ضلع لورالائی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ضلع
Loralai
صوبہ بلوچستان میں ضلع لورا لائی کا محل وقوع
صوبہ بلوچستان میں ضلع لورا لائی کا محل وقوع
ملک پاکستان
صوبہبلوچستان
صدر مقاملورا لائی
منطقۂ وقتPST (UTC+5)
تحصیلوں کی تعداد1


ضلع لورالائی پاکستان کے صوبہ بلوچستان کا ایک ضلع ہے۔ اس کے مشہور علاقوں میں لورالائی اور دکی شامل ہیں۔ 2005ء میں اس کی آبادی تقریباً 700000 کے لگ بھگ تھی۔

ضلع لورالائی پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے درمیان میں واقع ہے۔ ضلع لورالائی اکتوبر 1903 میں بنایا گیا تھا۔ لورالائی قصبہ اس کا صدر مقام تھا۔ 1992 میں لورالائی کو مزید حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ جب موسیٰ خیل اور بارکھان کو انتظامی طور پر ضلع کا درجہ دیا گیا۔ مغل شہشاہ ہمایوں نے 1545 میں دُکی جو صوبہ قندھار کا حصہ تھا کو میر سید علی کو دیا۔ قندھار کا صوبہ 1959 تک مغلوں کے زیر اثر رہا جو بعد میں 1595 تک ایران کے سفاود بادشاہوں کے زیر تسلط رہا۔ 1595میں اسے اکبر اعظم نے واپس لے لیا۔ اکبر کے دور میں دُکی کا علاقہ جو اصل میں ایک فوجی علاقہ تھا اسے صوبہ قندھار کی مشرقی سرحد قرار دیا گیا اور اسے 500 گھوڑ سوار اور 1000 پیدل سپاہی دے گئے اور 1622 میں قندھار واپس ایران کے بادشاہوں کے زیر تسلط چلا گیا۔

1653 میں شہنشاہ شاہ جہاں نے اپنے بڑے بیٹے دارالشکوہ کے زیر کمان قندھار کو فتح کرنے کے لیے ایک بہت بڑی فوج بھیجی جسے شکست ہو گئی یہ مغل بادشاہوں کی طرف سے قندھار کو حاصل کرنے کے لیے سب سے بڑا حملہ تھا جس کے بعد وہ ہمیشہ کے لیے ان کے ہاتھ سے چلا گیا۔

میر وائس غلزی یا خلجی نے 1709 میں قندھار میں اپنی طاقت بنائی اور 30 سال کے بعد غلزی / خلجیوں نے اپنی طاقت نادر شاہ کو دے دی جس نے ایک لمبی جدوجہد کے بعد اسے 1737 میں فتح کیا۔

بعد میں1747 میں نادر شاہ کا قتل ہو گیا اور احمدشاہ درانی نے اسے حاصل کر لیا۔ درانی 1826 تک چلے اور پھر بارکزئی نے دوست محمد خان کے زیر اثر کر لیا۔ تقریباً تمام لورالائی 1879 تک اُس کی سلطنت میں رہا۔ 1879 میں دُکی اور تحصیل چٹالی ملک بلوچستان کے دوسرے حصوں کے ساتھ برطانیہ کے ہاتھوں میں چلا گیا۔ 1879 میں افغان جنگ کے پہلے حصہ کے خاتمے کے بعد قندھار سے واپسی پر برطانیہ کے فوج پر پشت سے قبائیلوں نے جن کا تعلق ژوب اور بوری سے تھا نے شاہ جہاں ( چیف آف ژوب) کمانڈر کے تحت بادی باکھو کے مقام پر حملہ کیا۔ لیکن انھیں شکست ہو گئی۔

1881 میں تحصیل چوٹالی ( سبی) جو دُکی میں شامل تھا کو ہرنائی پولیٹیکل ایجنسی کا حصہ بنا دیا گیا۔ 1881 میں سنجاوی کو برطانیہ کے زیر تسلط میں آ گیا۔ 1883 میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ دُکی میں چھاونی قائم کی جائے اور تحصیل چوٹالی ( سبی) کو چھاونی بنا دیاجائے۔ گمباز کو ختم کر دیا جائے۔

اکتوبر 1884 کو ایک فوج جس میں 4800 آدمی تھے کو بوری ( لورالائی) وادی میں بھیجا گیا اور یہ مشن مکمل طور پر کامیاب تھا۔ اُسی سال یہ فیصلہ کیا گیا کہ فرنٹیر سڑک بنائی جائے جو ڈیرہ غازی خان کو براستہ لورالائی پشین سے ملائے۔

1886 میں چھاونی دُکی سے لورلائی منتقل کر دی گئی اور مل پوسٹ سنجاوی ، میختر اور کنگری میں قائم کر دی گئی اور اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ دُکی کا ہیڈ کواٹر بھی لورالائی تبدیل کر دیا گیا۔

نومبر 1887 کو دُکی اور تھل چوٹالی ( سبی ) کو انگلینڈ بھارت کا حصہ قرار دے دیا گیا تھا تاکہ انتظامی طور پر کام ہو سکے اور پولیٹیکل ایجنٹ کا عہدہ بھی ڈپٹی کمشنر میں تبدیل کر دیا گیا۔

1888 میں سر رابرٹ سنڈیمن نے ایک چھوٹی سی فوج کے ساتھ شمالی ژوب پر موسیٰ خیل کے راستے حملہ کر دیا جس کی وجہ سے وادی ژوب پر 1889 میں قبضہ ہو گیا۔ 1894 تک لورلائی کا قبضہ اور تھل چوٹھالی ( سبی) ضلع کے اندر رہا جب تک یہ ژوب ایجنسی کا حصہ نہیں بن گیا۔ اکتوبر 1903 میں تھل چوٹالی اور ژوب کو دوبارہ ترتیب دیا گیا اور نام تبدیل کر کے ضلع سبی رکھ دیا گیا اور ایک نیا ضلع لورالائی کے نام سے بنا دیا گیا۔ 82-82 19میں اس جنگ کے خاتمے کے بعد برطانیہ کی فوجیں لورالائی شہر میں داخل ہو گئیں اور بوری ، دُکی ، سنجاوی اور میختر کے اکثر علاقوں پر قبضہ کر لیا بہت سی قسم کے پھل اور سبزیاں ضلع میں پیدا کی جاتی ہیں۔ لورالائی زیادہ طور پر اپنے باداموں اور سیب کے لیے مشہور ہے۔ لورالائی میں سنگ مرمر بھی پیدا ہوتا ہے اور یہ اپنے سنگ مرمر کی ٹائیلوں کی وجہ سے پورے ملک میں مشہور ہے۔ سنگ مر مرکاٹنے والی بہت سے کارخانہ یہاں پر لگائے گئے ہیں اور یہ پورے ملک میں اپنی ماربل ٹائیلیں بھیجتے ہیں یہاں پر آمدنی کا بڑا ذریعہ کاشت کاری اور زراعت ہے اور ماربل کے کارخانے بھی ہیں۔

تحصیلیں اور ذیلی تحصیلیں[ترمیم]

انتظامی طور پر اس کی تحصیلیں اور ذیلی تحصیلیں درج ذیل ہیں۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]