتر مطالعے کے لیے ناسا جونو نامی کلائی جہاز 2011 میں بھیجنے لگا تھا جو 2016ء میں واپس آتا[76]۔

یورپا جیوپیٹر سسٹم مشن ناسا اور یورپی خلائی ادارے کا مشترکہ منصوبہ ہے جس میں مشتری اور اس کے چاندوں کے لیے مہم بھیجی جائے گی۔ فروری 2009 میں ناسا اور یورپی خلائی ادارے نے اعلان کیا کہ اس مہم کو ٹائٹن سیٹرن سسٹم مشن پر ترجیح دی ہے۔ یہ مہم 2020 کے آس پاس بھیجی جائے گی۔ اس مہم میں ناسا مشتری اور یورپا کے لیے جبکہ یورپی خلائی ادارہ مشتری اور گینی میڈ کے گرد گردش کرنے والا خلائی جہاز بھیجے گا[77]۔

چونکہ مشتری کے چاندوں یورپا، گینی میڈ اور کالیسٹو کی سطح پر مائع سمندر پائے جانے کا امکان ہے اس لیے ان کے تفصیلی مشاہدے کا منصوبہ ہے۔ تاہم سرمایہ کاری کی کمی کی وجہ سے یہ منصوبے رکے ہوئے ہیں۔ ناسا کا جیمو یعنی جیوپیٹر آئسی مون آربیٹر مشن 2005 میں منسوخ ہو گیا ہے[78]۔

چاند[ترمیم]

مشتری، گلیلین چاندوں کے ساتھ. اپنے اپنے مدار میں زمین سے نظر آرئے ہیں اس میں یورپا مشتری کے قریب ہے۔

مشتری کے 67 قدرتی چاند ہیں[79]۔ ان میں سے، 51 کا قطر 10 کلومیٹر سے چھوٹا ہے اور انھیں 1975 کے بعد دریافت کیا گیا ہے۔ چار بڑے چاند جنہیں گلیلین چاند کہا جاتا ہے، آئی او، یورپا، گینی میڈ اور کلیسٹو ہیں۔

یورپا چاند[ترمیم]

ماہر فلکیات کا خیال ہے کہ مشتری کے چاند یورپا کی برفانی سطح کے نیچے پانی کے ذخائر موجود ہیں جن میں زندگی کے آسار متوقع ہیں[80]۔

گلیلین چاند[ترمیم]

گلیلین چاند. دائیں سے بائیں, ترتیب بلحاظ مشتری سے دوری: Io, Europa, Ganymede, کالستو (چاند).

آئی او، یورپا، گینی میڈ اور چند دیگر بڑے چاندوں کی گردش میں لیپلاس ریزونینس پائی جاتی ہے۔ مثلاً آئی او کے مشتری کے گرد ہر چار چکر پر یورپا اس وقت میں پورے دو چکر کاٹتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں گینی میڈ صرف ایک۔ اس وجہ سے ہر چاند دوسرے چاند کو ایک ہی مقام پر ملتا ہے جن کی باہمی کشش کی وجہ سے ان کے مدار گول کی بجائے بیضوی ہیں[81]۔

مشتری کی کشش کی وجہ سے ان چاندوں کے اندر رگڑ کی وجہ سے حرارت پیدا ہوتی ہے اور آئی او پر آتش فشاں کی یہی وجہ ہے۔

گلیلین چاند،بمقابلہ زمینی چاند
نام آئی پی اے قطر حجم مداری رداس مداری مدت
کلومیٹر % کلو % کلومیٹر % ایام %
Io ˈaɪ.oʊ 3643 105 8.9×1022 120 421,700 110 1.77 7
Europa jʊˈroʊpə 3122 90 4.8×1022 65 671,034 175 3.55 13
Ganymede ˈɡænimi:d 5262 150 14.8×1022 200 1,070,412 280 7.15 26
کالستو (چاند) kəˈlɪstoʊ 4821 140 10.8×1022 150 1,882,709 490 16.69 61

چاندوں کی درجہ بندی[ترمیم]

مشتری کا چاند یورپا۔

وائجر مہمات سے قبل مشتری کے چاندوں کو ان کے مدار کی خصوصیات کی وجہ سے چار چار کے چار گروہوں میں رکھا گیا تھا۔ لیکن بے شمار چھوٹے چاندوں کی دریافت کے بعد یہ تقسیم درست نہیں رہی۔ اب چھ اہم گروہ ہیں لیکن اندازہ ہے کہ اس سے بھی زیادہ گروہ بنیں گے۔

ایک اور درجہ بندی یہ ہے کہ اندرونی آٹھ چاندوں کو ایک گروہ میں رکھا جائے جن کے مدار تقریباً گول اور خطِ استوا کے قریب ہیں اور خیال کیا جاتا ہے کہ وہ مشتری کے ساتھ ہی پیدا ہوئے تھے۔ باقی سارے چاند ایک ہی درجہ بندی میں آتے ہیں اور خیال ہے کہ وہ شہابیئے ہیں جنہیں مشتری نے اپنی طرف کھینچ لیا تھا۔ ان کی شکلیں اور مدار ایک جیسے ہیں اور عین ممکن ہے کہ وہ کسی دوسرے چاند کے ٹوٹنے سے بنے ہوں[82][83]۔

نظامِ شمسی کے ساتھ عمل دخل[ترمیم]

سورج کے ساتھ ساتھ مشتری کی کششِ ثقل کی وجہ سے ہمارے نظامِ شمسی کی شکل بنانے میں مدد ملی ہے۔

اس کے علاوہ کوئیپر کی پٹی میں بننے والے دمدار ستارے بھی مشتری کی وجہ سے اپنا مدار چھوڑ کر نظامِ شمسی کے اندر کا رخ کرتے ہیں۔

ٹکراؤ[ترمیم]

اپنی بہت زیادہ کششِ ثقل اور نظامِ شمسی کے اندر ہونے کی وجہ سے مشتری کو نظامِ شمسی کا ویکیوم کلینر یا جمعدار کہا جاتا ہے[84]۔ نظامِ شمسی کے سیاروں میں سب سے زیادہ اسی کے ساتھ دمدار ستارے اور شہابیئے ٹکراتے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ سیارہ نظامِ شمسی کے اندرونی سیاروں کو شہابیوں سے بچانے کے لیے ڈھال کا کام کرتا ہے۔ تاہم حالیہ کمپیوٹر سمولیشن کی مدد سے پتہ چلا ہے کہ مشتری جتنے شہابیئے یا دمدار ستارے اپنے مدار میں کھینچتا ہے، اتنے ہی اس کی وجہ سے اپنے مدار سے نکل کر اندرونی نظامِ شمسی کا رخ کرتے ہیں[85]۔ بعض سائنس دانوں کا خیال ہے کہ مشتری اوورت بادل سے آنے والے دمدار ستاروں سے بچاؤ کا کام کرتا ہے۔

16 جولائی سے 22 جولائی 1994 کے دوران شو میکر لیوی 9 دمدار ستارے کے 20 ٹکڑے مشتری کے جنوبی نصف کرے سے ٹکرائے تھے اور نظامِ شمسی میں ایسا پہلی بار دیکھا گیا کہ نظامِ شمسی کے دو اجسام ایک دوسرے سے ٹکرائے ہوں۔ اس ٹکراؤ کے مشاہدے سے ہمیں مشتری کی فضاء کے بارے قیمتی معلومات ملی ہیں[86][87]۔

19 جولائی 2009 کو ایک جگہ دمدار ستارے کے ٹکراؤ کے نشان ملے تھے جسے زیریں سرخ روشنی سے دیکھنے پر پتہ چلا ہے کہ یہاں کا درجہ حرارت کافی بلند ہے[88][89]۔

اسی طرح کا ایک اور چھوٹا نشان آسٹریلیا کے شوقیہ فلکیات دان نے 3 جون 2010 کو دریافت کیا۔ اسے فلپائن میں ایک اور شوقین نے وڈیو پر ریکارڈ بھی کیا تھا[90]۔

زندگی کے امکانات[ترمیم]

1953 میں ملر اُرے کے تجربات سے ثابت ہوا کہ اولین زمانے میں زمین پر موجود کیمیائی اجزاء اور آسمانی بجلی کے ٹکراؤ سے جو آرگینک مادے بنے، انہی سے زندگی نے جنم لیا۔ یہ تمام کیمیائی اجزاء اور آسمانی بجلی مشتری پر بھی پائی جاتی ہے۔ تاہم تیز چلنے والی عمودی ہواؤں کی وجہ سے ممکن ہے کہ ایسا نہ ہو سکا ہو[91]۔

زمین جیسی زندگی تو شاید مشتری پر ممکن نہ ہو کیونکہ وہاں پانی کی مقدار بہت کم ہے اور ممکنہ سطح پر بے پناہ دباؤ ہے۔ تاہم 1976 میں وائجر مہم سے قبل نظریہ پیش کیا گیا ہے کہ امونیا اور پانی پر مبنی زندگی شاید مشتری کی بالائی فضاء میں موجود ہو۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اوپر کی سطح پر سادہ ضیائی تالیف کرنے والے پلانکٹون ہوں اور سطح کے نیچے مچھلیاں ہو جو پلانکٹون پر زندہ ہوں اور اس سے نیچے مچھلیاں کھانے والے شکاری۔

مشتری کے چاندوں پر زیرِ زمین سمندروں کی موجودگی سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ وہاں زندگی کے پائے جانے کے بہتر امکانات ہوں گے[92][93] ۔

اساطیر[ترمیم]

ملاحظات[ترمیم]

  1. Jupiter, entry in the Oxford English Dictionary, prepared by J. A. Simpson and E. S. C. Weiner, vol. 8, second edition, Oxford: Clarendon Press, 1989. ISBN 0-19-861220-6 (vol. 8), ISBN 0-19-861186-2 (set.)
  2. Courtney Seligman۔ "Rotation Period and Day Length"۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ August 13, 2009 
  3. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ ر​ ڑ​ ز Dr. David R. Williams (November 16, 2004)۔ "Jupiter Fact Sheet"۔ NASA۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ August 8, 2007 
  4. "The MeanPlane (Invariable plane) of the Solar System passing through the barycenter"۔ April 3, 2009۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 اپریل 2009  (produced with Solex 10 آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ chemistry.unina.it (Error: unknown archive URL) written by Aldo Vitagliano; see also Invariable plane)
  5. Donald K. Yeomans (13 جولائی 2006)۔ "HORIZONS Web-Interface for Jupiter Barycenter (Major Body=5)"۔ JPL Horizons On-Line Ephemeris System۔ 09 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ August 8, 2007  – Select "Ephemeris Type: Orbital Elements", "Time Span: January 1, 2000 12:00 to 2000-01-02". ("Target Body: Jupiter Barycenter" and "Center: Sun" should be defaulted to.)
  6. ^ ا ب پ ت ٹ
  7. "Solar System Exploration: Jupiter: Facts & Figures"۔ NASA۔ May 7, 2008۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 اگست 2014 
  8. "Astrodynamic Constants"۔ JPL Solar System Dynamics۔ February 27, 2009۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ August 8, 2007 
  9. Seidelmann, P. K.; Abalakin, V. K.; Bursa, M.; Davies, M. E.; de Burgh, C.; Lieske, J. H.; Oberst, J.; Simon, J. L.; Standish, E. M.; Stooke, P.; Thomas, P. C. (2001)۔ "Report of the IAU/IAG Working Group on Cartographic Coordinates and Rotational Elements of the Planets and Satellites: 2000"۔ HNSKY Planetarium Program۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ February 2, 2007 
  10. گمنام (مارچ 1983)۔ "Probe Nephelometer"۔ Galileo Messenger۔ NASA/JPL (6)۔ 19 جولا‎ئی 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ February 12, 2007 
  11. Rafe De Crespigny۔ "Emperor Huan and Emperor Ling" (PDF)۔ Asian studies, Online Publications۔ 07 ستمبر 2006 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ May 1, 2012۔ Xu Huang apparently complained that the astronomy office had failed to give them proper emphasis to the eclipse and to other portents, including the movement of the planet Jupiter (taisui). At his instigation, Chen Shou/Yuan was summoned and questioned, and it was under this pressure that his advice implicated Liang Ji. 
  12. Stuart Ross Taylor (2001)۔ Solar system evolution: a new perspective : an inquiry into the chemical composition, origin, and evolution of the solar system (2nd, illus., revised ایڈیشن)۔ Cambridge University Press۔ صفحہ: 208۔ ISBN 0-521-64130-6 
  13. "Young astronomer captures a shadow cast by Jupiter : Bad Astronomy"۔ Blogs.discovermagazine.com۔ November 18, 2011۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ May 27, 2013 
  14. Saumon, D.; Guillot, T. (2004)۔ "Shock Compression of Deuterium and the Interiors of Jupiter and Saturn"۔ The Astrophysical Journal۔ 609 (2): 1170–1180۔ Bibcode:2004ApJ...609.1170S۔ arXiv:astro-ph/0403393Freely accessible۔ doi:10.1086/421257 
  15. ^ ا ب Gautier, D.; Conrath, B.; Flasar, M.; Hanel, R.; Kunde, V.; Chedin, A.; Scott N. (1981)۔ "The helium abundance of Jupiter from Voyager"۔ Journal of Geophysical Research۔ 86 (A10): 8713–8720۔ Bibcode:1981JGR....86.8713G۔ doi:10.1029/JA086iA10p08713 
  16. ^ ا ب پ Kunde, V. G.، وغیرہ (September 10, 2004)۔ "Jupiter's Atmospheric Composition from the Cassini Thermal Infrared Spectroscopy Experiment"۔ Science۔ 305 (5690): 1582–86۔ Bibcode:2004Sci...305.1582K۔ PMID 15319491۔ doi:10.1126/science.1100240۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ April 4, 2007 
  17. Kim, S. J.; Caldwell, J.; Rivolo, A. R.; Wagner, R. (1985)۔ "Infrared Polar Brightening on Jupiter III. Spectrometry from the Voyager 1 IRIS Experiment"۔ Icarus۔ 64 (2): 233–48۔ Bibcode:1985Icar...64..233K۔ doi:10.1016/0019-1035(85)90201-5 
  18. Niemann, H. B.; Atreya, S. K.; Carignan, G. R.; Donahue, T. M.; Haberman, J. A.; Harpold, D. N.; Hartle, R. E.; Hunten, D. M.; Kasprzak, W. T.; Mahaffy, P. R.; Owen, T. C.; Spencer, N. W.; Way, S. H. (1996)۔ "The Galileo Probe Mass Spectrometer: Composition of Jupiter's Atmosphere"۔ Science۔ 272 (5263): 846–849۔ Bibcode:1996Sci...272..846N۔ PMID 8629016۔ doi:10.1126/science.272.5263.846 
  19. U. von Zahn، D. M. Hunten، G. Lehmacher (1998)۔ "Helium in Jupiter's atmosphere: Results from the Galileo probe Helium Interferometer Experiment"۔ Journal of Geophysical Research۔ 103 (E10): 22815–22829۔ doi:10.1029/98JE00695 
  20. Ingersoll, A. P.; Hammel, H. B.; Spilker, T. R.; Young, R. E. (June 1, 2005)۔ "Outer Planets: The Ice Giants" (PDF)۔ Lunar & Planetary Institute۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ February 1, 2007 
  21. ^ ا ب پ ت ٹ Eric Burgess (1982)۔ By Jupiter: Odysseys to a Giant۔ New York: Columbia University Press۔ ISBN 0-231-05176-X 
  22. Frank H. Shu (1982)۔ The physical universe: an introduction to astronomy۔ Series of books in astronomy (12th ایڈیشن)۔ University Science Books۔ صفحہ: 426۔ ISBN 0-935702-05-9 
  23. Davis, Andrew M.; Turekian, Karl K. (2005)۔ Meteorites, comets, and planets۔ Treatise on geochemistry,۔ 1۔ Elsevier۔ صفحہ: 624۔ ISBN 0-08-044720-1 
  24. ^ ا ب S. Seager، Kuchner, M.، Hier-Majumder, C. A.، Militzer, B. (2007)۔ "Mass-Radius Relationships for Solid Exoplanets"۔ The Astrophysical Journal۔ 669 (2): 1279–1297۔ Bibcode:2007ApJ...669.1279S۔ arXiv:0707.2895Freely accessible۔ doi:10.1086/521346 
  25. Tristan Guillot (1999)۔ "Interiors of Giant Planets Inside and Outside the Solar System"۔ Science۔ 286 (5437): 72–77۔ Bibcode:1999Sci...286...72G۔ PMID 10506563۔ doi:10.1126/science.286.5437.72۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ August 28, 2007 
  26. Burrows, A.; Hubbard, W. B.; Saumon, D.; Lunine, J. I. (1993)۔ "An expanded set of brown dwarf and very low mass star models"۔ Astrophysical Journal۔ 406 (1): 158–71۔ Bibcode:1993ApJ...406..158B۔ doi:10.1086/172427 
  27. Guillot, T.; Stevenson, D. J.; Hubbard, W. B.; Saumon, D. (2004)۔ "Chapter 3: The Interior of Jupiter"۔ $1 میں Bagenal, F.; Dowling, T. E.; McKinnon, W. B۔ Jupiter: The Planet, Satellites and Magnetosphere۔ جامعہ کیمبرج Press۔ ISBN 0-521-81808-7 
  28. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج
  29. Guillot, T.; Gautier, D.; Hubbard, W. B. (1997)۔ "New Constraints on the Composition of Jupiter from Galileo Measurements and Interior Models"۔ Icarus۔ 130 (2): 534–539۔ Bibcode:1997astro.ph..7210G۔ arXiv:astro-ph/9707210Freely accessible۔ doi:10.1006/icar.1997.5812 
  30. A. Seiff، Kirk, D.B.، Knight, T.C.D.، وغیرہ (1998)۔ "Thermal structure of Jupiter's atmosphere near the edge of a 5-μm hot spot in the north equatorial belt"۔ Journal of Geophysical Research۔ 103 (E10): 22857–22889۔ Bibcode:1998JGR...10322857S۔ doi:10.1029/98JE01766 
  31. Ingersoll, A. P.; Dowling, T. E.; Gierasch, P. J.; Orton, G. S.; Read, P. L.; Sanchez-Lavega, A.; Showman, A. P.; Simon-Miller, A. A.; Vasavada, A. R۔ "Dynamics of Jupiter's Atmosphere" (PDF)۔ Lunar & Planetary Institute۔ اخذ شدہ بتاریخ February 1, 2007 
  32. Watanabe, Susan، مدیر (February 25, 2006)۔ "Surprising Jupiter: Busy Galileo spacecraft showed jovian system is full of surprises"۔ NASA۔ 08 اکتوبر 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ February 20, 2007 
  33. لوا خطا ماڈیول:Citation/CS1/Utilities میں 38 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔
  34. J.D. Harrington، Donna Weaver، Ray Villard (May 15, 2014)۔ "Release 14-135 - NASA's Hubble Shows Jupiter's Great Red Spot is Smaller than Ever Measured"۔ ناسا۔ اخذ شدہ بتاریخ May 16, 2014 
  35. Michael A. Covington (2002)۔ Celestial Objects for Modern Telescopes۔ Cambridge University Press۔ صفحہ: 53۔ ISBN 0-521-52419-9 
  36. "Jupiter Data Sheet"۔ Space.com۔ اخذ شدہ بتاریخ February 2, 2007 
  37. Tony Phillips (March 3, 2006)۔ "Jupiter's New Red Spot"۔ NASA۔ 19 اکتوبر 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ February 2, 2007 
  38. M.A. Showalter، Burns, J.A.، Cuzzi, J. N.، Pollack, J. B. (1987)۔ "Jupiter's ring system: New results on structure and particle properties"۔ Icarus۔ 69 (3): 458–98۔ Bibcode:1987Icar...69..458S۔ doi:10.1016/0019-1035(87)90018-2 
  39. J. A. Burns، Showalter, M.R.، Hamilton, D.P.، وغیرہ (1999)۔ "The Formation of Jupiter's Faint Rings"۔ Science۔ 284 (5417): 1146–50۔ Bibcode:1999Sci...284.1146B۔ PMID 10325220۔ doi:10.1126/science.284.5417.1146 
  40. ^ ا ب
  41. Herbst, T. M.; Rix, H.-W. (1999)۔ مدیر: Guenther, Eike; Stecklum, Bringfried; Klose, Sylvio۔ Star Formation and Extrasolar Planet Studies with Near-Infrared Interferometry on the LBT۔ San Francisco, Calif.: Astronomical Society of the Pacific۔ صفحہ: 341–350۔ Bibcode:1999ASPC..188..341H۔ ISBN 1-58381-014-5  – See section 3.4.
  42. T. A. Michtchenko، Ferraz-Mello, S. (February 2001)۔ "Modeling the 5 : 2 Mean-Motion Resonance in the Jupiter–Saturn Planetary System"۔ Icarus۔ 149 (2): 77–115۔ Bibcode:2001Icar..149..357M۔ doi:10.1006/icar.2000.6539 
  43. "Interplanetary Seasons"۔ Science@NASA۔ 16 اکتوبر 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ February 20, 2007 
  44. Ian Ridpath (1998)۔ Norton's Star Atlas (19th ایڈیشن)۔ Prentice Hall۔ ISBN 0-582-35655-5 
  45. "Encounter with the Giant"۔ NASA۔ 1974۔ 12 جنوری 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ February 17, 2007 
  46. "How to Observe Jupiter"۔ WikiHow۔ July 28, 2013۔ اخذ شدہ بتاریخ July 28, 2013 
  47. A. Sachs (May 2, 1974)۔ "Babylonian Observational Astronomy"۔ Philosophical Transactions of the Royal Society of London۔ Royal Society of London۔ 276 (1257): 43–50 (see p. 44)۔ Bibcode:1974RSPTA.276...43S۔ JSTOR 74273۔ doi:10.1098/rsta.1974.0008 
  48. Z. Z. Xi (1981)۔ "The Discovery of Jupiter's Satellite Made by Gan-De 2000 Years Before Galileo"۔ Acta Astrophysica Sinica۔ 1 (2): 87۔ Bibcode:1981AcApS...1...87X 
  49. Paul Dong (2002)۔ China's Major Mysteries: Paranormal Phenomena and the Unexplained in the People's Republic۔ China Books۔ ISBN 0-8351-2676-5 
  50. Olaf Pedersen (1974)۔ A Survey of the Almagest۔ Odense University Press۔ صفحہ: 423, 428 
  51. tr. with notes by Walter Eugene Clark (1930)۔ The Aryabhatiya of Aryabhata (PDF)۔ University of Chicago Press۔ صفحہ: 9, Stanza 1 
  52. Richard S Westfall۔ "Galilei, Galileo"۔ The Galileo Project۔ اخذ شدہ بتاریخ January 10, 2007 
  53. Paul Murdin (2000)۔ Encyclopedia of Astronomy and Astrophysics۔ Bristol: Institute of Physics Publishing۔ ISBN 0-12-226690-0 
  54. "SP-349/396 Pioneer Odyssey—Jupiter, Giant of the Solar System"۔ NASA۔ August 1974۔ 04 جنوری 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ August 10, 2006 
  55. "Roemer's Hypothesis"۔ MathPages۔ اخذ شدہ بتاریخ January 12, 2007 
  56. Joe Tenn (March 10, 2006)۔ "Edward Emerson Barnard"۔ Sonoma State University۔ 17 ستمبر 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ January 10, 2007 
  57. "Amalthea Fact Sheet"۔ NASA JPL۔ October 1, 2001۔ 08 دسمبر 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ February 21, 2007 
  58. Theodore Dunham Jr. (1933)۔ "Note on the Spectra of Jupiter and Saturn"۔ Publications of the Astronomical Society of the Pacific۔ 45: 42–44۔ Bibcode:1933PASP...45...42D۔ doi:10.1086/124297 
  59. Youssef, A.; Marcus, P. S. (2003)۔ "The dynamics of jovian white ovals from formation to merger"۔ Icarus۔ 162 (1): 74–93۔ Bibcode:2003Icar..162...74Y۔ doi:10.1016/S0019-1035(02)00060-X 
  60. Rachel A. Weintraub (September 26, 2005)۔ "How One Night in a Field Changed Astronomy"۔ NASA۔ 03 جولا‎ئی 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ February 18, 2007 
  61. NASA – Pioneer 10 Mission Profile آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ quest.nasa.gov (Error: unknown archive URL). NASA. Retrieved on December 22, 2011.
  62. NASA – Glenn Research Center آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ nasa.gov (Error: unknown archive URL). NASA. Retrieved on December 22, 2011.
  63. Fortescue, Peter W.; Stark, John and Swinerd, Graham Spacecraft systems engineering, 3rd ed., John Wiley and Sons, 2003, ISBN 0-470-85102-3 p. 150.
  64. Chris Hirata۔ "Delta-V in the Solar System"۔ California Institute of Technology۔ 15 جولا‎ئی 2006 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ November 28, 2006 
  65. Al Wong (May 28, 1998)۔ "Galileo FAQ: Navigation"۔ NASA۔ 17 اکتوبر 2000 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ November 28, 2006 
  66. Lawrence Lasher (August 1, 2006)۔ "Pioneer Project Home Page"۔ NASA Space Projects Division۔ 01 جنوری 2006 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ November 28, 2006 
  67. Chan, K.; Paredes, E. S.; Ryne, M. S. (2004)۔ "Ulysses Attitude and Orbit Operations: 13+ Years of International Cooperation"۔ American Institute of Aeronautics and Astronautics۔ اخذ شدہ بتاریخ November 28, 2006 
  68. Hansen, C. J.; Bolton, S. J.; Matson, D. L.; Spilker, L. J.; Lebreton, J.-P. (2004)۔ "The Cassini–Huygens flyby of Jupiter"۔ Icarus۔ 172 (1): 1–8۔ Bibcode:2004Icar..172....1H۔ doi:10.1016/j.icarus.2004.06.018 
  69. "Mission Update: At Closest Approach, a Fresh View of Jupiter"۔ 29 اپریل 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ July 27, 2007 
  70. "Pluto-Bound New Horizons Provides New Look at Jupiter System"۔ 12 دسمبر 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ July 27, 2007 
  71. "New Horizons targets Jupiter kick"۔ BBC News Online۔ January 19, 2007۔ اخذ شدہ بتاریخ January 20, 2007 
  72. Amir Alexander (September 27, 2006)۔ "New Horizons Snaps First Picture of Jupiter"۔ The Planetary Society۔ 21 فروری 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ December 19, 2006 
  73. ^ ا ب Shannon McConnell (April 14, 2003)۔ "Galileo: Journey to Jupiter"۔ NASA Jet Propulsion Laboratory۔ 02 اکتوبر 2006 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ November 28, 2006 
  74. Julio Magalhães (December 10, 1996)۔ "Galileo Probe Mission Events"۔ NASA Space Projects Division۔ 02 جنوری 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ February 2, 2007 
  75. Anthony Goodeill (March 31, 2008)۔ "New Frontiers – Missions – Juno"۔ NASA۔ 03 فروری 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ January 2, 2007 
  76. "Laplace: A mission to Europa & Jupiter system"۔ ESA۔ اخذ شدہ بتاریخ January 23, 2009 
  77. New approach for L-class mission candidates, ESA, April 19, 2011
  78. Sheppard, Scott S.۔ "The Giant Planet Satellite and Moon Page"۔ Departament of Terrestrial Magnetism at Carniege Institution for science۔ اخذ شدہ بتاریخ September 11, 2012 
  79. یورپا: مشتری کا زندگی کے لیے معاون چاند https://falkiyat.com/ur/europa-life-supportive-moon-jupiter/ آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ falkiyat.com (Error: unknown archive URL)
  80. Musotto, S.; Varadi, F.; Moore, W. B.; Schubert, G. (2002)۔ "Numerical simulations of the orbits of the Galilean satellites"۔ Icarus۔ 159 (2): 500–504۔ Bibcode:2002Icar..159..500M۔ doi:10.1006/icar.2002.6939۔ 10 اگست 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 نومبر 2014 
  81. Jewitt, D. C.; Sheppard, S.; Porco, C. (2004)۔ مدیر: Bagenal, F.; Dowling, T.; McKinnon, W۔ Jupiter: The Planet, Satellites and Magnetosphere (PDF)۔ Cambridge University Press۔ ISBN 0-521-81808-7۔ 14 جولا‎ئی 2011 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 نومبر 2014 
  82. Nesvorný, D.; Alvarellos, J. L. A.; Dones, L.; Levison, H. F. (2003)۔ "Orbital and Collisional Evolution of the Irregular Satellites"۔ The Astronomical Journal۔ 126 (1): 398–429۔ Bibcode:2003AJ....126..398N۔ doi:10.1086/375461 
  83. Richard A. Lovett (December 15, 2006)۔ "Stardust's Comet Clues Reveal Early Solar System"۔ National Geographic News۔ اخذ شدہ بتاریخ January 8, 2007 
  84. Horner, J.; Jones, B. W. (2008)۔ "Jupiter – friend or foe? I: the asteroids"۔ International Journal of Astrobiology۔ 7 (3–4): 251–261۔ Bibcode:2008IJAsB...7..251H۔ arXiv:0806.2795Freely accessible۔ doi:10.1017/S1473550408004187 
  85. Ron Baalke۔ "Comet Shoemaker-Levy Collision with Jupiter"۔ NASA۔ اخذ شدہ بتاریخ January 2, 2007 
  86. Robert R. Britt (August 23, 2004)۔ "Remnants of 1994 Comet Impact Leave Puzzle at Jupiter"۔ space.com۔ اخذ شدہ بتاریخ February 20, 2007 
  87. Staff (July 21, 2009)۔ "Amateur astronomer discovers Jupiter collision"۔ ABC News online۔ اخذ شدہ بتاریخ July 21, 2009 
  88. Mike Salway (July 19, 2009)۔ "Breaking News: Possible Impact on Jupiter, Captured by Anthony Wesley"۔ IceInSpace۔ IceInSpace News۔ اخذ شدہ بتاریخ July 19, 2009 
  89. Michael Bakich (June 4, 2010)۔ "Another impact on Jupiter"۔ Astronomy Magazine online۔ 02 مارچ 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ June 4, 2010 
  90. T. A. Heppenheimer (2007)۔ "Colonies in Space, Chapter 1: Other Life in Space"۔ National Space Society۔ 18 جنوری 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ February 26, 2007 
  91. "Life on Jupiter"۔ Encyclopedia of Astrobiology, Astronomy & Spaceflight۔ 11 مارچ 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ March 9, 2006 
  92. Sagan, C.; Salpeter, E. E. (1976)۔ "Particles, environments, and possible ecologies in the Jovian atmosphere"۔ The Astrophysical Journal Supplement Series۔ 32: 633–637۔ Bibcode:1976ApJS...32..737S۔ doi:10.1086/190414 

حوالہ جات[ترمیم]

مزید پڑھیے[ترمیم]

بیرونی روابط[ترمیم]