سلیمان بن عبدالملک

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سلیمان بن عبدالملک
(عربی میں: سُليمان بن عبد الملك بن مروان بن الحكم الأُموي القُرشي)،(عربی میں: سلیمان بن عبدالملك)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 675ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دمشق   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 24 ستمبر 717ء (41–42 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دابق   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد عبدالملک بن مروان   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
خاندان خلافت امویہ   ویکی ڈیٹا پر (P53) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
خلیفہ سلطنت امویہ (7  )   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
23 فروری 715  – 24 ستمبر 717 
ولید بن عبدالملک  
عمر بن عبدالعزیز  
عملی زندگی
پیشہ عسکری قائد ،  سیاست دان ،  گورنر ،  خلیفہ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

تخت نشینی[ترمیم]

ولید بن عبدالملک کی وفات کے بعد سلیمان تخت نشین ہوا۔ اگرچہ ولید نے سلیمان کو ولی عہدی سے خارج کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اچانک موت کی بنا پر وہ اپنے ارادوں کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکا۔ حجاج بن یوسف اور قیتبہ بن مسلم اس معاملہ میں ولید کے ہمنوا تھے۔ سلیمان تخت نشین ہونے کے بعد انتقامی جذبہ سے کام لیتے ہوئے اسلام کے ان نامور افراد کو اپنے عہدوں سے برخاست کر دیا۔ محمد بن قاسم کو بڑے ظالمانہ طریقے سے قتل کروا دیا گیا۔ قیتبہ بن مسلم بھی اسی انجام سے دوچار ہوا۔ موسی بن نصیر کے آخری ایام تنگ دستی اور پریشان حالی میں گذرے۔ علاوہ ازیں حجاج کے زمانہ میں مقرر کیے گئے عاملوں کو ہٹا کر ان کی جگہ دوسرے حاکم مقرر کیے گئے۔ یہ غلط اقدامات مجموعی حیثیت سے سلطنت کے وقار میں کمی کا باعث ہوئے۔ شخصی زندگی کے اس انتقامی پہلو کے علاوہ سلیمان کی شخصیت کے اچھے پہلو دن بدن نکھرتے چلے گئے۔ وہ کئی لحاظ سے اپنے پیشرو حکمرانوں کے مقابلہ میں بہتر تھا۔ ولید کے زمانہ کے تمام قیدیوں کو جنہیں بغیر کسی جرم کے یا محض شک و شبہ کی بنا پر قید خانہ میں ڈال دیا گیا تھا رہائی ملی اور جیل خانے خالی ہو گئے۔

محمد بن قاسم کا قتل[ترمیم]

محمد بن قاسم حجاج کا رشتہ دار تھا اور سلیمان کو حجاج سے نفرت تھی اس لیے تخت نشین ہوتے ہی سلیمان نے محمد بن قاسم کو معزول کرکے دار الحکومت واپس پلٹنے کے احکامات صادر کر دیے۔ 17 سال کا یہ نوجوان جس کی ہمت و شجاعت کی بدولت سندھ فتح ہوا اور برصغیر ہند و پاک میں پہلی بار کلمہ توحید کی منظم طور پر آبیاری ہوئی، اپنوں ہی کے ہاتھوں افسوس ناک انجام سے دوچار ہوا۔ اس کے حسن انتظام اور رعایا پروری کا یہ عالم تھا کہ اس کی واپسی اور موت کی خبر سن کر سندھ کے لوگوں نے اس کی مورتیوں کو دیوتا کے روپ میں پوجنا شروع کر دیا۔ سلیمان نے اسے گرفتار کرکے عراق کے گورنر صالح بن عبدالرحمن کے ہاں روانہ کیا۔ حجاج نے اپنے زمانہ اقتدار میں صالح کے بھائی کو قتل کروایا تھا۔ چنانچہ صالح نے اب اپنے بھائی کے قتل کے بدلہ میں محمد بن قاسم کو جیل میں اذیتیں دے دے کر قتل کروایا اور اس طرح دنیائے اسلام اپنے نامور فرزند اور بہترین جرنیل سے محروم ہو گئی۔

قیتبہ بن مسلم کا قتل[ترمیم]

قیتبہ بن مسلم بھی حجاج کا وفادار ساتھی تھا۔ اور سلیمان کی خلافت سے علیحدگی کے معاملہ میں ہمنوا تھا۔ لٰہذا سلیمان کی تخت نشینی کے بعد اسے یہ خطرہ لاحق تھا کہ ذاتی عناد یا گروہی تعصب کی بنا پر سلیمان اس کو اپنے انتقام کا نشانہ نہ بنائے۔ چنانچہ اس نے خلیفہ کو اپنی اطاعت اور وفاداری کے اظہار اور یقین دہانی کے لیے خطوط لکھے۔ سلیمان نے بھی اس کے خلاف ابھی تک کوئی عملی قدم نہ اٹھایا تھا۔ لیکن قیتبہ نے حفظ ماتقدم کے طور پر سلیمان کا خطرہ آنے سے پیشتر ہی بغاوت کر دی۔ خلاف توقع فوج نے ساتھ نہ دیا۔ قبیلہ بنو تمیم کے افراد میں سے ایک نے اسے قتل کرکے اس کا سر سلیمان کے پاس روانہ کر دیا۔ قتیبہ کے بعد یزید بن مہلب کو خراسان کا والی مقرر کیا گیا۔

موسیٰ بن نصیر کی تذلیل[ترمیم]

بنو امیہ
خلفائے بنو امیہ
معاویہ بن ابو سفیان، 661-680
یزید بن معاویہ، 680-683
معاویہ بن یزید، 683-684
مروان بن حکم، 684-685
عبدالملک بن مروان، 685-705
ولید بن عبدالملک، 705-715
سلیمان بن عبدالملک، 715-717
عمر بن عبدالعزیز، 717-720
یزید بن عبدالملک، 720-724
ہشام بن عبدالملک، 724-743
ولید بن یزید، 743-744
یزید بن ولید، 744
ابراہیم بن ولید، 744
مروان بن محمد، 744-750


فاتح سپین موسیٰ بن نصیر بھی سلیمان کی آتش انتقام سے بچ نہ سکا۔ ولید نے موت سے قبل موسی کو دمشق واپس پہنچنے کے احکامات دیے تھے۔ موسیٰ بن نصیر غنیمت اور زر و جواہر کے ساتھ پایہ تخت واپسی کے لیے روانہ ہو چکا تھا۔ ولید کے مرض الموت میں مبتلا ہونے کے بعد سلیمان کی خواہش تھی کہ موسی کا درود دمشق میں ولید کی موت کے بعد اور اس کی اپنی تخت نشینی کے وقت ہو لیکن موسیٰ بن نصیر اپنے محسن اور مربی کی خدمت میں جلد از جلد حاضر ہو کر تحفے اور تحائف اور مال غنیمت پیش کرنا چاہتا تھا۔ لہذا سلیمان کی خواہش کے خلاف نہایت سرعت سے پایہ تخت پہنچا۔ ولید کی طرف سے موسیٰ کے بے حد عزت افزائی ہوئی۔ انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے سلیمان نے تخت نشین ہونے کے بعد موسیٰ کے تمام اعزازات اور مناصب سے یکسر محروم کر دیا اور اس کی تمام جائداد ضبط کر لی۔ یہی نہیں بلکہ جب کسی صاحب اثر شخصیت کے ایماء پر موسی کو قید سے نکالا گیا تو سلیمان نے اس پر کئی لاکھ کا جرمانہ نافذ کر دیا۔ موسی اس قدر کثیر رقم بطور جرمانہ ادا کرنے کے قابل نہ تھا۔ کہاں فاتح سپین کی حیثیت سے شاہانہ تزک و احتشام اور کہاں اب ایک تنگ دست انسان جو دو لقموں کا بھی محتاج ہو۔ اسی کسمپرسی اور تباہ حالی میں اس کا انتقال ہو گیا۔ سلیمان نے اپنے کینہ کی مزید تسکین کی خاطر موسی بن نصیر کے بیٹے عبد العزیز کو قتل کرا دیا۔ یہ تمام واقعات سلیمان کے کردار پر بدنما داغ ہیں۔

فتوحات[ترمیم]

ولید کے زمانہ میں شروع ہونے والا فتوحات کا سلسلہ اس دور میں بھی جاری رہا۔ خراسان کے والی یزید بن مہلب نے 98ھ میں ایک لاکھ فوج کے ساتھ جرجان پر فوج کشی کی اور کہستان، جرجان، طبرستان وغیرہ فتح کیے۔ بعض مواقع پر اسلامی افواج کو خاصا نقصان بھی اٹھانا پڑا، تاہم بحیثیت مجموعی یہ مہمات کامیاب رہیں اور مخالفین کی طاقت کو کچل دیا گیا۔

قسطنطنیہ پر حملہ اور ناکامی[ترمیم]

سلیمان بن عبد الملک کے زمانہ میں سلطنت روم اندرونی خلفشار سے دوچار تھی۔ سلیمان نے اس موقع کو غنیمت جان کر رومی سلطنت کے دار الحکومت قسطنطنیہ پر حملہ کا منصوبہ بنایا۔ اس دوران لیو ایسوریائی نے جو ایشیائے کوچک میں رومی افواج کا ایک سپہ سالار تھا، سلیمان کو اپنے تعاون کی پیش کش کی۔ چنانچہ 98 ھ میں بڑے زبردست پیمانہ پر جنگی تیاریوں کا آغاز کیا گیا۔ بیش از بیش افواج اس مہم میں شمولیت کے لیے منظم کی گئیں۔ سامان جنگ، اسلحہ، قلعہ شکن آلات اور سامان رسد کے ذخیرے جمع کیے گئے۔ یہ لشکر جرار مسلمہ بن عبدالملک کی ماتحتی میں روانہ ہوا۔ بری اور بحری دونوں اطراف سے قسطنطنیہ پر حملہ کیا گیا۔ خود مسلمہ خشکی کے راستہ ایشیائے کوچک سے ہوتا ہوا بڑھا۔ مسلمہ قسطنطنیہ پہنچا اور شہر کا محاصرہ کر لیا۔ یہ محاصرہ کئی ماہ جاری رہا۔ ناکہ بندی سے تنگ آکر لوگوں نے صلح کی درخواست کی جسے مسلمہ نے رد کر دیا۔ لیو ایسوریائی چونکہ مسلمانوں کی تمام کمزوریوں اور منصوبے کی تفصیلات سے آگاہ ہو چکا تھا اس لیے اس نے بڑی پامردی سے مدافعت کی۔ موسم سرما کی شدت برفباری اور اشیائے ضرورت کی کمی کی بدولت مسلمان بھوکوں مرنے لگے۔ دوسری طرف اگرچہ سلیمان سرحد روم پر خیمہ زن تھا لیکن بروقت امدادی فوج اور سامان رسد نہ بھیج سکا۔ وہ اس قدر تباہی کے باوجود فوج کی واپسی کے احکامات صادر کرنے پر رضا مند نہ تھا مگر صفر 99ھ دسمبر 719ء میں سلیمان نے وابق کے مقام پر وفات پائی تو آپ کے جانشین حضرت عمر بن عبدالعزیز نے مسلمہ کو فوری واپسی کے احکامات صادر کیے اور اس طرح یہ مہم ناکام ہوئی ۔

سیرت و کردار[ترمیم]

سلیمان کا کردار مجموعہ اضداد تھا۔ اس کے حوالے سے خدا ترسی، نیک نفسی اور رعایا پروری کی ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں، جن کی وجہ سے اسے بالعموم ایک اصلاح پسند شخصیت مانا جاتا ہے۔ اس نے حجاج کے مقرر کردہ ظالم عاملین سے عوام کو نجات دلائی، پینے کے لیے میٹھے پانی کا بندوبست کیا، ولید کے زمانہ کے قیدی رہا کر دیے گئے اور جیل خانوں کے دروازے کھول دیے گئے لیکن ان کار ہائے خیر کے باوجود وہ بے حد کینہ پرور تھا۔ اس نے محض اپنے انتقام کی آگ بجھانے کے لیے دنیائے اسلام کے نامور سپہ سالاروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور کچھ کو ذلت کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا۔ بہرحال اس کے دور کا سب سے اہم اور قابل قدر کارنامہ حضرت عمر بن عبد العزیز کا بطور خلیفہ تقرر ہے اور اسی بنا پر مورخین اسے مفتاح الخیر کا لقب دیتے ہیں۔

وفات[ترمیم]

سلیمان 719ء میں روم کی سرحد پر واقع فوجی مرکز وابق کے مقام پر اچانک وفات پا گیا۔ وفات کے وقت اس کی عمر 45 سال تھی اور مدت خلافت دو سال آٹھ ماہ تھی۔ اس نے اپنی زندگی ہی میں بالترتیب عمر بن عبد العزیز اور یزید بن عبدالملک کو اپنا جانشین نامزد کر کے بیعت حاصل کر لی تھی۔

حوالہ جات[ترمیم]