وحی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

وحی اس کلام کو کہتے ہیں جس کو اللہ تعالٰی اپنے نبیوں کی طرف نازل فرماتا ہے۔ ابن الانباری نے کہا کہ اس کو وحی اس لیے کہتے ہیں کہ فرشتہ اس کلام کو لوگوں سے مخفی رکھتا ہے اور وحی نبی کے ساتھ مخصوص ہے جو کے لوگوں کی طرف بھیجا جاتا ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے جو خفیہ بات کرتے ہیں وہ وحی کا اصل معنی ہے، قرآن مجید میں ہے

وَكَذَ‌ٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًا شَيَاطِينَ الْإِنسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا ۚ وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ ۖ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ
اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے انسانوں اور جِنّوں میں سے شیطانوں کو دشمن بنا دیا جو ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی ہوئی (چکنی چپڑی) باتیں (وسوسہ کے طور پر) دھوکا دینے کے لیے ڈالتے رہتے ہیں اور اگر آپ کا ربّ (انھیں جبراً روکنا) چاہتا (تو) وہ ایسا نہ کر پاتے، سو آپ انھیں (بھی) چھوڑ دیں اور جو کچھ وہ بہتان باندھ رہے ہیں (اسے بھی)

— 

اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے انسانوں اور جِنّوں میں سے شیطانوں کو دشمن بنا دیا جو ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی ہوئی (چکنی چپڑی) باتیں (وسوسہ کے طور پر) دھوکا دینے کے لیے ڈالتے رہتے ہیں اور اگر آپ کا ربّ (انھیں جبراً روکنا) چاہتا (تو) وہ ایسا نہ کر پاتے، سو آپ انھیں (بھی) چھوڑ دیں اور جو کچھ وہ بہتان باندھ رہے ہیں (اسے بھی)o ترجمہ از عرفان القرآن
ابو اسحق نے کہا ہے کہ وحی کا لغت میں معنی ہے خفیہ طریقے سے خبر دینا، اسی وجہ سے الہام کو وحی کہتے ہیں، ازہری نے کہا ہے اسی طرح سے اشارہ کرنے اور لکھنے کو بھی وحی کہتے ہیں۔ اشارہ کے متعلق یہ آیت ہے:

فَخَرَجَ عَلَىٰ قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرَابِ فَأَوْحَىٰ إِلَيْهِمْ أَن سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًا
پھر (زکریا علیہ السلام) حجرۂ عبادت سے نکل کر اپنے لوگوں کے پاس آئے تو ان کی طرف اشارہ کیا (اور سمجھایا) کہ تم صبح و شام (اللہ کی) تسبیح کیا کرو

— 

اور انبیاء کرام کے ساتھ جو خفیہ طریقے سے کلام کیا گیا اس کے متعلق ارشاد فرمایا:

وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ
اور ہر بشر کی (یہ) مجال نہیں کہ اللہ اس سے (براہِ راست) کلام کرے مگر یہ کہ وحی کے ذریعے (کسی کو شانِ نبوت سے سرفراز فرما دے) یا پردے کے پیچھے سے (بات کرے جیسے موسیٰ علیہ السلام سے طورِ سینا پر کی) یا کسی فرشتے کو فرستادہ بنا کر بھیجے اور وہ اُس کے اِزن سے جو اللہ چاہے وحی کرے (الغرض عالمِ بشریت کے لیے خطابِ اِلٰہی کا واسطہ اور وسیلہ صرف نبی اور رسول ہی ہوگا)، بیشک وہ بلند مرتبہ بڑی حکمت والا ہے

— 

بشر کی طرف وحی کرنے کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالٰی اس بشر کو خفیہ طور سے کسی چیز کی خبر دے یا الہام کے ذریعے یا خواب کے ذریعے یا اس پر کوئی کتاب نازل فرمائے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر کتاب نازل کی تھی یا جس طرح حضرت سیدنا محمد ؐ پر قرآن نازل کیا اور یہ سب اعلام (خبر دینا) ہیں اگرچہ ان کے اسباب مختلف ہیں۔[1]

== لغوی و اصطلاحی معنی ==اشارہ کرنا ، دل میں چپکے سے بات ڈالنا

حقیقت اور ضرورت[ترمیم]

ہر مسلمان جانتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے انسان کو اس دنیا میں آزمائش کے لیے بھیجا ہے اور اس کے ذمے کچھ فرائض عائد کرکے پوری کائنات کو اس کی خدمت میں لگادیا ہے لہٰذا دنیا میں آنے کے بعد انسان کے لیے دو کام ناگزیر ہیں، ایک یہ کہ اس کائنات سے اور اس میں پیدا کی ہوئی اشیاء سے ٹھیک ٹھیک کام لے اور دوسرے یہ کہ اس کائنات کو استعمال کرتے ہوئے اللہ تعالٰی کے احکام کو مد نظر رکھے اور کوئی ایسی حرکت نہ کرے جو اللہ تعالٰی کی مرضی کے خلاف ہو۔ ان دونوں کاموں کے لیے انسان کو علم کی ضرورت ہے ،اس لیے کہ جب تک اسے یہ معلوم نہ ہو کہ اس کائنات کی حقیقت کیا ہے؟ اس کی کونسی چیز کے کیا خواص ہیں؟ ان سے کس طرح فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے؟ اس وقت تک وہ دنیا کی کونسی بھی چیز اپنے فائدے کے لیے استعمال نہیں کر سکتا نیز اسے جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ اللہ تعالٰی کی مرضی کیا ہے؟ وہ کونسے کاموں کو پسند اور کن کاموں کو ناپسند فرماتا ہے؟ اس وقت تک اس کے لیے اللہ تعالٰی کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنا ممکن نہیں ۔ چنانچہ اللہ تعالٰی نے انسان کو پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ تین چیزیں ایسی پیدا کی ہیں جن کے ذریعے اسے مذکورہ بالا باتوں کا علم حاصل ہوتا رہے، ایک انسان کے حواس یعنی آنکھ، کان، منہ اور ہاتھ پاؤں دوسرے عقل اور تیسرے وحی، چنانچہ انسان کو بہت سی باتیں اپنے حواس کے ذریعہ معلوم ہوجاتی ہیں، بہت سی عقل کے ذریعے اور جوباتیں ان دونوں ذرائع سے معلوم نہیں ہو سکتیں ان کا علم وحی کے ذریعے عطا کیا جاتا ہے۔ جہاں تک حواس خمسہ کام دیتے ہیں وہاں تک عقل کوئی رہنمائی نہیں کرتی اور جہاں تک حواس خمسہ جواب دے دیتے ہیں وہیں سے عقل کا کام شروع ہوتا ہے، لیکن اس عقل کی رہنمائی بھی غیر محدود نہیں ہے یہ بھی ایک حد تک جاکر رک جاتی ہے اور بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کا علم نہ حواس کے ذریعے ہو سکتا ہے اور نہ عقل کے ذریعے، کسی چیز کے بارے میں یہ معلوم کرنا کہ اس کو کس طرح استعمال کرنے سے اللہ تعالٰی راضی ہوتے ہیں اور کس طرح استعمال کرنے سے ناراض ہوتے ہیں، اس علم کا جو ذریعہ اللہ تعالٰی نے مقرر فرمایا ہے وہ "وحی" ہے اور اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی اپنے بندوں میں سے کسی کو منتخب فرماکر اسے پیغمبر قرار دیتے ہیں اور اس پر اپنا کلام نازل فرماتے ہیں اسی کلام کو وحی کہا جاتا ہے ۔ صرف عقل اور مشاہدہ انسان کی رہنمائی کے لیے کافی نہیں؛ بلکہ اس کی ہدایت کے لیے وحی ایک ناگزیر ضرورت ہے اور چونکہ بنیادی طور پر وحی کی ضرورت پیش ہی اس جگہ آتی ہے جہاں عقل کام نہیں دیتی اس لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ وحی کی ہر بات کا ادراک عقل سے ہی ہو جائے بلکہ جس طرح کسی چیز کا رنگ معلوم کرنا عقل کا کام نہیں بلکہ حواس کا کام ہے اسی طرح بہت سے دینی عقائد کا علم عطا کرنا بھی عقل کی بجائے وحی کا منصب ہے اور ان کے ادراک کے لیے نری عقل پر بھروسا کرنا درست نہیں؛ اگر اللہ تعالٰی کی حکمت بالغہ پر ایمان ہے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اس نے اپنے بندوں کو اندھیرے میں نہیں چھوڑا بلکہ ان کی رہنمائی کے لیے کوئی باقائدہ نظام ضرور بنایا ہے بس رہنمائی کے اسی باقاعدہ نظام کا نام وحی اور رسالت ہے، اس سے صاف واضح ہوجاتا ہے کہ وحی محض ایک دینی اعتقاد ہی نہیں بلکہ ایک عقلی ضرورت ہے جس کا انکار در حقیقت اللہ تعالٰی کی حکمت بالغہ کا انکار ہے، یہ وحی اللہ تعالٰی نے ان ہزاروں پیغمبروں پر نازل فرمائی جنھوں نے اپنے اپنے زمانے میں لوگوں کی ہدایت کا سامان کیا؛ یہاں تک کہ حضور اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر اس مقدس سلسلے کی تکمیل ہو گئی۔.

وحی کی اقسام: متلو اور غیر متلو[ترمیم]

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جو وحی نازل ہوئی وہ دو قسم کی تھی،

ایک تو قرآن کریم کی آیات جن کے الفاظ اور معنی دونوں اللہ کی طرف سے تھے اور جو قرآن کریم میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کردی گئیں کہ ان کا ایک نقطہ اور شوشہ بھی نہ بدلا جاسکا ہے اور نہ بدلا جا سکتا ہے، اس وحی کو علما کی اصطلاح میں "وحی متلو" کہا جاتا ہے یعنی وہ وحی جس کی تلاوت کی جاتی ہے۔

دوسری قسم اس وحی کی ہے جو قرآن کریم کا جز نہیں بنی؛ لیکن اس کے ذریعہ آپ کو بہت سے احکام عطا فرمائے گئے ہیں اس وحی کو"وحی غیر متلو" کہتے ہیں یعنی وہ وحی جس کی تلاوت نہیں کی جاتی ،عموماً وحی متلو یعنی قرآن کریم میں اسلام کے اصول عقائد اور بنیادی تعلیمات کی تشریح پر اکتفا، کیا گیا ہے ان تعلیمات کی تفصیل اور جزوی مسائل زیادہ تر وحی غیر متلو کے ذریعے عطا فرمائے گئے یہ وحی غیر متلو صحیح احادیث کی شکل میں موجود ہے اور اس میں عموماً صرف مضامین وحی کے ذریعے آپ پر نازل کیے گئے ہیں ان مضامین کو تعبیر کرنے کے لیے الفاظ کا انتخاب آپ نے خود فرمایا ہے۔

ارشاد باری تعالٰیٰ ہے: وَمَایَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰیo اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی (النجم:3،4)

"اور نہ آپ اپنی خواہشِ نفسانی سے باتیں بناتے ہیں، ان کا ارشاد نری وحی ہے جو ان پر بھیجی جاتی ہے"۔

نیز ارشاد خداوندی ہے: "اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَایُوْحٰی اِلَیَّ" (یونس:15)

بس میں تو اسی کی اتباع کروں گا جو میرے پاس وحی کے ذریعہ سے پہنچا ہے۔

ایک حدیث میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "أُوتِيتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ"۔ (مسند احمد، حدیث مقدام بن معدی کرب، حدیث نمبر:16546)

"مجھے قرآن بھی دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ اس جیسی تعلیمات بھی"

اس میں قرآن کریم سے مراد وحی متلو ہے اور دوسری تعلیمات سے مراد وحی غیر متلو ہے۔

حفاظت وحی[ترمیم]

ارشاد باری تعالٰیٰ ہے کہ:

"اِنَّانَحْنُ نَزَّلْنَاالذِّکْرَ وَإنَّالَہٗ لَحَافِظُوْنَ" (الحجر:9)

ترجمہ: "ہم نے ہی اس ذکر (وحی) کو نازل فرمایا ہے اور بلاشبہ ہم ہی اس کے محافظ ہیں"۔

نزول وحی کے طریقے[ترمیم]

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر مختلف طریقوں سے وحی نازل ہوتی تھی، صحیح بخاری کی ایک حدیث میں مروی ہے:

عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَاأَنَّ الْحَارِثَ بْنَ هِشَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ يَأْتِيكَ الْوَحْيُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْيَانًا يَأْتِينِي مِثْلَ صَلْصَلَةِ الْجَرَسِ وَهُوَ أَشَدُّهُ عَلَيَّ فَيُفْصَمُ عَنِّي وَقَدْ وَعَيْتُ عَنْهُ مَا قَالَ وَأَحْيَانًا يَتَمَثَّلُ لِي الْمَلَكُ رَجُلًا فَيُكَلِّمُنِي فَأَعِي مَا يَقُولُ قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَلَقَدْ رَأَيْتُهُ يَنْزِلُ عَلَيْهِ الْوَحْيُ فِي الْيَوْمِ الشَّدِيدِ الْبَرْدِ فَيَفْصِمُ عَنْهُ وَإِنَّ جَبِينَهُ لَيَتَفَصَّدُ عَرَقًا۔ (بخاری،باب بدءالوحی، حدیث نمبر:2)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کے ایک مرتبہ حضرت حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ نے آنحضرتﷺ سے پوچھا کے آپ پر وحی کس طرح آتی ہے؟ تو آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ کبھی تو مجھے گھنٹی کی سی آواز سنائی دیتی ہے اور وحی کی یہ صورت میرے لیے سب سے زیادہ سخت ہوتی ہے پھر جب یہ سلسلہ ختم ہوجاتا ہے تو جو کچھ اس آواز نے کہا ہوتا ہے مجھے یاد ہو چکا ہوتا ہے اور کبھی فرشتہ میرے سامنے ایک مرد کی صورت میں آجاتا ہے، پھر مجھ سے بات کرتا ہے، جو کچھ وہ کہتا ہے میں اس کو یاد کرلیتا ہوں حضرت عایشہؓ فرماتی ہیں : میں نے سخت سردی کے دن میں آپ پر وحی نازل ہوتے دیکھی ہے (ایسی سردی میں بھی)جب وحی کاسلسلہ ختم ہوجاتا تو آپ کی پیشانی مبارک پسینہ سے شرابور ہو چکی ہوتی تھی۔

ایک اور روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تو آپ کا سانس رکنے لگتا چہرۂ انور متغیر ہوکر کھجور کی شاخ کی طرح زرد پڑجاتا، سامنے کے دانت سردی سے کپکپانے لگتے اور آپ کو اتنا پسینہ آتا کہ اس کے قطرے موتیوں کی طرح ڈھلکنے لگتے تھے۔ (الطبقات الکبری لابن سعد:8/379)

وحی کی اس کیفیت میں بعض اوقات اتنی شدت پیدا ہوجاتی کہ: إِنْ كَانَ لَيُوحَى إِلَيْهِ وَهُوَ عَلَى نَاقَته فَيَضْرِب حِزَامهَا مِنْ ثِقَل مَا يُوحَى إِلَيْه۔ (فتح الباری: 1/3)

اگر وحی اس حالت میں آتی کہ آپ اپنی اونٹی پر سوار ہوتے تو وحی کے بوجھ سے اونٹنی بیٹھ جاتی۔

بعض اوقات اس وحی کی ہلکی ہلکی آواز دوسروں کو بھی محسوس ہوتی تھی ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تو آپ کے چہرۂ انور کے قریب شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ جیسی آواز سنائی دیتی تھی۔ (بیہقی، ابواب کیفیۃ نزول الوحی، حدیث نمبر:2983)

وحی کی دوسری صورت یہ تھی کہ فرشتہ کسی انسانی شکل میں آپ کے پاس آکر اللہ تعالٰی کا پیغام پہنچادیتا تھا، ایسے مواقع پر عموماً حضرت جبرئیل علیہ السلام مشہور صحابی حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی صورت میں تشریف لایا کرتے تھے۔(مصنف بن ابی شیبہ، ماذکر فی عائشۃ رضی اللہ عنہ، حدیث نمبر:32945)

وحی کی تیسری صورت یہ تھی کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کسی انسانی شکل اختیار کیے بغیر اپنی اصل صورت میں دکھائی دیتے تھے، لیکن ایسا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام عمر میں صرف تین مرتبہ ہوا ہے، ایک مرتبہ اس وقت جب آپ نے خود حضرت جبرئیل علیہ اسلام کو ان کی اصلی شکل میں دیکھنے کی خواہش ظاہر فرمائی تھی، دوسری مرتبہ معراج میں اور تیسری بار نبوت کے بالکل ابتدائی زمانے میں مکہ مکرمہ کے مقام اَجیاد پر، پہلے دو واقعات تو صحیح سند سے ثابت ہیں، البتہ یہ آخری واقعہ سنداً کمزور ہونے کی وجہ سے مشکوک ہے۔ (فتح الباری1/18،19)

وحی کی چوتھی صورت یہ تھی کہ آپ کو نزول قرآن سے قبل سچے خواب نظر آیا کرتے تھے جو کچھ خواب میں دیکھتے بیداری میں ویسا ہی ہوجاتا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ فِي النَّوْمِ فَكَانَ لَايَرَى رُؤْيَا إِلَّا جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْح۔ (بخاری،حدیث نمبر:3/باب بدءالوحی)

آپ پر وحی کی ابتدا نیند کی حالت میں سچے خوابوں سے ہوئی اس وقت جو آپ خواب میں دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح سچا نکلتا۔

وحی کی پانچویں صورت یہ تھی کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کسی بھی صورت میں سامنے آئے بغیر آپ کے قلب مبارک میں کوئی بات القاء (ڈالنا) فرمادیتے تھے اسے اصطلاح میں "نفث فی الروع" کہتے ہیں: جیسے حدیث پاک میں ہے: وَإِنَّ الرُّوْحَ الْأَمِيْنَ قَدْ نَفَثَ فِيْ رَوْعِيْ أَنَّهُ لَنْ تَمُوْتَ نَفْسٌ حَتّٰى تُسْتَوْفٰي رِزْقُهَا فَأَجْمِلُوْا فِي الطَّلَبِ۔ (شعب الایمان،حدیث نمبر:1190)

حضرت جبریل علیہ السلام نے میرے دل میں بات ڈالی ہے کہ کوئی نفس مرتا نہیں یہاں تک کہ اس کا رزق مکمل ہو جائے، لہٰذا تلاش رزق میں اعتدال اختیار کرو۔

اس کے علاوہ نزول وحی کی اور بھی صورتیں ہیں اختصاراً یہاں چند صورتوں کو ذکر کیا گیا ہے۔

تدریجی نزول[ترمیم]

سارے قرآن کریم کو ایک دفعہ نازل کرنے کی بجائے تھوڑا تھوڑا کرکے کیوں نازل کیا گیا؟یہ سوال خود مشرکین عرب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا ،باری تعالٰی نے اس سوال کا جواب خود ان الفاظ میں دیا ہے: وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْآنُ جُمْلَۃً وَاحِدَۃً کَذَلِکَ لِنُثَبِّتَ بِہِ فُؤَادَکَ وَرَتَّلْنَاہُ تَرْتِیْلاًo وَلَایَأْتُونَکَ بِمَثَلٍ إِلَّاجِئْنَاکَ بِالْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِیْراً"(الفرقان: 32،33)

اور یہ کافر لوگ کہتے ہیں کہ: ان پر سارا قرآن ایک ہی دفعہ میں کیوں نازل نہیں کر دیا گیا؟ (اے پیغمبر!)ہم نے ایسا اس لیے کیا ہے تاکہ اس کے ذریعے تمھارا دل مضبوط رکھیں اور ہم نے اسے ٹھہرٹھہرکرپڑھوایاہے اورجب کبھی یہ لوگ تمھارے پاس کوئی انوکھی بات لے کر آتے ہیں،ہم تمھیں (اس کا)ٹھیک ٹھیک جواب اور زیادہ وضاحت کے ساتھ عطا کردیتے ہیں۔ امام رازی رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں قرآن کریم کے تدریجی نزول کی جو حکمتیں بیان فرمائی ہیں یہاں ان کا خلاصہ سمجھ لینا کافی ہے، فرماتے ہیں کہ:

1۔ اگر پورا قرآن ایک دفعہ نازل ہوجاتا تو تمام احکام کی پابندی فوراً لازم ہوجاتی اور یہ اس حکیمانہ تدریج کے خلاف ہوتا جو شریعت محمدی میں ملحوظ رہی ہے ۔

2۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی قوم کی طرف سے ہر روز نئی اذیتیں برداشت کرنی پڑتی تھیں، جبرئیل علیہ السلام کا بار بار قرآن کریم لے کر آنا ان اذیتوں کے مقابلے کو آسان بنادیتا تھا اور آپ کی تقویت قلب کا سبب بنتا تھا۔

3۔ قرآن کریم کا ایک بڑا حصہ لوگوں کے سوالات کے جوابات اور مختلف واقعات سے متعلق ہے اس لیے ان آیتوں کا نزول اسی وقت مناسب تھا جس وقت وہ سوالات کیے گئے ،یا وہ واقعات پیش آئے؛ اس سے مسلمانوں کی بصیرت بھی بڑھتی تھی اور قرآن کریم کی غیبی خبریں بیان کرنے سے اس کی حقانیت اورزیادہ آشکار ہوجاتی تھی۔ (تفسیر کبیر: 6/336)

حوالہ جات[ترمیم]