ضلع قلعہ سیف اللہ
ضلع قلعہ سیف اللہ | |
---|---|
تاریخ تاسیس | 14 دسمبر 1988 |
نقشہ |
|
انتظامی تقسیم | |
ملک | پاکستان [1] |
دار الحکومت | ضلع قلعہ سیف اللہ |
تقسیم اعلیٰ | ژوب ڈویژن |
متناسقات | 31°01′N 68°20′E / 31.01°N 68.34°E |
قابل ذکر | |
جیو رمز | 6641963 |
درستی - ترمیم |
ضلع قلعہ سیف اللہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کا ایک ضلع ہے۔ جس کا رقبہ 11600مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے اور اس کی دو تحصیل ہیں جو قلعہ سیف اللہ اور مسلم باغ کہلاتے ہیں۔ قلعہ سیف اللہ 14دسمبر 1988کو ضلع بنا۔ اس سے پہلے یہ ضلع ژوب کا حصہ ہوتا تھا۔ ضلع کی آبادی لگ بھگ 7لاکھ 65 ہزار ہے۔ یہاں کی آبادی پشتونوں کے کاکڑ قبیلہ کے ذیلی قبائل سنزر خیل اور سنیاٹہ اورسرگڑہ پر مشتمل ہیں سنزرنیکھ کے بڑابیٹا (علی) قلعہ سیف اللہ میں آ باد ہے جو مندرہ ج ذیل شاخوں پرمشتمل ہے مثلآ(شادوزئی، میرزئی،باتوزئی اورغوریزئی) شادوزئی قوم مزید دوشاخوں میں تقسیم ہیں۔ جیسا کہ(1۔ ابراحیم زئی 2۔ شموزئی)1۔۔ ابراحیم زئی قوم مزیدذیلی قوموں میں تقسیم ہیں۔ جیسا کہ خُدائیدادزئی،علی خیل، پاٸیزٸی،میردادزٸی،جانبیگزٸی،رحتزٸی،سیبزٸی،ادنیازٸی، دولت زئی اورآخترزئی وغیرہ وغیرہ۔ 2۔۔ شموزئی قوم مزیدذیلی قوموں میں تقسیم ہیں۔ جیساکہ جلالزئی،قوم مزید مختلف شاخوں پرمشتمل ہیں۔ جن میں کمالزئی، وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ قلعہ سیف اللہ سطح سمندر سے 1500تا 2200میٹرز کی بلندی پر ہے، قلعہ سیف اللہ میں گرمیوں میں زیادہ گرمی اور سردیوں میں بہت سردی پڑ تی ہے، یونین کونسل کان مہترزئی جو سطح سمندر سے 2170کی بلندی پر ہے وہاں جنوری اور فروری کے مہینوں میں پہاڑ وں کی چوٹیاں برف سے ڈھکی رہتی ہیں اور غضب کی سردی پورے علاقہ کو اپنی لپیٹ میں رکھتی ہے ۔ ضلع قلع سیف اللہ بنیادی طو ر پر ایک زرعی علاقہ ہے، جہاں 22سو کے لگ بھگ ٹیوب ویل اور لاکھوں ایکڑ پر زراعت پھیلی ہوئی ہے، عوام کا زیادہ تر حصہ زراعت پر ہی گذر بسر کرتا ہے، زرعی فعالیت کی وجہ سے ملک بھر کی منڈیوں میں قلعہ سیف اللہ کی سبزی اور پھل مہنگے داموں بکتے ہیں۔ ضلع میں سب کی مختلف قسمیں پیدا ہوتی ہیں، اس کے علاوہ خوبانی، انگور، انار اور سبزیوں میں ٹماٹر، گاجر، سبز مرچ اور کئی اقسام کی دالیں بھی پیدا ہوتی ہیں، یہاں کا ٹماٹر اپنے ذائقہ کے لیے بہت مشہور ہے ۔
قلعہ سیف اللہ بلوچستان کا ایک اہم اور مشہورضلع ہے جوبلوچستان کو پنجاب اور صوبہ خیبر پختون خواہ سے ملانے کے لیے پل کی حیثیت رکھتا ہے۔ پشتون نواب محمد ایاز خان جوگیزئی کا تعلق بھی اسی ضلع سے ہے جو جنگجو غازی سیف اللہ خان کے بیٹوں نے نواب کے پر دادا محمد خان کو نواب بنایا تھا ۔ اس ضلع کا نام یہاں کے مشہور اور نامور شخصیت برصغیر کے صف اول غازی جنگجو سیف اللہ خان غازی جو کاکڑ قبیلے کے قلعہ سیف اللہ میں خوٸیدادزٸی قبیلے کے ذیلی شاخ میردادزٸی سے تعلق رکھتے تھے اور انگریزوں کے خلاف مسلح مزاحمت میں بھی پیش پیش رہے بہت سارے انگریزوں قتل و آغوہ کر کے افغانستان لے جاتے تھے اورسارے قباٸل کے مجاھدین کے کماندر تھے آخر انگریزوں کو شکست نظر آنے لگی سیف اللہ خان سے معاہدہ کر کے 1890میں اس علاقے کو أپ کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اس ضلع کی سرحدی اہمیت کے پیش نظر انگریزوں نے یہاں نہ صرف قلعے اور مورچے تعمیر کروائے بلکہ ریلوے لائن بچھانے کے علاوہ سڑکیں بھی بنوائی۔ قلعہ سیف اللہ شہر کے عین وسط میں تھا نہ وتحصیل اور پہاڑی پر موجود مورچہ آج بھی انگریزوں کے دور کی یاد دلاتا ہے۔ پاکستان بننے سے پہلے سردار دوست محمد خان جوگیزئی، نواب بنگل خان جوگیزئی ، سردار شاہ جہان جوگیزئی اور سردار علی محمد میرزئی جیسے شخصیات نے انگریزوں کے خلاف علم جہاد بلند کیا اور انہیںناکوں چنے چبوائے ۔ تحر یک پاکستان میں نواب محمد خان جوگیزئی نے بڑھ چڑھ کر مسلم لیگ کا ساتھ دیا۔انھیں اگر قائد اعظم کا دست راست کہا جائے تو زیادہ درست ہوگا۔تقسیم ہند سے پہلے قلعہ سیف اللہ کا علاقہ ژوب پولیٹکل ایجنسی میں شامل تھا1903 میں انگریزوں نے قلعہ سیف اللہ کو تحصیل کادرجہ دیا تھا جبکہ 1988میں حکومت بلوچستان نے اسے ژوب سے علاحدہ ضلع کا درجہ دیا۔ضلع قلعہ سیف اللہ کاحدود اربعہ بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے اس کے شمال میں برادر اسلامی ملک افغانستان �©، جنوب میں ضلع زیارت اور لورالائی، مغرب میں کوئٹہ اور پشین جبکہ مشرق میں ضلع ژوب واقع ہے ۔ اس کے علاوہ مسلم باغ کے مقام پر واقع مغل قلعہ اور کان مہترزئی کا ریلوے اسٹیشن(جسے ایشیاءمیں بلند ترین ریلوے اسٹیشن کا اعزاز حاصل ہے) بھی قابل ذکرہیں ۔ قلعہ سیف اللہ چاروں طرف سے پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے جو معدنی ذخائر سے مالامال ہونے کے ساتھ ساتھ جنگلی حیات کا بھی بہترین اور من پسند مسکن ہے ۔ سلسلہ کوہ توبہ کاکڑی میں کوہ کند،سپین غر ،تورغر ،کوہ سورغنڈ اور کوہ سر زغان کے پہا ڑ قلعہ سیف اللہ کے اردگرد واقع ہیں ۔ تور غرمیں دنیا کے نایاب ترین جنگلی جانور جسے مارخور ، پہاڑی بکرے ، ہرن اور بارہ سنگھے وغیرہ شامل ہیںجبکہ مسلم باغ میں و اقع کرو مائیٹ کے وسیع ذ خائر ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں جن سے روزانہ کئی ٹن کرو مائیٹ حاصل کر کے ملکی زر مبادلہ میں اضافہ کیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ ان پہاڑ وںمیں قیمتی جپسم، گرینائیٹ، میگنیسائٹ اور چونے کے پتھرکے ذخائر کا بھی پتہ چلاہے ۔
سائبریا سے آنے والے موسمی پرندے دریاژوب کے کناروں کو اپنی محفوظ آما جگاہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔یہاں کی سرزمین انتہائی زرخیز ہے اسی وجہ سے قلعہ سیف اللہ کو بلوچستان کے اہم زرعی شہروں میں شمار کیا جاتاہے۔یہاں پر گندم،تمباکو اورمکئی کی فصلیں کاشت کی جاتی ہیں جو علاقائی ضروریات کو پورا کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہےں۔سبزیاں خصوصاًبھنڈی ،توری ،کریلا، کدواور ٹماٹر وغیرہ بکثرت پائے جاتے ہیں۔جن سے علاقے کے ساتھ ساتھ ملکی ضروریات کو بھی کافی حد تک پورا کر رہے ہیں۔یہاں تقریباً60% حصہ باغات پر مشتمل ہے سیب (چاروں قسم کندھاری،تور کلواور شین کلو)انار ،آڑو،آلوچہ،بادام اور آخروٹ وغیرہ سر فہرست ہیں۔
یہاں کی فصلیں،سبزیاں اور پھل نا صرف صوبہ کی سطح بلکہ قومی سطح پر بھی انتہائی پسندیدگی کی نظر سے دیکھی جاتی ہیں۔قلعہ سیف اللہ میں کئی اہم دریا بھی ہیں جن میں دریا جوگیزئی اور دریا ژوب کسی تعارف کے محتاج نہیں بلکہ دریا ژوب بلوچستان کا سب سے بڑا دریا ہے جس میں سارا سال پانی موجود رہتا ہے۔یہ دریا ضلع ژوب سے ہوتے ہوئے گومل ڈیم میں شامل ہونے کے بعد آخر کار دریائے سندھ میں مل جا تا ہے ۔
ضلع کا درجہ ملنے سے پہلے یہ علاقہ بہت پسماندگی کا شکار تھا ذرائع آمدورفت نہیں تھے علاج معالجے کی سہولیات نہ ہونے کے برابر تھے۔تعلیمی شعبہ بھی تنزلی کا شکار تھاالغرض زندگی کی بنیادی سہولیات تقریباً ناپید تھیں۔لیکن جب سے علاحدہ ضلع کا درجہ دیا گیا تین دہائیوں میں اس علاقے میں دن دگنی رات جوگنی ترقی ہوئی ہے۔ضلع قلعہ سیف اللہ دو تحصیلوں قلعہ سیف اللہ اور مسلم باغ پر مشتمل ہیں۔اس میں کل 21 یونین کونسلیں اور دو عدد میونسپل کمیٹیا ں ہیں۔ضلع قلعہ سیف اللہ میں مختلف قبائل آباد ہیں چند مشہور قوموں کے نام درجہ ذیل ہیں جلالزئی، جوگیزئی، خودیزئی، کمالدیزئی، شبوزئی، کریم زئی، موسیٰ زئی، مردانزئی ،خدائیداد زئی ،اسماعیل زئی، باتوزئی، علوزئی، اخترزئی اور بعض اقلیتن بھی قیام پزیر ہیں۔یہاں زیادہ فیصلے قبائلی روایات کے مطابق جرگہ سسٹم سے حل کیے جاتے ہیں جن سے سستا اور پوری انصاف مہینوں کی بجائے گھنٹوں اور دنوں میں حقدار کو حق دلایا جاتا ہے ۔
ضلع قلعہ سیف اللہ انتہائی تیزی سے تر قی کر رہا ہے بہت سے ترقیاتی کا م پائے تکمیل تک پہنچنے والے ہیں جس میں ڈسٹر کٹ جیل، قلعہ سیف اللہ اور قومی شاہراہ چند مہینوں میں مکمل ہو جائینگے جن سے یہاں کے تاجر کم سے کم وقت میں خیبر پختونخوا اور پنجاب کی منڈیوں تک رسائی حاصل کر لیں گے جن سے یہاں کی تجارت کو فروغ ملے گا۔بہت سے ترقیاتی کام اپنی مدت میں مکمل ہو چکے ہیں جن میں ژوب تا کو ئٹہ براستہ قلعہ سیف اللہ قومی شاہراہ N-50سر فہرست ہیں جن سے نہ صرف قلعہ سیف اللہ کے لوگوںکے آمدورفت کا مسئلہ کافی حد تک حل ہوا ہے بلکہ اقتصادی راہداری کے مختصرترین لنک کا اعزاز بھی اس شاہراہ کوحاصلہے۔قلعہ سیف اللہ مین بازار شاہین چوک تا ریلوے اسٹیشن دو رویہ سڑک کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے اور سڑک کے دونوں اطراف میں نکاسی آب کے نالے بھی بن چکے ہیں۔سڑک کے کنارے شمسی توانائی سے روشن ہونے والی اسٹرٹ لائیٹس انتہائی نفاست سے نصب کر دی گئی ہیں۔رات کے وقت ان کے روشن ہونے سے قلعہ سیف اللہ کا بازارجدیدشہر کا منظر پیش کرتا ہے جو ڈیشل کمپلیکس،زرعی دفاتر،ایجوکیشن آفس ،ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن آفس اور جدید سہولیات سے آراستہ ڈسٹر کٹ ہسپتال اور تھانہ بھی تعمیر ہو چکا ہے۔نوجوان نسل کو بے راہ روی اور منشیات جیسی لعنتوں سے بچانے کے لیے فٹ بال اسٹیڈیم اور ریلوے اسٹیشن کر کٹ گراونڈ بھی بنائے جا چکے ہیں ۔ گذشتہ دو دہائیوں سے قلعہ سیف اللہ میں تعلیمی میدان میں ناقابل یقین کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں یہاں نسائی کے مقام پر کیڈٹ کالج کے ساتھ ساتھ ڈگری کالج، ایلیمنٹری کالج،بلوچستان یونیورسٹی کیمپس کئی ہائی ،مڈل اور پرائمری اسکول قائم ہیں جن کے علاوہ لاتعداد نجی اسکول اور کالج بھی تعلیمی خدمات میں پیش پیش ہیں۔
تحصیلیں اور ذیلی تحصیلیں
[ترمیم]انتظامی طور پر اس کی تحصیلیں اور ذیلی تحصیلیں درج ذیل ہیں۔
مزید دیکھیے
[ترمیم]حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ "صفحہ ضلع قلعہ سیف اللہ في GeoNames ID"۔ GeoNames ID۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 نومبر 2024ء